- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
اہل بیت (ع) کے فضائل زیارت جامعہ کبیرہ میں
قرآن میں اہل بیت(ع) کا مقام , اهل بیت(ع) کے بارے میں , پیغمبراکرم اور اهل بیت- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/10/16
- 1 رائ
دین اسلام، ایک کامل دین ہے جو انسانی زندگی کے تمام جهت پر توجہ دیتا ہے اور چونکہ انسانی فطرت اجتماعی فطرت ہے اس لئے اسلام نے اس جہت کو نظر انداز نہیں کیا کیونکہ یہ صرف انسان سازی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قواعد و ضوابط بھی انفرادی مسائل کی بنیاد ہیں معاشرے کی تعمیر، مذہب نے کی ہے اور انسان کو سعادت کے راستے پر چلنے کے لئے ایڈیل کی ضرورت ہے۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہلبیت (ع) جو اسوہ حسنہ ہیں۔ اور پیغمبر اکرم (ص) نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ میرے اہل بیت (ع) اسوہ حسنہ ہیں۔ اور ہم اس مقالہ میں زیارت جامعہ کبیرہ کے الفاظ اور جملات میں جو اہلبیت (ع) کی فضیلتیں بیان کی گئی ہین اس کی طرف اشارہ کریں گے۔
اہل بیت (ع)
لغت میں “بیت” کے معنی” مٹی” کے ہے، اور جس جس مقام پر قرآن کریم میں “بیت” کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کے معنی جمع میں اور ضمیر کے اضافہ کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، لیکن اہل بیت سے مراد ” مسلمانوں کے درمیان میں “اہل بیت نبوت (ع)”ہے۔ اہل بیت (ع) میں “لام” “لام عہدی” ہے اور اس سے مراد ایک مخصوص گھرانہ ہے جو مخاطب اور سامعین کے درمیان جانا جاتا ہے۔[1] اس بنا پر “بیت” سے مراد وہ منصب ہے جو نبوت سے منسوب ہے۔[2]
فضائل
فضائل “فضل” سے ہے اور اس کے معنی “زیادت” کے ہیں۔[3] اور یہ قرآن میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے، ایک روحانی فضل اور دوسرا مادی فضل،خداوند عالم صاحب کرم و احسان ہے اور اسی بنا پر اس کے احسان و کرم کو “فضل” کہا جاتا ہے۔[4]
زیارت جامعہ کبیرہ
جیسا کہ واضح ہے کہ یہ لفظ متعدد الفاظ کا مجموعہ ہے، زیارت،جامعہ اور کبیرہ، جن میں سے ہر ایک کو الگ الگ بیان کریں گے۔
“زیارت” کا لفظ “زور” سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے خواہش اور کسی چیز سے منہ موڑنا۔[5]
“زائر” کو اس لئے “زائر” کہا جاتا ہے کہ جب کوئی زیارت پر جاتا ہیں تو کسی اور چیز سے عدول کرتا ہیں۔[6]
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ “زیارت” کا اطلاق والدین اور بزرگوں کی ملاقات پر ہوتا ہے کیونکہ یہ مادی روانی سے انحراف اور خرافات کی دنیا سے روحانیت کی دنیا کی طرف توجہ کرتا ہے۔[7] قرآن کریم میں، کسی کے پاس جانا اور اس سے ملاقات کرنے کو “زیارت” کہا جاتا ہے۔[8]
“زیارت جامعہ کبیرہ” سب سے عظیم زیارت اور شیعوں کے لئے ایک عظیم میراث ہے۔ جو امام ہادی (ع) سے نقل ہوئی ہے۔ [9]
“زیارت جامعہ کبیرہ” کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زیارت میں تمام ائمہ اطہار (ع) کو سلام پیش کر تے ہیں، یہ زیارت ان بزرگان کے فضائل و کمالات سے بھری ہوئی ہے، لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ ائمہ معصومین (ع)، خدا کی عظیم نشانیوں اور اس کے مظھر ہیں اور زمین پر اس کے جانشین ہے۔[10]
اہل بیت (ع) کی علمی اور ثقافتی اتھارٹی
اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ انسان کو ان چیزوں کے بارے میں سوچنے اور سوالات کرنے کی دعوت دی ہے۔ جن کا وہ علم نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں اہل ذکر کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بہت سی احادیث کے مطابق “اھل ذکر” سے مراد “اہل بیت (ع)” ہیں۔ جو ان کی علمی مرجعیت کو ظاہر کرتا ہے، اس لئے کہ علم اور ثقافت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں، جب جامعہ میں علم بڑھتا ہے۔ تو اس کے ساتھ ساتھ فرھنگ اور ثقافت بھی ترقی کرتی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: “وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِى إِلَيهِْمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُون”[11]
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔
یہ آیت “اہل علم” اور “اھل ذکر” کی طرف مراجعہ کرنے کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ جسے ہر انسان کی عقل بھی قبول کرتی ہے، دوسرے لفظوں میں، اگر آپ کچھ نہیں جانتے تو ماہرین سے پوچھ لیں، جاننے والوں سے پوچھ لیں، بلا شبہ دینی مسائل کے میدان میں “اہل الذکر” کی بہترین مثال اور مصداق رسول اللہ ﷺکے “اہل بیت (ع)” ہیں۔[12]
ہم یہاں پر “اہل بیت (ع)” کی مرجعیت علمی کے طور پر زیارت جامعہ کبیرہ سے کچھ جملات کو نقل کررہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱-اہل ذکر
زیار ت جامعہ کبیرہ کے جملات میں الفاظ میں اہل بیت (ع) کو “اھل ذکر” سے خطاب کیا گیا ہے۔
“ذکر” لغت میں سھو کی ضد، اور معنی کا ذہن میں حاضر ہونا ہے۔[13] اور “اھل” کا معنی ہے کسی چیز کے ساتھ خاص سنخیت اور شایستگی کا ہونا۔[14] اور “اہل بیت (ع)” کے سلسلہ میں اس لفظ کا استعمال، اس کا مطلب ہے کہ وہ دوسروں کے لئے یاد کئے جانے کے مستحق ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں “ذکر” کو مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے: “وَ أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْري”[15] اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔
یا سورہ عنکبوت میں اس طرح ذکر ہوا ہے، “وَ لَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبرَ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون۔[16] “اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شے ہے اور اللہ تمہارے کاروبار سے خوب باخبر ہے” بظاہر اس لفظ میں مراد ذکر قلبی ہے اور اس لفظ کو ذکر اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ، دل پر معنی کو القاء کرتا ہے۔ قرآن کے اعتبار سے اگر اس لفظ میں کوئی قید نہ ہو تو اس کے معنی خدا کی یاد کے ہیں۔[17]
“وَ مَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِى إِلَيهِْمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُون”[18]
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی جن رسولوں کو بھیجا ہے وہ سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تو تم لوگ اگر نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرلو.
اس آیت کے مہم نکاتوں میں سے ایک نکات یہ ہے کہ اس آیت مین رسول خدا ﷺ سے اور ان کے اہل بیت(ع) سے خطاب ہے۔ اگر چہ شروع میں خطاب صرف رسول خدا ﷺ سے تھا۔ لیکن کیونکہ خطاب عمومی ہے اس لئے اس میں اھل بیت عترت (ع) بھی ہے۔[19]
بہت سی روایات ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ “اہل ذکر” سے مراد صرف اہل بیت (ع) ہیں اور ہم ان میں سے ایک روایت کہ جو امام صادق (ع) سے “اھل ذکر” کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہے۔ امام صادق (ع) نے کہا “اھل ذکر” سے مراد “ھم آل محمد” وہ محمد (ص) کے “اھل بیت” ہے۔[20] ایک اور روایت میں، امام رضا (ع) نے فرمایا: “ونحن اھل الذکر و نحن المسوؤلون” [21] ہم ہی “اھل ذکر “ہے اور ہم سے پوچھا جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کی آیت اور روایت سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اہل بیت (ع) ہی معاشرے کے حقیقی مرجع ہیں۔ اور “اھل ذکر” ہیں۔
۲- علم الہی کے خزانچی (خزّان العلم)
زیارت جامعہ کبیرہ کے دوسرے فراز میں “اہل بیت” کو “خزان العلم” کے نام سے یاد کیا گیا ہے، “خزان” “خزنہ” کی جمع ہے اور اس کا مطلب “جمع کرنے کی جگہ” [22] “علم” کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کی دو قسم کی ہوتی ہے: ذات کا ادراک اور جزئیات کی حقیقت، کسی دوسری چیز کے وجود کو قائم کرنا جو اس کے لئے مقرر اور موجود ہے یا اس سے کسی چیز کی نفی کرنا کہ جو اس سے دور ہے۔[23]
خدا کی طرف سے “اہل بیت (ع)” پر جو خاص کرم و لطف ہے وہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے انہیں حقیقتوں اور علوم کا خزانے دار بنایا ہے اور اسی علوم میں قرآن کریم کا علم بھی شامل ہے کیونکہ وہ رسول خدا ﷺ کے اہل بیت (ع) اور ان کے جانشین ہیں۔ اور ان کا سب سے پہلا وظیفہ قرآن کریم کی تعلیم دینا ہے جس کے لئے قرآن کریم کے تمام پہلوؤں کا علم درکار ہے۔ جیسا کہ امام باقر (ع) فرماتے ہیں: “ما یستطیع احذ ان یدعی ان عندہ جمیع القران کلہ و ظاھرہ و باطنہ غیر الاوصیاء”[24] اوصیاء کے علاوہ تم میں سے کوئی ایک اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ اس کے پاس تمام ظاہر اور باطن قرآن کریم کا علم ہے کیونکہ قرآن کریم کا علم صرف اہل بیت (ع) کے پاس ہے۔
اہل بیت (ع) جو علم الہی کا ذخیرہ ہیں “مخزن الہی” ہے ان سے کبھی خطا نہیں ہوسکتی ہے اور ان کے وہاں خطا کا امکان نہیں ہے اور وہ دوسروں کے علوم کے محتاج نہیں ہے کیونکہ وہ علم لدنی کے مالک ہے اور خداوند عالم کی طرف سے انہیں علم عطا ہوا ہے۔
۳-روشن علم کے چراغ ہیں (مصبایح الدجی)
“مصبایح الدجی” زیارت جامعہ کبیرہ کے فرازوں میں سے ایک فراز میں اہل بیت(ع) کو “مصبایح الدجی” کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جو اہلبیت (ع) کی علمی مرجعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
“مصابیح” “مصباح” کی جمع ہے اور اس کے معنی “چراغ” کے ہے۔ اور “وجی” کا مطلب ہے بادلوں کے ساتھ اندھیرا۔ [25]
اور اہل بیت (ع) کے “مصبایح الدجی” ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے نور سے لوگوں کو اندھیروں اور گمراہیوں سے نکالتے ہیں۔ قرآن مجید میں خداوند عالم ان کو نور سے تعبیر کرتا ہے اور فرمایا ہے: “اللہ نور السموات الارض” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔[26] ائمہ معصومین (ع) بھی خدا کے نور کے ایک نور ہیں جو زمین پر روشن ہے اور لوگوں کی ہدایت کررہے ہیں۔
ائمہ اطہار (ع) نہ صرف امت اسلامیہ کے لئے بلکہ تمام انسانوں کے لئے نور ہدایت تھے۔ اور جس نے بھی اپنی زندگی میں ان سے علم حاصل کیا نہ صرف اس کے لئے بلکہ تمام جامعہ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا کیونکہ یہ بہترین رھبر ہے جو جامعہ کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں۔
۴-اہلبیت (ع) محل معرفت خداوند عالم (معادن حکمة اللہ)
زیارت جامعہ کبیرہ کے جملہ “مصبایح الدجی” کے بعد ایک عظیم جملہ “معادن حکمۃ اللہ” ہے جس کے ذریعہ سے اہل بیت (ع)کو خطاب کیا گیا ہے ۔
“معادن” جمع “معدن” ہے اور اس کے معنی ہے۔ “محل استقرار” یعنی قیام کی جگہ ہے اور مقام۔[27]
“حکمت” کا مطلب ہے علم اور استدلال کے ساتھ حق تک پہنچنا، اس لئے حکمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ وہ چیزوں کی شناخت کریں اور ان ایجاد کرے جیسا کہ دو الفاظ معدن اور حکمت کے معنی سے سمجھا جا سکتا ہے، ائمہ اطہار (ع) کے پاس خداوند عالم کا مکمل علم ہے اور مکمل معرفت خداوندی رکھتے ہے اور ان کا علم بھی خداوند عالم کے علم سے ماخوذ ہے۔
اہل بیت(ع) کی علمی ثقافتی مرجعیت کے فضائل
“فضیلت” سے مراد “فراوانی اور برتری” ہے اور اہل بیت (ع) جن کا علم خداوندعالم کی طرف سے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔ وہ بہترین علوم ہے اور ان میں کسی طرح کا کوئی نقص اور عیب نہیں ہے۔ ان کی بہت سی خوبیاں ہیں جو کہ قرآن پاک میں ان کی علمی فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
“وَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدَا بَيْنىِ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَاب”[28]
یہ آیت اہل بیت (ع) کی ایک عظیم فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی علمی قدرت کو ثابت کرتی ہے۔
جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوا ہے۔
” وَ مَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَاب” سے مراد “اوصیاء طاہرین” ہے اور یہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ جملہ “وَ مَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَاب” سے مراد علی ابن ابی طالبؑ اور اوصیاء معصومین (ع) کی تعریف کے لئے ہے کہ خداوند عالم نے ان میں سے ہر ایک کو قرآنی آیات کے رازوں کا علم اور خدائی علم کو ایک وجودی تحفہ کے طور پر عطا کیا ہے۔[29]جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، “وَ مَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَاب” سے مراد “اہل بیت (ع)” کی کتاب کا علم ہے، جن کے پاس خداوند عالم کے غیب کا علم اور راز ہے۔ جب علوم کے حقیقی محافظ اور رسول اللہ (ص) کے جانشین ہے اسلامی معاشرے کی حکومت اور رہنمائی کرنے والے ہیں اور جس کی راھنمائی سے معاشرہ حقیقی سعادت حاصل کرے گا۔
الف: راھبران عادل
اہل بیت (ع) کی علمی و ثقافتی مرجعیت کی فضیلت میں سے عظیم فضیلت صالح رہبر و رہنما عادل بھی ہے۔ اور اہل بیت(ع)، انسانی معاشرے کے رہنما اور پیش رو ہیں اور اپنے لا متناہی علم سے معاشرے میں انصاف کو موثر انداز میں پھیلاتے ہیں۔ ائمہ معصومین (ع) جن کی فطرت برائیوں اور آلودگیوں سے پاک ہے اور یہ مسئلہ روز و روشن کی طرح ظاہر ہے اور امیر المومنین علی (ع) کے قول کے مطابق جس وقت سے حق میرے لئے واضح ہوا ہم نے کبھی بھی اس میں شک نہیں کیا۔ اور یہی لوگ ہیں جو معاشرے میں حاکمیت کی اصل حیثیت رکھتے ہیں۔
ب: اتحاد اور یکجہتی
اہل بیت (ع) کی علمی و ثقافتی مرجعیت کی فضیلت میں سے عظیم فضیلت، معاشرے میں اتحاد اور یکجہتی ہے۔ یہ معاشرے کے استحکام کے عوامل میں سے ایک عوامل ہے اور ہر طرح کی کمزوری اور زوال کو روکتا ہے، مختلف ذوق کے حامل افراد کے اتحاد کے لئے ایک منصفانہ اور بے مثال رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک ہی معاشرے میں مختلف افراد رہتے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے خیالات اور نظریات ہیں اور انہیں پرچم اتحاد کے نیچے لانے کے لئے ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو خود تمام معاملات میں کامل اور اکمل ہو لائق ہو، اور جس کے پاس لاتعداد علم ہو اور وہ ذات صرف اور صرف اہل بیت (ع) ہیں۔
نتیجہ
جو کچھ بیان ہوا اس کی بنیاد پر اہل بیت (ع) کی اہم ترین علمی و ثقافتی فضائل میں سے ایک ہے وہ اپنے لامتناہی علوم کی بدولت وہ معاشرے کی حاکمیت اور مرجعیت کے ذمہ دار ہیں، کہ جو فرھنگ کی پیشرفت کا سبب ہے۔ کیونکہ علم اور ثقافت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور جتنا علم ترقی کرتی ہے، ثقافت بھی اسی کے مطابق ترقی کرتی ہے، جس کی مثالیں بھی تاریخ میں شامل ہیں۔ اہل بیت (ع) کی علمی ثقافتی اتھارٹی جس کا تذکرہ زیارت جامعہ کبیرہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ “اہل بیت” “خزان علوم الہی” “عقل کامل” “چراغ ہدایت” اور خداوند عالم کی معرفت حاصل کرنے کی جگہ ہے۔ اور اسی علمی اور ثقافتی مرجعیت کی فضیلتوں میں سے، معاشرے کے لئے انصاف پسند رہنما ہے، جو معاشرے میں لوگوں کی یکجہتی اور اتحاد پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اور وہ “اہل بیت (ع)” ہیں۔ لہذا اہم سب کو چاہئے کہ ہم سب خداوند عالم اور اہل بیت (ع) کے بتائے ہوئے دستور پر عمل کریں تاکہ معاشرہ میں ترقی اور کمال پیدا ہوسکے۔
حوالہ جات
[1] سبحانی، الفکر الخالد فی بیان العقاید، ج۱، ص۴۰۴
[2] طبرسی، مجمع البیان، ج۸، ص۵۵۸
[3] اصفهانی، مفردات الفاظ قرآن، ص۶۷
[4] قرشی، قاموس قرآن، ج۵، ص۱۸۳
[5] ابن فارس، مقایس اللغۃ، ج۳، ص۳۶
[6] ابن فارس، مقایس اللغۃ، ج۳، ص۳۶
[7] جوادی آملی، ادب فنای مقربان، ج۱، ص۲۴
[8] جوادی آملی، ادب فنای مقربان، ج۱،ص۲۴؛ سجادی، پرچم داران هدایت، ص۸
[9] سجادی، پرچم داران ہدایت، ص۹
[10] سجادی، پرچم داران ہدایت، ص۹
[11] سورہ نحل، ۴۳
[12] محسن قرائتی، تفسیر نور، ج۴، ص۵۲۴
[13] ابن فارس، قاموس، مقاییس اللغۃ، ص ۳۴۹-۳۵۰
[14] طریحی، مجمع البحرین، ص۳۱۴
[15] سوره طه: ۱۴
[16] سوره عنکبوت: ۴۵
[17] طباطبایی، تفسیرالمیزان، ج۱۲، ص۳۷۴
[18] سورہ انبیاء: ۷
[19] طباطبائی، المیزان، ج۱۲، ص۲۵۷
[20] فرات کوفی، تفسیر کوفی، ص۲۲۵
[21] صفار، بصائر الدرجات، فضایل آل محمد، ص۴۱
[22] ابن منظور، لسان العرب، ج۱۳، ص۱۳۹
[23] اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ص۵۸۰
[24] کلینی، الکافی، ج۱ص۲۲۸
[25] اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ج۱۵، ص۳۲۶
[26] طباطبایی، تفسیرالمیزان، ص۵۵۳
[27] اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ج۱، ص۵۲۸
[28] سورہ رعد :۴۳
[29] ھمدانی، انوار درخشان، ج۹، ص۲۴۷
منابع
قرآن کریم
۱-ابن فارس، احمد، مقایس اللغۃ، قم، مرکز دراسات الحوزۃ والجامعۃ، ۱۳۸۷
۲-ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الفکر، تیسری اشاعت، ۱۴۱۴
۳-جوادی آملی، عبد اللہ، ادب فنای مقربان، قم، انتشارات اسرا، ۱۳۹۷
۴-حسینی ھمدانی، سید محمد حسین، انوار درخشان، تھران، مرکز چاپ و انتشارات دانشگاہ پیام نور، ۱۳۷۲
۵-راغب افہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القران الکریم، بیروت، دمشق، دار القلم، ۱۴۱۲
۶-سبحانی، جعفر، الفکر الخالد فی بیان العقاید، قم، موسسہ امام صادق (ع)، ۱۴۲۵
۷-سجادی، سید احمد، پرچم داران ہدایت، تدبری بر زیارت جامعہ کبیرہ، قم، اسوہ، ۱۳۸۵
۸-صفار، محمد بن الحسن، بصائر الدرجات فضائل آل محمد (ص)، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ ، ۱۴۳۹
۹-طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القران، قم، دفتر انتشارات جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، ۱۴۱۷
۱۰-طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القران، محقق: محمد جوادی بلاغی، تھران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲
۱۱-طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین فی مطلع النَّیِّرَیْن، محقق: احمد حسین اشکوری، تھران، مرتضوی، تیسری اشاعت، ۱۳۷۵
۱۲-فرات کوفی، فرات بن ھاشم، تفسیر فرات الکوفی، تھران، سازمان چاپ و انتشارات اسلامی،۱۴۱۰
۱۳-قرائتی، محسن، تفسیر نور، تهران، مرکز فرهنگی درسهایی از قرآن، ۱۳۸۸.
۱۴-قرشی، علی اکبر، قاموس قرآن، تھران، دار الکتب الاسلامیۃ، چھٹی اشاعت، ۱۴۱۲
مضمون کا مآخذ
سمیرا رادمھر، فضایل علمی و فرھنگی اھل البیت علیھم السلام در زیارت جامعہ کبیرہ، مجلہ علمی علوم اسلامی انسانی، سال ھشتم، شمارہ ۲۱، بھار، ۱۳۹۹
ٹایپ کی غلطیاں موجود ہیں