- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/19
- 0 رائ
مولف: آیت اللہ شہید مرتضی مطہری (ره)
حاجی نوری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نجف کا ایک طالب علم ”یزد“ کا رہنے والا تھا ۔ اس نے مجھ سے بیان کیا کہ جوانی میں، میں کویر سے خراسان پیدل جا رہا تھا۔ نیشا پور کے ایک گاؤں میں ایک مسجد تھی اور چونکہ میرے قیام کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی اس لئے میں مسجد میں چلا گیا ۔مسجد کا پیش نماز آیا ۔اس نے نماز پڑھائی اور پھر تقریر کی۔ اس درمیان یہ دیکھ کرمجھے بے حد تعجب ہوا کہ مسجد کا خادم فرّاش کچھ پتھر لےکر آیا اور پیش نماز کو دیدیئے جب اس نے مصائب کو پڑھنا شروع کیا تو چراغ بجھا دیئے ۔ جیسے ہی چراغ گل ہوئے اس نے سامعین پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے لوگوں میں چینخ پکار مچ گئی ۔اب جو چراغ پھر جلائے گئے تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کے سر پھٹ گئے ہیں اور روتے آنسو بہاتے مسجد سے نکل گئے ۔ میں پیش نماز کے پاس پہنچا اور اس سے کہنے لگا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ اس نے جواب دیا ”میں نے ان کی آزمایش کی تھی کیونکہ یہ کسی مصائب پر نہیں روتے۔“ چونکہ امام حسین علیہ السلام پر رونا اجر و ثواب کا موجب ہے اور میں نے دیکھا کہ ان کے رلانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ان کے سروں پر پھتر مارے جائیں اس لئے میں انہیں اسی طریقے سے رُلاتا ہوں۔ اس کے کہنے کے مطابق مقصد وسیلے کو جائز بنا دیتا ہے مقصد، حسین علیہ السلام پر رونا ہے خواہ جھولیاں بھر بھر کے لوگوں کو پتھر مارے جائیں ۔چنانچہ اس معاملے میں ایک یہی خصوصی سبب رہا ہے جس سے اس میں من گھڑت باتیں اور تحریفیں داخل ہوگئیں ہیں ۔
انسان جس وقت تاریخ پڑھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس حادثہ پر لوگوں نے کیا کیا ستم ڈھائے ہیں۔ خدا کی قسم حاجی نوری سچ کہتے ہیں ”کہ آج اگر کوئی حسین علیہ السلام پر رونا چاہے تو اسے ان تحریفوں، تبدیلیوں اور ان جھوٹی باتوں پر رونا چاہئے“
”روضۃ الشہداء“ نام کی ایک مشہور و معروف کتاب ہے جس کا مصنّف ملاّ حسین کاشفی ہے۔ حاجی نوری کہتے ہیں کہ زعفر جن اور قاسم کی شادی کا قصّہ اس کتاب میں پہلی بار اس شخص نے تحریر کیا تھا۔ میں نے یہ کتاب دیکھی نہیں تھی اس لئے یہ سوچتا تھا کہ اسمیں ایک دو ہی باتیں ایسی ہون گی۔ بعد میں یہ کتاب جو فارسی میں ہے اور تقریبا پانچ سو(۵۰۰) سال پہلے تالیف ہوئی ہے۔ (میری نظر سے گذری)۱۱ ملاّ حسین کاشفی ایک ملاّ اور پڑھا لکھا آدمی تھا اس کی کتنی ہی کتابیں ہیں جن میں ایک ”انوار سہیلی“ نامی کتاب بھی ہے۔ اس کے حالات پڑھنے سے پتہ نہیں لگتا کہ وہ شیعہ تھا یا سنّی۔ بنیادی طور پر وہ طرح طرح کی صفات رکھتا تھا۔ شیعوں میں جاتا تھا تو اپنے آپ کو سو فیصدی پکّا شیعہ ظاہر کرتا تھا اور جب سنّیوں میں جاتا تھا تو خود کو حنفی بتاتا تھا۔ سبزوار کا رہنے والا تھا اور سبزوار شیعت کا مرکز رہا ہے جہاں کے لوگ کٹر شیعہ اور آبادی سو فیصد شیعہ تھی جب وہ ہرات جاتا تھا(عبدالرحمٰن جامی کا بہنوئی یا ساڑھو تھا) تو وہاں سنّی اور اہل تسنّن کی روش پر چلنے والا بن جاتا تھا۔ واعظ بھی تھا لیکن مدّت تک سبزوار میں رہا تھا۔ مصیبت کا ذکر کیا کرتا تھا۔ ۹۱۰ ھ کے آس پاس اس کی وفات ہوئی ہے یعنی نویں صدی ہجری کے اواخر یا دسویں صدی ہجری کے اوایل میں اس نے انتقال کیا ہے۔ اس نے پہلی کتاب جو مرثیہ پر فارسی زبان میں لکھی ہے وہ یہی کتاب ہے جو آج سے پانچ سو سال پہلے تصنیف ہوئی ہے۔ اس کتاب سے پہلے لوگ ابتدائی اور اصلی مآخذ سے واقعات حاصل کرتے تھے۔ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ”ارشاد“ نامی کتاب لکھی ہے اور نہایت معتبر اور مستند کتاب لکھی ہے۔ ہم اگر شیخ مفید کی ”ارشاد“ ہی سے مواد حاصل کریں تو پھر کہیں اور جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اہل تسنّن میں سے طبری نے لکھا ہے، ابن اثیر نے لکھا ہے، یعقوبی، ابن عساکر اور خوارزمی نے لکھا ہے۔ نہ جانے اس ظالم نے کیا کیا ہے۔ میں نے جس وقت یہ کتاب پڑھی تو دیکھا کہ نام بھی جعلی ہے یعنی حسین علیہ السلام کے اصحاب میں ایسے ایسے نام لکھتا ہے جن کا مطلقاً کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ دشمنوں کے بھی ایسے ایسے نام بیان کرتا ہے جو سب کے سب جعلی ہیں۔ اس نے تو واقعات کو افسانہ اور کہانی بنا کر پیش کیا ہے۔
چونکہ یہ پہلی کتاب ہے جو فارسی زبان میں لکھی گئی اس لئے مرثیہ خوان جو پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے اور عربی کی کتابیں استعمال نہیں کر سکتے تھے یہی کتاب اٹھا لیتے تھے اور مجلسو ں میں پڑھ دیتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ہم آج امام حسین علیہ السلام کے سوگ کی مجالس کو ”روضہ خوانی“ کہتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں روضہ خوانی کی اصطلاح رائج نہیں تھی اور بعد میں سیّد مرتضیٰ اور خواجہ نصیرالدین طوسی کے وقت میں بھی روضہ خوانی نہیں کہتے تھے۔ آج سے پانچ سو سال پہلے سے اس کا نام روضہ خوانی پڑا۔ روضہ خوانی یعنی کتاب ”روضۃ الشہداء“ پڑھنا یعنی وہی جھوٹی کتاب پڑھنا۔ جس وقت سے یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ لگی ہے کسی شخص نے امام حسین علیہ السلام کی صحیح صحیح تاریخ نہیں پڑھی۔
ساٹھ ستّر سال پہلے ملّا آقای دربندی مرحوم پیدا ہوا۔ اس نے ”روضۃ الشہداء“ کی باتوں میں کچھ اور اضافے کیے اور سب کو اکٹھا کرکے ”اسرار الشہادۃ“ نامی ایک کتاب لکھ ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اسلام پر روئے اور گریہ کرے۔
حاجی نوری لکھتے ہیں کہ ہم حاجی شیخ عبد الحسین تہرانی کی کلاس میں تھے جو بہت بڑے بزرگ تھے اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے تھے کہ حلّہ کا رہنے والا ایک روضہ خوان سیّد آیا جس نے انہیں مقتل کی ایک کتاب دکھائی اور کہا کہ دیکھئے یہ معتبر ہے یا نہیں؟ اس کتاب کے نہ اوّل کے ورق تھے نہ آخر کے حرف ۔اس میں ایک جگہ یہ لکھا ہوا تھا کہ جبل عامل کا فلاں ملاّ صاحب معالم کا شاگرد ہے۔ حاجی شیخ عبد الحسین مرحوم نے وہ کتاب مطالعہ کرنے کے لئے لے لی ۔
پہلے اس عالم کے حالات پڑھے تو معلوم ہوا کہ اس کے نام سے ایسی کوئی کتاب ہی نہیں لکھی گئی۔ پھر خود کتاب کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ جھوٹ کا پٹارا ہے۔ اس سیّد سے بولے یہ کتاب بالکل گپ ہے۔ اس کتاب سے کوئی بات اخذ کرنا یا بیان کرنا جائز نہیں ہے اور بنیادی طور پر یہ کتاب اس عالم کی لکھی ہوئی بھی نہیں ہے۔ اس کی باتیں سب جھوٹی ہیں۔ حاجی نوری لکھتے ہیں ”اسرار الشہادۃ“ کے مصنّف کے ہاتھ یہی کتاب پڑ گئی تھی جس کا مواد اس نے اوّل سے آخر تک سب نقل کر لیا۔
حاجی نوری ایک اور قصّہ بتاتے ہیں جو بہت مایوس کن ہے۔ ایک شخص مرحوم صاحب مقامع۱۲ کے پاس گیا اور بولا کہ کل رات کو میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا۔ کیا خواب دیکھا؟ اس نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے ان دانتوں سے امام حسین علیہ السلام کے بدن کا گوشت کاٹ رہا ہوں۔ یہ عالم بزرگ کانپ گئے۔ اپنا سر جھکا لیا۔ بڑی دیر تک سوچتے رہے پھر بولے: کیا تو مرثیہ خواں ہے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ فرمایا: اس وقت کے بعد سے تو مرثیہ خوانی بالکل چھوڑ دے یا پھر معتبر کتابوں سے واقعات لےکر بیان کیا کر۔ تو اپنی ان جھوٹی باتوں کے بدولت امام حسین علیہ السلام کے بدن کا گوشت اپنے دانتوں سے کاٹتا ہے ۔ یہ خدا کی مہربانی تھی جس نے تجھے خواب میں اس بات سے آگاہ کر دیا۔
اگر کوئی تاریخ عاشورہ پڑھے تو دیکھے گا کہ وہ سب سے زیادہ زندہ اور روشن اور سب سے زیادہ معتبر اور سب سے زیادہ اصلی اور ابتدائی مواد و الی تاریخ ہے۔ آخوند خراسانی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ ان سنی روایات کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ جائیں اور ایسی سچی روایات ڈھونڈیں جنہیں اب تک ایک شخص نے بھی نہیں سنا وہ خطبے جو امام حسین علیہ السلام نے مکّہ میں اور مجموعی طور پر حجاز میں ،کربلا میں، راستے میں دیئے تھے۔ وہ خطبے جو ان کے اصحاب نے دئیے تھے۔ وہ سوال وجواب جو آنحضرت سے ہوئے ہیں ۔وہ خوط جو آپ کے اور دوسروں کے درمیان لکھے گئے ۔ وہ خطوط جن کا تبادلہ دشمنوں سے ہوا ہے ۔ ان دوست اور دشمن لوگوں کے بیانات کے علاوہ جو اس معرکہ میں عینی شاہد تھے اور جنہوں نے یہ حادثہ بیان کیا ہے۔ ان کو پڑھیں ۔امام حسین علیہ السلام کے تین چار دوست بھی ایسے تھے جو بچ گئے تھے۔ ان میں سے عقبہ بن سمعان نامی ایک غلام بھی تھا جو مکّہ سے امام علیہ السلام کے ساتھ ہو لیا تھا اور حضرت ابا عبداللہ علیہ السلام کے لشکر کا رپورٹر تھا۔ وہ عاشور کے دن پکڑا گیا تھا اور جب اس نے کہا کہ میں غلام ہوں تو اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایک اور شخص کا نام حمید بن مسلم ہے جو لشکر عمر سعد کا ایک واقع نگار تھا۔ واقعہ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات بھی تھی جنہوں نے تمام واقعات بیان کئے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تاریخ میں کہیں کوئی ابہام اور دھندلا پن نہیں ہے۔
بد قسمتی سے امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں حاجی نوری ایک من گھڑت اور تحریفی قصّہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روز عاشورا جب امام حسین علیہ السلام کا کوئی مدد گار باقی نہیں رہا تو حضرت علیہ السلام خدا حافظ کہنے کے لئے امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں تشریف لے گئے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: بابا جان! آپ کا اور ان لوگوں کا اب کیا حال ہے؟ (یعنی اس وقت تک امام زین العابدین علیہ السلام حالات سے بالکل بے خبر تھے) امام علیہ السلام نے فر مایا: بیٹے لڑائی چھڑ گئی۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے پوچھا: حبیب بن مظاہر کا کیا حال ہے؟ آپ نے فر مایا: قتل ہو گئے۔ پھر پوچھا: زہیر بن قین کا کیا حال ہے؟ آپ نے فر مایا: قتل ہو گئے۔ بریر بن خضیر کا کیا حال ہے؟ فرمایا: قتل ہوگئے۔ غرض اصحاب میں سے جس جس کا نام لیتے گئے امام حسین علیہ السلام فرماتے گئے قتل ہو گئے۔ پھر بنی ہاشم کے بارے میں پوچھا: قاسم علیہ السلام بن حسن علیہ السلام کا کیا حال ہے؟ فرمایا: قتل ہو گئے۔ میرے بھائی علی اکبر علیہ السلام کا کیا حال ہے؟ فر مایا: قتل ہو گئے۔ چچا عبّاس کی کیا خبر ہے؟ فرمایا: قتل ہو گئے۔ یہ سب مکالمہ جھوٹ ہے، گپ ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام اتنے بیمار اور بیہوش نہیں تھے جو نہ جانتے یا نہ سمجھتے کہ کیا ہو چکا ہے۔ تاریخ کا بیان ہے کہ اس حالت میں بھی امام علیہ السلام اٹھے اور بولے پھوپھی جان! میری لا ٹھی اور تلوار میرے لئے لا دیجئے۔ واقعہ کربلا میں جو لوگ موجود تھے اور جنہوں نے حالات بیان کئے ہیں ان میں امام زین العابدین علیہ السلام کی ذات گرامی بھی شامل ہے۔
حواله جات
۱۱. تقریر کا جملہ اس طرح نا مکمل ہے۔
۱۲. مرحوم آقا محمد علی پسر وحید بہبہانی مرحوم دونوں باپ بیٹے بزرگ انسان گذرے ہیں۔ آقا محمد علی مرحوم ” کرمان شاہ “ چلے گئے تھے جہاں انہوں نے بہت اثر اور قوّت پیدا کر لی تھی۔