- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/28
- 0 رائ
ہم تفسیر قران کے حوالے سے زمانے کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
١ ) زمان معصومین ۔
٢ ) زمان اصحاب۔
٣ ) زمان تابعین و ما بعد الی زماننا ہذا۔
معصومین کے دور میں قرآن کے متعلق دو بنیادی کا م انجام پائے تھے :
الف) قرآن کریم کو جس طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا اسی طرح عین وہی الفاظ اور کلمات کسی قسم کی کمی کے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا۔
ب) اس زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کی حیثیت سے لوگوں کو حقائق قرآ ن سے با خبر کرنا
لہذا خود قرآن کریم صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے . کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) قرآن کریم کے سب سے پہلے مفسر ہیں”سورہ نحل آیت ٤٤ میں اس طرح کی تفسیر موجود ہے ”و النزلنا الیک الذکر لتبین للناس”اس مطلب کو ثابت کرنے کی خاطر قرآن کریم کے ماہرین اور محققین نے اپنی گرانبہا کتابوں میں بہت ساری احادیث اور آیات کی طرف اشارہ فرمایا ہے رجوع کرسکتے ہیں۔(١ )
ابن خلدون کا کہنا ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کی فصاحت و بلاغت اور مفردات کے معانی لغوی سے ہر اہل زبان با خبر تھے لیکن جملے اور حقایق قرآن اور ناسخ و منسوخ اوردیگر مسائل کے حوالے سے قرآن ہر کس و ناکس کے فہم و درک سے بالاتر تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو ایسے مطالب اور آیت کی حقیقت کی تفسیر کرتے تھے ۔
عین اسی طرح کی باتیںا بو الفتوح رازی سیوطی وغیرہ نے بھی کی ہیں،رجوع کریں۔
حتی بعضی احادیث میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے نہ فقط لوگوں کو قرآن کی تفسیر سے آگاہ فرمایا بلکہ ہر آیت کی تفسیر کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط اور نہج و روش کی طرف بھی لوگوں کے ذہنوں کومبذول فرمایا تاکہ لوگوں کو تفسیر بالرای سے بچا سکیں،رجوع کریں۔(۲)نیز از نظر عقل بھی پہلا مفسر حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہی کوہونا چاہیے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی ذمہ داری ہی یہی تھی کہ لوگوں کو معارف اسلامی اوراحکام الہی سے باخبر کریں اس کا لازمی نتیجہ قرآن کی تفسیر اور توضیح ہے کیونکہ ہر انسان کی ذہانت اورفہم و درک یکسان نہ ہونے کے باوجود ہر کلیات اور جزئیات، کنایات اور اشارات کو بغیر کسی تفسیر کے درک نہیں کرسکتے ہیں۔
دوسرے مفسر قرآن :
حضرت علی علیہ السلام ہیں، جو ہر وقت معارف اسلامی اور دستور الہی کے محافظ کی حیثیت سے آغاز وحی سے اختتام وحی تک حضرت پیغمبر اکرم کے شانہ بہ شانہ قرآن کی تفسیر اور حفاظت کرتے رہے ہیں اہل سنت بھی آپ کو مفسر قرآن اور برجستہ اصحاب رسول میں سے شمار کرتے ہیں۔عطا بن ابی ریاح نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا”أکان فی اصحاب محمد (ص)العلم من علی قال لا واللہ لا اعلمہ .”
کیا حضرت رسول کے اصحاب میں حضرت علی (ع) سے عالم تر کوئی ہے آپ نے فرمایا خدا کی قسم اس سے عالم تر کوئی نہیں ہے ۔(۳ )
یا دوسری حدیث میں آنحضرت نے فرمایا:” علی مع القرآن و القرآن مع علی”(۴ )
” علی (ع) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہے ”
نیز ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے :
ان القرآن أنزل علی سبعۃ احرف ما منہا حرف الا و لہ ظہر و بطن وا ن علی بن ابی طالب عندہ منہ الظاہر والباطن.(۵ )
تحقیق قرآن کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے انہیں حروف میں سے ہر ایک کا ظاہر و باطن بھی ہوا کرتا ہے اور حضرت علی (ع) ہی اس کے باطن اور ظاہر سے آگاہ ہیں۔
جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا التفسیر میں فرمایا: کان علی رضی اللہ عنہ بحری فی العلم..”حضرت علی (ع)علم کے در یاتھے” (۶ )
نیز ابن عباس نے کہا” ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب”(۷)’جو کچھ میں نے قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حضرت علی (ع) سے دریافت کی ہے” لہذا تفسیر قرآن ،تاویل قرآن، ناسخ و منسوخ ،عام و خاص ، مطلق و مقید ، محکمات و متشابہات اور حروف مقطعات یعنی حقائق قرآن من البدوی الی ختم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) ہی جانتے تھے انہیں سے ہی تفسیر کے اصول و ضوابط کو لینا چاہیے ان کے اصول و ضوابط سے ہٹ کر،کی ہوئی تفسیر جتنے اچھے الفاظ اور حسن سلوک پر مشتمل ہو تفسیربالرای کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
ان کے بعد مرحلہ سوم میں مفسرین قرآن آئمہ معصومین علیہم السلام شمار کئے جاتے ہیں، اگر چہ نزول قرآن کے وقت یا حیات طیبہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو درک نہ بھی کیا ہو، کیونکہ یہ حضرات جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص)حجت خدا اور اللہ کی طرف سے رسول اور نبی تھے، اس طرح وہ ان کے جانشین اور وصی ہیں، وصی عین موصی کی ذمہ داری اور تکالیف کو انجام دینے کے لئے ہی منصوب کئے گئے ہیں چنانچہ حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے منقول احادیث اور روایات سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آئمہ معصومین (ع) ہر دور میں زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سینہ بہ تن ہو کر قرآن کی تفسیر اور وضاحت کرتے رہے لہذا آج جب
علماء اور محققین در منثور یا المنار جیسی تفاسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئمہ معصومین نے قرآن کی تفسیر کرنے میں کتنی سنگین اور مشکل دشواریوں سے مقابلہ کیا ہے ،رجوع کیجئے ۔(۸ )
اصحاب میں سے جو مفسر قرآن تھے
اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہے ان کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
الف) اصحاب رسول میں سے مفسر قرآن۔
ب) دیگر آئمہ معصومین (ع) کے اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہیں۔
١ ) عبداللہ ابن عباس: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ذاد بھائی تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے وقت ان کی عمر ١٣ سال بتا ئی جاتی ہے آپ بچپنے سے ہی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ہوتے تھے لہذا اصحاب رسول (ص) میں سے شمار کیا جاتا ہے ، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:”اللہم علّمہ الحکمۃ”(۹)”پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا ئے اور اس کو تاویل یعنی تفسیر قرآن سے نوازے”حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے آپ کو اپنی آغوش میں لیاتھا اور فرمایا کرتے تھے : ”اللہم فقہہ فی الدین و انتشر منہ” (۱۰)”پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا اور دین کی نشر و اشاعت کرنے کی توفیق عطا فرما ”
لہذا علوم قرآن میں آپ کی شخصیت اور مقام و منزلت کا اندازہ ایسے القاب سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ابن عباس کو ترجمان القرآن ،فارس القرآ ن ، احبر الامۃ، بحر الامۃ، رئیس المفسرین ، شیخ المفسرین سے یاد کیاجاتاہے ۔(۱١ )
اگر چہ بہت سارے محققین اور مفکرین نے آپ کو حضرت امام علی (ع) کے شاگردوں اور اصحاب میں سے شمار کیا ہے ۔
لہذا جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کیا ہے:ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب”(۱٢ )
” جو کچھ میں نے تفسیر قران کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب سے دریافت کی ہے، اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے ہی ان کو تفسیر کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرایا تھا۔
لیکن ابن عباس کا اصحاب رسول میں سے ہو جانا اور حضرت علی (ع) کے شاگردوں میں سے شمار کئے جانے میں کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں پایا جاتا ہے ،ہم اس کو اصحاب رسول (ص) کے مفسر ین میںسے شمار کرسکتے ہیں۔
٢۔ عبدا للہ ابن مسعود :آپ سے تفسیر قرآن کے بارئے میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں آپ حافظ قرآن تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے خاص الخاص اصحاب میںسے شمار کیا جاتا ہے حتی بعض محققین نے اپنی کتابوںمیںلکھا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) عبد اللہ ابن مسعود کی زبان سے قرآن کی تلاوت کی سماعت کو پسند کرتے تھے ۔(۱۳)
مفکرین اورمحققین ان کو ان گیارہ افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو خاندان اہل بیت سے دوستی اور محبت کر نے میں معروف اور مشہور تھے ،آپ تفسیر قرآن اور علم قرائت میںبہت زیادہ معلومات کے حامل تھے ،حتی کچھ محققین آپ کو اسلامی مفسرین میں سے اہم مفسر سمجھتے ہیں،اور تابعین کے زمانے میں کوفہ کے مفسرین کے اصول وضوابط اور پایہ گذاری ،تفسیر ابن مسعود بتا یا گیا ہے ۔
٣۔ ابی ابن کعب: آپ احباریہود میںسے تھے جب آپ مسلمان ہوئے تو کاتبین وحی قرار پایا ، آپ اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسر قرآن سے یاد کرتے تھے آپ قدیم یہودی کتابوںسے آگاہ تھے ،لہذا آپکی عظمت اوراہمیت دوسرئے مفسرین کی بہ نسبت زیادہ ہے ،جناب طبرسی علیہ الرحمۃ جیسے مفسر قرآن نے اپنی تفسیر میںہر مطلب پر ابی ابن کعب کے نظریے اوراحادیث سے استدلال کیا ہے ۔
٤۔ جابر بن عبد اللہ انصاری : اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک جابربن عبد ا للہ انصاری ہیں ،جناب ابی الخیر نے اپنی کتاب طبقات المفسرین میں اس کو مفسرین کے پہلے طبقہ میںشمار کیا ہے ،آپ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ١٨ جنگوں میں شرکت کی اور جنگ صفین میں آپ نے اصحاب علی (ع) کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا آپ پیغمبر اکرم (ص) کے طویل العمر اصحاب میںسے تھے امام محمد باقر کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا سلام عرض کیا ، جناب عطیہ تابعین کے مفسرین میں سے تھے ،روایت کی ہے جب امام حسین کی شہادت کے بعد جابر نے حضرت کی زیارت کوآنا چاہا تو عطیہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپکی شخصیت رجال اوردرایہ جیسے موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں میںواضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے آپ ٩٤سال کی عمر میں دنیا سے رخصت کر گئے ۔(۱۴)
٥۔ زیدبن ثابت :اصحاب کے دور میںمشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے آپ پیغمبر ؐ کے دور میں کاتبین وحی میں سے ایک تھے، آپ مدینہ منورہ میں قضاوت اور فتوی وعلم قرائت سے لوگوں کو سیراب کرتے رہے جب ابو بکر کا دور شروع ہوا تو زیدبن ثابت کوقرآن کی جمع آوری کا حکم دیا ،نیز دور عثمانی میں عثمان بھی قرآن کو زیدبن ثابت کی قرآت کے مطابق قرأت کرنے کی تائید کی ۔
حتی ابن عباس علوم قرآن اور مفسر قرآن کے ماہر ہونے کے باوجود زید بن ثابت کے دولت سرا جاتے تھے تاکہ مزید علم قرآن سے فیضیاب ہوسکیں۔
٦۔ میثم تمار: جبیر وغیرہ کو بھی اصحاب رسول(ص) کے مفسرین میں سے قرار دیا ہے لہذا اختصار کے پیش نظر انہی چند مفسرین کے نام لینے پر اکتفاء کروں گا ۔
حواله جات
( ١ ) روض الجنان،ج١،ابو الفتوح رازی، الاتقان ج٢، جلال الدین سیوطی، ابن خلدون مقدمہ، طبرسی مجمع البیان،ج١۔
( ۲ ) الاتقان ج٢ ص٢٩٦و روض الجنان ج١ص٥٣
( ۳ ) ذہبی التفسیر ج١ ص٧٩
( ۴ ) کنز العمال ج٢ص ٢٠١
( ۵ ) الاتقان ج٢ ص١٨٧
( ۶ ) التفسیر التفسیر ج١ص٨٩
( ۷ ) التفسیر التفسیر ج١ص٨٩ )
( ۸ ) در منثور، المنار، صافی
( ۹ ) التفسیر التفسیر ج١ ص٦٨
( ۱۰ ) سفینۃ البحار ج٢ ص ١٥٤
( ۱١ ) مقدمہ تفسیر مال مراغی )
( ۱۲) التفسیر التفسیر ج١ ص٨٩
( ۱۳ ) سفینۃ البحار ج ٢ ،ص ٣٧
( ۱۵ ) اسد الغابۃ ج ١ ص ٢٥٨