- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/02/02
- 0 رائ
خدا کے بارہ میں کسی نہ کسی طرح کا اعتقاد اور تصور، بلا شبہ ہر دین کی بنیاد و اساس میں داخل ہے یعنی ہر ایک کسی ایسے عامل یا عوامل پر یقین رکھتا ہے جو خلقت میں موثر اور نظام کائنات کو استوار رکھنے کا ذمہ دار نیز عبادت و پرستش کا سزوار ہے۔ لیکن آسمانی اور بشری ادیان میں اس موثر طاقت اور معبود کو مختلف ناموں اور صورتوں کے ساتھ مورد توجہ قرار دیا گیا ہے۔جہاں تک آسمانی ادیان کا تعلق ہے سبھی اس خدائے واحد و یگانہ پر اعتقاد رکھتے ہیں جس نے پیغمبران وحی کو بھیج کر اپنی عبادت و پرستش اور معرفت کا سامان فراہم کیا ہے وہ خدا جو تمام عالم کا خالق ومدبر اور ہر قسم کے شرک و تجسم اور افسانوی تصورات سے پاک و پاکیزہ ہے
اگر چہ اس افسوس ناک حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام سے قبل کے ان آسمانی مذاہب میں بھی خود ان کے ماننے والوں اور دینی رہنماؤں کی دست اندازیوں کے سبب رفتہ رفتہ اس خدائے واحد کو شرک آمیز خرافاتی تصویر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔چنانچہ ہم یہاں، دنیا کے مشہور و معروف ادیان و مذاہب خدا کے بارہ میں کس کس طرح کا عقیدہ و تصور رکھتے ہیں ان کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کر رہے ہیں۔ پہلے ہم ہندو مذہب میں خدا کا تصور پیش کرتے ہیں۔
ہندو ازم
بندو حضرات ایک قسم کی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ” تری مورتی “ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے (یہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے کافی قریب ہے) ان تین بڑے خداؤں کا تصور کچھ اس طرح ہے:
۱۔ براہمہ:۔ تخلیق کائنات کا ذمہ دار خدا
۲۔ وشنو:۔ کائنات کے نظم و بقا کا ذمہ دار خدا
۳۔ شیو:۔ کائنات کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار خدا
لیکن تعظیم و تقدیس اور عبادت و پرستش کے اعتبار سے یہ مقدس و محترم عمل اس قدر پست ترین سطح تک پہنچا دیا گیا کہ بہت کم ایسی مخلوق ہوں گی جن کو دلو ایک ہی بار سہی اہل ہنود نے مورد پرستش قرارنہ دیا ہو چنانچہ تاریخ ادیان کی کتب میں ہندو ؤں کے ہزاروں معبود کا ذکر ملتا ہے۔
اہل ہنود تناسخ و حلول کے عقیدہ کی بنیاد پر یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی روح بہت سے حیونات اور حشرات میں داخل ہو کر خدائی کے فرائض انجام دیتی ہے لہٰذا لا تعداد عبادت گاہوں (مندروں) اور مذہبی رسومات میں بعض حیوانات کو بھی جگہ دی گئی ہے اور ان میں خاص طور سے گائے کو بڑا ہم مقام حاصل ہے اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض ہندو مفکرین اور فلسفیوں نے کبھی اس پوری کائنات پر ایک حقیقت و احدہ کے محیط ہونے اور کبھی وحدت وجود کا تصور بھی پیش کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فکر اس دین سے قطعی مختلف ہے جو عملی طور پر ہندو عوام کے ہاتھوں میں موجود ہے۔
اور یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بودھوں اور جینیوں کے یہاں بھی وہ تصورات جو مقدس معبود کے بارے میں پائے جاتے ہیں ان پر مکمل طور پر ہندوؤں کی چھاپ بر قرار ہے حتی کہ خود گوتم بدھ جن کو ابتدا میں ایک مصلح دین کی حیثیت حاصل تھی وقت کے ساتھ مقدس معبود کی صورت حاصل کر چکے ہیں اور مختلف انداز سے ان کے مجسمے ان کے نہ صرف مورد تعظیم و تقدیس قرار پاتے ہیں بلکہ بودھ ان کی عبادت و پرستش بھی کرتے ہیں۔
کنفیوشس کے مکتب فکر کو چوں کہ ابتدا میں مذہبی عنوان حاصل نہیں تھا، لہٰذا ممکن ہے کہ اس کے ماننے والوں نے بھی ہندوؤں یا بودھوں کے اثرا ت قبول کرلئے ہوں۔ اسی لئے چینی عوام بھی بہت سی دوسری قوموں کی طرح ہر چیز میں روح اور جان کے پائے جانے کے قائل تھے اور خود کو خیر و شر روحوں کے درمیان محصور تصور کرتے اور ان کی تعظیم و تکریم بھی کرتے تھے اور ان کے یہاں تمام مظاہر قدرت و طبعیت حتیٰ کہ اباو اجداد کی بھر پور برستش ہوتی تھی۔
طبقہ بندی۔ (CASTE SYSTEM)
تقریبا پانچ سو سال قبل مسیح سے طبقاتی انظام ہندو آریائی معاشرہ کی نمایاں خصوصیات میں سے شمار کیا جانے لگا اور پورے ہندو معاشرہ کو چار طبقوں (ذات) میں تقسیم کر دیا گیا۔
1۔ برہمن:۔ (مذہبی پنڈت یا روحانی پیشوا
۲۔ چھتری:۔ (اشراف و امراء)
۳۔ ویش:۔ (کارو باری طبقہ)
۴۔ شودر:۔ (خدمت گزار ی ونوکر)
ان کے علاوہ دوسرے افراد اصلا معاشرہ سے خارج تصور کئے جاتے تھے اور وہ آریا (پاک و نجیب) کے مقابلہ میں پاریا(ملچھ اور ناپاک) شمار ہوتے تھے۔یہ ابدی طور پر ذلیل و ناپاک تھے۔
ان میں ہر طبقہ خود اپنے اندر کئی کئی ذاتوں میں منقسم ہو گیا اور ہر گروہ حقوق و امتیازات کے اعتبار سے بھی مختلف تھا ایک طبقہ کو دوسرے کسی طبقہ کے ساتھ معاشرت، ازدواج اور اختلاط و تعاون کا حق حاصل نہیں تھا۔اس طبقہ بندی کے وجود کی توجیہ ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کی بنیاد پر کی جاتی تھی یعنی وہ اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ مرنے کے بعد ہر شخص دنیا میں دوبارہ پلٹ کر آتا ہے چنانچہ جو شخص اپنی زندگی میں جس طرح کے اعمال انجام دیتا ہے اسی کے مطابق آئندہ کسی ادنی یا اعلیٰ طبقہ میں اس کو دوبارہ وجود حاصل ہوتا رہتا ہے تاکہ انسان اپنا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے پس اگر کسی کو پار یاؤں کے درمیان وجود حاصل ہو و یہ اس کے خود اپنے اعمال کی سزا ہے جو اسے بہر حال برداشت کرنی چاہئے تاکہ آئندہ زندگی میں اس کو کسی اعلیٰ طبقہ میں جگہ حاصل ہو سکے۔
اس طرح طبقہ بالا میں شمولیت کی موت کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہ تھی چنانچہ کسی کا اس طبقہ بندی کے خلاف اجتماعی عدالت کی برقراری کی کوشش کرنا اخلاق کے خلاف شمار کیا جاتا تھا۔
اس طبقاتی اختلاف کی جڑیں ہندو معاشرہ میں اتنی مضبوط اور گہری تھیں کہ مثال کے طور پر اگر ایک برہمن کسی قسم کے بھی جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکتی تھی لہٰذا اگر وہ کسی سے بھی ناراض اور غصہ ہوتا تو اسے با آسانی درمیان سے ہٹا سکتا تھا ، دینی و مذہبی کتب کے لکھنے پڑھنے حتیٰ کہ سننے کا حق برہمنوں سے مخصوص تھا۔ اگر کسی پست طبقہ کی کوئی فرد ان کتابوں کو سننے کی کوشش کرتی تو سزا کے طور پر اس کے کانوں میں سیسہ بھر دیا جاتا، تلاوت کی تو زبان قطعہ کر دی جاتی۔
بعض حالات میں نچلے طبقہ کے افراد کو کسی اعلیٰ طبقہ کی فرد سے ۲۴قدم اور برہمن سے ستر قدم سے زیادہ قریب آنے کی اجازت نہ تھی۔
پاریا اور ملچھ(ناپاک) افراد نہایت ہی ذلت و کس مپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے انھیں پست ترین کام اور خدمتیں انجام دینی پڑتیں ” منو قانون“ کے مطابق ان کو کتے اور سور کی حیثیت حاصل تھی ․ ہر جگہ حقیر و ذلیل تصور کئے جاتے اور نہ صرف یہ کہ ان کے بدن سے مس ہونا نجاست و ناپاکی کا باعث ہوتا بلکہ ان کا قریب سے گزرجانا بھی نجس ہوجانے کے لئے کافی شمار کیا جا تا تھا۔ بعض سڑکوں اور بازاروں سے ان کا گزرنا بھی ممنوع تھا نہ تو وہ لوگ عمومی کنووٴں سے پانی پی سکتے تھے اور نہ ہی کسی مندر کے قریب سے گزرسکتے تھے۔
البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس غیر انسانی رسم کی طویل تاریخ میں وقتاً فوقتاً اس کے خلاف آوازیں بھی اُٹھتی رہی ہیں اور نتیجہ کے طور پر اصلاحی اقدامات بھی ہوئے ہیں اور آخر کار نئے سماجی تعلقات ،غیر اقوامی سے ارتباط و معاشرت ، صنعتی زندگی کے تقاضوں اور مہاتماگاندی ، نیز دیگر افراد کی کوششوں سے آزاد ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے ۱۹۴۸ئمیں نجاست انسانی کے تصور کو سرکاری طور پر منسوخ کردیا۔
حیات بعد الموت:
انسانی اعمال کے انجام کے سلسلے میں ہندوؤں کا بنیادی نظریہ قانون عمل (کرما) کے ارد گرد گھومتا ہے۔اس قانون کے مطابق تمام انسانوں کی آئندہ زندگی ان کے کردار یا رفتار و گفتار کے مطابق ہوتی ہے۔اس دنیا میں جو جیسا کرتا ہے دوسری زندگی اسی کا نتیجہ ہوتی ہے ہر شخص کے اعمال و اقوال و افکار اس کی روح پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر وہی اعمال مجسم ہو کرتناسخ کی منزلوں میں (اینکارنیشن یا ہندوؤں کی زبان میں سام سارا) یعنی نئے وجود کے وقت کسی مناسب شکل میں ڈھل کر اسی مناسبت سے ایک نئے جسد و پیکر میں ظاہر ہوجاتے ہیں۔خاص طور پر بودھ مذہب کے بانی گوتم بدھ نے اس قانون عمل (کرما) کی توضیح کرتے ہوئے اس کو ایک عمومی اور ثابت و استوار قانون کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے ان کی نظر میں الٰہی عدل و انصاف یا تو بہ و شفاعت جیسی کوئی شئی اصلا وجود ہی نہیں رکھتی خود انسان کے اعمال و افکار ،رد عمل کے طور پر دوسری زندگی میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
اس منزل میں ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کے بارہ میں بھی وضاحت ضروری ہے۔ اہل ہنود کا خیال و اعتقاد یہ ہے کہ انسان کی آئندہ زندگی کا تعلق اسی دنیا سے ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ یکے بعد دیگر ے لامتناہی شکل میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک روح ہزاروں بار ایک انسانی پیکر سے دوسرے انسانی پیکر میں طبقات کے فرق کے ساتھ یا پھر کسی حیوان یا پست وجود کے پیکر میں مثلا کتے سانپ یا کیڑے مکوڑے کی شکل میں تبدیل ہوتی رہے اور یہ پیکر وجود اس کو اپنی گزشتہ زندگی کے اعمال کے نتیجہ میں ملتا رہے۔ ہاں کہیں کہیں استثنائی طور پر ممکن ہے کہ ایک روح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس آواگون (تناسخ) کے چکر سے نجات پاکر اعلیٰ علیین میں برھما کے ساتھ ملحق ہو کر اسی میں فنا ہو جائے یا اس کے بالعکس کسی پست ترین منزل میں پہنج کر تا ابد سرگرداں رہے۔ لیکن جہاں تک عام لوگوں کا مسئلہ ہے یہ قانون تناسخ اور ایک اور نئے روپ میں تجدید حیات ان کے اعمال کا نتیجہ بن کر ظاہر ہوتی رہتی ہے۔
یہاں اس نکتہ کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ ہندومذہب میں اصولی طور پر نجات (نیروان) حاصل کرنے کی جستجو بڑی اہمیت کی حامل ہے اس کو کبھی مقام فنا ،کبھی عالم سکون و خامُشی اور کبھی خواہشوں سے معمور قید و بند حیات سے مکمل طور پر رہائی پاجانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔گوتم بدھ نے اس موضوع پر بڑ ا زور دیا کہ جب انسان اپنے اندر اخلاقی خوبیاں درجہ کمال تک پہنچاکر نیروان حاصل کرلے ،پھر کسی نئے وجود میں پیدا ہونے (تناسخ) کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔گویا اگر آدمی کامل طور سے مقام تقویٰ و پر ہیز گاری پر فائز ہو جائے تو حقیقت مطلقہ سے ملحق ہو جاتا ہے اور روح فنائے مطلق و ابدی میں غرق ہو جاتی ہے نہیں تو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہو کر اس دنیا میں آتا رہے اور تکالیف زندگی برداشت کرتا رہے۔خواہشات کی غلامی سے آزاد ی حاصل کئے بغیر نیروان حاصل نہیں ہو سکتا۔
اہل ہنود کی مقدس کتابیں:
ہندوؤں کے اولین کتبی آثار ” وید “ کے نام سے مشہور ہےں جو دانش کے معنی میں ہے ،قدیم ہندوستان کے بارے میں تمام تر معلومات ویدوں کی ہی مرہون منت ہیں متعدد ویدوں میں سے صرف چار وید باقی رہ گئے ہیں:
۱۔ ریگو وید (حمد و ستائش کے گیتوں کا علم)
۲۔ سام وید (نغموں کا علم) وہ موزوںشدہ گیت جو برہمن قربانی اور دینی مراسم کی ادائیگی کے وقت پڑھاکرتے تھے۔
۳۔ یجوروید (قربانی کے طریقوں کا علم) دعا و اوراد اور عبادتوں کا مجموعہ۔
۴۔ اتھر وید (جادو ٹونے کے قاعدے اور منتر وں کا علم)
جب ساتویں صدی قبل مسیح میں وید وں کا دور تمام ہوا تو برہمنیت ،کو عروج حاصل ہوا۔برہمن معنوی اقتدار کے مالک بن گئے اور انھوں نے دھیرے دھیرے برہمنا (برہمنوں کی مقدس تفاسیر کے متون) کہ جس میں ہندوؤں کے دینی پیشواؤں کے لئے مذہبی اعمال وعبادات اور سحر و جادو کے اصول و قواعد بیان ہوئے تھے، کی تدوین و تکمیل شروع کر دی جو مختلف دعاؤں مقالوں اور قربانی کے طور طریقوں پر مشتمل ایک بہت بڑا مجموعہ ہے۔ در اصل یہ مجموعہ برہمنوں کے مختلف طبقات اور متعدد و مکاتب کے دینی متون کو تشکیل دیتا ہے اس کے بعض ٹکڑے بے سر و پا باتوں پر مشتمل ہیں جن کی بار بار تکرار کی گئی ہے۔ اگر چہ اس کے بعض دوسرے حصوں میں قوم یہود کے مناسک و عبادات کا بھی پتہ ملتا ہے۔ بہر حال یہ مجموعہ خدا کے بارے میں کئی نوعیت کے عقیدے پیش کرتا ہے جو رفتہ رفتہ وحدت عالم و جود اور عقیدہ توحید کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔۔۔
اپنشد: (علمی مجلسوں میں حاضری)
فلسفیوں کے خفیہ محاورات اور ہندو عرفان و فلسفہ کے بزرگ ترین آثار میں سے ایک مذہبی کتاب ہے یہ مجموعہ تین چار صدیوں کے دوران تیسری صدی قبل مسیح کے آخرتک لکھا گیا ہے۔اور کسی حد تک” برہمنا“کے مجموعہ سے ہی وابستہ ہے۔غالبا اسے زبانی یاد کرنے کے لئے تدوین کیا گیا ہے۔اگرچہ یہ تکرار مکررات سے خالی نہیں ہے پھر بھی معانی کی گہرائی میں کمی پیدا ہوئی۔تقریبا دو ،تین ہزار سال تک ہندوستان کی عوامی زندگی اور فلسفہ و مذہب میں اپنشدوں کا پورا اثر و رسوخ رہا ہے۔یہ مجموعہ بھی اور مجموعہ برہمنابھی در حقیقت ان سوالوں کے جواب اور تشریح و تفسیر میں جو ویدوں خصوصا ” ریگووید“ میں دنیا کی حقیقت ،انسانی حیات اور اعمال و افکار انسانی سے متعلق اٹھا کر بلا جواب چھوڑ دئے گئے تھے۔ایک بات جو تقریبا پورے اپنشد وں میںپھیلی نظر آتی ہے وہ یہ کہ ساری چیزیں چاہے وہ کسی بھی عنصر سے تعلق رکھتی ہوں دریائے حقیقت و وحدت میں غوطہ زن ہیں اور وہ عالم محسوسات سے مافوق، ذاتی غیر محدود اور قائم بالذات ہے اور وہ حق ہے اور بس۔
اس سلسلہٴ کتب کی تقریبا ۱۵۰ کتابیں موجود ہیں جن میں پچاس جلدوں کا فارسی ترجمہ ہندوستان میں مغل شاہزادہ محمد دارا شکوہ نے آج سے تین سو سال قبل کیا تھا بعد کے محققین نے ان آثار کے سلسلہ میں بہت کافی تتبع کیا ہے۔
بودھ: خود گوتم بدھ نے اپنی زندگی میں کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے بعد ان کے اقوال و نصائح تین کتابوں میں جمع کر دیئے گئے جن کو تری پتا کی (TRIPITAKI) تین چھوٹی زنبیلوں۔ کے نام سے بدھ مت کی مقدس آئین کتاب کی حیثیت دے دی گئی۔ان تین علمی خزانوں کے علاوہ کچھ دوسری کتابیں گوتم بدھ کی زندگی اور تعلیمات کے سلسلہ میں لکھی گئی ہیں ان ہی میں سے ایک جا تکا بھی ہے جس میں گوتم بدھ کی سابقہ زندگی کے ادوار کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
گوتم بدھ کے تعلیمات:
نیکی کے ذریعہ نیکی اور بدی کے ذریعہ بدی ہی وجود میں آتی ہے، یہ زندگی کا اولین قانون ہے۔اور اس سے نتیجہ نکالتے ہیں: اگر آدمی اچھا کام کرے تو اس کی جزا بھی اچھی ملے گی اور اور جہاں کسی برائی میں ملوث ہو ا اس کے برے نتائج میں گرفتار ہونا پڑے گا (اور یہی ہر کام کا قدرتی اثر ہے) ہندوؤں کا کوئی خدا اس مسئلہ میںدخل اندازی نہیں کر سکتا (لہٰذا ان خداؤں کے مجسموں کے سامنے قربانی، دعا اور حمد و ستائش فضول ہے(
وہ کہتے ہیں: دو چیزوں سے بچنا چاہئے۔
۱۔ وہ زندگی جو لذتوں سے معمور ہو۔
۲۔ وہ زندگی جو رنج و آلام سے پر ہو (ان کے بجائے) ایک درمیانی راہ انتخاب کرنی چاہئے (کیوں کہ) لذت کی فراوانی خود غرضی و فرومائگی کو جنم دیتی ہے اور رنج و آلام یا ضرورت سے زیادہ ریاضت ،خود آزادی کا سبب ہے۔ان دونوں سے مقابلہ کرنا چاہئے اور راہ اعتدال ،جو زندگی کے آٹھ اصولوں پر کاربند ہو جانے کا نام ہے ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے
آٹھ اصول
کچھ اس طرح ہیں:۔
(1) صحیح ایمان۔
(2) صحیح نیت:۔ یعنی جسمانی لذتوں کے ترک کر دینے پر ایمان رکھنا یا دوسروں کے تئیں حقیقی محبت رکھنا ،حیوانات کو اذیت نہ پہنچانا۔اور آرزوؤں سے دست بردار ہونا۔
(3) سچی باتیں:۔یعنی جھوٹ او بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا۔
(4) اچھا کردار:۔ یعنی غلط اور ناپسند یدہ امور۔قتل و خوں ریزی ،چوری اور بے ایمانی ،مختصر یہ کہ ہر وہ کام جو موجب پشیمانی ہو ان سے دور رہنا۔
(5) صحیح معاش:۔ یعنی آدمی کو زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے صحیح پیشہ اختیار کرنا چاہئے۔
(6) جائز سعی وکوشش:۔ ہر شخص اپنی جسمانی و عقلی قوتوں کو بروے کار لائے تاکہ حق کو باطل اور نقصان دہ خواہشات کو مفید خواہشوں سے تمیز دے سکے۔
(7) صحیح فکر:۔ یعنی اپنے افکار کو پسندیدہ و منظم عادات سے آراستہ کرے اور زندگی کے شب و روز اعلیٰ انسانی مقاصد کی فکر میں بسر کرے۔
(8) درستمراقبہ:۔ اس طرح حالات پر قابو حاصل کرکے قدرت مطلقہ کے اعلیٰ مقام اور سکون کی حقیقی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔
کنفیوشس کے تعلیمات:
اس آئین میں پانچ اصول اخلاقی یوں بیان کئے گئے ہیں۔
(1) انسانیت:۔ یعنی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ رحم و انصاف کرنا۔
(2) عدالت اور ہر ایک کا حق تسلیم کرنا۔
(3) مذہب کے مقرر کردہ قوانین کی اطاعت کرنا تاکہ سب کی بھلائی ہو اور قوانین کی نظر میں سب برابر ہیں۔
(4) سچائی اور صحت
(5) صداقت اور حسن نیت۔
اسی طرح کنفیوشس کہتا ہے:۔
میں نے قید خانوں میں جھانک کر دیکھا تو معلوم ہو ا کہ وہاں تنگدست و بے نوا افراد اور ان کی اولادوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ تمام کے قیدی جاہل و نادان ہے۔ اس طرح میں سمجھا کہ تنگدستی و نادانی آدمی کو جرم اور قانون شکنی پر مجبور کرتی ہے۔ اگر غریبی اور جہالت کا خاتمہ ممکن ہو سکے تو جرم و گناہ کا وجود نظر نہ آئے گا۔
اور اس کے بعد لوگوں کی تعلیم و تربیت اور مناسب پیشے وجود میں لانے کے اصول و دستور پیش کرتا ہے۔
نیز کہتا ہے: عوام نیک کردار حکمرانوں کے محتاج ہیں اگر حاکم بدکار ہوجائیں عوام بھی بدکار اور فاسد الخیال ہو جائیں گے، لیکن اگر حاکم صحیح راہ اختیار کریں عوام بھی ان کی پیروی اختیار کرلیں گے۔
اسی حقیقت کے پیش نظر جو چیز خود تمھیں ناپسند ہو دوسروں کے لئے پسند نہ کرو۔