- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/09/26
- 3 رائ
سن ساٹھ ہجری میں شہر بصرہ کی سیاسی اور اجتماعی زندگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نے ظاہری طور پر سیاسی فضا کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے رکھا تھا۔ کیونکہ وہ ایک ظالم شخص تھا۔ اموی ستمگر حکمرانوں کی ستائی ہوئی امت، جو ان کے فساد سے تنگ آچکی تھی مگر پھر بھی عبید اللہ بن زیاد انہیں مختلف روشوں سے فریب دیتا۔
اس زمانہ میں بصرہ کی اندرونی طور پر سیاسی و اجتماعی فضا کسی اور چیز کی خبر دے رہی تھی۔ چونکہ بصرہ کے سردار کم تعداد ہونے کے باوجود حقائق سے با خبر اور حق و اہل حق کو پسند کرتے تھے۔ اسی وجہ سے امام حسینؑ نے ان کو نامہ لکھا، جس کے سلسلہ میں ہم مختصر طور پر یہاں بیان کریں گے۔
بصرہ کے سرداروں کے جوابات
۱- احنف بن قیس کا جواب
احنف بن قیس نے امام حسینؑ کا بصرہ کے سرداروں کو لکھے جانے والے نامہ کے جواب میں اس طرح لکھا:
اما بعد: “فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَ لا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذينَ لا يُوقِنُونَ“[1]
پس صبر کریں کیونکہ خدا کا وعدہ حق ہے خبر دار (زنھار) جو لوگ یقین نہیں رکھتے ہیں، آپ کو غیر سنجیدہ کام پر نہ اکسائیں۔
اس آیت کے ساتھ کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔[2] احنف بن قیس یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے دعوت پر لبیک کہنے اور سنت رسولﷺ کے احیاء کی، اپنی ذمہ داری کو انجام دے دیا ہے۔ لہذا امام حسینؑ کو صبر کی نصیحت کر رہا تھا! وہ لوگ جو احنف بن قیس کے کردار سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ آدمی (الَّذينَ لا يُوقِنُونَ) کا واضح ترین مصداق ہے۔
یہ جواب احنف بن قیس کے موقف واضح کر رہا ہے کہ وہ امام حسینؑ کی مدد کے سلسلہ میں شک و تردید کا شکار تھا جبکہ امام حسینؑ کی حقانیت اور امام حسینؑ کی خلافت کا مستحق ہونے کی حقیقت سے آگاہ تھا۔
مزید اس کا موقف اس وقت سامنے آیا جب بصرہ میں عبد اللہ بن عامر حضرمی کے فتنہ میں (جنگ صفین کے بعد) لوگوں نے ایک بار پھر امام علیؑ کی بیعت توڑنے کی کوشش کی تھی۔ احنف بن قیس نے حضرمی (معاویہ کی جانب سے بھیجے گئے) کے جواب میں، بجائے اس کے کہ امیر المؤمنینؑ کا دفاع کرتا اور بیعت پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتا، کہنے لگا: اس سلسلہ میں نہ تو میرے پاس اونٹنی ہے اور نہ ہی کوئی اونٹ”۔[3]
وہ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے موقف کا اظہار کر چکا تھا جو اس کے یقین کی کمزوری اور شک کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نے اپنے ایک پیغام میں امیرالمؤمنینؑ سے کہا: میں اپنی قوم میں آپ کا سب سے زیادہ فرمانبردار ہوں اگر آپ چاہیں تو اپنے خاندان کے دو سو افراد کے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچ جاؤں اور اگر چاہیں تو بنی سعد کی چار ہزار تلواروں کو آپ کی طرف بلند ہونے سے روک سکتا ہوں۔
امیر المومنینؑ نے اس کو پیغام بھیجا: “بہتر ہے کہ وہیں ٹھہریں اور ان کو روکیں”[4]
۲-منذر بن جارود کی خیانت
منذر بن جارود، یہ بھی ان بصری افراد میں سے ایک ہے جسے امام حسینؑ نے نامہ لکھا تھا۔ جب امام حسینؑ کے قاصد، سلیمان بن رزین اس کے پاس آئے تو وہ ان کو لے کر عبید اللہ بن زیاد کے پاس جا پہنچا اور اس کے حوالہ کر دیا اور یہ دعوی کر رہا تھا میں نے یہ گمان کیا کہ یہ نامہ عبید اللہ کی سازش ہے۔ عبید اللہ نے نامہ لے لیا اور قاصد کو قتل کر دیا اور پھر منبر پر جاکر اہل بصرہ کو اختلاف ایجاد کرنے سے منع کیا۔[5]
منذر بن جارود کا یہ دعوی سراسر جھوٹ پر مبنی تھا اس لیے کہ قاصد اور نامہ کی حقیقت کو جاننے کے لیے وہ اس بات پر مجبور نہیں تھا کہ قاصد کو ابن زیاد کے حوالہ کر دے تاکہ وہ اس کی گردن اڑادے بلکہ اگر اس میں ذرا سی بھی صداقت ہوتی تو معمولی سی تحقیق اور جانچ پڑتال سے اس امر کی حقیقت تک پہنچ سکتا تھا۔
عبیداللہ بن زیاد، منذر بن جارود کا داماد تھا، ابن زیاد نے منذر کے اس برے کام کا صلہ دیا، اور اس کو ہندوستان کی سر زمین پر سندھ کی حکومت دی لیکن وہ طویل مدت تک باقی نہ رہا اور ۶۲ ہجری میں ہلاک ہوگیا۔[6]
۳- یزید بن مسعود نہشلی اور پسندیدہ موقف
یزید بن مسعود نہشلی، نے امام حسینؑ کا نامہ پڑھنے کے بعد بنی تمیم، بنی حنظلہ اور بنی سعد کو جمع کیا۔ جب حاضر ہوئے تو کہا: اے بنی تمیم، میری منزلت اور میرے حسب و نسب کو اپنے درمیان کیسے پاتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: خدا کی قسم آپ ہمارے لیے باعث فخر و مباہات ہو۔ اس نے کہا: میں نے آپ سب کو اس لئے جمع کیا ہے تاکہ آپ سے مشورہ کروں۔ انہوں نے کہا: خدا کی قسم ہم خیر خواہی سے دریغ نہیں کریں گے اور آپ کو مشورہ دینے کی کوشش کریں گے، فرمائیں ہم سننے کو تیار ہیں۔
اس نے کہا: معاویہ مرگیا ہے اور وہ گذشتگان میں کیسا پست انسان تھا۔ جان لیں کہ ظلم اور گناہ کے دروازے ٹوٹ گئے اور ستم کی بنیادیں لرزہ اندام ہیں۔ اس نے ایک بیعت کو ایجاد کیا اور لوگوں سے وعدہ لے کر خیال کیا کہ اس کو مضبوط کر لیا ہے۔
خدا کی قسم اس نے کوشش کی، شکست کھائی اور مشورہ کیا اور اس کو پسپائی ہوئی۔ اس کا بیٹا یزید شرابی، تباہیوں کا سر چشمہ، اپنے آپ کو مسلمانوں کا خلیفہ سمجھ بیٹھا ہے، ان کی مرضی کے بغیر ان پر حکم چلا رہا ہے در حالیکہ وہ بے صبر و کم علم اور حق سے دور ہے۔ خداوند متعال کی عظمت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ دین کی خاطر یزید سے جنگ کرنا مشرکوں کے ساتھ جنگ کرنے سے افضل ہے۔
یہ حسین بن علیؑ، دختر رسولﷺ کے فرزند ہیں، شرافت، حسب و نسب اور فکر میں مضبوط ایسی فضیلت کے مالک ہیں جس کی توصیف کرنا نا ممکن ہے۔ وہ علم بے کراں کے مالک ہیں، آپ، سابقہ سن اور رشتہ داری لے لحاظ سے سب سے زیادہ حکومت کرنے کے مستحق ہیں۔ آپ چھوٹوں کے لئے مہربان اور بڑوں کے لئے دلسوز ہیں۔ کیا خوب رہبر و امام ہیں۔ خدا کی حجت آپؑ کے ذریعے تمام ہوتی ہے۔
اپنی آنکھوں کو حق کیلیے مت بند کرو اور باطل صحرا میں اندھوں کے مانند مت چلو۔ جنگ جمل میں، قیس نے تمہیں علی کی مدد سے روک دیا تھا۔ اب رسولﷺ کے فرزند کے پاس جاکر ان کی نصرت کرکے اس ننگ و عار کو دھو ڈالو۔ خدا کی قسم جو شخص بھی ان کی مدد کرنے سے گریز کرے گا خداوند اس کی نسل کو ذلیل وخوار کر دے گا۔
اس وقت میں نے جنگ کا مکمل لباس اور زرہ پہن رکھی ہے۔ خدا تم پر اپنی رحمت نازل کرے۔
بنی حنظلہ کہنے لگے: اے ابا خالد، ہم آپ کی کمان کے تیر اور آپ کے قبیلہ کے دلاور ہیں۔ اگر تم ہمارے وسیلہ سے تیر پھینکو گے تو وہ تیر اپنے ہدف پر جاکر لگے گا۔ اگر ہمارے ہمراہ جنگ کرو گے، تو فتح پا جاؤں گے، تم پر جو بھی بلا وارد ہوگی ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
خدا کی قسم آپ جو بھی سختی دیکھیں گے ہم آپ کے ہمراہ ہوں گے۔ خدا کی قسم ہم اپنی تلواروں سے آپ کی مدد کریں گے اور اپنی جان سے آپ کی جان کی حفاظت کریں گئے پس جو اقدام اٹھانا چاہتے ہو، اٹھاؤ۔
بنی سعد بولے: اے ابا خالد، ہمارے نزدیک منفورترین چیز آپ کی مخالفت اور آپ کی رائے سے دوری اختیار کرنا ہے۔ صخر بن قیس[7] نے ہمیں جنگ سے دوری کا حکم دیا ہم خوشحال ہو گئے اور ہماری عزت باقی رہ گئی۔ ہمیں مہلت دے تاکہ ہم آپس میں مشورہ کر لیں اور پھر اپنا موقف آپ کے سامنے بیان کریں۔
بنی عامر بن تمیم بولے: اے ابا خالد، ہم آپ کے باپ کے فرزند اور آپ کے اتحادی ہیں۔ اگر آپ غضبناک ہوں تو ہم ہرگز خوش نہیں ہوں گے اور اگر آپ چل پڑے تو ہم بیٹھیں گے نہیں۔ ہم آپ کے فرمان کے منتظر ہیں آپ حکم صادر کریں تاکہ ہم اس کی تعمیل کر سکیں۔ آپ کا حکم درست ہے جب بھی صادر کریں۔
پس ابا خالد نے کہا: اے بنی سعد خدا کی قسم اگر تم ایسا کرو گے تو خداوند متعال کبھی بھی تمہارے درمیان سے شمشیر نہیں اٹھائے گا بلکہ تمہاری تلواریں ہمیشہ تمہارے درمیان میں ہی رہیں گی!
اور پھر امام حسینؑ کو نامہ لکھا:
“بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ” اما بعد: آپ کا نامہ ہمیں موصول ہوا اور جان لیا کہ آپ نے ہمیں دعوت دی ہے اور مجھ سے یہ تقاضا کیا ہے تاکہ آپؑ کی فرمانبرداری سے بہرہ مند ہوں اور آپ کی مدد کرکے سعادت سے شرفیاب ہو جاؤں۔ خداوند متعال زمین کو خیر خواہ اور راہنمائی کرنے والے افراد سے خالی نہ کرے، آپ خداوند متعال کی جانب سے لوگوں پر حجت اور زمین پر اس کے امین ہیں۔ بنی تمیم، آپ کے فرمانبردار اور پیاسے اونٹ کی طرح پانی کی طرف گردن بڑھائیں گے۔ نیز بنی سعد، بھی آپ کے مطیع ہیں اور اپنے سینوں کی کدورت کو آپ کی محبت کے آب زلال سے دھو چکے ہیں۔
امام حسینؑ نے نامہ پرھنے کے بعد فرمایا: خداوند متعال روز خوف تمہیں محفوظ رکھے، تمہیں عزیز رکھے اور روز تشنگی تمہیں سیراب فرمائے۔[8]
ابن نما، کی روایت میں آیا ہے کہ: جب مذکورہ شخص نے امام حسینؑ کی جانب جانے کی تیاری کی تو انہیں آنحضرت کی شہادت کی خبر دی گئی جس پر وہ آنحضرت کی مدد نہ کر سکنے پر گریہ وزاری کرتے رہے۔[9]
غور و فکر
امام حسینؑ نے بصرہ کے پانچ سرداروں اور بزرگان کو ایک نامہ لکھا، جسے طبری نے بیان کیا ہے۔[10]کہ امام حسینؑ نے مالک بن مسمع بکری، احنف بن قیس، منذر بن جارود، مسعود بن عمرو، قیس بن ہیشم اور عمرو بن عبید اللہ بن معمر کو نامہ لکھا۔
لیکن تاریخ میں کہیں پر یہ نہیں ملتا ہے کہ ان میں سے ایک سردار نے بھی امامؑ کو جواب دیا ہو یا یہ کہ اسے لوگوں کو بتا کر جواب دیا ہو۔ احنف بن قیس نے امامؑ کے جواب میں آپ کو صبر کی تلقین کی اور یہ کہ جو لوگ یقین نہیں رکھتے ہیں ان کو صحیح راستے سے نہ بھٹکائیں۔
منذر بن جارود نے نامہ اور قاصد کو ابن زیاد کے حوالے کیا اور قاصد کو قتل کروا دیا۔ مالک بن مسمع بکری اموی رجحان رکھتا تھا اور اس کا امام حسینؑ کو جواب دینے کے بارے تاریخ میں کہیں نہیں ملتا ہے، قیس بن ہیثم عثمان کا جانبدار تھا اور اس نے آخری عمر تک اہلبیت سے دوری اختیار کی رکھی ہے۔
قیس بن ہیثمی کے جواب کے بارے بھی تاریخ میں کہیں نہیں آیا ہے۔ عمر (یا عمرو) بن عبید اللہ کے بھی اہلبیتؑ سے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ بلکہ عبد اللہ ابن زبیر کی حکومت کے دوران اس کے ساتھ اس کے تعلقات تھے۔ وہ مختار کی جنگ میں ابن زبیر کی طرف سے میمنہ کا سر براہ تھا۔ پھر اس کے بعد عبد الملک بن مروان کا طر فدار رہا اور اس کا حکم مانتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے پاس دمشق چلا گیا اور وہیں پر سنہ ۸۲ ہجری کو طاعون کی بیماری سے مرگیا۔[11] اس کے جواب کے بارے تاریخ میں کوئی چیز نہیں ملتی ہے۔
مسعود بن عمر ازدی بھی اہل بیتؑ سے دور رہتا تھا اور ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ ابن زیاد کے قریبی دوستوں میں سے اور اس کا پشت پناہ تھا یہاں تک کہ امام حسینؑ کی شھادت کے بعد بھی اس کے جواب کے بارے میں کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔
اگر بصرہ کے پانچوں سرداروں میں سے کچھ اہل بیتؑ کے دشمن، کچھ دوستی میں شک و تردید کا شکار اور کچھ دوسرے دشمنوں کی دنیا پر نظریں جمائے ہوئے تھے تو ایسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے افراد کو امام حسینؑ کے نامہ لکھنے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے؟
شاید وہ عوامل جن کے باعث امامؑ نے بصرہ کے سرداروں کا نامہ لکھا وہ مندرجہ ذیل ہوں:
الف) اس زمانہ میں قبائل سے رابطہ کا ایک ہی راستہ تھا اور وہ ان کے سردار تھے چونکہ لوگ اپنے سرداروں کے علاوہ کوئی ارادہ نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ یزید بن مسعود نہشلی کی بنی تمیم، بنی سعد اور بنی حنظلہ میں تقریر، اس حقیقت کو نمایاں کر رہی ہے۔
ب) اہل بصرہ اور ان کے سرداروں پر اتمام حجت کرنا چونکہ بصرہ باقی شہروں کے مانند زیادہ عرصہ سے بنی امیہ کے کنٹرول میں نہیں تھا اگرچہ اس وقت ابن زیاد ان پر مسلط تھا اور پھر اس شہر کے کچھ سردار اہل بیت علیہم السّلام کی حقانیت سے آگاہ تھے اور ان کے دل، اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ دھڑکتے تھے۔
علاوہ بر آن، شیعوں کے سوا بنی امیہ کے دوسرے مخالف بھی مخفیانہ طور پر جلسات منعقد کیا کرتے۔ اس بنا پر امام حسینؑ کے اس اقدام سے ان سب پر حجت تمام ہو گئی اور اب کوئی بھی یہ عذر پیش نہیں کر سکتا تھا کہ چونکہ ہمیں معلوم نہیں تھا لہذا ہم فرزند رسولﷺ کی مدد نہیں کر سکے۔
ج) امام حسینؑ کا نامہ اس بات کا باعث بنا کہ وہ سردار جو دو دل تھے۔ آپؑ کے دشمن کے ساتھ نہ مل سکے اور یہ ان کے امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کرنے سے کئی درجہ بہتر تھا۔
د) اس نامہ کا ایک فائدہ، ان سرداروں کا امام حسینؑ کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہونا تھا جو اہل بیت علیہم السلام سے محبت رکھتے تھے جیسا کہ یزید بن مسعود نہشلی نے کیا۔
۲۔ امام حسینؑ نے بصرہ کے جن سرداروں کو نامہ لکھا، ان سرداروں میں سے جو بہترین موقف اختیار کرنے میں کامیاب ہوا، وہ یزید بن مسعود نہشلی ہے۔ جو اہل بیت علیہم السلام کے مقام سے آگاہ تھا۔ اس نے بنی تمیم، بنی حنظلہ اور بنی سعد کے درمیان تقریر کی اور انہیں امام حسینؑ کے نامہ سے آگاہ کیا اور پھر امام حسینؑ کو جواب لکھ کر حجاج بن بدر تمیمی سعدی کے ہمراہ بھیجا۔ وہ قاصد مکہ میں نامہ لیکر امامؑ کی خدمت میں پہنچا اور پھر آپ کے ہمراہ کربلا روانہ ہوکر جام شھادت نوش کیا۔
نتیجہ
امام حسینؑ کے اہل بصرہ کو لکھے جانے والے نامہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بصرہ کوفیوں کی نسبت قیام اور بنی امیہ کی حکومت سے چھٹکارے کے زیادہ مستحق تھے کیونکہ زیاد اور سمرہ جیسے اموی حکمرانوں نے ان پر مظالم کی حد کر دی تھی اور شاید یزید بن مسعود نہشلی کا بنی تمیم کے درمیان اس حقیقت کو آشکار کرنے کا مقصد اس ظلم و ستم کی یاد دہانی کروانا تھا۔ سید الشھداء امام حسینؑ دین اسلام کی حفاظت اور دشمن کو بے نقاب کرنے کے لئے جب مدینہ سے نکلے تو خطوط بصرہ کے سرداروں کو بھی لکھا تا کہ اتمام حجت کردی جائے۔ لیکن ان خطوط کے جواب میں کسی نے صبر کی تلقین دی، کسی نے کچھ اور بس، لیکن امام حسینؑ نے اپنے مقصد کو پورا کرتے ہوئے دشمن کے چہرہ پر پڑی نقاب کو الٹ دیا اور دین اسلام کو حیات بخشی۔
حوالہ جات
[1] سورہ مبارکہ روم: ۶۰
[2] ابن نما، مثیر الاحزان، ص۲۷
[3] ثقفی، الغارات، ج۳، ص ۳۸۴
[4] مفید، کتاب الجمل والنصرۃ سید العترۃ ،ص ۲۹۵
[5] ابن طاوؤس، اللھوف ،ص ۱۱۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۴، ص ۳۳۷
[6] ابن حجرعسقلانی،الاصابۃ،ج۳، ص ۴۸۰
[7] ابن اثیر، اسد الغابۃ، ج۱، ص ۵۵
[8] ابن طاوؤس، اللھوف، ص۱۱۰؛ ابن نماز، مثیر الاحزان، ص۲۷-۲۹
[9] ابن نما، مثیر الاحزان، ص۲۹
[10] طبری، تاریخ طبری، ج۳،ص ۲۸۰؛ ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۵، ص۴۲
[11] طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۳۷۷
منابع
۱- ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۹ ه ق.
۲- ابن اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، دار الاضواء، بیروت، لبنان، ۱۴۱۱ ه ق.
۳- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة في تمييز الصحابة، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۵ ه ق.
۴- ابن طاوؤس، علی بن موسی، اللھوف علی قتلی الطفوف، جھان، تھران، ۱۳۴۸ ه ش.
۵- ابن نما، جعفر بن محمد، مثیرالاحزان، دار العلوم، بیروت، لبنان، ۱۴۲۳ ه ق.
۶- ثقفی، ابراھیم بن محمد، الغارات، انجمن آثار ملی، تھران، ۱۳۹۵ ه ش.
۷- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، اساطیر، تھران، ۱۳۶۲ ه ش.
۸- مجلسی، بحار الانوار لدر الاخبار الائمۃ الاطھار، دار المعارف للمطبوعات، بیروت، لبنان، ۱۴۲۱ ه ق.
۹- مفید، محمد، کتاب الجمل والنصرۃ سید العترۃ فی حرب البصرۃ، مکتب الاعلام الاسلامی، مرکز النشر، قم، ایران، ۱۳۷۱ ه ش.
مضمون کا مآخذ
امام حسینؑ کے مکّی ایّام، شیخ نجم الدین طبسی، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، قم، ۱۳۹۲ ه ش.
بہت عمدہ مطالب
عالی
Bhut Acha