- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/08
- 0 رائ
اگر آسمان اپنی جگہ پر استوار ھے اور زمین اپنی حالت پر پائیدار ھے اگر تمام اھل جہان اور اھل زمین امن و امان میں ھیں، تو یہ سب کے سب اس خاندان کے وجود مقدس اور ان حضرات کی نورانیت و معنویت اور توجہات کی وجہ سے ھے جیسا کہ خود ان حضرات نے اس حقیقت کی طرف مکرر اشارہ فرمایا ھے، البتہ اس مطلب کو صرف اھل ایمان، صالحین اور پاک باطن رکھنے والوں کے دلوں کے علاوہ کوئی دوسرا یقین نھیں رکھتا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس حقیقت کو اس طرح یاد فرماتے ھیں:
”اِٴنَّ رَسُولَ اللّٰہِ بَابُ اللّٰہِ الَّذِی لاٰ یُوٴْتَی اِٴلاّ مِنْہُ، وَسبِیلُہُ الَّذِی مَنْ سَلَکَہُ وَصَلَ اِٴلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، وَکَذَلِکَ کاَنَ اٴمیرُ المُوٴمِنِینَ علیہ السلام مِنْ بَعْدِہِ، وَجَرَی لِلاٴَئِمَّةِ وَاحِداً بَعْدَ وَاحِدٍ، جَعَلَھُمُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اٴرْکاَنَ الاٴَرْضِ اٴنْ تَمِیْدَ بِاٴھْلِھَا۔“ [1]
”بے شک پیغمبر، باب اللہ ھے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز عطا نھیں ھوتی، اور راہ خدا ھیں کہ جو اس پر چلے خدا تک پہنچ جائے گا، اور امیرالمومنین علیہ السلام بھی آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) کے بعد اسی طرح ھیں اور اسی طرح ہر امام یکے بعد دیگرے، خداوند عالم نے ان کو زمین کا ستون قرار دیا ھے تاکہ زمین اپنے رہنے والوں کو نہ لرزائے“۔
حضرت امام زین العابدین سید سجاد علیہ السلام فرماتے ھیں:
”نَحنُ الَّذِیْنَ بِنَا یُمْسِکُ اللّٰہُ السماءَ اٴنْ تَقَعَ علی الاٴَرْضِ اِٴلا بِاِٴذْنِہِ، وَبِنَا یُمْسِکُ الاٴَرْضَ اٴنْ تَمِیدَ بِاٴَھْلِھَا، وَبِنَایُنْزِلُ الغَیْثَ، وَبِنَا یَنْشُرُ الرَّحْمَةَ، وَیُخْرِجُ بَرِکاَتِ الاٴَرْضِ، وَلَوْلاَ مَا فِی الاٴَرْضِ مِنَّا لِسَاخَتْ بِاٴَھْلِھَا۔“[2]
”خداوند عالم نے ھم (اھل بیت علیھم السلام) کے ذریعہ آسمان کو روکے رکھا، اور اس کی اجازت کے بغیر زمین پر نہ گرے، اور ھمارے وسیلہ سے زمین کو محفوظ کیا ھے تاکہ اس پر رہنے والوں کو نہ لرزائے، وہ ھماری وجہ سے بارش نازل کرتا ھے اور ھمارے وجود کے زیر سایہ رحمت قرار دیتا ھے، اور زمین کی برکتوں کو باہر نکالتا ھے، اگر ھم میں سے کوئی زمین پر نہ ھوتا تو اس پر رہنے والوں کو نابود کردیتا“۔
حضرت رسول اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: ستارے اھل آسمان کے لئے باعث امان ھیں، جب ستارے نابود ھوجائیں تو اھل آسمان بھی نابود ھوجائیں گے، اور میرے اھل بیت (علیھم السلام) اھل زمین کے لئے باعث امان ھیں اور جب میرے اھل بیت (علیھم السلام) نہ رھیں تو اھل زمین بھی نھیں رہ پائیں گے۔[3]
حضرت امیر الموٴمنین علیہ اسلام فرماتے ھیں: ”نَحْنُ بَیْتُ النَّبْوَةِ وَمَعْدِ نُ الْحِکْمَةِ، وَاٴَمَانٌ لِاٴَھْلِ الاٴَرْضِ، وَنَجَاةٌ لِمَنْ طَلَبَ۔“[4]
”ھم اھل بیت نبوت اور معدن حکمت، زمین والوں کے لئے باعث امان اور ان لوگوں کے لئے نجات کا سبب ھیں جو رہائی و نجات کے طالب ھوں“۔
زمین و آسمان کا استوار رہنا اھل بیت علیھم السلام کی معنویت، نورانیت اور توجہ کی بدولت ھے اور ان کا ملکوتی اور روحانی سرمایہ اور روحی طاقت نیز قلبی طاقت خود انھیں حضرات سے مخصوص ھے اور کوئی بھی بشر یا فرشتہ ان کے مقام تک نھیں پہنچ سکتا، لیکن تعجب یہ ھے کہ ان تمام فضائل و کمالات کے باوجود یہ حضرات خاکسار، فروتن، خاضع اور متواضع ھیں![5]
اھل بیت علیھم السلام، انسانوں کی تربیت کرنے والے رہبر
زمین اور شاید دیگر کہکشانوں کی خصوصیت میں سے بہت سے معدنوں کا ھونا بھی ھے جیسے سونا، چاندی، تانبا، لوہا، عقیق، فیروزہ اور الماس وغیرہ۔
تمام ھی انسان معدن کو با ارزش شئے، پُر قیمت، مفید، سودمند اور انسانی زندگی میں بہت مفید شئے مانتے ھیں۔
معدن کی تلاش، معدن کی پہچان، معدن کا نکالنا، معدن سے نکلی ھوئی اشیاء کو کارخانوں تک لے جانا اور ان کو اشیائے زندگی میں تبدیل کرنا ان حقائق میں سے ھے کہ قدیم زمانہ سے ہر طرح کی زحمت کو برداشت کرتے ھوئے، جاری و ساری ھے۔
معادن میں سے جو چیز ھمیشہ سے انسان کی نظر میں بااھمیت اور پُر ارزش تھی اور رھے گی وہ سونے کی کان ھے، انسان اس معدن کی نسبت کبھی بھی بے توجہ نھیں رہا ھے، انسان اس معدن کی پہچان اور اس کو پانے کے لئے سعی و کوشش کرتا ھے، اور پھر سونا نکالنے کے لئے بہت زیادہ زحمتیں برداشت کرتا ھے اور پھر اس کو کارخانہ لے جاتا ھے اور ہزار طریقوں سے پتھر اور مٹی کو الگ کرکے خالص سونے کے عنوان سے اس کو بازار میں لے جاتا ھے۔
اس کے بعد بہترین اور ماہر کاریگروں کے ذریعہ درھم و دینار وغیرہ میں تبدیل کیا جاتا ھے کہ ملک کا اقتصادی نظام گھومتا رھے یا پھر اس سے ہار، گوشوارے، دست بند اور انگوٹھی وغیرہ بنائی جاتی ھیں تاکہ انسان کی زیبا پسندی کی خواہش کو سیراب کرسکے۔
قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ تمام آسمان اور زمین ایک معدن کی طرح ھیں اور اس معدن کا جاننے والا کہ جس کا علم بے انتہا ھے خداوند عالم ھے۔
اس عظیم الشان معدن کے عالِم خدا نے سونے جیسی ایک موجود بنام انسان خلق کی اور اس کو زمین پر بھیجا تاکہ اپنی فطری استعداد، مقام خلافت الٰھی اور اپنی عقلی قدرت کو اپنی تمام تر سعی و کوشش کے ذریعہ ظاہر کرے اور اپنی دنیا و آخرت و ابدی سعادت کو آباد کرے اور خداوندعالم کے اہداف کو ایمان و یقین اور اخلاق حسنہ سے مزین ھونے نیز احکام الٰھی کو انجام دیتے ھوئے پایہ تکمیل تک پہنچائے اور آخر کار خود اپنے اور دوسروں کے لئے خیر و برکت کا مرکز قرار پائے اور صفات الٰھی کو اپنے وجود سے ظاہر کرے۔
یہ تمام چیزیں صرف اس حقیقت کے زیر سایہ ممکن ھے کہ انسان کے وجود کا سونا خدا کے منتخب رہبروں اور آسمانی معلموں کے اختیار میں دیا جائے تاکہ وہ انسان اور دیگر حقائق کی نسبت اپنے وسیع علم کی بنا پر اس خالص سونے کو سو فیصد الٰھی موجود بنائیں۔
خداوند مہربان نے انسان کو آسمانی معماروں اور انسانی عمارت کے بنانے والوں کے ذریعہ کہ جو انسانی عمارت بنانے میں بے مثال یعنی اھل بیت علیھم السلام کے ذریعہ ہدایت دی۔
یہ کیا ھوگیا ھے کہ یہ گرانقدر سونا اپنے بنانے والوں کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کے لئے اٹھ کھڑا ھوا اور اپنے دامن حیات کو آلودہ کر رہا ھے؟!
کتنا بُرا ھے کہ خود کو انسانیت کے رہزنوں اور اقدار کے غارت گروں کے حوالہ کر دیا جائے تاکہ ان کی حقیقت کو بگاڑ ڈالیں اور ان کی ایسی شکل بنادیں کہ دیو بھی ان کی بُری شکل دیکھ کر منھ پھیر لے؟!
آئیے اور فرعونیوں، نمرودیوں، قارونیوں، بولہبوں، بوجھلوں، امویوں، عباسیوں اور آج کے مشرق و مغرب میں ان کے پیروکاروں کو اپنے وجود کے اطراف سے دور کریں اور اپنے کو انبیا اور ائمہ علیھم السلام کے سپرد کریں تاکہ وہ ھمارے سونے کے وجود سے سلمان و بوذر، بُریر، زھیر، میثم، رشید، ہجری و حجر بن عدی وغیرہ بنادیں۔
……………………
حواله جات
[1] اصول کافی، ج۱، ص۱۹۷، باب ائمة ھم ارکان الارض، حدیث۳؛ بصائر الدرجات، ص۱۹۹، باب۹، حدیث۱؛ بحار الانوار، ج۲۵، ص۳۵۳، باب۱۲، حدیث۳۔
[2] امالی ، صدوق، ص۱۸۶ ، مجلس نمبر ۳۴، حدیث۱۵؛ بحار الانوار، ج۲۳، ص ۵، باب۱، حدیث۱۰؛ روضة الواعظین، ج۱، ص۱۹۹۔
[3] امالی، طوسی، ص۳۷۹؛ مجلس نمبر ۱۳، حدیث۸۱۲؛ بحار الانوار، ۳۷، ص۳۰۹، باب۸، حدیث۳۔
[4] نثر الدر، ج۱، ص۳۱۰۔
[5] اس حقیقت کے سلسلہ میں کہ اھل بیت علیھم السلام زمین او رآسمان والوں کے لئے باعث امان ھیں اھل سنت کی مختلف کتابوں میں بیان ھوا ھے مثلاً: ذخائر العقبیٰ، ص ۱۷۰؛ ینابیع المودة، ص ۱۹؛ مستدرک الصحیحین، ج۳، ص ۱۴۹؛ الصواعق المحرقہ، ص ۱۴۰؛ کنز العمال، ج۶، ص ۱۱۶، و ج ۷، ص ۲۱۷؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۷۴ وغیرہ۔