- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/28
- 0 رائ
دوسرا نظریہ: حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی تدوین
گذشتہ نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے ثابت کیاگیاہے کہ قرآن کی تدوین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں ہوئی تھی لیکن حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے فورا بعد حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور منفعت پرستی کا عالم دیکھا تو اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جس کا مقصد قرآن کی حفاظت کرناتھاتاکہ قرآن کو تحریف اور کمی بیشی سے بچاسکیں، چنانچہ اس مطلب کو جناب سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میںسلمان فارسی سے یوں نقل کیا ہے، جب حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور غداری کی حالت دیکھی تو آپ نے اپنے قیامگاہ میں گوشہ نشینی کرکے قرآن کی جمع آوری اور تدوین شروع کی جبکہ اس سے پہلے قرآن متعدد صحف اور کھالوں پر لکھا گیا تھا، اورآپ ہی نے قرآن کی اس طرح تدوین کی تھی کہ جس طرح آیات ناسخہ، اور منسوخہ، تنزیل، و تاویل، عام وخاص، نازل ہوا تھاجبکہ اس وقت آپ سے بیعت لینے کیلئے خلیفہ وقت کی طرف سے پیغام بھی بھیجا تھا۔(١ )
نیزخصال میںمرحوم شیخ صدوق نے مسلم بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی ہو مگر پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے نہ فرمایا ہو اور میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ لکھا ہو، اور اس کی تفسیر او رتاویل مجھے یاد نہ دی ہو اس کا ناسخ و منسوخ مجھے نہ فرمایا ہو، محکم و متشابہ، عام و خاص نہ بتایا ہو، اور پیغمبر اکرم (ص ) ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ خدای حضرت علی (ع)کو اس کی حفاظت اور فہم و درک کی توفیق دے، لہذا جب سے پیغمبر اکرم (ص) نے میرے لئے دعا شروع کی تب سے کوئی آیت اور حکم کومیں نے کبھی فراموش نہیں کیا ہے ۔ (۲ )
نیز حضرت امام باقر (ع)سے روایت ہے آپ نے فرمایا : اس امت سے کوئی، قرآن کی جمع آوری اورتدوین نہیں کرسکتا مگر آنحضرت(ص) کاجانشین اوروصی۔(۳ )
اس طرح حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:تحقیق حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی (ع) قرآن میرے فراش کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اس کو مصحف اور کاغذ اور حریر میںجمع ہے اس کو لوحوںاور مصحف کی شکل میں جمع کرو تاکہ جس طرح یہودیوں نے تورات کو ضائع کیا اس طرح قرآن ضائع نہ ہو جائے .. حضرت علی (ع) چلے گئے اور قران کو کسی کپڑے میں لپیٹ کردولت سرا کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا جب تک قرآن کی جمع آوری کا کام مکمل نہیں ہوگا تب تک میں عبا نہیں پہنوں گا، لہذا بسا اوقات دولت سرا کے دروازے پرعبا کے بغیر نظر آتے تھے ۔(۴ )
مذکورہ آیات اور احادیث سے دو مطلب واضح ہوجاتے ہیں :
الف: قرآن کی جمع آوری حضرت علی (ع) نے کی ہے چاہے پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں کی ہویا پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد۔
ب: ان روایات اور مذکورہ نظریہ کے مابین کوئی تضاد اورتنافی بھی نہیں ہے کیونکہ حضرت علی (ع) نے پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد جس کیفیت پر قرآن کی جمع آوری کی ہے وہ ایک خاص کیفیت کاحامل تھا جبکہ حیات حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی جمع آوری کی کیفیت میں تنزیل و تاویل، ناسخ و منسوخ ،نزول کی تاریخ معین نہ تھی، لہذ حضرت علی (ع) نے وفات پیغمبر کے بعد تدوین قرآن کی اور حیات پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جو جمع آوری ہوئی تھی وہ بھی حضرت کے ہاتھوں،ا ن کے درمیان کوئی تضاد نہیںہے کیونکہ دونوںزمانوںمیںجمع آوری علی (ع)نے ہی کی ہے ۔
مرحوم سیوطی نے ابن الفرس سے انہوںنے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے: جب ابو بکر کی خلافت کا آغاز ہوا تو حضرت علی (ع) نے اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی ،لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ حضرت علی (ع) تیری اطاعت اور بیعت کرنے سے انکار کرتے ہیں ،اتنے میںابوبکر نے کسی کو بھیجا اورحضرت علی (ع) سے پوچھا آپ ابو بکر کی بیعت سے انکار کرتے ہیں؟آپ نے فرمایا :میں اس وقت قرآن میں تحریف ،کمی اور بیشی ہونے سے بچانا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں حتی نماز کے لئے عبا پہننے کی فرصت بھی نہیں بلکہ قرآن کی جمع آوری کے کاموں میںمصروف ہوں ،اتنے میںابو بکر نے کہا آپ کتنے اچھے کام میںمصروف ہیں (۵ )
حضرت علی (ع) کی سیرت یہ تھی کہ آپ ہر وقت حضرت پیامبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے ،مہبط وحی میںآپ کی تربیت پائی تھی آپ تمام اسرار با الخصوص وحی کے کاتب تھے لہذ حضرت علی (ع) کے سوا کسی اور شخص سے خدا کے حکم اورفرمان رسول (ص) کے مطابق آیات کی ترتیب اوران کے مخصوص نظم ونسق ،سیاق وسبق ،فصاحت وبلاغت کے اصول وضوابط کے ساتھ قرآن کی جمع آوری اور تدوین قرآن ناممکن تھا ، اگر چہ مورخین نے دیگرکچھ افراد کا نام جمع آوری قرآ ن کی فہرست میںعلی (ع) کے نام کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ تدوین قرآن کی لسٹ میں حضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کا نام بھی آئے لیکن تعصب مذہبی سے ہٹ کر علم اور ایمان کی روسے نگاہ کریں تو تدوین قرآن کے مسئلہ کو غیر معصوم افراد کی طرف نسبت دینا ناانصافی اورمسلمانوں کے عقیدہ کمزور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ ایسے افراد کے ہاتھوں قرآ ن جمع آوری ہونے کادعواکرنا جو نہ ہمیشہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے نہ وہ لوگ حقائق اوراسرار سے باخبر تھے ایسے افراد کے ہاتھوں جمع آوری قرآ ن کے قائل ہونے کا لازمی نتیجہ تحریف قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
جبکہ تمام مسلمانوں کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن تحریف سے پاک ہے چونکہ قرآن امت محمدی ؐ کے لئے ضابطہ حیات ہونے کے حوالے سے قرآن کو ایسی حالت میںچھوڑ کر دار بقاکی طرف کوچ کرنا ناممکن نظر آتا ہے اورقرآن جو تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کی حیثیت سے اس کی جمع آوری کوحضرت ابوبکر جیسے عمر رسیدہ صحابی کے ذمہ ڈالیں یاحضرت عثمان کے دور حکومت کوقرآن کی جمع آوری کا زمان قرار دینا الہی عقائد اوراصول وضوابط کمزور قراردینے کے علاوہ کچھ نہیںہے ایسی باتیںدرحقیقت پیکراسلام پر ضربت اورمسلمانوںکے ساتھ خیانت کے مترادف ہے ہاں یہ ہوسکتاہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں تدوین شدہ قرآن کی تجدید ہوئی ہو ،ایسی باتیں فضول ہیں ورنہ کفار مکہ ومدینہ کی سیرت سے عالم اسلام بخوبی آگاہ ہے کہ حضرت پیامبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد حضرت عثمان کے دور حکومت تک کے زمان میں کیا انہوں نے اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی جانی دشمنی سے ہاتھ اٹھایا ،کیا ان کے ہاتھوں سے پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تدوین نہ شدہ قرآن کی حفاظت کا تصور ممکن ہے ؟ایک سطر ایک ٹکڑا کا غذ یاکپڑاکہ جن میںقرآن مستور تھا یا مکتوب تھا،ایسااحتمال ہی، تحریف قرآن ثابت کر نے کے لئے کافی ہے ،جبکہ پورئے عالم اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن میںتحریف واقع نہیںہوئی ہے بلکہ ہمارئے عقیدہ کی بنیاد پر ہرگز تحریف کے قائل نہیں ہوسکتے اورجو قرآن اس وقت مسلمانوںکے ہاتھوں میںموجود ہے اس میںکسی قسم کااختلاف نظم وضبط اورترتیب وتدوین کے حوالے سے نظر نہیںآتا ، یہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے یعنی قرآن کی تدوین خود پیغمبراکرم (ص) نے اپنے دورمیںاپنے خاص الخاص صحابے کے ہاتھوںکی تھی ،اگرچہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد دیگر اصحاب کے ہاتھوںقرآن کی تدوین اورجمع آوری کی بات مذاہب اورمکاتب کے درمیان مشہور ہے ،لیکن صاحبان ذوق وشعورہستی کواس مسئلہ کے بارئے میں غور وخوص کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف سے ان کا عقیدہ یہ ہو کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری حضرت ابوبکر یاحضرت عثمان نے کی ہے دوسری طرف سے اس میںتحریف نہ ہونے کے قائل ہیں ،لہذا زمان ومکان اورحالات کی تبدیلیوںکے پیش نظر اوراصحاب کے عملی اقدام اورمنفی پالیسیوںکو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے اہم ترین مسئلہ کوحضرت ابو بکر اورحضرت عثمان سے منسوب کرنا اشتباہ ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیںہے صرف چند ایک ضعیف السند روایت کے ذریعے مسئلہ اعتقادی کو ثابت کرنا نا انصافی ہے لہذا اگر تاریخ میںیا کسی ضعیف السند روایت میںتدوین قرآن کی نسبت حضرت ابو بکر یا حضرت عثمان کی طرف دی گئی ہے تو اس کو تجدید تدوین یا مرمت پر محمول کیا جانا چاہیے کیونکہ مسلمانوںکاعقیدہ یہ ہے کہ اعتقادی مسائل کو خبر تواتر اوربر ہان یقینی کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے ان کو خبر واحد یا ظنی الدلالۃ سے ثابت نہیںکیا جاسکتا ،لہذا اگر قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے مسئلہ کوحضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کے ہاتھوںہونے کو خبر تواتر اوربرہان قطعی الدلالۃ کے ذریعے ثابت کر سکیں تو سب سے پہلے ہم ہی قبول کریں گے کیونکہ ہم ہر وقت ہرمسئلے میںدلیل کے تابع ہیں ۔
مرحوم سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب الاتقان میں قرآن کی تدوین حضرت ابوبکر کے ہاتھوں ہونے کے متعلق دلچسپ باتیں بیان کی ہیں اسکا اگر کڑی نظر سے غور کیا جائے تو بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھوں اور دور خلافت میں قرآن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایت خبر واحد ہے جوبرہان ظنی ہے نہ تواتر اور برہان یقینی حال اینکہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسائل اعتقادی برہان یقینی اور تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتے ۔
جناب ابن سعد کی روایت ہے حضرت علی (ع) نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد قسم کھائی کہ جب تک میں قرآن کو بین الدفتین جمع نہ کرلوں تب تک عبازیب تن نہیں کروں گا اور آپ نے یقینا اپنے عہد کو پورا کیا۔ (۶ )
لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ حضرت ابو بکر اورعثمان کے دور خلافت میں قرآن کی تدوین بیان کرنے والی روایات ان دستہ روایات کے ساتھ ٹکراو نہیں رکھتیں جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات اور حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی جمع آوری اور تدوین ہونے پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر اورعثمان کے دورحکومت میں ان کے ہاتھوں قرآن کی جمع آوری پر دلالت کرنے والی تمام روایات خبر واحد اور ظنی ہیں جبکہ حضرت پیامبر اکرم کی حیات میں اورحضرت علی (ع) کے ہاتھوںقرآ ن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایات متواترہ اور برہان یقینی ہیں۔
مرحوم علامہ نے کتاب تذکرہ میں فرمایاہے جو قرآن دور حاضر میں بین الدفتین میں مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہے یہ عین وہی قرآن ہے جو حضرت علی نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جمع کیاتھا دیگر تمام مصاحف کو حضرت عثمان نے ختم اورنابود کردیا تھا۔
لہذا حقایق اور واقعیات پر پردہ ڈالنے کی خاطر شیعہ امامیہ کے عقائد پر حملہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں منبر رسول (ص) سے اس طرح خطاب کرنا کہ شیعہ امامیہ کے قرآن اور ہمارے قرآن میں فرق ہے، وہ موجودہ قرآن کے قائل نہیں ہیںان کا قرآن حضرت علی (ع) کے ہاتھوں جمع اور تدوین ہوئی ہے، وہ ہمارے قرآن سے الگ اورمختلف ہے لہذا وہ کافر ہے، کیونکہ جو قرآن ہمارے پاس موجودہے اس کے وہ مخالف ہے !ایسی بات درحقیقت شیعہ امامیہ سے منسوب کرنا نا انصافی ہے ، اگر حقیقت اور کتاب و سنت کے بالا دستی اورمسلمانوں کے مابین یکجہتی کے خواہاں ہیں تو ضرور شیعہ امامیہ کے عقائد اور علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیجئے ۔
…………….
حواله جات
( ١ ) کتاب سلیم بن قیس ص٨١، چاپ دار الکتب
( ۲ ) بحار الانوار ج٤
( ۳ ) بحارلانوار ج٩٢،ص٤٨۔
( ۴ ) بحارالانوار ،ج٩٢،ص٤٨
( ۵ ) شناخت قرآن ص١١١
( ۶ ) صیفات ج٣ص١٣٧