- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 15 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/19
- 0 رائ
سر چشمہ علم و دانش
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایسے خاندان میں پرورش پائی جو علم و تقوی اور اخلاقی فضایل کا سرچشمہ تھا۔ جب آپ سلام اللہ علیہا کے والد ماجد حضرت موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ (ع) کے فرزند ارجمند حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ امام رضا علیہ السلام کی خصوصی توجہات کی وجہ سے امام ہفتم کے سارے فرزند اعلی علمی اور معنوی مراتب پر فائز ہوئے اور اپنے علم و معرفت کی وجہ سے معروف و مشہور ہو گئے۔
ابن صباغ ملکی کہتے ہیں: ابو الحسن موسی المعروف (کاظم)۔ کے ہر فرزند کی اپنی ایک خاص اور مشہور فضیلت ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزندوں میں حضرت رضا علیہ السلام کے بعد علمی اور اخلاقی حوالے سے حضرت سیدہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا علمی اور اخلاقی مقام سب سے اونچا ہے۔ یہ والا مقام حضرت سیدہ معصومہ کے ناموں اور القاب اور ان کے بارے میں آئمہ کی زبان مبارک سے بیان ہونے والی تعاریف و توصیفات سے آشکار ہے۔ اور اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ معصومہ بھی ثانی زہرا حضرت زینب کی مانند (عالمہ غیر مُعَلَّمہ)، ہیں۔ ( عالمہ ہیں مگر ان کا استاد نہیں ہے)
فضائل کا مظہر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا فضائل و مراتب و مقامات عالیہ کا مظہر ہیں۔ معصومین کی روایات آپ سلام اللہ علیہا کے لئے نہایت اونچے مقامات و مراتب کی دلیل ہیں۔
روى القاضى نور اللّه عن الصادق عليه السلام قال: ان للّه حرماً و هو مكة ألا انَّ لرسول اللّه حرماً و هو المدينة ألا و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة باجمعهم۔
قاضی نور الله رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جان لو کہ خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے؛ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے؛ اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔ میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون، جن کا نام فاطمہ ہے ۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے۔
قم کی قداست اور طہارت کا راز
متعدد احادیث میں قم کے تقدس پر تاکید ہوئی ہے۔ امام صادق(ع) نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے:۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم۔
آگاہ رہو کہ میرا اور میرے بعد آنے والے پیشواؤں کا حرم شہر قم ہے۔(بحارالانوار ج 60 صفحہ 216۔)
امام صادق علیہ السلام ہی اپنی مشہور حدیث میں اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفة الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم۔
اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔
امام علیہ السلام قم کے تقدس کی سلسلے میں اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:… تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى (س) و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة با جمعهم۔
میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون ۔ جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہے۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہماری تمام شیعہ بہشت میں وارد ہونگے۔
راوی کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بھی پہلے امام صادق علیہ السلام سے سنی تھی۔ یہ حدیث قم کی قداست کا پتہ دیتی ہے اور قم کی شرافت و تقدس کے راز سے پردہ اٹھاتی ہیں؛ اور یہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف ۔ جو روایات سے ثابت ہےـ ریحانۃ الرسول (ص)، کریمۂ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے جنہوں نے اس سر زمین میں شہادت پا کر اس کی خاک کو حور و ملائک کی آنکھوں کا سرمہ بنا دیا ہے۔
سیده(س) نے بهی شہر مقدس قم کا انتخاب کیا: امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو کی طرے سفر کرنے کے ایک سال بعد سن 201هج میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے مقصد سے عازم سفر ہوئیں راستے میں ساوہ پہنچیںلیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہل بیت کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نے حکومتی کارندوں کے ساتھ مل کر قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجے میں قافلے میں سے بہت سارے افراد شہید ہو گئے۔(زندگانی حضرت معصومہ آغا منصوری: ص 14، نقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی)
سیدہ غم و الم کی شدت سے مریض ہو گئیں اور ایک روایت کے مطابق ساوه میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کر دیا۔(وسیلة المعصومیہ: میرزا ابو طالب بیوک ص 68 / الحیاة السیاسبة للامام الرضا (ع): جعفر مرتضیٰ عاملی ص 428/ قیام سادات علوی: علی اکبر تشید ص 168)
جس کی وجہ سے آپ (س) بیمار پڑ گئیں اور محسوس کیا کہ اب خراسان نہ جا سکیں گی اور زیاده دیر تک زنده بهی نہیں رہیں گی چنانچہ فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔(دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص12، نقل از ودیعہ آل محمد (ص) آغا انصاری)
اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہو گئیں۔
دشمنان اہل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ہونا اور بعض حضرات کا جام شہادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات، ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وہاں سے سفر کرنا، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نہیں ہے کہ سیدہ معصومہ(س) بهی عباسی جلادوں کے حکم پر مسموم کی گئی تھیں۔
بزرگان قم جب اس پر مسرت خبر سے مطلع ہوئے تو سیدہ کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، موسی بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ(س) اہل قم کے عشق اہل بیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں۔ موسی بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا۔(تاریخ قدیم قم ص213۔)
مقام شفاعت
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمۂ اہلبیت بی بی مقام شفاعت پر فائز ہیں جیسا کہ اُن کے القاب میں سے ایک لقب شافعۂ روزِ جزا ہے اورحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: فاطمہ کبری کی شفاعت سے میرے شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اب بھی قم مقدسہ میں ہر زائر کے دل کی امید کے پس منظر میں اُس کی زبان پر یہ جملہ وظیفہ بن کر مکرر ہوتا رہتا ہے: یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ
بی بی کریمہ اہل بیت (س) کے کرم کے چند نمونے
چونکہ حضرت فاطمہ معصومہ (س) اس خاندان کی چشم و چراغ ہیں کہ جس کے لیے زیارت جامعہ میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جملہ ملتا ہے کہ: عادتکم الاحسان و سجیتکم الکرم۔
احسان آپ کی عادت اور کرم آپ کی فطرت ہے ۔(بحارج 102 ، ص 132)
لہٰذا بہت سی کرامتیں حرم مطہر و مقدس سے ظاہر ہوئیں جس سے بزرگوں میں ملا صدرا آیۃ اللہ بروجردی جیسے افراد سے لے کر دور و دراز ملکوں سے آنے والے عاشقان ولایت جو زیارت کی غرض سے آئے سب کے سب آپ کی کریمانہ فطرت ، لطف و احسان سے فیضیاب ہوئے اور انشاء اللہ قیامت تک ہوتے رئیں گے، لیکن افسوس کہ یہ ان تمام کرامتوں ایک کتاب کی شکل میں محفوظ نہیں گیا، لیکن پھر بھی ہم بعنوان نمونہ چند کرامتوں کو ذکر کرتے ہیں:
حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا اپنے زائرین پر لطف و کرم:
جناب آقای عبد اللہ موسیانی، حضرت آیت اللہ مرعشی سے نقل فرماتے ہیں کہ میں سردی کے موسم میں ایک شب بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہو گیا سوچا کہ حرم چلا جاوٴں لیکن بے وقت اور بے موقع سمجھ کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگا اور سر کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ لیا تا کہ اگر نیند بھی آنے لگے تو سو نہ سکوں۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک بی بی کمرے میں داخل ہوئیں ہیں، اور فرماتی ہیں کہ سید شہاب اٹھو اور حرم میں جاؤ کہ بعض زائرین شدید سردی سے جان بحق ہونے والے ہیں ۔ انھیں بچاوٴ آپ فرماتے ہیں کہ میں بلا تامل حرم کی طرف روانہ ہو گیااور وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ حرم کے دروازے پر بعض پاکستانی یا ہندوستانی زائرین ٹھنڈک کی شدت کی وجہ سے دروازے سے پشت لگائے ہوئے تھرتھرا رہے ہیں۔ میں نے دق الباب کیا حاج آقای حبیب نامی خادم نے میرے اصرار پر دروازہ کھول دیا ہمارے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی حرم کے اندر داخل ہو گئے اور ضریح کے کنارے زیارت اور عرض ادب میں مصروف ہو گئے میں نے بھی انہیں خادموں سے پانی مانگا اور نماز شب کے لئے وضو کرنے لگا۔
منبع فیض الٰہی
محدث قمی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض اساتذہ سے خود سنا ہے کہ ملا صدر شیرازی نے اپنی بعض مشکلات کی بنیاد پر شیراز سے قم کی ہجرت کر لی اور کہک نامی دیہات میں سکوت پذیر ہو گئے ۔ اس حکیم فرزانہ کے لئے جب بھی کسی علمی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی زیارت کو آتے تھے اور حضرت سے متوسل ہونے کی وجہ سے ان کی علمی مشکلات حل ہوجاتی تھی اور اس منبع فیض الٰہی کے مورد عنایت قرار پاتے تھے۔(فوائد الرضویہ ص379)
مفلوج کو شفا دینا
حجۃ الاسلام آقای شیخ محمود علمی اراکی نے نقل فرمایا ہے: میں نے خود بارہا ایک شخص کو دیکھا ہے کہ جو پیر سے عاجز تھا وہ اپنے پیروں کو جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ۔ وہ اپنے بدن کے نچلے حصہ کو زمین پر خط دیتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے چلتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے اس کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ روس کے ایک شہر قفقاز کا باشندہ ہے ۔ وہ بتانے لگا کہ میرے پیر کی رگیں خشک ہو چکی ہیں لہٰذا میں چلنے سے معذور ہوں۔ میں مشہد امام رضا (ع) سے شفا لینے گیا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اب یہاں قم آیا ہوں اگر خدا نے چاہا تو شفا مل جائے گی۔
ماہ رمضان المبارک کی ایک رات کو یکایک حرم کے نقار خانے سے نقارہ بجنے کی آواز آئی ۔ لوگ آپس میں کہہ رہے تھے بی بی نے مفلوج کو شفا دیدی ! اس واقعے کے چند دنوں بعد میں چند افراد کے ساتھ گاڑی میں اراک کی طرف جا رہا تھا ۔ راستے میں اراک سے چھ فرسخ کے فاصلے پر اسی مفلوج شخص کو دیکھا کے اپنے صحیح و سالم پیر سے کربلا کی طرف عازم ہے ہم نے اپنا یکہ روکا اور اس کو اپنی سواری پر سوار کر لیا ۔ پھر معلوم ہوا کہ اس دن جسے شفا ملی تھی وہ یہی مفلوج ہے ۔ وہ شخص اراک تک ہم لوگوں کے ساتھ تھا۔(زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص 47)
عزاداری اہلبیت کا صلہ اور پاؤں کی درد سے شفا ملنا
حضرت آیۃ اللہ شیخ مرتضی حائری نے فرمایا: آقا جمال نامی شخص جو ” ہژبر “ کی عرفیت سے مشہور تھا ، اس کے پیر میں درد کی شکایت ہو گئی اور وہ اس حد تک بڑھی کہ مجلسوں میں ایک آدمی انھیں اٹھا کر لے جایا کرتا تھا اور ان کی کمک کرتا تھا۔
نویں محرم کو آقای ہژبر مدرسہ فیضیہ میں اس مجلس میں شرکت کی غرض سے آئے جسے آیۃ اللہ مرتضی حائری نے برپا کیا
تھا، آقا سید علی سیف ( آیۃ اللہ حاری مرحوم کے خادم ) کی نگاہجیسے ہی آقائے ہژبر پر پڑی ان کو برا بھلا کہنے لگے ، کہنے لگے: یہ کون سا کھیل رچا رکھا ہے ، لوگوں کو زحمت میں مبتلا کرتے ہو۔ اگر تم واقعاً سید ہو تو جاوٴ جا کر بی بی سے شفا حاصل کرلو۔ یہ جملہ سن کر آقائے ہژبر کافی متاٴثر ہوئے۔ جب مجلس ختم ہو گئی تو اپنے ہمراہی و مدد گار سے کہا: مجھ کو حرم مطہر لے چلو! حرم پہنچ کر زیارت و عرض ادب کے بعد شکستہ حالی میں توسل کیا، اسی حالت میں سید کو نیند آ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے: اٹھو! میں نے کہا: میں اٹھ نہیں سکتا۔ کہا گیا: تم اٹھ سکتے ہو، اٹھ جاوٴ! اس کے بعد ان کو ایک عمارت دکھائی گئی اور کہنے والے نے کہا: یہ عمارت سید حسین آقا کی ہے جو میرے لیے مصائب پڑھتے ہیں اور یہ نامہ بھی ان کو دیدینا۔ ناگہاں آقائے ہژبر کی آنکھ کھل گئی تو انھوں نے خود کو اس حال میں کھڑے ہوئے پایا کہ ان کے ہاتھ میں ایک خط تھا ۔ انھوں نے وہ نامہ مذکورہ شخص تک پہنچا دیا ۔ وہ کہتے تھے : میں ڈر گیا کہ اگر اس خط کو نہیں پہنچا یا تو دوبارہ اس درد میں مبتلا ہو جاوٴں گا ۔ اس خط میں کیا تھا کسی کو معلوم نہ ہو سکا حتی آیۃ اللہ حائری نے فرمایا : اس واقعہ کے بعد آقائے ہژبر بالکل بدل گئے، گویا ایک دوسری دنیا کے باشندے ہیں اکثر و بیشتر خاموش ، یا ذکر خدا میں مشغول رہتے تھے۔(زندگانی حضرت معصومہ : سید مہدی صحفی ص 47)
گمشدہ کو نجات اور زائرین پر عنایات
حرم کے خادم اور کلید دار جو آقائے روحانی مرحوم (علمائے قم میں سے ایک عالم دین جو مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام میں امام جماعت تھے) کی نمازوں میں تکبیر بھی کہا کرتے تھے ۔ خود نقل کرتے ہیں : موسم سرما کی ایک رات تھی ، میں حرم مطہر میں تھا عالم خواب میں حضرت معصومہ علیہا السلام کو دیکھا کہ آپ فرما رہی ہیں : اٹھو اور مناروں کے چراغ جلاؤ، میں خواب سے بیدار ہوا اور کوئی توجہ نہ دی ، دوسری مرتبہ بھی یہی خواب دیکھا لیکن اس مرتبہ بھی توجہ نہ دی ، تیسری مرتبہ حضرت نے فرمایا:
مگر تم سے نہیں کہہ رہی ہوں کہ اٹھو اور مناروں کے چراغ روشن جلاؤ؟ میں خواب سے بیدار ہوا اور کسی علت کو معلوم کئے بغیر منارے پر گیا اور چراغ روشن کر کے پھر سو گیا ۔ صبح کو اٹھ کر حرم کے دروازوں کو کھولا اور آفتاب طلوع ہونے کے بعد حرم سے باہر آیا ۔ اپنے رفقاء کے ساتھ سردی کی دھوپ میں گفتگو کر رہا تھا کہ یکایک چند زائرین کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوا ۔ وہ کہہ رہے تھے : بی بی کی کرامت اور معجزے کو دیکھو! اگر کل رات اس سرد ہوا اور شدید برف باری میں حرم کے منارے کا چراغ روشن نہ ہوتا تو ہم لوگ ہرگز راستہ تلاش نہیں کر پاتے اور اس سردی میں ہلاک ہو جاتے۔
خادم کہتا ہے:
میں اپنے آپ میں بی بی کی کرامت کی طرف متوجہ ہوا نیز یہ کہ آپ کو اپنے زائروں سے کس قدر محبت و الفت ہے۔(ودیعہ آل محمد : محمد صادق انصاری ص 14)
مرض دیوانگی
آقائے میر سید علی برقعی نے فرمایا: ایک شخص نے بیان کیا کہ میں جب عراق میں ایران کا سفیر تھا تو میری بیوی دیوانگی کی مرض میں مبتلا ہو گئی، نوبت یہاں تک آ گئی کہ ان کے پیر میں زنجیر ڈالنی پڑی ایک دن جب سفارت خانے سے لوٹا تو ان کا بہت برا حال دیکھا ۔ یہ حال دیکھنے کے بعد اپنے مخصوص کمرے میں داخل ہوا اور وہیں سے امیر الموٴمنین علیہ السلام سے متوسل ہوا عرض کیا:
یا علی چند سال سے آپ کی خدمت میں ہوں اور پردیسی ہوں، اپنی بیوی کی شفا یابی آپ سے چاہتا ہوں۔ اسی طرح متحیر و پریشان تھا کہ خدا یا کیا کروں کہ ناگہاں گھر کی خادمہ دوڑتی ہوئی آئی اور بولی آقا! جلدی آئیے۔ میں نے پوچھا: میری بیوی مر گئی؟ کہنے لگی: نہیں! اچھی ہو گئی ہیں۔ میں جلدی سے اپنی بیوی کے پاس آیا تو دیکھا کہ طبیعی حالت میں بیٹھی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ سے پوچھنے لگیں: میرے پیر میں زنجیر کیوں باندھی ہے؟
میں نے سارا واقعہ سنا دیا۔ اس کے بعد میں نے پوچھا تم یکایک ٹھیک کیسے ہو گئی؟ انھوں نے جواب دیا: ابھی ابھی ایک با جلالت خاتون میرے کمرے میں داخل ہوئیں تھیں، میں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں معصومہ امام موسیٰ جعفر علیہ السلام کی دختر ہوں، میرے جد امیر الموٴمنین علیہ السلام نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو شفا دوں اور میں نے تم کو شفا یاب کر دیا۔(بشارۃ المومنین: شیخ قوام اسلامی جاسبی ص 43)
گونگی لڑکی کو شفا ملنا
حجۃ الاسلام جناب آقائے حسن امامی نے لکھا ہے کہ: 10 رجب 1385 ء ھ جمعرات کے دن ” آب روشن آستارہ “ کی رہنے والی ایک 13 سالہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ہمراہ قم آئی ۔ وہ لڑکی ایک مرض کی وجہ سے گونگی ہو گئی تھی اور بولنے کی صلاحیت اس سے سلب ہو گئی تھی ۔ ڈاکٹروں کو دکھانے کے با وجود بھی اس کا معالجہ نہ ہو سکا ۔ جب ڈاکٹر مایوس ہو گئے تو وہ لوگ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم میں پناہ گزیں ہوئے ۔ دو رات وہ لڑکی ضریح کے پاس بیٹھی رہی ۔ کبھی روتی تو کبھی زبان بے زبانی سے مشغول راز و نیاز تھی کہ یک دم حرم کے سارے چراغ بجھ گئے ۔ اسی وقت وہ لڑکی حضرت کی بے کراں عنایتوں کے سائے میں آ گئی اور ایک عجیب انداز میں چیخ اٹھی جسے وہاں کے خدام اور زائرین نے اچھی طرح سنا چیخ سنتے ہی مجمع ٹوٹ پڑتا تا کہ اس کے کپڑے کے کچھ حصے بعنوان تبرک لے لیں ۔ لیکن فوراً خادمین حضرات لڑکی کو حفاظت کے لیے ایک حجرے میں لے گئے۔ یہاں تک کہ مجمع کم ہویا ۔ لڑکی نے کہا : جس وقت چراغ بجھا تو اسی وقت ایک ایسی روشنی اور نور دیکھا کہ اپنی پوری زندگی میں ویسا نور نہیں دیکھا تھا پھر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ فرما رہی ہیں: تم ٹھیک ہو گئی ہو اب بول سکتی ہو میں چیخنے لگی تو دیکھا کہ میں بول سکتی ہوں۔(بشارۃ المومنین ص 49)
قرض کی ادائیگی اور رزق میں برکت
حرم مقدسہ کے خادم جناب آقائے کمالی فرماتے ہیں: 1302 ء شمسی کی بات ہے میں حضرت معظمہ کی بارگاہ میں پناہ گزیں تھا اور وہیں صحن نو میں ایک حجرے میں مقیم تھا۔ زندگی بہت سختی سے گذر رہی تھی اور بے حد فقیر و نادار ہو گیا تھا زندگی حرم کے اطراف کے تاجروں سے قرض پر گذر رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک دن نماز صبح کی ادائیگی کے بعد بی بی کی بارگاہ میں مشرف ہوا۔ اور اپنی ساری حالت بی بی کو سنا دی۔ اسی حالت میں پیسوں کی تھیلی میرے دامن میں گری۔ کچھ دیر تک تو میں نے انتظار کیا کہ شاید یہ کسی زائر کا پیسہ ہو تو یہ اسے دیدوں، لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ بی بی کا خاص لطف ہے۔ تھیلی لے کر اپنے حجرے کی طرف پلٹ گیا۔ جب اسے کھولا تو اس میں چار ہزار تومان تھے پہلے تو میں نے سارے کے سارے قرض ادا کئے پھر چودہ مہینوں تک اس کو خرچ کرتا رہا لیکن اس میں کافی برکت تھی ، ختم ہی نہیں ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک دن حجۃ الاسلام حسین حرم پناہی تشریف لائے اور ہماری زندگی کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے موضوع کو یوں بیان کر دیا۔ انہی دنوں وہ عطیہ ختم ہو گیا۔(بشارۃ المومنین ص 52)
جاؤ قم جاوٴ: آقائے حیدری کاشانی فرماتے ہیں کہ: مسجد گوہر شاد میں عشرہ مجالس تمام ہونے کے بعد ایک خاتون میرے پاس آئی اور کہا : میرا جوان بچہ مریض تھا ایک رات حضرت رضا علیہ السلام کو خواب میں دیکھا۔ حضرت نے فرمایا: تمہارے دو جوان مریضوں میں سے ایک کو میں نے شفا یاب کردیا دوسرے کو میری بہن کے پاس قم لے جاوٴ (کیونکہ قم میں میری بہن اسے شفا دیں گی) اب آپ چونکہ قم روانہ ہو رہے ہیں تو یہ ساٹھ تومان وہاں ضریح میں ڈال دیجئے گا میں چند دن کے بعد حاضر ہوں گی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ مشہد آتے وقت تم قم نہیں گئی تھی؟ اس نے کہا ” نہ “ میں نے کہا: حضرت کی فرمائش تم سے شکوہ تھا کہ کیوں اس سفر میں ان کی بہن کی زیارت کو نہیں گئیں۔
شفا بخش شربت
14 شعبان بدھ کا دن تھا ۔ حرم مقدسہ میں نیمہ شعبان کی بزرگ عید کے موقع پر کریمہ اہل بیت علیہم السلام کی ملکوتی بارگاہ میں دور سے آئے ہوئے مہمونوں کی ضیافت ہو رہی ہے ۔ وہ بھائی کا ہمسایہ ہے جو بہن کے بلانے پر شفا کی امید میں اس در پر حاضر ہوا ہے ۔ وہ امیر محمد کوہی ساکن مشہد ہیں اور وہاں کے امور اقتصادی کے سابق ملازم ہیں ۔ آپ اپنی داستان اس طرح بیان فرماتے ہیں:
تین سال سے میں فلج کے مرض میں مبتلا تھا اور حرکت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ویلچیر ( Wheel Chair) کے سہارے چلتا تھا۔ مشہد اور تہران کے متخصص ڈاکٹروں کے پاس گیا ، علاج کے مختلف مراحل گزارے بارہا ہسپتال میں ، دعائے توسل اور ان مجالس میں بغرض شفا شرکت کی جو امام رضا علیہ السلام کے حرم میں برپا ہوتی تھیں لیکن کوئی عنایت نہ ہوئی۔ انہی دنوں بہت زیادہ غم و غصہ کی وجہ سے میں اپنے خانوادہ کے ساتھ حرم مشرف ہوا اور بہت دکھے دلوں سے عرض کیا: مولا! آپ تو غیر مسلموں کو محروم نہیں کرتے ہیں پھر مجھ جیسے شیعہ پر کیوں توجہ نہیں دیتے ہیں ۔ مولا: یا تو میرا جواب دیجئے یا میں قم جا کر آپ کی بہن سے شکایت کروں گا اور ان کو وسیلہ قرار دوںگا اس وقت حضرت معصومہ علیہا السلام کو مخاطب کرکے عرض کیا : میں آپ کے بھائی کا ہمسایہ ہوں اور ایک ایسا انسان ہوں جو عیال مند ہے اپنی پوری زندگی میں کوئی خیانت نہیں کی ہے اور اپنی آخری کوشش تک کامیاب رہا ہوں پھر وہ مجھے شفا کیوں نہیں دیتے ہیں؟ اس توسل اور شکوے کے بعد ایک خاتون کو عالم خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہی ہیں ۔تم قم آؤ تاکہ میں تم کو شفا دوں ۔ میں نے عرض کیا آپ ہمارے گھر تشریف لائی ہیں اور ہماری مہمان ہیں مجھے یہیں شفا دے دیجئے میرے پاس پیسہ نہیں ہے کہ قم آؤں فرمایا: تم کو قم آنا پڑے گا ۔ میں نے اپنے خواب کو اپنے بال بچوں سے نقل کر دیا چند دنوں کے بعد میرے فرزند نے مجھے سے کہا: بابا! ہم نے اپنی ساری دولت آپ کے معالجے میں صرف کر دی ۔ لیکن چند پیٹی نوشابہ بیچنے کی وجہ سے کچھ پیسے ہاتھ میں آئے ہیں اسی کو مسافرت میں خرچ کیجئے اور قم چلے جایئے مجھے امید ہے کہ آپ کوشفا ملے گی۔
میں قم کی طرف رواں ہو گیا ۔ قم پہنچنے کے بعد وضو کیا اور حرم میں داخل ہو گیا ۔ دو آدمیوں سے گزارش کی کہ مجھے سہارا دے کر ضریح کے پاس لے جائیں ۔ وہ لوگ مجھے ضریح کے پاس لے گئے۔ (میں بہت تھکا ہوا تھا) زیارت اور التجا کے بعد وہیں ضریح کے پاس کمبل اوڑھ لیا ، مجھے نیند آ گئی۔ عالم خواب میں ایک خاتون کو کالی چادر اور سبز مقنعہ میں دیکھا انہوں نے مجھ سے فرمایا : میرے لال آنا مبارک ہو۔ اب میں نے تم کو شفا دیدی ۔ اٹھ جاوٴ! اب تم کو کوئی بیماری نہیں ہے ۔ میں نے عرض کیا : میں بیمار اور مفلوج ہوں۔ انہوں نے ایک مٹی کا پیالہ جس میں چائے رکھی تھی میرے ہاتھ میں دی اور فرمایا : پیئو میں نے چائے پی ۔ ناگہاں خواب سے بیدار ہوا۔ دیکھا کہ میں اپنے پیر پر کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتا ہوں اپنی جگہ سے اٹھا اور خود کو ضریح تک پہنچایا اور آخر کار آج کے دن بی بی سے اپنی عیدی لے لی۔
یہ بی بی مقدسہ کے بے شمار الطاف ، عنایت اور بہت سی کرامات کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا ۔ آپ ہی کے پاک و پاکیزہ وجود کے وسیلے سے قم عاشقان و سالکان طریق ہدایت کا ماوی اور قبلہ امید عارفان حقیقت ہو گیا ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ یہی مختصر تذکرہ دلسوختہ عاشقوں کے پیاسے حلقوم کے لئے شربت اور چراغ راہ ہدایت ہوتا کہ خواب غفلت سے بیدار ہوں سکیں ۔ اس امید کے ساتھ حضرت سب کو اپنے لطف و عنایت کے سایہ میں قرار دیں گی اور سب کو راہ ہدایت پر گامزن فرمائیں گی انشاء اللہ۔
خداوند متعال اس بی بی کی کرامت کے طفیل ہمیں بھی ان کی مقبول زیارت اور شفاعت سے بہرہ مند فرمائے…..
السلام علیک یا بنت رسول اللہ السلام علیک یا بنت فاطمۃ و خدیجۃ السلام علیک یا بنت امیر المو منین السلام علیک یا بنت الحسن و الحسین السلام علیک یا بنت ولی اللہ السلام علیک یا اخت ولی اللہ السلام علیک یا عمۃ ولی اللہ السلام علیک یا بنت موسی بن جعفر و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ فان لک عنداللہ شا نا من الشان اللھم انی اسئلک ان تختم لی با لسعادۃ فلا تسلب منی ما انا فیہ و لا حول و لا قوۃ الا با للہ العلی العظیم…..
سلام آپ پر اے دختر رسول خدا (ص) سلام آپ پر اے دختر فاطمہ (ع) و خدیجہ (ع) ۔ سلام آپ پر اے دختر امیر المومنین (ع) سلام آپ پر اے دختر حسن و حسین (ع) سلام آپ پر اے ولی خدا ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی بہن ۔ سلام آپ پر اے ولی خدا کی پھوپھی ۔ سلام آپ پر اے دختر موسی بن جعفر(ع) اللہ کی رحمت و برکت ہو۔
اے فاطمہ (ص) آپ میر ی شفاعت کیجۓ جنت کے لۓ کہ آپ کی خدا کے نزدیک شان ہے ۔ خدا یا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا خاتمہ سعادت پر ہو پس تو سلب نہ کر مجھ سے وہ جس میں ہوں اور کوئی قوت و طاقت نہیں ہے مگر بلند و عظیم خدا کے لیے۔
سلام ہو اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون پر روز طلوع سے لے کر لمحہ غروب تک۔
سلام و درود معصومہ سلام اللہ علیہا کی روح تابناک پر جن کے حرم منور نے قم کی ریگستانی سر زمین کو نورانیت بخشی۔
التماس دعا….