- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/17
- 0 رائ
اس بات کے مسلم هو جانے کے بعد کہ اسلام ميں تفسير بالرائي کى کوئى جگہ نہيں هے اور يہ عمل قطعا حرام اور ناجائزهے ۔ علماء اسلام کے درميان اس روایت کى تشریح ميں اختلاف شروع هوگيا کہ تفسيربالراى کے معنى کيا ہيں اور قرآن کى کس طرح کى تفسيرجائز نہيں هے ۔
علامہ سیوطى نے اتقان ميں حسب ذيل احتمالات کا تذکرہ کيا هے:
۱۔ قرآن مجيد کو سمجنے کے لئے جن پندرہ علوم کى ضرورت هے، جن سے مزاج عربیت، اسلوب ادبیت اور آہنگ قرآن کا اندازہ کيا جاسکتا هے۔ ان سب ميں مہارت پیدا کئے بغیر قرآن مجيد کى ايات کے معنى بيان کرنا۔
۲۔ قرآن مجيد ميں متشابہات کے مفاہیم کا مقرر کرنا۔
۳۔ فاسد مذاہب اورعقائد کو بنياد بنا کر ان کى روشنى ميں قرآن مجيد کي آيات کے معانى مقرر کرنا۔
۴۔ اس انداز سے تفسير کرنا کہ یقینا يہى مراد پروردگار هے جب کہ اس کاعلم راسخون فى العلم کے علاوہ کسى کونہيں هے ۔
۵۔ اپنى ذاتي پسند اور خواہش کو بنياد بنا کر آيات قرآن کى تفسير کرنا۔
۶۔ مشکلات قرآن کى تفسير صحابہ اور تابعین کے اقوال سے مدد لئے بغیر بيان کر دینا ۔
۷۔ کسى آیت کے ایسے معنى بيان کرنا جس کے بارے ميں معلوم هو کہ حق یقینا اس معنى کے خلاف هے ۔
۸۔ ظواہر قرآن پرعمل کرنا۔ اس عقیدہ کى بنياد پر کہ اس کا ظهور هے ليکن اس کا سمجھنا معصوم کے بغیر ممکن نہيں هے ۔
ان تمام اقول سے صاف واضح هو جاتا هے کہ ان ميں تفسير بالراي کى واقعیت کى تحليل نہيں کى گئى هے بلکہ اس کے طریق کار پر بحث کى گئى هے کہ تفسيربالراى کرنے والا کيا کيا وسائل اختيار کرتا هے ۔ خصوصیت کے سا تھ صحابہ اور تابعین کى امداد کے بغیر تفسير کو تفسيربالراى قرار دینے کا مطلب يہ هے کہ صحابہ اور تابعین کو ہر طرح کى تفسير کرنے کا حق هے صرف ان کے بعد والوں کى تفسيربالراي کرنے کا حق نہيں هے اور انھیں صحابہ کرام يا تابعین سے مدد لینا پڑے گى جب کہ روايات ميں اس طرح کا کوئى اشارہ نہيں هے اور نہ قانونا يہ بات صحيح هے۔ مراد الہى کى غلط تفسير کرنا بہرحال حرام هے چاهے صحابہٴ کرام کریں يا کوئى اور بزرگ ۔ اس لئے کہ ان سب کو خدا کى طرف سے کوئى الہامى علم نہيں ديا گيا هے ۔ ائمہ اہل بيت اس قانون سے اس لئے مستثنى ہيں کہ انھیں پروردگارکى طرف سے علم قرآن دے کر دنيا ميں بھیجا گيا هے جس کے بے شمار شواہد تاريخ اور سیرت کى کتابوں ميں موجود ہيں ۔
تفسير بالراى کى حقيقت کو سمجھنے کے لئے اس نکتہ کو نظر ميں رکھنا بے حد ضرورى هے کہ مذکورہ روا يات ميں تفسيربالراى جرم نہيں هے بلکہ راى کى اضافت ضمير کى طرف هے يعنى اپنى رائے سے تفسير کرنا ۔ جس کا مطلب يہ هے کہ مقام تفسيرميں رائے اور اجتھاد کا استعمال کرنا مضر نہيں هے ۔ مضر يہ هے کہ مراد الہى کو طے کرنے ميں اپنى ذاتى رائے کو دخیل بنايا جائے اور اسى بنياد پر بعض علماء نے وضاحت کى هے کہ تفسير کا کام رائے اور اجتہاد کے بغیرممکن نہيں هے ليکن اس رائے کو شخصى نہيں هونا چاہئے بلکہ قانوني هونا چاهے ۔ اور قانونى اور شخصى(ذاتی) کا فرق يہ هے کہ جس تفسير ميں دیگر آيات کے مزاج کو پیش نظر رکھا جاتا هے اور آيات ميں اجتہادى نظر کے بعد معنى طے کئے جاتے ہيں وہ تفسيربالراي نہيں هے اور جس مفسر ميں تمام آيات سے قطع نظر کرکے اپنى ذات اور اپنى فکر اور خواہش کو حکم بنايا جاتا هے وہ تفسيربالراى هے ۔ دوسرے لفظوں ميں يوں کہا جائے کہ دنيا کے ہر کلام کى تفسير و تشریح اسى کلام کے الفاظ وعبارات کى روشنى ميں هوتى هے اور قرآن مجيد کى تفسير و تشریح کے لئے جملہ آ يات کے مزاج پر نگاہ رکھنے کى ضرروت هوتى هے اور اس کے بغیر صحيح تفسير نہيں هوسکتى هے۔ اس لئے بار بار تدبر فى القرآن کى دعوت دى گئى هے کہ انسان پورے قرآن پر نظر رکھے اور اسى کى روشنى ميں ہر آیت کا مفهوم طے کرے ۔
الرايٴ اور راٴيہ کے فرق کو نگاہ ميں رکھنے کے بعد يہ بات واضح هو جاتى هے کہ آيات قرآن کى تفسير ميں استقلالى رائے مضر هے اور اس کا استعمال جرم هے ليکن وہ رائے جو مطالعہٴ قران سے حاصل هوئى هے اور جس کے حصول ميں تفکر اور تدبر فى القرآن سے کام ليا گيا هے اس کے ذریعہ تفسير قرآن ميں کوئى مضائقہ نہيں هے اور وہى تفسير قرآن کا واحد ذریعہ هے، جس کے چند دلائل اس مقام پر درج کئے جارهے ہيں۔
۱۔ روايات نے تفسيربالراى ميں دونوں احتمالات کا ذکر کيا هے ۔ يہ بھى ممکن هے کہ انسان واقعى مراد کو حاصل کرلے اور يہ بھى ممکن هے کہ غلطى کر جائے ۔ يہ اور بات هے کہ واقع کے ادراک ميں بھى ثواب سے محروم رهے گا اور يہ اس بات کي علامت هے کہ ذاتى رائے کا استعمال مضر هے اگرچہ اس کے منزل تک پهونچانے کا امکان بھى هے ليکن اس طریقہء کار کى اجازت نہيں دي جاسکتى هے، بلکہ صحيح طریقہٴ کار وہى هے کہ تمام آيات کے مراجعہ کے بعد آيات کا مخفى مفهوم منظرعام پرلايا جائے ۔
۲۔ تفسيربالراى کى روايات عام طور پر سرکاردوعالم سے نقل هوئى ہيں اور آپ نے اس کى شدت سے ممانعت کى هے جس سے اندازہ هوتا هے کہ يہ وہ طریقہٴ کار هے جس کا امکان سرکار کے زمانے ميں بھى تھا بلکہ کچھ زيادہ ہى تھا اور اسى لئے آپ نے شدت سے منع کيا هے اور شاید اس کا راز يہ تھا کہ اس دور ميں قرآن مجيد مکمل شکل ميں امت کے ہاتھوں ميں موجود نہ تھا اور اس طرح ہرشخص کے لئے تمام آيات کى طرف مراجعہ کرنا اور ان کے اسلوب و آہنگ سے استفادہ کرنا ممکن نہيں تھا اور يہ خطرہ شدید تھا کہ ہر شخص اپنى ذاتي پسند يا خواہش سے آيات کا مفهوم طے کر دے ۔ اس لئے آپ نے شدت سے ممانعت فرمادى کہ يہ راستہ نہ کھلنے پائے ورنہ قرآن کے مفاہیم تباہ و برباد هو کررہ جائیں گے ۔
۳۔ اگر ہر مسئلہ ميں روا يات ہى کى طرف رجوع کيا جائے گا اور آيات کى کوئى تفسير روايات کے بغیرممکن نہ هو گى تو تدبر فى القرآن کے کوئى معنى نہ رہ جائیں گے اور ان روايات کا بھى کوئى مقصد نہ رہ جائے گا جن ميں روايات کى صحت و خطا کا معيار قرآن مجيد کو قرار ديا گيا هے اور يہ کہا گيا هے کہ ہمارى طرف سے آنے والى روايات کو کتاب خدا پر پیش کرو اور دیکھو کہ موافق ہيں يا نہيں ۔ اگر موافق ہيں تو لے لو ورنہ دیوار پر مار دو ۔ ظاہر هے کہ اگر روايات کے بغیر قرآن مجيد پرعمل کرنا ممکن نہ هوگا تواس کا کوئى مفهوم ہى متعین نہ هوسکے گا ،اور جب مفهوم متعین نہ هوگا تو کس چیز پر روايات کو پیش کيا جائے گا اور کس کى مطابقت اور عدم مطابقت کو حق و باطل کا معيار بنايا جائے گا ۔
اس کا مطلب يہ هے کہ قرآن مجيد کى آيات کے پوشیدہ معانى کا انکشاف کرنے کے لئے قرآن مجيد ہى کے اسلوب اور آہنگ کو معيار بنايا جائے گا اور اس ميں کسى شخص کي ذاتى رائے يا خواہش کا دخل نہ هوگا۔
تفسيربالراى کى ايک مختصر مثال يہ هے کہ قرآن مجيد نے بيان کيا کہ ”ان من شئي الاعندنا خزائنہ الخ“(ہمارے پاس ہرشے کے خزانے ہيں)۔ اس آیت کو دیکھنے کے بعد مفسرین نے اندازہ کيا کہ آسمان پر کوئى عظیم خزانہ هے جہاں کائنات کى ہر شے کا ذخيرہ موجود هے ۔ اس کے بعد دوسرى آيت پر نظر ڈالى ”و ما انزل اللہ من السماء من رزق فاحيا بہ الارض بعد موتھا“(خدا نے آسمان سے رزق نازل کيا هے اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ بنا ديا هے) ۔ اور اس سے اندازہ هوا کہ بارش کو بھى رزق کہا جاتا هے اور اس کا بھى خزانہ آسمان پر هے ۔ پھر اپنى ذاتى فکر کا اضافہ کيا کہ انسان اور حیوان آسمان سے نازل نہيں هوتے، لہذا خزانہ سے مراد آسمانى اشياء ہيں زمین کى چيزيں نہيں ہيں۔ حالانکہ اس تخصیص کا اسے حق نہيں تھا اس لئے کہ اسے نہ آسمان کى حقیقت معلوم هے اور نہ نزول کے طریقہ کا علم هے اور قرآن مجيد سے ان حقائق کا ادراک کئے بغير ان کے بارے ميں اظہار رائے کا کوئي حق نہيں هے اور اس کو تفسيربالراى يا قول بلاعلم کا نام ديا جائے گا ۔
رہ گيا سیوطى کا يہ بيان کہ صحابہٴ کرام کى تفسيرسے قطع نظر کرکے تفسير کرنے کو تفسيربالراي کہاجاتاهے اور جس کى دلیل يہ دى گئى هے کہ وہ عصر پیغمبر ميں موجود تھے اور انھیں حقائق قرآن کاعلم تھا اور ان سے ستر ہزار روايات نقل هوئى ہيں لہذا ان سے الگ هو کر تفسیر کرنا خلاف اسلام هے ۔
تو اس کا واضح سا جواب يہ هے کہ قرآن مجيد کا دعوي هے کہ وہ ہر شے کا تبيان هے اس کے متشابہات محکمات کے ذريعہ واضح هو جاتے ہيں لہذا اسے اصحاب کے فکر کي کوئى ضرورت نہيں هے پھر اس کى تحدى کے مخاطب کفار و مشرکین ہيں اور وہ اصحاب کے فہم کے محتاج هو گئے تو تحدى اور چیلنج کے کوئي معنى نہ رہ جائیں گے ۔
دوسرى لفظوں ميں يوں کہا جائے کہ اصحاب کا قول ظاہر کلام کے مطابق هے تو ظهور خود ہى کافى هے کسى قول کى ضرورت نہيں هے اور خلاف ظاہر قرآن هے تو تحدى بیکار هے اور اس کا کوئى مفهوم نہيں هے اس لئے کہ جس کلام کے معنى معلوم نہ هوں اور وہ خود غیر واضح هو اس کا مقابلہ اور جواب لانے کا سوال ہى نہيں پیدا هوتاهے۔
رہ گئے احکام کے تفصیلات تو ان کے لئے مرسل اعظم اور معصومین کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت هے اور يہ بھى مطابق حکم قرآن هے کہ جو رسول دیدے اس لے لو، اور جس چیز سے منع کر دے اس سے رک جاؤ ۔ گويا آیت کا مفهوم عربى زبان کے قواعد کے اعتبارسے واضح هے اور اس پرعمل کرنے کے لئے مرسل اعظم کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت هے جیسا کہ خود مرسل اعظم نے قرآن مجيد سے تمسک کرنے کا حکم ديا هے اور کھلى هوئي بات هے کہ اس کلام سے تمسک کرنا ممکن نہيں هے جس کا مفهوم واضح نہ هو اور جس کے بارے ميں کسى طرح کى تحقيق اور تفتيش تفسيربالراي قرار پاجائے ۔
اس مقام پر يہ سوال ضرور پیدا هوسکتا هے کہ رسول اکرم نے قرآن اور اہلبيت دونوں سے تمسک کرنے کا حکم ديا هے اور يہ فرما ديا هے کہ يہ دونوں جدا نہيں هوسکتے ہيں تو اس کا مطلب يہ هے کہ قرآن مجيد کے معانى کا اخذ کرنا عترت و اہل بيت کى توضیح کے بغیر ممکن نہيں هے ۔ ليکن اس کا واضح سا جواب يہ هے کہ قرآن اورعترت دونوں سے تمسک کرنے کا حکم دینا اس بات کى علامت هے کہ دونوں اپنے اپنے مقام پرحجت ہيں کہ اگرح کم قرآن ميں موجود هے اور اہل بيت کى زندگى سامنے نہيں بھى هے تو وہ بھى واجب العمل هے ۔ اور اگر اہل بيت نے فرما ديا هے اور قرآن مجيد ميں نہيں بھى مل رہاهے تو بھى واجب العمل هے فرق صرف يہ هے کہ قرآن ظاہر الفاظ کے معانى معین کرتا هے اور اہلبیت مقاصد کى وضاحت کرتے ہيں جس طرح کہ قرآن مجيد نے اجمال سے کام ليا هے اور سرکاردوعالم نے اپنے اقوال و اعمال سے اس اجمال کى وضاحت کى هے اور اس کا بہترین ثبوت يہ هے کہ خود اہل بيت نے بھى آيات قرآن سے استدلال کيا هے اور اس کے ظهور کا حوالہ دے کر امت کو متوجہ کيا هے کہ اس کے الفاظ و آيات سے کس طرح استنباط کيا جاتاهے ۔
محاسن ميں امام محمد باقر کا يہ واضح ارشاد موجود هے کہ ”جس شخص کا خيال يہ هے کہ قرآن مجيد مبہم هے وہ خود بھى ہلاک هوگيا اور اس نے دوسروں کو بھى ہلاک کرديا۔-“
خلاصہ کلام يہ هے کہ قرآن کى تفسير کا صحيح راستہ تفسير قرآن بالقرآن هے ۔ ارشادات معصومین کا سہارا لینا اس لئے ضرورى هے کہ اس سے آيات قرآن کو جمع کرکے ايک نتیجہ اخذ کرنے کا سلیقہ معلوم هوتا هے اور معصومین عليہم السلام نے اسى انداز سے قوم کى تربیت بھى کى هے، چنانچہ امیرالمومنین کے دور ميں جب دربار خلافت ميں اس عورت کا مقدمہ پیش هوا جس کے يہاں چھ مہینے ميں بچہ پیدا هو گيا تھا اور حاکم وقت نے حد جارى کرنے کا حکم دیديا تو آپ نے فرمايا کہ اس عورت پر حد جارى نہيں هوسکتى هے اس لئے کہ قرآن مجيد نے اقل مدت حمل چھ ماہ قرار دى هے اور جب قوم نے حیرت و استعجاب کا مظاہرہ کيا تو آپ نے دو مختلف آيات کا حوالہ ديا ۔ ايک آیت ميں انسان کے حمل اور رضاعت کا کل زمانہ تیس ماہ بتايا گيا هے اور دوسرى آیت ميں عورتوں کے دو سال دودھ پلانے کا تذکرہ کيا گياهے ۔ اور دونوں کو جمع کرکے فرمايا کہ دوسال مدت رضاعت نکالنے کے بعد حمل کا زمانہ صرف چھ ماہ باقى رہ جاتا هے لہذا نہ اس ولادت کوغلط کہا جاسکتا هے اور نہ اس عورت پرحد جارى کى جاسکتى هے ۔ جس کامقصد يہ هے کہ قرآن مجيد سے استنباط کرناهے تو ايک آیت سے ممکن نہيں هے، آيات کو باہم جمع کرنا هوگا اور سب کے مجموعہ سے ايک نتیجہ اخذ کرنا هوگا اور اسي کا نام تفسير قرآن بالقرآن هے کہ انسان کو حمل کے بارے ميں قرآني نظريہ معلوم کرنا هے تو ان دو آيات کو جمع کرلے، قرآنى نظريہ خود بخود سامنے آجائے گا ۔