- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/19
- 0 رائ
مولف: آیت اللہ شہید مرتضی مطہری (ره)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فَبِمَا نَقضِھِم مِیثَاقَھُم لعنّٰھم وَ جَعَلنَا قُلُوبَھُم قٰسِیَۃ یُحَرِّفُونَ الکَلِمَ عَن مَوَاضِعِہ وَ نَسُوا حَظّاً مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ ۱
ہم نے کہا ہے کہ عاشورا کے واقعے میں تحریفیں ہوئی ہیں لفظی تحریفیں بھی اور معنوی تحریفیں بھی اور انہیں تحریفوں نے اس بڑی تاریخی سند اور اس بڑے تربیتی سرچشمے کوبے اثر یا کم اثر بنا دیا ہے بلکہ کبھی کبھی تو اس کا اثر الٹا بھی پڑ جاتا ہے لہذا ہم سب کا یہ ایک اہم اور عام فریضہ ہے کہ اس پاک سند سے ان تحریفوں کو دور کر دیں جنہوں نے اسے آلودہ کر دیا ہے۔ آج کی رات، میں تحریف کے اسباب کے متعلق گفتگو کروں گا اور اس کے بعد اس حادثے کی معنوی تحریفوں کے بارے میں گفتگو ہوگی۔
تحریف کے اسباب
یہ اسباب دو قسم کے ہیں: ایک قسم عام ہوتی ہے یعنی مجموعی طور پر ایسے اسباب موجود ہیں جو تاریخ میں تحریف کرتے ہیں ان کے لئے کربلا کے حادثے ہی کی تحریفیں نہیں مثلاً دشمنوں کے مقاصد بجاے خود ایک ایسا سبب ہیں جو حادثے میں تحریف کر ڈا لتے ہیں۔ دشمن اپنی غرض پوری کرنے اور مقاصد حاصل کرنے کے لئے تاریخ میں تبدیلیاں کرتا ہے یا تاریخ کی غلط تشریح اور تفسیر کرتا ہے اور یہ مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ میں ان کے بارے میں گفتگو کر نا نہیں چاہتا البتہ اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ حادثہ کربلا کی تحریف میں بھی ان اسباب کا دخل رہا ہے یعنی حسینی تحریک کی تحریف پر دشمن کمر بستہ ہو کر نکل آے اور جیسا کہ دنیا کا دستور ہے کہ دشمن پا کیزہ تحریکوں کے بارے میں گڑ بڑ پیدا کرنے، اور اختلاف شروع کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اموی حکومت نے بھی بہت کوشش کی کہ حسینی علیہ السلام تحریک کو اسی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرے۔
چنانچہ پہلے ہی دن سے ایسے پرو پیگنڈے شروع ہو گئے۔ مسلم بن عقیل جیسے ہی کوفہ پہنچتے ہیں یزید اس حکم نامے میں جس کے مطا بق وہ ابن زیاد کو حاکم کوفہ مقرر کرتا ہے، لکھتا ہے: مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ گئے ہیں اور ان کا مقصد مسلمانوں میں گڑ بڑ پھیلانا اور پھوٹ ڈالنا ہے۔ تو وہاں پہنچ کر ان کو کچل ڈال۔ جس وقت مسلم گرفتار کرکے ابن زیاد کی حویلی میں لائے جاتے ہیں ابن زیاد مسلم علیہ السلام سے کہتا ہے۔اے عقیل کے بیٹے! تمھارے اس شہر میں آنے کا کیا سبب ہے؟ یہاں کے لوگ آرام اور اطمینان سے رہ رہے تھے۔ تم آئے تو تم نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ پھوٹ ڈالی اور گڑبڑ پھیلا دی۔ مسلم علیہ السلام نے بھی جراٴت سے جواب دیا:
اول تو میں اس شہر میں خود نہیں آیا۔ اس شہر کے لوگوں نے مجھے بلایا۔ بہت سے خطوط لکھے اور وہ سب خطوط موجود ہیں۔ان میں انہوں نے لکھا ہے کہ تیرے باپ ”زیاد“ نے جتنے سال یہاں حکومت کی نیک لوگوں کو قتل کیا، بروں کو اچھوں پر مسلط کیا اور عوام پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ ان لوگوں نے ہمیں اس لئے بلایا ہے کہ ہم ان کے لئے انصاف مہیّا کریں۔ ہم عدل قائم کرنے کے لئے آئے ہیں۔ چونکہ اموی حکومتوں نے معنوی تحریف کی تھی اس لئے اس قسم کے بہت سارے واقعات بیان کئے ہیں لیکن اسلامی تاریخ پر اس تحریف کا اثر نہیں پڑا ۔ آپ کو دنیا بھر میں کوئی ایک مؤرخ اور صاحب نظر بھی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام نے نعوذ باللہ بے جا قیام کیا تھا۔ لوگوں میں پھوٹ ڈالنے اور ان کا ایکا ختم کرنے کے لئے آئے تھے۔ نہیں! دشمن حادثہ ٴ کربلا میں کوئی تحریف نہ کر سکا ’ حادثہ ٴ کربلا میں جتنی تحریف ہوئی ہے بد قسمتی سے دوستوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔
دوسرا سبب
دوسرا سبب انسان کا افسانہ گھڑنے اور کہانیاں کہنے کا رجحان ہے اور یہ پوری دنیا کی تاریخ میں ملتا ہے۔ انسان میں ایک ہیرو پرستی کا جذ بہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ قومی اور مذہبی شخصیتوں کے بارے میں دینی افسانے تراشتا رہتا ہے۔۲ اس کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ لوگوں نے بو علی سینا اور شیخ بہائی جیسے نا بغہٴ روز گار لوگوں کے لئے بہت سے افسانے گھڑ ڈالے ہیں ۔ بو علی سینا بلا شک وشبہہ ایک نابغہ ٴروز گار تھے اور ان کے جسمانی اور روحانی قویٰ ایک غیر معمولی پہلو رکھتے تھے تاہم انہیں کی وجہ سے لوگوں نے ان کے متعلق داستانے بنا ڈالیں مثلاً یہ کہ بو علی سینانے ایک آدمی کو ایک فرسخ کے فاصلے سے دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ شخص روغنی روٹی (گھی میں تلی ہوئی روٹی) کھا رہا ہے ۔لوگوں نے ان سے پوچھا کہ تو نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ یہ روٹی کھا رہا ہے اور روٹی بھی گھی میں تلی ہوئی ہے؟ انہو ں نے کہا اس لئے کہ میں روٹی کے آس پاس مکھیاں اُڑتے دیکھ رہا ہوں ۔میں سمجھ گیا کہ اس کی روٹی تلی ہوئی ہے جو مکھیاں اس کے آس پاس چکر کاٹ رہی ہیں ۔معلوم ہوا کہ یہ افسانہ ہے ۔جو شخص ایک فرسخ سے مکھی دیکھ سکتا ہے وہ روٹی کا روغن مکھیوں سے بھی جلدی دیکھ سکتا ہے ۔
یا کہتے ہیں کہ بو علی سینا جس زمانے میں اصفہان میں پڑھتے تھے انہوں نے بتایا تھا کہ میں آدھی رات کو جب پڑھنے کےلئے اٹھتا ہوں تو کاشان کے آہنگروں کے ہتھوڑوں کی آوازیں مجھے پڑھنے نہیں دیتیں۔ لوگ گئے اور انہوں نے خود جا کر دیکھ لیا تو یہ حکم جاری کر دیا کہ کاشان کے ٹھٹھیرے اور لوہار ہتھوڑے نہ چلائیں ۔بعد میں بو علی سینا نے بتایا کہ اس رات کو میں آرام سے سویا یا میں نے آرام سے مطالعہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی افسانہ ہے ۔
لوگوں نے شیخ بہائی کے متعلق بھی بہت سی کہانیاں بنا ڈالی ہیں ۔اس قسم کی باتیں عاشور کے حادثے ہی سے مخصوص نہیں ہے۔ لوگ بو علی سینا کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں کہیں ۔اس سے کسے نقصان پہنچ سکتا ہے ؟ کسی کو نہیں ۔لیکن ایسے لوگ جن کی شخصیتیں رہنما شخصیتیں ہیں جن کے قول، فعل، قیام اور تحریک عوام کے لئے سند اور حجّت ہیں ان کی باتوں، شخصیتوں اور تاریخوں میں تحریف نہیں ہونی چاہئے ۔ہم شیعوں نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کتنے افسانے گھڑے ہیں! علی علیہ السلام کے غیر معمولی انسان ہونے میں کسی کو عذر نہیں ۔ان کی شجاعت میں کسی کو شبہہ نہیں۔ دوست اور دشمن سبھی مانتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی شجاعت غیر معمولی تھی ۔ علی علیہ السلام نے جس میدان جنگ میں اور جس پہلوان سے مقابلہ کیا اسے پچھاڑا، لیکن کیا افسانہ سازوں نے اسی پر قناعت کی! ہر گز نہیں۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام خیبر کی لڑائی میں مرحب پہلوان کے مقابلے میں گئے ۔مرحب کتنا زبردست پہلوان تھا ۔ مؤرخوں نے بھی لکھا کہ علی علیہ السلام نے جیسے ہی اس پر وار کیا اس کے دو ٹکڑے ہوگئے(نہ جانے یہ دو ٹکڑے دو برابر کے آدھے تھے یا نہیں) لیکن اس پر لوگوں نے ایسی ایسی باتیں بنائی ہیں اور ایسے ایسے افسانے گھڑے ہیں جو مذہب کو بگاڑ ڈالتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام کو حکم پروردگار ہوا کہ فو راً پہنچو ، اگر علی علیہ السلام کی تلوار زمین پر گری تو زمین کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے اور اس گائے اور مچھلی تک جا پہنچے گی جن پر زمین ٹکی ہوئی ہے۔ اپنا پر علی علیہ السلام کی تلوار کے نیچے بچھا دو۔ جبرئیل گئے اور ویسا ہی کیا ۔علی علیہ السلام نے بھی ایسا وار کیا کہ مرحب کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔ وہ دونوں ٹکڑے کیا تھے کہ پورے پورے آدھے تھے، اگر انہیں ترازو میں رکھ کر تولتے تو دونوں پلڑے برابر بیٹھتے۔ علی علیہ السلام کی تلوار سے جبرئیل کے پر میں زخم آگیا ۔چالیس دن اور چالیس رات تک وہ آسمان پر نہیں جا سکے۔ چالیس دن کے بعد جیسے ہی آسمان پر پہنچے اللہ نے سوال کیا کہ چالیس دن تک کہاں رہے؟ اے میرے پروردگار! میں زمین پر تھا۔ تو نے ہی تو میری ڈیوٹی لگائی تھی۔ جلدی کیوں نہیں پلٹے؟ اے خدا! جیسے ہی علی علیہ السلام کی تلوار گری اس نے میرا پر زخمی کردیا۔ میں ان چالیس دنوں تک اس کی مرحم پٹی کرتا رہا۔ ایک اور شخص کہتا ہے کہ علی علیہ السلام کی تلوار اتنی فرتی اور نرمی سے مرحب کا سر چیرتی ہوئی گھوڑے کی کاٹی کے نمدے میں اتر گئی کہ علی علیہ السلام نے تلوار نکال بھی لی اور مرحب کو خبر بھی نہیں ہوئی! بولا اے علی علیہ السلام! بس تمہارا زور اتنا ہی تھا؟ (اس نے سوچا کہ وار کاری نہیں لگا ہے) تمہاری ساری پہلوانی بس یہیں تک تھی؟ علی علیہ السلام نے کہا: ذرا ہل کے تو دکھا۔ مرحب نے جیسے ہی اپنے آپ کو ہلایا، آدھا جسم ایک طرف گر پڑا اور آدھا دوسری طرف! یہ مرد بزرگوار یعنی حاجی نوری اپنی کتاب ”لولو ومرجان“ میں اس قسم کے افسانوں کی گھڑت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کی شجاعت کے با رے میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے جنگ صفین میں (جس میں انکی شرکت کرنے کا کوئی علم نہیں ہے اور اگر انہوں نے شرکت کی بھی ہوگی تو وہ اس وقت پندرہ سال کے ہونگے) ایک آدمی کو ہوا میں اچھالا پھر دوسرے کو پھر تیسرے کو غرض اسی طرح اسّی(۸۰) آدمی اُچھالتے چلے گئے۔ جب آخری آدمی کو اُچھال چکے تو پہلا آدمی ہوا سے نیچے آیا اور آپ نے تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کر دئے پھر دوسرا گرا تو اس کے دو ٹکڑے کردئے پھر تیسرا اور پھر چوتھا، غرض اسی طرح انہوں نے اسّی آدمی تہہ تیغ کر ڈالے۔
حادثہ کربلا میں جو تحریفیں ہوئی ہیں ان میں سے کچھ افسانہ سازی کے جذبے کے تحت ہوئی ہیں۔ یورپ والے کہتے ہیں کہ مشر قی ملکوں کی تا ریخ میں مبالغے اور گپیں بہت ہیں اور وہ سچ بھی کہتے ہیں۔ ملا آقائے دربندی نے ” اسرار الشہادہ “میں لکھا ہے: عمر سعد کی گْھڑ سوار فوج میں چھ لاکھ سوار اور پیدل فوج میں دو کروڑ سپاہی تھے ۔ اس طرح لشکریوں کی کل تعداد دو کروڑ چھ لاکھ تھی اور وہ سب کے سب کوفہ کے رہنے والے تھے ۔ تو کیا کوفہ اتنا بڑا شہر تھا؟ کوفہ ایک نو آباد شہر تھا ۔ جسے بسے ہوے اس وقت تک پینتیس سال بھی نہیں گزرے تھے۔ کیوں کہ کوفہ عمر بن الخطاب کے زمانے میں بسایا گیا تھا۔ اس کے بسانے کا حکم ”عمر“ نے دیا تھا۔ تاکہ ایران کے قریب اسلامی فوج کا ایک مرکز قائم ہوجائے۔ اس وقت نہ جانے کوفہ کی کل آبادی ایک لاکھ آدمیوں پر بھی مشتمل تھی یانہیں ۔ یہ بات عقل میں نہیں آتی کہ عاشورا کے دن کربلا میں دو کروڑ اور چھ لاکھ سپاہی جمع ہوجائیں اور ان میں سے تین لاکھ کو حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام موت کے گھاٹ اتار دیں۔یہ بات حادثہ کربلا کی ساکھ کو بالکل ختم کر دیتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص ہرات کے بارے میں گپ اڑایا کرتا تھا اور کہتا تھا: ہرات ایک زمانے میں بہت بڑا شہر تھا ۔ لوگوں نے پوچھا کتنا بڑا تھا؟ اس نے جواب دیا: ایک وقت میں وہاں اکیس ہزار کانے نانبائی ”احمد“ نام کے رہتے تھے۔ اب وہاں کتنے لوگ ہونے چائیں اور ان میں سے کتنے احمد ہوں اور پھر کتنے احمد کانے ہوں جن میں اکیس ہزار کا نے احمد نانبائی ہونگے!
افسانہ سازی کے اس جزبے نے بہت کام کئے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ایک مقدس سند کو افسانہ سازوں کے اختیار میں نہ دیں ۔ ”وان لنافی کلّ خلف عدو لا ینفون عنا تحریف الغالین و انتحال المبطلین۔“۳ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہرات کے لئے جو چاہے جو کچھ کہے لیکن کیا یہ بات درست ہے کہ واقعہ عاشور کی تاریخ میں بھی جس کو ہم بطور معمول ہر سال ایک مکتب کی حیثیت سے زندہ اور تازہ کرتے ہیں یہ سب افسانویت داخل ہوجائے۔
حواله جات
۱. سورہٴ مائدہ /آیت: ۱۳
۲. ڈاکٹر شریعتی نے عید غدیر کی راتوں میں اس جذبہ کے متعلق ایک بہت عمدہ تقریر کی تھی جس کے تحت انسان میں کہانی کہنے ،افسانہ گھڑنے، ہیرو بنانے اور ہیرو کے غیر معمولی گن گانے کا رجحان پایا جا تا ہے ۔
۳. اصول کافی/جلد: ۱/صفحہ: ۳۲۔ کتاب فضل ِعلم، بصائر الدرجات/صفحہ: ۱۰۔