- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/07
- 0 رائ
انتخابى خلافت کا سياسى طريقہ اور اسکا شيعى عقيدے کے ساتھ اختلاف
شيعہ جماعت کا عقيدہ تھا کہ اسلام کى آسمانى اور خدائى شريعت جس کا سارا مواد خدا کى کتاب اور پيغمبر اکرم (ص) کى سنت ميں واضح کيا جاچکا ھے، قيامت تک اپنى جگہ پر قائم و دائم ھے اور ھر گز قابل تغيير نھيں ھےـ لھذا اسلامى حکومت کے پاس اس قانون شريعت کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے کوئى عذر يا بھانہ نھيں ھے کہ اس شريعت کى خلاف ورزى کرےـ اسلامى حکومت کا اولين فرض يہ ھے کہ شريعت اسلامى کى حدود ميں مشورے اورمصلحت وقت کے پيش نظر فيصلے کرے اور قدم اٹھائے ليکن شيعوں کى سياسى و مصلحتى بيعت اور اسى طرح کاغذ ، قلم اور دوات کا واقعہ جو پيغمبر اکرم(ص) کى زندگى کے آخرى ايام ميں پيش آيا تھا، سے ظاھر تھا کہ انتخابى خلافت کے طرفداروں اور اس کے چلانے والوں کا اعتقاد تھا کہ خدا کى کتاب (قرآن مجيد) بنيادى قانون کى طرح محفوظ رھے ليکن پيغمبراکرم(ص) کى احاديث اور سنت اپنى جگہ پر ثابت نھيں سمجھتے ان کا عقيدہ تھا کہ اسلامى حکومت، زمانے کى ضروريات اور مصلحت وقت کے سبب اسلامى احکام کے نفاذ کو نظر انداز کرسکتى ھے اور يہ عقيدہ ان بھت سى احاديث و روايات کے ذريعے جو بعد ميں نقل ھوئيں، صحابہ کے حق ميں ثابت ھوگيا تھا کہ وہ مجتھد ھيں اور اگر اجتھاد يا مصلحت انديشى ميں اختلاف کريں تو مجبور ھيں اور خطا کريں تو معذورـ اس کا اھم ترين نمونہ وہ ھے جبکہ خليفہ کا گورنر خالد بن وليد رات کے وقت ايک مشھور مسلمان (مالک بن نويرہ) کے گھر مھمان ھوا اور پھر موقع پاکر اس کو قتل کردياـ اس کا سر کاٹ کر بھٹى ميں جلا ديا اور پھر اسى رات مالک بن نويرہ کى بيوى کے ساتھ اس نے زنا کياـ اس شرمناک واقعے کے بعد چونکہ خليفۂ وقت کو ايسے گورنر کى ضرورت تھى لھذا شريعت کى حد کو خالد بن وليد کے حق ميں جارى نہ کيا گياـ(۱) اسى طرح اھلبيت(ع) کو خمس کا حصہ نہ ديا گيا، پيغمبر اکرم کى احاديث کا لکھنا بالکل ممنوع کرديا گيا ، اگر کوئى حديث کسى جگہ لکھى ھوئى نظر آتى يا کسى سے ملتى تواس کو فوراً ضبط کرکے جلا ديا جاتا(۲)ـ يہ ممنوعيت تمام خلفا ئے راشدين کے زمانے سے ليکر عمربن عبد العزيز اموى خليفہ (99 تا 102ھجرى) کے عھد تک جارى رھي (۳)ـ خليفہ دوم کے زمانے ميں يہ سياست بالکل واضح ھوگئى تھىـ خليفۂ وقت نے بعض شرعى احکام مثلاً حج تمتع، نکاح متعہ اور اذان ميں” حى على خير العمل“ کھنا ممنوع قرار ديديا تھاـ تين طلاق دينے کى رسم نافذ کى گئى اور ايسے ھى کئى دوسرے احکام ـ(۴) ان کى خلافت کے دوران بيت المال کا حصہ عوام کے درميان فرق اور اختلاف سے تقسيم ھوا(۵) جس کے نتيجے ميں عجيب طبقاتى اختلاف اور خطرناک خونى مناظر سامنے آئےـ ان کے زمانے ميں معاويہ، شام ميں قيصروکسريٰ جيسے شاھانہ ٹھاٹ باٹ اور رسم و رواج کے ساتھ حکومت کرتا تھا ـ يھاں تک کہ خليفہ ٴوقت بھى اسے کسريٰ عرب (عرب کا بادشاہ )کھہ کر خطاب کيا کرتا اور کبھى اس کے اس حال پر اعتراض نہ کرتا تھاـ
خليفہٴ دوم 23 ھ ميں ايک ايرانى غلام کے ھاتھوں قتل ھوئے اور چھ رکنى کميٹى کى اکثريت رائے سے جو خليفہ دوم کے حکم سے تشکيل پائى تھى ،خليفۂ سوم نے زمام امور سنبھالى ـانھوںنے اپنے عھد خلافت ميں اپنے اموى خويش واقارب کو لوگوں پر مسلط کرديا تھا اور اس طرح حجاز، عراق، مصر اور تمام اسلامى ممالک ميں عنان حکومت ان کے ھاتہ ميں سونپ دى تھي(۶)ـ انھوں نے لاقانونيت کى بنياد رکھى اور آشکارا طور پر ظلم و ستم اور فسق و فجور اور اسلام کى خلاف ورزى اسلامى حکومت ميں شروع کردى تھي ـ دارالخلافہ ميں ھر طرف سے شکايتوں کے طومار آنے لگے ليکن خليفہ اپنى اموى کنيزوں، لونڈيوں اور خاص کر مروان بن الحکم(۷) کے زير اثر ان شکووں اور شکايتوں پر توجہ ھى نہ کرتے تھے اور اس طرح ظلم و ستم کا انسداد کرنے کى نوبت ھى نہ آتى تھى بلکہ کبھى کبھى حکم ديتے کہ شکايت کرنے والوں پر مقدمہ چلايا جائے اور آخر کار 35ھ ميں لوگوں نے ان کے خلاف مظاھرے کئے اور چند روز تک ان کے مکان کو گھيرے رکھا اور پھر مار دھاڑ کے بعد ان کو قتل کرديا گيا ـ خليفہ ٴسوم نے اپنے دور ان خلافت ميں شام کى حکومت معاويہ کو دے رکھى تھى جو ان کے اموى خويش و اقارب ميں بھت ھى اھم شخص تھاـ وہ معاويہ کو زيادہ سے زيادہ مدد ديتے اور اس کو مضبوط کيا کرتے تھے ـ در اصل شام خلافت کا اصلى مرکز بن چکا تھا اور مدينہ ميں صرف نام کى حکومت باقى رہ گئى تھى ـ (۸) خليفہ ٴاول کى خلافت اکثريت صحابہ کى رائے اور انتخاب سے معين ھوئى تھى اور خليفہ دوم، اول کى وصيت سے منتخب ھوئے اور خليفہ سوم چھ رکنى مشاورتى کميٹى کى رائے کے ساتھ انتخاب کئے گئے تھے اس کميٹى کا دستور العمل اور منشور بھى خود خليفۂ دوم نے ترتيب ديا تھا ـ مجموعى طور پر تين خلفاء کا انتظام حکومت دارى، جنھوں نے 25 سال تک حکومت کى تھى، يوں تھا کہ اسلامى قوانين، اجتھاد اور مصلحت وقت کے مطابق معاشرے ميں نافذ کئے جائيں اور اس مصلحت بينى کو خود خليفۂ وقت تشخيص دے ـ
اس زمانے ميں اسلامى علوم و معارف کا طريقہ يہ تھا کہ صرف قرآن کو وہ بھى کسى تفسير اور غور و خوض اور معانى کو سمجھے بغير پڑھا اور پيغمبر اکرم کى احاديث کو لکھے بغير ھى بيان کيا جائے يعنى سننے يا بتانے سے تجاوز نہ کيا جائے ـ قرآن کريم کى کتابت پر بھى اجارہ دارى تھى ـ حديث کى کتابت تو ممنوع ھى تھى ـ(۹) جنگ يمامہ جو 12 ھ ميں ختم ھوئى تھى اور اس جنگ ميں صحابہ اور قرآن کے قاريوں کى ايک بھت بڑى تعداد شھيد ھوگئى تھى ،کے بعد عمر بن الخطاب نے خليفہ ٴاول کو تجويز پيش کى کہ قرآنى آيات کو ايک مصحف (جلد )ميں جمع کردياجائے کيونکہ خدانخوستہ اگر ايسى ھى ايک اور جنگ رونما ھوگئى اور باقيماندہ قارى بھى شھيد ھوگئے تو قرآن مجيد ھمارے ھاتھوں سے نکل جائے گاـ لھذا ضرورى ھے کہ قرآنى آيات کو ايک مصحف (جلد )ميں جمع کردياجائےـ (۱۰) قرآن مجيد کے بارے ميں تو يہ فيصلہ کر ديا گيا مگر احاديث رسول اکرم(ص) جو قرآن مجيد کے بعد دوسرے درجے پر آتى ھيں، کے بارے ميں کوئى اقدام نھيں کيا گيا جب کہ احاديث کو بھى وھى خطرہ در پيش تھايعنى معانى اور کتابت ميں کمى بيشى، جعل، فراموشى اور دست برد سے محفوظ نھيں تھيں ليکن احاديث شريف کى حفاظت کے لئے کوئى کوشش نہ کى گئى بلکہ احاديث کى کتابت تک کو ممنوع قرار دے ديا گياـ جب بھى کوئى لکھى ھوئى حديث ھاتہ لگتى تو اس کو جلا ديا جاتا تھا، يھاں تک کہ اسلامى احکام و ضروريات مثلا نماز کے بارے ميں بھى متضاد اور متعدد احاديث و روايات پيدا ھوگئيں تھيں اسى طرح دوسرے تمام علمى موضوعات کے متعلق بھى کوئى خاطر خواہ اقدا م نہ کيا گيا ـ قرآن مجيد او ر احاديث نبوى ميں اجتھاد و تفقہ کرنے کے بارے ميں جو احترام اور تاکيد موجود ھے اور علوم کو وسعت و ترقى دينے پر جس قدر زور ديا گيا ھے وہ سب کے سب بے اثر ھو کر رہ گياـ اکثر لوگ اسلامى فوجوں کى پے درپے فتوحات ميں سرگرم اور بے اندازہ مال غنيمت سے راضى اور خوش تھے جو ھر طرف سے جزيرة العرب ميں آرھا تھا، لھذا اب خاندان رسالت مآب کے علوم کى طرف کوئى توجہ نہ تھى جس کے بانى حضرت علي(ع) تھےـ پيغمبر اکرم نے ان کو سب سے زيادہ عالم اور قرآن و اسلام کا شناسا کھہ کر لوگوں سے متعارف کرايا تھا ـ حتيٰ کہ قرآن شريف کو جمع کرنے کے واقعے ميں (باوجوديہ کہ سب جانتے تھے کہ آپ نے رسول اکرم کى رحلت کے بعد ايک مدت تک گوشۂ عزلت ميں بيٹھ کر قرآن مجيد کو ايک مصحف ميں جمع کرديا تھا) بھى آپ کوشامل نہ کيا گيا (۱۱)، حتيٰ کہ آپ کا نام تک نہ ليا گياـ يہ اور ايسے ھى دوسرے امور تھے جو حضرت علي(ع) کے پيروکاروں کو اپنے عقيدے ميں زيادہ سے زيادہ راسخ اور مضبوط کر رھے تھے اور ان کو واقعات سے متعلق زيادہ ھوشيار بنا رھے تھےـ اس طرح روز بروز يہ لوگ اپنى سرگرميوں ميں اضافہ کر رھے تھےـ حضرت على عليہ السلام بھى جو تمام لوگوں کى تربيت کرنے سے قاصر تھے صرف اپنے خاص لوگوں کى تربيت پر توجہ دے رھے تھےـ
ان پچيس برسوں ميں حضرت علي(ع) کے چار خاص اصحاب اور دوستوں ميں سے تين وفات پاگئے تھے جو ھر حال ميں آپ کى پيروى ميں ثابت قدم رھے تھے يعنى سلمان فارسى، ابوذر غفارى اور مقداد ليکن اس مدت ميں اصحاب اور تابعين کى ايک خاصى بڑى جماعت حجاز، يمن، عراق اور دوسرے ممالک ميں حضرت علي(ع) کے پيروکاروں ميں شامل ھوگئى تھى اور آخر کار خليفہ ٴسوم کے قتل کے بعد ھرطرف سے عوام نے آپ کى طرف رجوع کرنا شروع کر ديا تھا يھاں تک کہ آپ کے ھاتہ پر بيعت کرکے آپ کو خلافت کے لئے انتخاب کرليا ـ
……………………….
حواله جات:
(۱) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص /110 ، تاريخ ابى الفداء ج/ 1 ص / 158
(۲) کنز العمال ج / 5 ص / 237 ، طبقات ابن سعد ج/ 5 ص /140
(۳) تاريخ ابى الفداء ج/ 1 ص / 151
(۴) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 131 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 160
(۵) اسد الغابہ ج / 4 ص / 386 ، الاصابہ ج / 3
(۶) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص /150 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص /168 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 377
(۷) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 150 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 397
(۸) تاريخ طبرى ج / 3 ص / 377
(۹) صحيح بخارى ج/ 6 ص / 98 ، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 113
(۱۰) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 111 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 129 132
(۱۱) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 13، تاريخ ابن ابى الحديد ج/ 1 ص/ 9