- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/20
- 0 رائ
حضرت بی بی زینب(س) کی پاک شخصیت کے تاریخی پہلو
دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی تحفظ و پاسداری
بی بی زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھا تھا کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھا ہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کر رہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی حسین کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہو گئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کا پورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا۔
بی بی کا علم و تقوی
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس ہو گی اس کا علم و تقوی کتنا بلند و بالا ہو گا۔ جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی ہیں، لیکن ہماری عورتوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکیں۔
ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع ہو گئیں۔اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معرفت اللہ سے مستفیض فرمائیں۔ زینب نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں ہی خواتین کی کثیر تعداد علوم اللہ سے فیضیاب ہونے لگی۔ آپ ہر روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں۔
تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا” اور ” عقیلۂ بنی ہاشم ” جیسے ناموں سے بھی یاد کرتی ہے۔
کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مرد و زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں ہو رہی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں ہو رہی ہیں جس کا باپ “راسخون فی العلم ” جس کا باپ باب شہر علم ہے جس کا باپ استاد ملائکہ ہے۔
جذبہ جہاد و ایثار سے سرشار بیٹی
حضرت زینب نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سر بلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئے جاوداں بنا دیا۔ جناب زینب کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتا ہے۔
فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر
اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیاز ہے صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز استعمال نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے۔
سالار حق و حقیقت
جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کیے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کر کے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سر دربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کر کے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کیے ہیں۔
انقلابی تدبر و تفکر
باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے شرابی و زناکار حکمران یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کر دیا۔
بے مثال عالمہ اور صبر و استقامت کی انتہا
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب س) عالمہ غیر معلمہ ہیں اور ایسی دانا کہ آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں ہے۔
زینب کی حشمت و عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں خالق کائنات نے علم و دانش سے سرفراز فرمایا تھا۔
جناب زینب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کی عظیم دولت و نعمت سے بھی بہرہ مند تھی زینب بنت علی تاریخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفریں کردار کا دوسرا نام ھے۔
زینب نے اپنے عظیم کردار سے آمریت کو بے نقاب کیا ظلم و استبداد کی قلعی کھول دی اور فانی دنیا پر قربان ہونے والوں کو آخرت کی ابدیت نواز حقیقت کا پاکیزہ چہرہ دیکھایا، صبر و استقامت کا کوہ گراں بن کر علی کی بیٹی نے ایسا کردار پیش کیا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا۔
جناب زینب کو علی و فاطمہ کے معصوم کردار ورثے میں ملے امام حسن کا حسن و تدبیر جہاں زینب کے احساس عظمت کی بنیاد بنا وہاں امام حسین کا عزم و استقلال علی کی بیٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گیا، تاریخ اسلام میں زینب نے ایک منفرد مقام پایا اور ایسا عظیم کارنامہ سر انجام دیا جو رہتی دنیا تک دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ و اسوہ حسنہ بن گیا۔
زینب بنت علی(ع) تاریخ اسلام میں اپنی ایک مخصوص انفرادیت ہے اور واقعہ کربلا میں آپ کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسین کے مقدس مشن کی تکمیل کو یقینی بنایا۔ آپ نے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا تحفظ و پاسداری میں اپنا کردار اس طرح ادا کیا کہ جیسے ابو طالب(ع) رسول اللہ(ص) کی پرورش میں اپنے بھتیجے کے تحفظ کے لیے اپنی اولاد کو نچھاور کرنا پسند کرتے تھے کیونکہ ان کا ایک مقصد تھا کہ محمد بچ جائے وارث اسلام بچ جائے بالکل اسی طرح زینب کا حال یہ کہ اسلام بچ جائے دین بچ جائے چاہے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔
تاریخ کربلا اور انقلاب زینبی
تاریخ کربلا اور انقلاب زینبی(ع) میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جسکے قافلہ سالار امام حسین تھے جس کے حامی عباس(ع) علی اکبر(ع) بنی ہاشم اور امام حسین(ع) کے باوفا اصحاب تھے، وہ غیور مرد جن پر اہل بیت(ع) حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اہل بیت(ع) کو سکون تھا۔
ایسی حمایت و نگہبانی تھی کہ سید شہدا(ع) کی حیات کے آخری لمحات تک دشمن خیموں کے پاس تک نہ بھٹک سکا، جنگ کے دوران ابو عبد اللہ الحسین(ع) کی، لاحول ولا قوۃ الا باللہ کی آواز سے ان کی ڈہارس بندھی ہوئی تھی حسین(ع) اس طرح انھیں تسلی دے رہے تھے۔
بہترین عزیزوں کی شہادت پر امام زین العابدین(ع) کے بعد اس قافلہ کی بزرگ خاندان پیغمبر(ص) سے ایک خاتون ہے کہ جس کے عزم و استقلال کے سامنے پہاڑ پشیمان، جس کے صبر پر ملائکہ محو حیرت ہیں، یہ علی(ع) کی بیٹی ہے، فاطمہ(س) کی لخت جگر ہے۔ بنی امیہ کے ظلم کے قصروں کی بنیاد ہلانے والی ہے، ان کو پشیمان و سرنگوں کرنے والی ہے جناب زینب تھیں۔
یہ وہی سیدہ زینب(س) ہے جو اپنے امام(ع) کے حکم سے اولاد فاطمہ(س) کے قافلہ کی سرپرستی کرتی ہیں، بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد امام حسین(ع) اور ان کے فداکار اصحاب کے خونی پیغام کو لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔
عباس محمود عقاد مصر کے معروف مصنف نے لکھا ہے کہ جب زینب نے سنا کہ ابن زیاد نے علی ابن حسین کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے، تو اس نے بے درنگ فوری خود کو اپنے وقت کے امام اور اپنے بھائی کے بیٹے کے پاس پہنچایا اور ابن زیاد کو اس کے قتل کرنے سے روکا، اس جرات اور شجاعت نے ابن زیاد اور اس کے دربار میں موجود ہر بندے کو حیران کر دیا۔ یقینی طور پر اگر زینب کی یہ جرات اور شجاعت نہ ہوتی تو نزدیک تھا کہ امام حسین کی نسل کی آخری یادگار بھی ختم ہو جاتی۔
محمدجواد مغنیہ لبنان کے متفکر نے لکھا ہے کہ:
علی(ع) نے علوم کو رسول خدا بغیر کسی واسطے کے حاصل کیا تھا اور ان علوم کو اپنی اولاد کو سیکھایا تھا اور ہم تک یہ تمام علوم علی(ع) کی اولاد کے ذریعے سے پہنچے ہیں۔ اسی وجہ سے بنی امیہ نے چاہا کہ نسل علی ختم کر دیں اور انکا کوئی بھی اثر باقی نہ رہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ: شمر نے کہا تھا کہ امیر عبید اللہ کا فرمان ہے کہ: حسین کی تمام اولاد کو قتل کیا جائے اور کوئی بھی زندہ نہ بچے۔
شمر نے یہ بات اس وقت کہی تھی کہ جب علی ابن حسین کو قتل کرنے کے لیے تلوار کو نیام سے نکالا ہوا تھا، اسی وقت زینب سامنے آئی اور کہا کہ: اگر اسکو قتل کرنا ہے تو پہلے مجھے بھی ساتھ قتل کرنا ہو گا۔
شیخ صدوق نے لکھا ہے کہ: حضرت زینب کو خاص نیابت امام حسین کی طرف سے ملی ہوئی تھی، اسی لیے لوگ حلال و حرام کے مسائل میں اس سے رجوع کیا کرتے تھے، لیکن جب امام سجاد کی صحت بہتر ہو گئی تو پھر وہ یہ کام امام وقت ہونے کی وجہ سے انجام دیتے تھے۔
علامہ مامقانی نے كتاب شریف تنقیح المقال میں لکھا ہے کہ:
حضرت زینب، امام کی مقام عصمت پر فائز تھیں اور اگر یہ مقام ان کے پاس نہ ہوتا تو امام معصوم امام حسین بالکل انکو امامت اور راہنمائی کا فریضہ نہ سونپتے، یعنی جب امام سجاد بیمار تھے، تمام امور امامت اور لوگوں کے حلال حرام کے مسائل بی بی زینب ہی انجام دیتی تھیں، لھذا یہ علامت ہے کہ وہ نائب امام ہونے کے خاص مقام پر فائز تھیں۔
احتجاج طبرسی میں ذکر ہوا ہے کہ: جب علی(ع) کی بیٹی نے لوگوں کو خاموش ہونے کے لیے اشارہ کیا تو، اسی اشارے کی وجہ سے سانس لوگوں نے سینوں میں رک کر رہ گئے اور حتی اونٹوں کی گھنٹیوں کی آوازیں بھی بند ہو گئی۔
كمال السید، نے كتاب “زنی بہ نام زینب” میں لکھا ہے کہ: جب رسول خدا نے دنیا میں آنے کے بعد اپنی نواسی کو ہاتھوں پر اٹھایا، اسکو چوم کر فرمایا:
حاضر اور غائب تمام لوگوں تک یہ بات پہنچا دو کہ میری اس بیٹی کا احترام کریں، کیونکہ اس کا احترام بالکل خدیجہ کبری کی طرح ہے۔
حضرت زینب(س) رسول خدا کے خاندان کے ان افراد میں سے ہیں کہ جن کا نام خود خداوند نے انتخاب کیا ہے۔
کوفہ کی طرف انقلابی حرکت
11 محرم سن 61 ہجری کو اہل بیت(ع) کے اسیروں کا قافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا، اہل بیت(ع) کے امور کی بھاگ دوڑ امام زین العابدین(ع) کے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ امام ہیں اور ان کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے، قافلہ سالار زینب کبری(س) ہیں، جو امام زین العابدین(ع) کی قریب ترین ہیں اور خواتین میں سب سے بزرگ ہیں۔
راہ حق و حقیقت میں کربلا کی فرض شناس خواتین نے امام عالی مقام(ع) کی بہن حضرت زینب کبری(ع) کی قیادت میں ایمان و اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل اور شجاعت و استقامت کے وہ جوہر پیش کیے ہیں۔ جس کی مثال تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بھی ملنا ناممکن ہے۔
کربلا کی شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔ وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ آیا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرا دئیے۔ حضرت زینب(س) اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم(ع)، رقیہ ( ع)، رباب(ع)، ام لیلی(ع)، ام فروہ(ع) سکینہ(ع)، فاطمہ(ع) اور عاتکہ(ع) نیز امام(ع) کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کیں۔
ظاہر ہے کہ ان خواتین اور بچوں کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے کہ جنہوں نے عاشور کے دن رنج و مشقت اور غم برداشت کیے تھے، دل خراش واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اپنے عزیزوں کے داغ اٹھاۓ تھے اور اب وہ بے رحم دشمنوں کے محاصرہ میں ہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کافر قیدیوں کی طرح لے جایا جا رہا ہے۔
خواتین کے احساس و جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور صورت حال میں امام زین العابدین(ع) کی جان کی حفاظت بھی کرنا ہے جو کہ قافلہ میں زینب کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے وہ پیغام کربلا ہے کہ جو آپ کے ذمے ہے، لیکن زینب کے حوصلہ میں حد سے زیادہ استقامت اور مقاومت ہے کہ وہ بڑی مشکلوں اور مصائب کے وحشتناک طوفانوں سے ہرگز نہ گھبرائیں اور مقصد امام حسین(ع) کو زندہ جاوید بنانے میں حضرت زینب نے تاریخی اور مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔
شام کی طرف انقلابی حرکت
اسیروں کے قافلہ کو چند روز ابن زیاد کی بامشقت قید میں رکھ کر شام کی طرف روانہ کیا۔ جس وقت سے شام مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تھا اس وقت ہی سے وہاں خالد بن ولید اور معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگ حاکم رہے تھے، اس علاقے کے لوگوں کو نہ پیغمبر(ص) کی صحبت میسر ہوئی اور نہ وہ آپ کے اصحاب کی روش سے واقف ہو سکے،رسول خدا کہ چند صحابی جو اس سر زمین پر جا کر آباد ہوئے تھے یہ پراگندگی کی زندگی بسر کرتے تھے عوام میں ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا، نتیجہ میں وہاں کے مسلمان معاویہ ابن ابی سفیان کے کردار اور اس کے طرز زندگی کو ہی سنت اسلام سمجھتے تھے۔
اسیروں کے قافلے کے شام میں داخل ہونے کے وقت ایسے ہی لوگوں نے شہر شام کو جشن و سرور سے معمور کر رکھا تھا، یزید نے اپنے محل میں مجلس سجا رکھی تھی، اس کے ہم قماش چاروں طرف بیٹھے تھے تا کہ سارے مل کر اس کامیابی کا جشن منائیں۔
منبع https://www.valiasr-aj.com/