- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/19
- 0 رائ
حضرت بی بی زینب کبری کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو سیدہ زینب ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے در و بام کو روشن کئے ہوئے ہیں، اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پرچم لہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیزہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ہیں۔
عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ و ہاجرہ و خدیجہ اور طیب و طاہر صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا(س) کی عظیم شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ہیں وہاں جناب زینب بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بن کر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ اور جھوٹ ایمان و کفر اور عدل و ظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔
کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبری ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں۔ انہیں سیدہ زینب نے کربلا کی سر زمین پر کسب کمال میں وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں۔
سیدہ زینب کی ولادت اور رسول خدا(ص) کی خوشحالی
حضرت زینب امام علی(ع) اور حضرت فاطمہ(س) کی بیٹی یعنی حضرت محمد(ص) کی نواسی تھیں۔ وہ 5 جمادی الاول 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
جناب سیدہ کی پیدائش پر پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ گئی۔ یوں جیسے رسول خدا کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا(س) کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا۔ خود نبی اکرم سفر میں تھے علی ابن ابی طالب(ع) نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے۔
مولا علی سب سے زیادہ رسول اسلام کی آمد کے منتظر تھے کہ دیکھیں حضور اکرم اپنی نواسی کے لیے کیا نام منتخب کرتے ہیں۔ رسول اسلام جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ کے دروازے پر سلام کر کے رخصت ہوتے تھے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے در سیدہ پر آ کر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے۔
آج سب، جیسے ہی سفر سے پلٹے سب سے پہلے فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی(ع) نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا۔ بچی کو دیکھ کر رسول خدا نے گریہ کرنا شروع کر دیا۔ کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ: جبرائیل امین نے مجھے بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہو گی۔
اس کے بعد آپ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ:
یہ میری بچی خدیجۃ الکبری کی من و عن (ہو بہو) تصویر ہے۔
روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا: خدا نے اس بچی کا نام ” زینب ” منتخب کیا ہے۔
اس لیے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں ” زین ” معنی زینت اور “اب”معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں۔ رسول خدا نے جناب سیدہ زینب کو اپنے سینہ اقدس سے لگا لیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی(ع) کے رخسار مبارک پر رکھ کر اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسو چہرہ مبارک پر جاری ہو گئے۔ کیونکہ وہ جناب سیدہ زینب پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے۔
کتاب قاموس اللغہ میں آیا ہے کہ: لفظ زینب اصل میں وہی زین اب ہے کہ جسکا معنی اپنے باپ کی زینت ہے،
تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ: بلند مقام فرشتے جناب جبرائیل نے اس مبارک نام کو خداوند کی طرف سے انتخاب کیا تھا اور کتنا خوبصورت نام ہے،
بی بی زینب کبری کا بچپن
سیدہ زینب کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام(ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں۔
نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا، عصمت کبری فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گیئں۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز توجہ کا شرف بخشا جو زینب کی پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلی کا عہد طفولیت تکمیل انسانی کی ایک مثال بن گیا۔
امام سجاد کی زبان سے بی بی زینب کے علم لدنی کا مقام بیان ہونا:
اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَة
اے پھوپھی اماں، آپ الحمد للہ ایسی خاتون ہیں کہ جسکو کسی نے پڑھایا نہیں ہے، اور آپ ایسی عاقل خاتون ہیں کہ کسی نے آپ کو عقل و شعور نہیں دیا۔(الاحتجاج، ج2،ص27)
حضرت زینب(س) کا عفت، حجاب و حیاء
نقل ہوا ہے کہ: امیر المؤمنین علی(ع) کے کوفہ میں ایک ہمسائے نے کہا کہ: میں پانچ سال تک علی کا کوفہ میں ہمسایہ تھا، میں نے اس مدت میں علی کی بیٹی زینب کا نام سنت تھا لیکن اس مدت میں اسکو اور اسکی آواز تک کو بالکل نہیں سنا تھا، کیونکہ وہ بالکل گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی۔
حضرت زینب(س) کی تربیت
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام اور علی و فاطمہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیر معمولی کردار بن گیا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ غیر معلمہ اور فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات بکھیرتا چراغ بن گئیں۔
جب بھی ہم جناب زینب کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف حصوں پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں مہکتی اور مسکراتی تین چار ماہ کی ایک معصوم بچی ہو چاہے وہ کوفہ میں خلیفۂ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی ” عقیلۂ قریش ” ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی حسین غریب کی شریک و پشت پناہ، فاتح کوفہ و شام ہو ہر جگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے کلیدی کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہیں۔
روایت کے مطابق حضرت زینب ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ علی ابن ابی طالب ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ زہرا سے اپنے مہمان کے لیے کھانے کی فرمائش کی، معصومہ عالم نے عرض کی یا ابا الحسن! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب کے لئے رکھی ہوئی ہے یہ سن کر علی و فاطمہ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اور مسکراتے ہوئے کہا: مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھا لوں گی اور ماں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں: ” تم واقعا زینب ہو”،
جناب زینب کو بھی بچپن میں ہی نانا رسول خدا کے سایہ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی درد و مصائب میں مبتلا مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کر دیا۔
حضرت زینب کو حضرت محمد(ص) کی زیارت کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ جب وہ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا کا انتقال ہو گیا۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد انکی مادر گرامی حضرت فاطمہ بھی انتقال فرما گئیں۔
اور جناب فاطمہ زہرا(س) کی رحلت کے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کے تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا” اور ” عقیلۂ بنی ہاشم ” جیسے خطاب عطا کرنے پر مجبور ہو گئی۔
حضرت زینب نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھا تھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں۔
حضرت بی بی زینب(س) کی ازدواجی زندگی
حضرت علی(ع) نے اپنی بیٹی جناب زینب کبری کی شادی اپنے بھتیجے جناب عبد اللہ ابن جعفر سےکی تھی، جن کی کفالت و تربیت، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم(ص) نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب نے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی۔
روایت میں ہے کہ حضرت علی نے عبد اللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے اگر وہ اپنے بھائی امام حسین کے ساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہوں گی۔
چنانچہ جناب عبد اللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی پشت پناہی کے عمل میں جناب زینب کی حمایت اور نصرت و مدد کی حضرت علی کی شہادت کے بعد جناب زینب کو اپنے شوہر کے گھر میں بھی آرام و آسایش کی زندگی میسر تھی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے حضرت عون اور حضرت محمد کربلا میں امام حسین کے ہمراہ شہید ہو گئے۔
بی بی زینب(س) کی اپنے بھائی امام حسین(ع) سے محبت
جناب عبد اللہ اقتصادی اعتبار سے اچھے تھے انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب کے لئے مہیا کر رکھی تھیں۔ وہ جانتے تھے جناب زینب کو اپنے بھائیوں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔
خاص طور پر جناب زینب امام حسین سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں میں پرورش پا رہی تھی چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن جناب سیدہ فاطمہ نے پیغمبر اسلام سے عرض کی کہ بابا! مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین کو ایک لمحے کے لیے نہیں دیکھتی تو بے چین ہو جاتی ہے، اس وقت رسول اسلام نے فرمایا تھا: بیٹی! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہو گی”۔ یہ سنتے ہی جناب زینب عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کر دی اور جب امام حسین کے ساتھ ہر محاز پر شریک سفر رہیں۔
ثانی زہرا کو بچپن ہی سے اپنے بے مثال بھائی حضرت امام حسین سے خصوصی محبت و الفت تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بچپن میں بھی اگر آپ کو تھوڑی دیر کے لیے امام حسین کے چہرے کی زیارت نصیب نہ ہوتی تو آپ پر گریہ طاری ہو جاتا تھا۔ یہ محبت و الفت بچپن سے کربلا تک اس درجہ کمال کو پہنچ چکی تھی جہاں یک جان دو قالب کی صورت پیدا ہو گئی اور حضرت امام حسین جیسی شخصیت نے واقعۂ کربلا کے دوران حضرت زینب سے مشاورت فرمائی۔ یہی سبب ہے کہ واقعۂ کربلا میں آپ نے امام حسین کی پیروی میں نہ صرف بہ تمام و کمال پیش آنے والے تمام مصائب کو برداشت کیا، بلکہ اپنے دو بیٹوں حضرت عون و محمد کو بھی راہِ خدا میں فدا کیا۔ اور اس کے بعد کربلا سے کوفہ و شام تک بے پردگی کے عالم میں بھائی کے پیغام کو عام کرتی چلی گئیں، اسی لیے آپ کو شریکۃ الحسین بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بی بی زینب کو ام المصائب بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کیوں کہ آپ نے مسلسل غم و آلام نہایت قریب سے دیکھے۔ اول اول پانچ برس کی عمر میں حضور ختمی مرتبت کی رحلت پر گھر میں صفِ ماتم دیکھی۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ بی بی فاطمۃ الزہرا کی وفات پر غم و الم کا شکار ہوئیں۔ پھر اپنے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالب کی شہادت کا غم سہا، اس کے بعد بڑے بھائی امام حسن کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور آخر میں اپنے چہیتے برادر حضرت امام حسین کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ حضرت امام حسین سے پہلے کے تمام واقعات و حادثات کا مشاہدہ کربلا کے لیے آپ کا تربیتی اثاثہ قرار پایا اور یومِ عاشور آپ نے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بیٹوں کو خون میں غلطاں دیکھا، مگر ﷲ کے شکر کے سوا آپ کی زبان مبارک سے کوئی اور لفظ نہ نکلا۔
حضرت زینب کی طبیعت میں عبادت و پرہیزگاری کا عنصر نہایت غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام غم و آلام پوری خندہ پیشانی سے سہتی رہیں، مگر عبادات خداوند میں کوئی کمی نہیں آئی۔
امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں: میری پھوپھی نے تمام سفر و اسیری کے دوران کبھی نماز قضا نہ کی اور وقت رخصت آخر امام حسین نے بھی اپنی بہن زینب سے فرمایا تھا کہ: اے بہن! مجھے اپنی نمازِ شب میں فراموش نہ کرنا۔
یہ سند ہے کہ حضرت زینب نہایت عبادت گزار اور پرہیزگار شخصیت تھیں۔ آپ کو ثانیٔ زہرا کہنے کی وجہ غالباً یہی ہے کہ آپ حسبی و نسبی اعتبار سے کئی منازل میں حضرت فاطمۃالزہرا سے مماثلت رکھتی ہیں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا نے آغوشِ رسالت میں پرورش پائی تو حضرت زینب کو آغوشِ رسالت و ولایت میسر آئی۔ حضرت فاطمۃ الزہرا کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری ہیں تو حضرت زینب کی والدہ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ہیں۔ حضرت خدیجہ کے دو فرزند راہِ خدا میں شہید ہوئے تو حضرت زینب نے بھی اپنے دو بیٹے راہِ خدا میں فدا کیے۔
11محرم الحرام کو یومِ زینب کا مقام حاصل ہوا اور آپ پر مصائب کی انتہا ہو گئی۔ راہِ کوفہ و شام کا سر برہنہ سفر آپ کے مصائب کی ہمت و جرأت کا امتحان ثابت ہوا۔ ﷲ اکبر! زینب اس مقام سے بھی سرخرو گزریں اور کوفہ و شام میں آپ کے بھرپور خطبات ثابت کرتے ہیں کہ آپ نے بغیر کسی گھبراہٹ و خوف کے کبھی راہِ کوفہ میں تو کبھی دربارِ یزید میں نہایت جرأت و شجاعت کے ساتھ ظالم کے ظلم اور مظلوم کے حق کی وضاحت فرمائی۔ ان خطبوں کی علمیت، ان کی اہمیت اور اندازِ خطابت حضرت علی کے خطبات کی یاد دلاتا ہے اور ان سے حضرت زینب کی علمیت و تدبر کی عکاسی ہوتی ہے۔
واقعہ کربلا میں حضرت زینب کی ذاتِ اقدس محض ایک بہن کی نہیں ہے، صرف ایک ماں کی نہیں ہے، صرف ایک مجاہدہ اور خطیبہ کی نہیں ہے، بلکہ زینب نام ہے اس شخصیت کا جس نے کربلا میں لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے۔ کربلا میں آپ کی شخصیت سے قریب قریب ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہدایت آفریں کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔
جناب زینب وہ پاکیزہ سیرت خاتون ہیں جو اپنے والد حضرت علی(ع) اور اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کی سیرت و گفتار پر صدق دل سے ایمان رکھتی تھیں اور اخلاق و آداب میں مہربان، صادق اور مہذب و مؤدب خاتون تھیں وہ دوسروں کی جان کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو خطروں میں ڈال دیا کرتی تھیں اور تمام میدانوں میں دوسروں کو خود پر مقدم رکھتی تھیں۔ معرکہ کربلا میں آپ حتی کہ اپنے حصے کا پانی بھی نوش نہیں فرماتی تھیں بلکہ بچوں کو پلا دیا کرتی تھیں۔ ایسے بحرانی حالات اور مصائب و آلام کے ماحول میں جہاں ہر انسان کے قدم متزلزل ہو جایا کرتے ہیں۔ جناب زینب ثابت قدم رہیں، ظالموں اور جابروں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور موقع و محل کے مطابق گوناگوں حالات میں بہترین کردار کامظاہرہ کیا۔
آپ نے کبھی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے عظیم خطبوں کے وار سے ان کے دلوں پر کاری ضربیں لگائیں تو کبھی، غمزدہ بیبیوں اور بچوں کی تسکین کے لئے نرم و مہربان مشفقانہ لہجے میں دلجوئی کی اور امام وقت سید سجاد زین العابدین کی جان کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں جلتے ہوئے شعلوں سے نکال کر امام حسین کے بعد حسینی انقلاب کی قیادت و پاسبانی کے فرائض ادا کئے اور ایسے خطرناک مراحل میں صرف خداوند عالم سے مدد طلب کی۔ آپ نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران ظالم و جابر ستمگروں کے دربار اور لوگوں کے ہجوم میں اپنے حکیمانہ خطبوں اور تقریروں سے کربلا کے انقلاب کو حیات نو عطا کی۔ خطبوں اور تقریروں کی فصاحت و بلاغت آپ کے علم و کمال کے ساتھ دیگر شخصی خصوصیتوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ خطابت کے علاوہ آپ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے جگہ جگہ وقت و حالات کے مطابق بالکل صحیح و بجا مستحکم فیصلے کیے ہیں۔
حضرت زینب اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ کہاں پر نرم لہجے میں گفتگو کرنا ہے اور کہاں جوش و خروش کے ساتھ حماسہ آفریں تقریر کرنی ہے۔ اسیری کے بعد جب جناب زینب دیگر اہل حرم کے ساتھ کوفہ و شام کے دربار میں ابن زیاد اور یزید لعین کے سامنے لائی گئیں تو آپ نے تو آپ نے بے مثال خطبے پیش کئے۔ یہ خطبے ایسے حالات میں دئیے گئے جب اہل بیت پیغمبر یزیدیوں کے زر خرید غلاموں کی قید میں اذیتوں کے سخت دور سے گزر رہے تھے اور دشمن اپنی پوری طاقت و توانائی صرف کر کے اپنے زعم ناقص میں انہیں معاذ اللہ ذلیل و خوار کرنا چاہتے تھے
لیکن جناب زینب نے اپنی شعلہ بار تقریروں سے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ان کی نیندیں حرام کر دیں۔ یہ خطبے اور تقریریں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یہ تمام مصائب و آلام، جناب زینب کے پائے ثبات کو متزلزل کرنے میں ناتواں تھے ایسے سخت حالات میں ایک دلشکستہ و غمگین خاتون کے ذریعے دیئے گئے وعظ خطبے اور تقریریں مخصوص الہی امداد کے بغیر ممکن نہ تھیں اور یہ چیز جناب زینب کی کرامت میں شمار ہوتی ہے۔
منبع https://www.valiasr-aj.com/