- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/25
- 0 رائ
خداوند عالم نے قرآن مجید میں تمام انسانوں سے یہ چاہا کہ خداوند عالم کی تمام مادی اور معنوی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور کفران نعمت سے پرھیز کریں۔
اھل بیت علیھم السلام کی روایات کی بنا پر شکر کے معنی یہ ھیں کہ نعمت کو ایسی جگہ پر خرچ کرنے سے پرھیز کرے جس سے خدا راضی نہ ھو، اور نعمت کو صرف اسی راہ میں خرچ کرے جس کو خداوند عالم نے معین فرمایا ھے، اور نعمت کو جمع کرکے رکھنے سے پرھیز کرے۔
نعمت والدین کا شکر
جو آیات انسان پر شکر کو قطعی اور واجب قرار دیتی ھیں یہ دو آیہٴ شریفہ ھیں:
وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اٴُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ اٴَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُز وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلی اٴَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلاَتُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ اٴَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاٴُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ[1]
”اور ھم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ھے کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا ھے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دو سال میں ھوئی ھے۔ کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو کہ تم سب کی بارگشت میری ھی طرف ھے۔اور اگر تمہارے ماں باپ اس بات پر زور دیں کہ کسی ایسی چیز کر میرا شریک بناوٴ جس کا تمھیں علم نھیں ھے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیا میں ان کے ساتھ نیکی کا برتاوٴ کرنا اور اس کے راستے کو اختیار کرنا جو میری طرف متوجہ ھو پر اس کے بعد تم سب کی بازگشت میری ھی طرف ھے اور اس وقت میں بتاوٴں گا کہ تم لوگ کیا کرتے تھے“۔
یہ آیات تمام انسانوں سے مخاطب ھیں، عورت مرد، پیر و جوان، عالم و جاھل اور خطاب بھی ”حکم“ کی صورت میں ھے اور فرمان و حکم سے وجوب کا نتیجہ نکلتا ھے:
<۔۔۔ اٴَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ۔۔۔>[2]
”کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو“۔
اور یہ وجوب بغیر کسی زحمت اور تکلیف کے واضح اور روشن ھے، بے شک اس طرح کے حکم سے روگردانی حرام اور گناہان کبیرہ میں شمار ھوتی ھے، اور یہ ان گناھوں میں سے ھے کہ جن کے بدلے خدائے قہار نے واضح طور پر حتمی عذاب کا وعدہ کیا ھے۔
آیہٴ شریفہ میں غور و فکر کریں کہ خدائے مہربان نے ماں باپ سے نیکی و احسان میں کوئی قید نھیں لگائی مثال کے طور پر اس نے یہ نھیں فرمایا کہ ان کے ساتھ نیکی و احسان کرو اور ان کے وجود کی نعمت پر شکر کرو اس شرط کے ساتھ کہ اگر تم مسلمان یا مومن ھو، اور ان کا شکر یہ ھے کہ جب تک وہ زندہ رھیں ان کے ساتھ نیکی و احسان اور ان کا احترام کرتے رھو اور ان کو ذرہ برابر بھی رنج و پریشانی نہ ھو، اگرچہ انھوں نے اپنی اولاد کے ساتھ نامناسب اور تلخ بلکہ زہر سے بھی زیادہ تلخ برتاوٴ کیا ھو۔
خداوند عالم کا یہ حکم سب سے زیادہ سخت ھے اور اس پر عمل کرنا بھی دشوار ھے، لیکن سب پر واجب ھے کہ والدین کی نسبت خدا کے اس حکم کو قبول کریں اور اس پر عمل کریں اور اس سلسلہ میں اپنے اندر شک و تردید پیدا نہ ھونے دیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے:
”اِنَّ رَجُلاً اٴَتَی النَبِيَّ(صلی الله علیه و آله و سلم) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، اٴَوْصِنِي، فَقَالَ: لاَ تُشْرِک بِاللّٰہِ شَیئاً وَاِنْ حُرِّقْتَ بِالنَّارِ وَعُذِّبتَ اِلاّ وَقَلبُکَ مُطمَئِنٌّ بِالِایمَانِ، وَوَالِدَیکَ فَاٴطِعْھُمَا وَبِرَّھُمَا حَیَّیْنِ کَانَا اٴوْ مَیِّتَیْنِ، وَاِن اَمَرَاکَ اٴن تَخْرُجَ مِن اٴھلِکَ وَمَالِکَ فَافعَلْ، فَاِنَّ ذَلِکَ مِن الاٴِیمَانِ“۔[3]
”ایک شخص پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کی: یا رسول الله! مجھے نصیحت فرمائیں، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: خدا کے ساتھ کسی کو شرک نہ کرو اگرچہ توحید کے مسئلہ میں تمھیں آگ میں جلایا جائے اور تمھیں شکنجہ دیا جائے ان کو برداشت کرلو مگر یہ کہ تمہارا دل ایمان پر مطمئن ھو، اور اپنے والدین کی اطاعت کرو اور ان کے ساتھ نیکی و احسان کرو چاھے وہ زندہ ھوں یا اس دنیا سے جا چکے ھوں، اور اگر تمھیں حکم دیں کہتم اپنے بیوی بچوں اور گھر بار سے نکل جاؤ تو اس کا قبول کرنا ایمان کا جزء ھے“۔
چار افراد جو صدر اسلام میں خداوند عالم کی خاص عنایتوں کے زیر سایہ تھے اور ان کو خدا کی طرف سے سلام پہنچا تھا ان میں سے جناب مقداد بھی تھے۔
ایک روز میدان جہاد اور کار زار میں پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) سے عرض کی: میرا باپ دشمن کے مورچہ میں اور آپ کے خلاف جنگ کے لئے آیا ھے، کیا اجازت ھے کہ میں اس پر حملہ کرکے کام تمام کردوں؟!
آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: نھیں، یہ کام کوئی دوسرا انجام دے، کیونکہ اگر تم راہ خدا اور فی سبیل الله جہاد میں اپنے باپ کو قتل کروگے تو تمہاری عمر کم ھو جائے گی!!
جی ہاں، خداوند عالم کی طرف سے یہ ماں باپ کا حق ھے، چاھے ماں باپ مسلمان ھوں یا کافر۔
اھل بیت علیھم السلام کے وجود کی نعمت پر شکر
جب ماں باپ کا حق اتنا عظیم ھے چاھے وہ کافر ھوں یا یھودی عیسائی ھوں یا آتش پرست، بے دین ھوں یا لائیک، تو اھل بیت علیھم السلام (جو کہ امامت و ولایت و پیشوائی و رہبری اور تمام انسانوں کی تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ھیں نیز دنیا و آخرت میں کشتی نجات ھیں، اور سب کی سعادت و خوشبختی ان کے در سے متوسل ھونے اور ان کی اطاعت پر منحصر ھے) ان کا حق کتنا عظیم اور کس درجہ ھوگا؟!
کیسے ممکن ھے کہ ان کے وجود کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور کیسے ھوسکتا ھے کہ ان حضرات کے مبارک وجود کا شکریہ کیا جائے؟
یقینا اھل بیت علیھم السلام کا حق خداوند عالم کے حق کے بعد دوسرے تمام حقوق پر مقدم ھے، لہذا ہر حق کو ادا کرنے سے پھلے اھل بیت علیھم السلام کے حق کو ادا کیا جائے۔ ان کے حق کا ادا کرنا یہ ھے کہ ان حضرات کی معرفت و شناخت کے لئے قدم بڑھایا جائے اور ان کی شناخت کے ذریعہ ان کی محبت تک پہنچا جائے اور ان کے مبارک وجود کی کشتی نجات کے عنوان سے پیروی کی جائے، اور اپنی زندگی کے ہر پھلو میں ان کے حکم و فرمان پر عمل کیا جائے یہ تمام چیزیں حقیقت میں ان کی شکر گذاری اور ان کے مبارک وجود کی نعمت پر شکر خدا ھے۔
مزید یہ کہ روایات میں اھل بیت علیھم السلام کے لئےایک پدرانہ مقام بیان ھوا ھے:
حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا:
”اٴَنَا وَعَلِيٌّ اٴَبَوَاھَذِہِ الاٴُمَّةِ“۔[4]
”میں اور علی اس امت کے باپ ھیں“۔
شیعہ کی اھم تفاسیر اور حدیث کی کتابوں میں درج ذیل آیہ شریفہ:
<یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ>[5]
”انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے۔ شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ“۔
(اس ایت) کی توضیح و تفسیر میں متعدد روایات بیان ھوئی ھیں، جن میں بیان ھوا ھے کہ اپنے پروردگار کی اسی طرح اطاعت کرو جیسا کہ تمھیں حکم دیا گیا ھے، اور وہ حکم یہ ھے کہ یہ عقیدہ رکھو کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے، وہ یگانہ اور لا شریک ھے، اس کی کوئی شبیہ اور مانند نھیں ھے، وہ ایسا عادل ھے جو کسی پر ستم نھیں کرتا، وہ ایسا بخشنے والا ھے جو بخل سے کام نھیں لیتا، وہ ایسا بردبار ھے جو جلد بازی سے کام نھیں لیتا، وہ ایسا حکیم ھے جس کے کام بیھودہ اور فضول نھیں ھوتے، اور یہ محمد(صلی الله علیه و آله و سلم) اس کے بندے اور رسول ھیں اور ان کے اھل بیت(علیھم السلام) تمام انبیاء (علیھم السلام) کے اھل بیت سے افضل ھیں اور یہ علی(علیہ السلام) پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے بعد اھل بیت علیھم السلام میں سب سے افضل ھیں، اور حضرت محمد مصطفی کے مومن اصحاب سب سے افضل ھیں اور امت محمدیہ تمام انبیاء کی امتوں سے افضل ھے۔[6]
چونکہ اھل بیت علیھم السلام تمام اھل بیت میں افضل اور حضرت علی علیہ السلام ان سب میں افضل و اعلیٰ ھیں، لہٰذا تمام لوگوں پر ان کے حقوق بھی سب سے زیادہ اور ان کو ادا کرنا تمام حقوق پر مقدم ھے، کیونکہ آیہ شریفہ: اٴعبُدُوا رَبَّکُمُ کی تفسیر میں بیان ھوا ھے: ”پرودرگار کی عبادت، پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) اور حضرت علی علیہ السلام کا اکرام و احترام ھے“[7]
پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) اور علی مرتضی علیہ السلام کی گرامی داشت اور ان کا احترام بلا شک و شبہ ان کی اطاعت اور ان کی ہدایت اور پاک تعلیمات کی اقتدا ھے۔
کیا ایسا نھیں ھے کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ھے:
<مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ ۔۔۔>[8]
”جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے الله کی اطاعت کی“۔
نیز ایک دوسری آیت میں ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
<۔۔۔ وَاللهُ وَرَسُولُہُ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُرْضُوہُ ۔۔۔>[9]
”۔۔۔ حالانکہ خدا و رسول اس بات کے زیادہ حقدار ھیں کہ ان کو راضی کیا جائے۔۔۔“۔
کیا ایسا نھیں ھے کہ شیعہ اور اھل سنت کی اھم ترین کتابوں میں بہت سی روایات کی بنا پر پیغمبر اکرم(ص) جب تک لوگوں کے درمیان تھے ان کو اپنے اھل بیت(علیھم السلام) کی محبت، ولایت اور اطاعت کی تاکید فرماتے تھے، اس بنا پر اھل بیت علیھم السلام کے حق کی رعایت کرنا در حقیقت پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے حق کی رعایت کرنا ھے، اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے حق کی رعایت کرنا خداوند عالم کے حق کی رعایت کرنا ھے، نتیجہ یہ ھوا کہ آیات اور روایات کی بنا پر اھل بیت علیھم السلام کا حق خداوند عالم کے حق کے ھم سنگ ھے اور خداوند عالم کے حق کی ادائیگی میں کوتاھی کرنا یقینا عذاب عظیم میں مبتلا ھونے کا سبب ھے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اھل بیت علیھم السلام کے وجود مبارک کو بندوں کے درمیان خدا کی نعمت کے عنوان سے یاد کیا ھے:
”۔۔۔ وَنَحْنُ مِنْ نِعْمَةِ اللّٰہِ عَلیٰ خَلْقِہِ۔۔“۔[10]
”۔۔۔ ھم اھل بیت، مخلوق پر خدا کی نعمتوں میں سے ھیں۔۔۔“۔
وہ نعمت جو خداوند عالم کی طرف سے ھے جس میں رحیمیہ اور رحمانیہ رحمت کو اپنے سے مخصوص کر لیا ھے یعنی ان کو نبوت، امامت اور رہبری و پیشوائی کا مرتبہ عطا کیا ھے[11] اور دوسری طرف سے اس نعمت کا شکر کہ جو ان کی نبوت و ولایت اور امامت کا قبول کرنا قرار دیا ھے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو قیامت تک کے لوگوں پر واجب قرار دیا ھے۔[12]
قرآن مجید میں جو کچھ بھی نعمت کے ساتھ ساتھ بیان ھوا ھے وہ شکر اور ایسا حق ھے جو نعمت کے ذریعہ انسان پر عائد ھوتا ھے، اور جب نعمت عطا کرنے والے کا حق ادا ھوجائے تو اس کا شکر ادا ھو گیا بے شک اھل بیت علیھم السلام کے وجود کا شکر ان حضرات کی رہبری و ولایت کا قبول کرنا ھے۔
کیا حقیقت میں یہ مناسب ھے کہ انسان خداوند عالم کی نعمتوں کے مقابل اگرچہ روٹی کا ایک ٹکڑا ھی کیوں نہ ھو، ناشکری کرے؟ اھل بیت علیھم السلام کے وجود کی نعمت کا حق تو بہت بڑی بات اور اس سے کھیں زیادہ عظیم اور خداوند عالم کی مفید ترین نعمتوں میں سے ھے۔
شیخ حر عاملی نے کتاب ”وسائل الشیعہ“ میں کتاب ”عیون اخبار الرضا“ تالیف شیخ صدوق علیہ الرحمہ رئیس محدثین شیعہ سے روایت کرتے ھیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی کو یہ کہتے ھوئے سنا: خدا لعنت کرے اس شخص پر جو علی علیہ السلام کے ساتھ لڑا، امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: (اس کے بعد یہ بھی) کھو:
”اِلاّ مَنْ تٰابَ وَاٴَصْلَحَ“۔
”مگر جس نے توبہ کرلی اور اپنی برائیوں کی اصلاح کرلی“۔
اس کے بعد فرمایا: آپ کی نافرمانی کرنے والے اور آپ کے فرمان اور مرضی سے روگردانی کرنے والے کا گناہ جبکہ توبہ نہ کرے، اس شخص کے گناہ سے بھاری اور بڑا ھے جس نے آپ سے جنگ کی ھے۔[13]
(یعنی امام علی علیہ السلام سے جنگ کرنے والے سے زیادہ گناہگار وہ شخص ھے جو آپ کی نافرمانی کرے اور آپ کے فرمان کو پس پشت ڈال دے، مترجم)
اھل بیت علیھم السلام سے جدائی کا نتیجہ
درج ذیل آیہٴ شریفہ کے پیش نظر:
<۔۔۔ اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ۔۔۔>[14]
”۔۔۔ الله کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ھیں(جو ائمہ اھل بیت ھیں اور مقام عصمت پر فائز ھیں۔۔۔“۔
اگر کوئی اولو الامر اور راسخون فی العلم (جو شیعہ اور اھل سنت کی معتبر روایات کے پیش نظر اھل بیت علیھم السلام ھیں) کی اطاعت نہ کرے اور ان حضرات کی تعلیمات کو نہ اپنائے گویا اس نے خدا اور اس کے رسول سے قطع تعلق کرلیا ھے اور خدا کی رحمت خاصہ سے دور ھو گیا ھے اور خیر دنیا و آخرت سے دوری کی بلا میں مبتلا ھو گیا ھے۔
ھمیں غور کرنا چاہئے کہ اھل انقطاع(دوری اختیار کرنے والے) کے رسوا کن ماجرے کا انجام کیا ھوتا ھے۔
آیہ شریفہ: <۔۔۔ اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ۔۔۔> کی بنیاد پر اھل بیت علیھم السلام کی محبت اور ان کے در سے وابستہ ھونا اور ان کی تعلیمات پر ایمان رکھنا واجب ھے پس اس کے مقابل ان سے قطع تعلق کرنا اور ان کے ثمر بخش مکتب سے دور رہنا حرام ھے، اور قرآن کریم کی آیات کے مطابق ایسا گروہ بہت ھی نقصان اور تلافی نہ ھونے والے خسارہ میں مبتلا ھوگا!
<وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَةُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ>[15]
”اور جو لوگ عہد خدا کو توڑ دیتے ھیں اور جن سے تعلقات کا حکم دیا گیا ھے ان سے قطع تعلقات کر لیتے ھیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ھیں ان کے لے لعنت اور بد ترین گھر ھے“۔
خداوند عالم نے قرآن مجید میں اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ھے لہٰذا ان کی اطاعت سے روگرانی کرنا اور ان کی تعلیمات سے قطع تعلق کرنا ایک عظیم جرم ھے جو آتش جہنم کا سبب ھے۔
ممکن ھے کہ کوئی یہ کھے: خدا و رسول اور حاکم مُلک کی اطاعت آیہ شریفہ: <۔۔۔ اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ۔۔۔>[16] کے مطابق ھے، تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا: کوئی بھی حاکم چاھے کتنا ھی عادل کیوں نہ ھو، بلا شک و شبہ خدا و رسول(صلی الله علیه و آله و سلم) کی شان و منزلت کی ردیف میں نھیں آسکتا۔
وھی حضرات خدا و رسول کی شان و منزلت کے لائق کی ردیف میں ھیں جو راسخون فی العلم، اھل ذکر اور آیہٴ مودّت، آیہ مباھلہ اور آیہٴ تطھیر کے مصداق ھیں اور انھیں صفات کی وجہ سے اولو الامر کا منصب رکھتے ھیں اور وہ حضرات اھل بیت پیغمبر(صلی الله علیه و آله و سلم) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے علاوہ کوئی نھیں ھے۔
کیا تم یہ چاہتے ھو کہ آیت کے معنی میں تحریف کے ذریعہ حقیقی ولایت مداروں کی ولایت کا حلقہ اٹھا لو اور ان کی جگہ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے بعد ان لوگوں کو خلیفہ بنالو جو جاھلیت اور شرک میں غرق تھے اور پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے بعد مقام خلافت کی ذرا بھی شائستگی نھیں رکھتے تھے، جیسا کہ عمر نے بلند آواز میں ابوبکر کے حکومت پر پہنچنے کے بعد کہا:
ابو بکر کی حکومت خطا اور غلط ھے، خداوند عالم لوگوں کو اس کے خسارے اور نقصان سے محفوظ رکھے۔ [17] اھل بیت علیھم السلام کی نسبت پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله و سلم) کی تاکید کی بنا پر اور ان حضرات کے قرآن کریم کے ھم پلہ ھونے نیز علم و دانش اور فقہ ان کے پاس ھونے کی بنا پر ان حضرات سے رابطہ نہ رکھنا اور ان سے الگ تھلگ زندگی گزارنا نیز ان حضرات کی حیات بخش ثقات کی مخالفت کرنا اور لوگوں کو ان کے مبارک مکتب سے دور رکھنا بلا شبہ پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله و سلم) سے قطع تعلق کرنے جیسا ھے اور یہ غیر قابل بخشش جرم ھے۔
…………………..
حواله جات
[1] سورہٴ لقمان (۳۱)، آیت۱۴۔ ۱۵۔
[2] سورہٴ لقمان (۳۱)، آیت۱۴۔
[3] اصول کافی، ج۲، ص۱۵۸، باب والدین کے ساتھ نیکی و احسان، حدیث۲؛ مشکاة الانوار، ص۱۵۹، فصل ۱۴، حقوق والدین؛ وسائل الشیعة، ج۲۱، ص۴۸۹، باب۹۲، حدیث ۲۷۶۶۶؛ تفسیر الصافی، ص۱۴۴۴۔
[4] عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۸۵، باب۲۲، حدیث۲۹؛ علل الشرائع، ج۱، ص۱۲۷، باب۱۰۶، حدیث۲؛ مناقب، ج۳، ص۱۰۵؛ بحار الانوار، ج۳۶، ص۱۱، باب۲۶، حدیث۱۲۔
[5] سورہٴ بقرہ (۲)، آیت۲۱۔
[6] تاویل الآیات الظاہرة، ص۴۴؛ تفسیر امام حسن عسکری(ع)، ص۱۳۵؛ بحار الانوار، ج۶۵، ص۲۸۶، الاخبار، حدیث۴۴۔
[7] تفسیر امام حسن عسکری(ع)، ص۱۳۹، حدیث۷۰؛ بحار الانوار، ج۳۸، ص۶۹، باب۵۹، حدیث۶۔
[8] سورہٴ نساء (۴)، آیت۸۰۔
[9] سورہٴ توبہ (۹)، آیت۶۲۔
[10] بصائر الدرجات، ص۶۲، باب۳، حدیث۱۰؛ بحار الانوار، ج۲۶، ص۲۴۸، باب۵، حدیث۱۹۔
[11] تفسیر لصافی، ج۱، ص۱۳۱۔
[12] تفسیر الصافی، ج۲، ص۴۶۱۔
[13] عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۸۸، باب۲۲، حدیث۳۵؛ وسائل الشیعة، ج۱۵، ص۳۳۵، باب۴۷، حدیث ۲۰۶۷۴؛ بحار الانوار، ج۳۲، ص۳۱۹، باب۸، حدیث۲۸۹۔
[14] سورہٴ نساء (۴)، آیت۵۹۔
[15] سورہٴ رعد (۱۳)، آیت۲۵۔
[16] سورہٴ نساء (۴)، آیت۵۹۔
[17] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۹؛ الصوارم المھرقة، ص۱۳۷؛ الاحتجاج، ج۱، ص۲۵۶؛ بحار الانوار، ج۳۰، ص۱۲۵، باب۱۹، حدیث۵۔