- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 14 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/30
- 0 رائ
۲۳۔ و ان کنتم فی ریب ممانزلناعلی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین
۲۴. فان لم تفعلو ولن تفعلو فاتقو النار التی وقودھا الناس والحجارة اعدت للکافرین
ترجمہ
۲۳- اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے (پیغمبر) پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو (کم از کم) ایک سورہ اس کی مثل لے آؤ اور خدا کو چھوڑ کر اپنے گواہوں کو بھی اس کام کی دعوت دو، اگر تم سچے ہو۔
۲۴- اگر یہ کام تم نے نہ کیا اور کبھی کر بھی نہ سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسانوں کے بدن اور پتھر ہیں یہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
تفسیر
قرآن ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے
گزشتہ آیات کا موضوع سخن کفر و نفاق کبھی نبوت اور اعجاز پیغمبر کے عدم ادراک کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا زیر بحث آیات میں اسے بیان کیا گیا ہے، خصوصیت کے ساتھ انگشت قرآن پر رکھ دی گئی ہے جو ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے، یہ اس لئے کہ رسول اسلام کی رسالت کے بارے میں ہر قسم کا شک و شبہ دور ہوسکے۔
قرآن کہتا ہے:- اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو ایک سورت ہی اس جیسی لے آو؛ (ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتو ا بسورة من مثلہ)(۱) مقابلے کی دعوت اور چیلنج کو قطعی ہونا چاہئے اور دشمن کو پوری طرح تحریک پیدا کرنی چا ہیے اور اصطلاحاَ غیرت دلانی چاہیے تاکہ وہ پوری طاقت استعمال کرسکے، اس طرح جب عجز وناتوانی ثابت ہوجائے گی تو وہ مسلم طور پر جان لے گا کہ جس چیز کے وہ مد مقابل ہے وہ کار بشر نہیں بلکہ خدائی کام ہے لہذا بعد والی آیت میں مختلف تعبیروں سے اسے بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے؛ اگر تم اس کام کو انجام نہ دے سکے اور ہرگز نہ دے سکو گے لہذا اس آگ سے ڈرو کہ جس کا ایندھن بے ایمان آدمیوں کے بدن اور پتھر ہیں (فان لم تفعلو و لن تفعلو فاتقو النار التی وقودھا الناس والحجارة) یعنی آگ ابھی سے کافروں کے لئے تیار ہے اور اس میں تاخیر نہ ہوگی (اعدت للکافرین)۔
۱- بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ ضمیر ”مثلہ “رسول اکرم کے بارے میں ہے جنہیں قبل کے جملے میں ((عبدنا)) سے یاد کیا گیا یعنی اگر اس وحی آسمانی کے حقیقی ہونے میں تمہیں شک ہے تو کوئی شخص محمد جیسا پیش کرو جس نے بالکل تعلم حا صل نہ کی ہو اور نہ خط و کتابت سیکھی ہو جو ایسا کلام پیش کرسکے ۔لیکن یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ قرآن میں دوسری جگہ یوں آیا ہے:
فلیاتو بحدیث مثلہ (طور- ۳۴)
ایک اور مقام پر ہے
فاتو بسورة مثلہ (یونس ۳۸)
اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ ”مثلہ “قرآن کے لئے ہے پیغمبر کے لئے نہیں۔
”وقود“ کے معنی ہیں وہ چیز جسے آگ پکڑ لے یعنی وہ مادہ جو جلنے کے قابل ہے جیسے لکڑیا ں۔ اس سے مراد وہ چیز نہیں جس سے آگ نکلے مثلا ماچس یا وہ خاص پتھر جن سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں۔
مفسرین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ”حجارة“ سے وہ بت مراد ہیں جنہیں پتھر سے بنایا گیا تھا اور سورہ انبیاء کی آیت ۹۸ کو اس کا شاہد قرار دیتا ہے:
انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم
تم اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں۔
ایک اور گروہ کہتا ہے کہ ”حجارة“ سے مراد گندک کے پتھر ہیں جن کی حرارت دوسرے پتھروں سے زیاد ہے۔ لیکن بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ اس تعبیر کا مقصد جہنم کی شدت حرارت کی طرف متوجہ کرنا ہے یعنی اس میں ایسی حرارت و تپش ہو گی جو پتھرو ں اور انسانوں کو بھی شعلہ ور کر دے گی۔
گذشتہ آیات کے پیش نظر جو بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ جہنم کی آگ خود انسانوں اور پتھروں کے اندر سے نکلے گی اور یہ حقیقت آج ثابت ہو چکی ہے کہ جسموں کے اندر ایک عظیم آگ چھپی ہوئی ہے (دوسرے لفظوں میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو آگ میں تبدیل ہو سکتی ہیں) یہ مفہوم سمجھنا مشکل نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس جلانے والی آگ کو اس دنیا کی عمومی آگ کی طرح سمجھا جائے۔
سورہٴ همزہ آیہ ۶‘۷ میں ہے: نارللہ الموقدة التی تطلع علی الافءده
خدا کی جلانے والی آگ جس کا سرچشمہ دل ہیں اور جو اندر سے باہر کی طرف سرایت کر تی ہے(اس جہان کی آگ کے بر عکس جو باہر سے اندر تک پہنچتی ہے)۔
چند اہم نکات
(۱) انبیاء کے لئے معجزے کی ضرورت: ہم جانتے ہیں کہ نبوت و رسالت ایک عظیم ترین منصب ہے جو پاک لوگوں کے ایک گروہ کو عطا ہوا ہے کیونکہ دوسرے منصب و مقام جسموں پر حکمرانی کرتے ہیں لیکن نبوت وہ منصب ہے جو معاشرے کی روح اور دل پر حکومت کرتا ہے جھوٹے مدعی اور بہت سے برے افراد اس کی رفعت و سربلندی کے ہی پیش نظر اس منصب کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس سے غلط مفاد اٹھاتے ہیں۔
لوگ یا تو ہر مدعی کے دعوی کو قبول کرلیں یا سب کی دعوت کو رد کر دیں۔ سب کو قبول کرلیں تو واضح ہے کہ کس قدر ہرج و مرج لازم آئے گا اور دین خدا کی کیا صورت بنے گی اور اگر کسی کو بھی قبول نہ کریں تو اس کا نتیجہ بھی گمراہی اور پسماندگی ہے اس بناء پر جس دلیل کی رو سے انبیاء کا وجود ضروری ہے اسی دلیل کی روشنی میں سچے انبیاء کے پاس ایسی نشانی ہونی چاہیے جو جھوٹے دعویداروں سے انہیں ممتاز قرار دے اور وہ ان کی حقانیت کی سند ہو۔
اس اصل کی بناء پر ضروری ہے کہ نبی معجزہ لے کر آئے جو اس کی رسالت کی صداقت کا شاہد ہو سکے اور جیسا کہ لفظ معجزہ سے واضح ہے نبی خارق العادہ اعمال (وہ کام جو عموماَ نہ ہو ئے ہوں) انجام دینے کی قدرت رکھتا ہو جن کی انجام دہی سے دوسرے لوگ عاجز ہوں۔
نبی جو صاحب معجزہ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو مقابلہ بمثل دعوت دے (یعنی کہے کہ ایسا کام تم بھی کردکھاوٴ) اور اپنی گفتار کی سچائی کی علامت و نشانی کو اپنا معجزہ قرار دے تاکہ اگر دوسرے بھی ویسا کام کرسکتے ہیں تو بجالائیں اس کام کو اصطلاح میں تحدی (چیلنج)کہتے ہیں
قرآن رسول اسلام کا دائمی و معجزہ
جو معجزات اور خارق عادات پیغمبر اسلام سے صادر ہوئے قرآن ان میں سے آپکی حقانیت کی بلند ترین اور زندہ ترین سند ہے قرآن افکار بشرسے بلند تر کتاب ہے کوئی اب تک ایسی کتاب نہیں لاسکا ۔یہ ایک ایسا عظیم اسمانی معجزہ ہے۔
گزشتہ انبیاء کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے معجزات کے ساتھ ہوں اور ان کے اعجاز کو ثابت کر نے کے لئے مخالفین کو مقابلہ بمثل کی دعوت دیں۔ در حقیقت ان کے معجزات کی اپنی کوئی زبان نہ تھی بلکہ انبیاے کی گفتاران کی تکمیل کرتی تھی۔ یہی بات قرآن کے علاوہ پیغمبر اسلام کے دیگر معجزات پر بھی صادق آتی ہے۔
لیکن قرآن ایک بولنے والا معجزہ ہے وہ تعارف کرانے والے کا محتاج نہیں وہ خود اپنی طرف دعوت دیتا ہے اور مخالفین کو مقابلے کے لئے پکارتا ہے-، انہیں مغلوب کرتا ہے اور خود میدان مقابلہ سے کامیابی کے ساتھ نکلتا ہے لہذا وفات نبی کو صدیاں بیت گئیں مگر قرآن آپ کے زمانہ ٴحیات کی طرح آج بھی اپنا دعوی پیش کررہا ہے۔ قرآن خود دین بھی ہے اور معجزہ بھی، قانون بھی اور سند قانون بھی، قرآن زمان و مکان کی سرحد سے مافوق ہے۔
گذشتہ انبیاء کے معجزات بلکہ قرآن کے علاوہ آنحضرت کے دیگر معجزات بھی معین و مشخص زمان و مکان اور مخصوص افراد کے سامنے ظہور پذیر ہو تے تھے۔ مثلاَ حضرت مریم کے نو مولود بچے کی گفتگو، مردوں کو زندہ کرنا اور حضرت مسیح کے ایسے دوسرے معجزات مخصوص زمان و مکان اور معین اشخاص کے لئے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ جو امور زمان و مکان کے رنگ سے ہم آہنگ ہوں گے وہ اس زمان و مکان سے جتنا دور ہونگے ان کے رنگ روپ میں کمی واقع ہوگی اور یہ چیز امور زمانی کے خواص میں سے ہے.
لیکن قرآن کسی خاص زمان و مکان سے وابستہ نہیں۔ یہ جس طرح جس حالت میں چودہ سو سال قبل حجاز کے تاریک ماحول میں جلوہ گر تھا اسی طرح آج بھی ہم پر ضوفشاں ہے بلکہ رفتار زمانہ اور دانش کی پیش رفت کی وجہ سے ہم میں اس کی استعداد بڑھ گئی ہے کہ دور حاضر کے لوگوں کے لئے اس سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ یہ واضح ہے کہ جس پر اپنے زمان و مکان کا رنگ نہ ہو وہ بعد تک اور سارے جہان تک رسائی حاصل کر سکے گا اور یہ ہے بھی واضح کہ ایک عالمی دین کےلئے ضروری ہے کہ وہ عالمی و ابدی سند حقانیت رکھتا ہو۔
قرآن روحانی کیوں ہے؟
گذشتہ انبیاء سے جو خارق عادت امور ان کی گفتار کے سچے گواہ کے طور پر دیکھنے میں آتے ہیں وہ عموما جسمانی پہلو رکھتے تھے۔ ناقابل علاج بیماروں کو شفا دینا، مردوں کو زندہ کرنا، نوزائیدہ بچے کا گہوارے میں باتیں کرنا وغیرہ سب جسمانی پہلو رکھتے تھے اور انسان کی آنکھ اور کان کو مسخر کرتے تھے لیکن قرآنی الفاظ جو انہی عام حروف و کلمات سے مرکب ہیں انسان کے دل و جان کی گہرایئوں میں اتر جاتے ہیں، انسان کی روح انہیں عجیب و غریب سمجھتے ہوئے ان کے لئے احساسات تحسین سے معمور ہو جاتی ہے اور افکار و عقول کی تعظیم پر مجبور نظر آتی ہیں۔ یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو صرف اذہان، افکار اور روح سے سروکار رکھتا ہے جسمانی معجزات پر ایسے معجزے کی برتری کسی وضاحت کی محتا ج نہیں۔
کیا قرآن نے مقابلے کے لئے چیلنج کیا ہے؟
قرآن نے چند ایک سورتوں میں اپنی مثال لانے کے لئے چیلنج کیا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں:
(۱) سورہ اسراء آیہ ۸۸(یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی) ہے:
قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا
کہیے# کہ اگر تمام انسان اور جن جمع ہو جائیں تاکہ قرآن جیسی کتاب لے آئیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اگرچہ خوب ہم فکر و ہم کار بھی ہوجائیں۔
(!!) سورہ ہود (یہ بھی مکہ میں نازل ہوئی) کی آیات ۱۳ اور ۱۴ میں یوں ہے:
ام یقولون افتراہ قل فاتوبعشر سور مثلہ مفتریت ودعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین فالم یستجیبو لکم فاعلموا انما انزل بعلم اللہ
کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات خدا پر افتراء ہیں کہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی دس سورتیں گڑھ کے لے آؤ اور بدون خدا جسے مدد کی دعوت دے سکتے ہو دے لو- اور اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو جان لو کہ یہ آیات خدا کی طرف سے ہیں۔
(!!!) سورہ یونس (جو مکہ میں نازل ہوئی) کی آیت ۳۸ میں اس طرح ہے:
ام یقولون افتراہ قل فاتو بسورة مثلہ و ادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین
کیا وہ کہتے ہیں کہ خدا پر افتراء باندھا گیا ہے آپ کہئے کہ اس جیسی ایک سورت لادکھاؤ اور خدا کے علاوہ ہر کسی کی مدد کے لئے طلب کرلو اگر تم سچے ہو۔
(۴) چوتھی مثال یہی زیر بحث آیت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی۔
جیسا کہ واضح ہے کہ قرآن صراحت اور بے نظیر قاطعیت اور یقین کے ساتھ مقابلے کی دعوت دے رہا ہے ایسی صراحت و قاطعیت جو حقانیت کی زندہ نشانی ہے۔
قرآن نے بہت قاطع اور صریح بیان کے ساتھ تمام جہانوں اور تمام انسانوں کو مقابلہ بمثل کی دعوت دی ہے جو قرآن کے مبداء جہان آفرینش کے ساتھ ربط میں شک رکھتے ہیں۔ صرف دعوت ہی نہیں دی بلکہ مقابلہ کا شوق بھی دلایا ہے اور اس کے لئے تحریک پیدا کی ہے اور ان آیات میں ایسے الفاظ صرف کئے ہیں جو ان کی غیرت کو ابھارتے ہیں۔ مثلا،
ان کنتم صادقین“
اگر تم سچے ہو۔
فاتو بعشر سور مثلہ مفتریت “
ایسی دس سورتیں گڑھ لاؤ۔
قل فاتوبسورة مثلہ ان کنتم صادقین“
اگر تم سچے ہو تو ایسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔
ودعوامن استطعتم من دون اللہ“
بدون خدا جسے چاہودعوت دو۔
قل لئن اجتمعت الانس والجن“
اگر تم جن و انس بھی جمع کرلو۔
”لا یاتون بمثلہ“
اس کی مثل نہیں لا سکتے۔
” فاتقوالنار التی وقودھا الناس والحجارة“
اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن (گنہگار) لوگوں کے بدن اور پتھر ہیں۔
فان لم تفعلوا ولن تفعلو“
اگر اس کی مثل نہ لائے اور نہ ہی تم لاسکتے ہو۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف ادبی یا مذہبی مقابلہ نہ تھا بلکہ ایک سیاسی اقتصادی اور اجتماعی مقابلہ تھا تمام چیزیں یہاں تک کہ خود ان کے وجود کی بقا کا انحصار بھی اس مقابلے میں کامیابی پر نہ تھا بہ الفاظ دیگر ایک مکمل مقابلہ تھا جو ان کی زندگی اور موت کی راہ اور سرنوشت کو روشن کر دیتا۔ اگر کامیاب ہو جاتے تو سب کچھ ان کے پاس ہوتا اور اگر مغلوب ہو جاتے تو اپنی بھی ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے اس سب کے باوجود تحریک و تشویق کا یہ عالم ہے۔
اس کے باوصف اگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک دیئے اور اس کا مثل نہ لاسکے تو قرآن کا معجزہ ہونا زیادہ واضح اور روشن تر ہوجاتا ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہ آیات کسی خاص زمانے یا جگہ سے مخصوص نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام علمی مراکز کو مقابلے کی دعوت دے رہی ہیں اور کسی قسم کا استثناء نہیں ہے اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔
یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن کی مثل نہ لائی جاسکی؟- تاریخ اسلام پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی ممالک کے اندر رسول اکرم کے زمانے میں اور آپ کے بعد یہاں تک کہ خود مکہ اور مدینہ میں کٹر اور متعصب عیسائی اور یہودی بستے تھے جو مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے ہر موقع کو غنیمت جانتے تھے۔ خود مسلمانوں میں بھی ایک ”مسلمان نما“ گروہ موجود تھا قرآن نے ان کا نام منافق رکھا ہے ان کے ذمہ مسلمانوں کے جاسوس کا رول ادا کرتا تھا جیسے ابو عامر راہب اور مدینہ میں اس کے منافق ساتھی جن کے بادشاہ روم سے مخصوص روابط کا تاریخ میں تذکرہ موجود ہے۔ مدینہ میں مسجد ضرار انہی لوگوں نے بنائی تھی جہاں سے وہ عجیب سازش وجود پذیر ہوئی جس کا قرآن نے سورہ توبہ میں ذکر کیا ہے یہ طے شدہ بات ہے کہ منافقین کا یہ گروہ اور وہ متعصب اور کٹر دشمن گہری نظر سے مسلمانوں کے حالات کی تاک میں رہتے تھے اور وہ ہر چیز جو مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہوتی اسے خوش آمدید کہتے تھے۔
اگر ان لوگوں کو اس قسم کی کتاب مل جاتی تو مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اس کی ہر ممکن نشر و اشاعت کرتے یا کم از کم اس کی حفاظت و نگہداشت کی کوشش کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ افراد جن کے متعلق نہایت کم احتمال بھی ہے کہ وہ قرآن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے۔ تاریخ نے ان کے نام ریکارڑ کئے ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
عبداللہ بن مفقع: اس نے اسی مقصد کے لئے کتاب الدرة الیتیمة“ تصنیف کی۔ کتاب ابھی موجود ہے اور کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے اس کتاب میں اس بات کا چھوٹے سے چھوٹا بھی اشارہ نہیں کہ یہ قرآن کے مقابلہ میں لکھی گئی ہے اس کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ اس کی طرف نسبت کیوں دی گئی ہے۔
متنبی احمد بن حسین کوفی: یہ شاعر تھا۔ اس کا نام بھی اس زمرے میں آتا ہے کہ اس نے دعویٰ نبوت کیا تھا جب کہ بہت سے قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ گھریلو ناکامیوں اور جاہ طلبی کی خواہش کے پیش نظر اس نے بلند پردازی کا یہ پروگرام بنایا تھا۔
ابوالعلای معری: اس کا نام بھی اس امر میں داخل ہے اگرچہ اسلام کے بارے میں اس سے منسوب سخت باتیں بیان کی گئی ہیں، لیکن وہ قرآن کے مقابلہ کا ارادہ کبھی بھی نہ رکھتا تھا بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے متعلق بہت عمدہ جملے کہے ہیں جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
مسلیمہ کذاب: یہ یمامہ کا رہنے والا تھا اور یقینا ان اشخاص میں سے ہے جو قرآن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور بقول اس کے کچھ آیات لایا جن میں تفریع طبع کا پہلو زیادہ ہے حرج نہیں کہ ان میں سے چند جملے ہم یہاں نقل کردیں:
(۱) سورہ الذاریات کے مقابلہ میں اس نے یہ جملے پیش کیے:
و المبذرات بذرا والحاصدات حصدا والذاریات تمحاَوالطاحنات طحنا والعجنات عجنا و الخابذات والثاردات ثردا والاقمات لقما اھالة وسمنا[62]
یعنی قسم ہے کسانوں کی- قسم ہے بیج ڈالنے والوں کی اور قسم ہے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اور قسم ہے گندم کو گھاس سے الگ کرنے والوں کی قسم ہے آٹا گوندھنے والیوں کی اور قسم ہے روٹی پکانے والوں کی اور قسم ہے ثرید بنانے والوں کی اور قسم ہے ان کی جو چرب و نرم لقمہ اٹھاتے ہیں،
(۱۱) یاضفدبنت ضفدع نقی ماتنقین نصفک فی الما ء ونصفک فی الطین لا لماء مکدرین ولاالشاربین تمنعین[63]
یعنی ای مینڈک! مینڈک کی بیٹی! جتنا چاہتی ہے آواز نکال تیرا آدھا حصہ پانی میں ہے اور آدھا کیچڑ میں۔ پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ کسی کو پینے سے روکتی ہے۔
یہاں ضروری ہے چند جملے بڑے لوگوں کے یہاں تک کہ جو قرآن کا مقابلہ کرنے میں متہم ہیں نقل کئے جائیں تاکہ عظمت قرآن ظاہر ہو:
ابوالعلای مصری: یہ قرآن کا مقابلہ کرنے میں متہم ہے، کہتا ہے:
” یہ بات تمام لوگوں میں چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم مورد اتفاق ہے کہ وہ کتاب جو محمد لے کر آیا ہے اس نے اپنے مقابلے میں عقلوں کو مغلوب کر دیا ہے اور آج تک کوئی ایسی کتاب نہیں لاسکا۔ اس کا طرز اسلوب عربوں کے معمول کے اسلوبو ںخطابہ، رجز، شعر اور کاہنوں کے مسجع کسی سے بھی مشابہت نہیں رکھتا۔ کتاب میں اس قدر امتیاز اور کشش ہے کہ اگر اس کی ایک آیت کسی دوسرے کلمات میں موجود ہو تو شب تاریک میں چمکے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہو گی“
ولید بن مغیرہ مخزومی: یہ ایسا شخص ہے جو حسن تدبیر کے باعث عربوں میں شہرت رکھتا تھا زمانہ ٴجاہلیت میں حل مشکلات کے لئے اس کے فکر و تدبر سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ اسی لئے اسے ”ریحانہٴ قریش“ (قریش کا گلدستہ ) کہا جاتا تھا۔ کہتے ہیں جب اس نے نبی کریم سے سورہ غافر کی چند ابتدائی آیات سنیں تو بنی مخزوم کی ایک محفل میں آیا اور کہنے لگا:
”خدا کی قسم میں نے محمد سے ایسی گفتگو سنی ہے جو کلام انسان سے شباہت رکھتی ہے نہ جنوں کی گفتگو ہے۔“
اس نے مزید کہا:
و ان لہ لحلاوة ،ان علیہ لطلاوة وان اعلاہ لمثمروان اسفلہ لمغدق ،وانہ یعلو ولایعلٰی علیہ ۔
اس کی گفتگو میں خاص مٹھاس اور حسن ہے۔ اس کا اوپر کا حصہ (بار آور درختوں کی طرح) پھلدار ہے اور نیچے کا حصہ (پرانے درختوں کی جڑوں کی طرح) بنیاد پر استوار ہے۔ یہ ایسی گفتگو ہے جو ہر ایک پر غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا۔[64]
کار لائلی: یہ انگلستان کا مشہور موٴرخ اور محقق ہے جو قرآن کے بارے میں کہتا ہے:
”اگر اس مقدس کتاب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برجستہ حقائق اور وجود کے اسرار و خصائص نے اس کے جوہر دار مضامین میں ایسے پرورش پائی ہے جس سے قرآن کی عظمت و حقیقت وضاحت سے نمایاں ہوتی ہے یہ خود ایک ایسی خوبی ہے جو صرف قرآن سے مخصوص ہے اور کسی دوسری علمی، سیاسی اور اقتصادی کتاب میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ یقینا بعض کتابیں ایسی ہیں جن کا مطالعہ ذہن انسانی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ان کا قرآن سے کبھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا اس بناء پر کہنا چاہیئے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت، پاکیزہ احساسات، برجستہ عنوانات اور اس مضامین سے ہے ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اور سعادت بشر میں ہیں اس میں ان کی انتہا ہے اور قرآن سے وضاحت ان فضائل کی نشان دہی کر تا ہے“(۱)
(۱) ”سازمانہائے تمدن امپرطوری اسلام“
جاینڈیون پورٹ: یہ کتاب ”عذر تقصیربہ پیش گاہ محمدی و قرآن“ کا مصنف ہے۔ قرآن کے بارے میں لکھتا ہے:
” قرآن نقائص سے اس قدر مبرا و منزہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نہیں۔ ممکن ہے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھتا جائے اور معمولی سی ملامت و افسرد گی بھی محسوس نہ کرے“
اس کے بعد مزید لکھتا ہے:
سب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلے قریش کے لب و لہجے میں نازل ہوا اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیہات سے معمور ہے؛؛[65]
گوئٹے: یہ المانی شاعر اور عالم ہے، کہتا ہے:
” قرآن ایسی کتاب ہے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے رو گردانی کرنے لگتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ہو جاتا ہے اور پھر بے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ہے”۔
یہی گوئٹے ایک جگہ اور لکھتا ہے:
سالہا سال تک خدا سے نا آشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمد کی عظمت سے دور رکھے رہے مگر علم و دانش کی شاہراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایا جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور اس نے دنیا کے علم ودانش پر گہرا اثر کیا ہے اور آخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی”۔
مزید لکھتا ہے:
ہم ابتدا میں قرآن سے روگردان تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور ہمیں حیران کردیا یہاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سر تسلیم خم کردیا[66]
ول ڈیوران: یہ ایک مشہور مورخ ہے، لکھتا ہے:”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس، عدالت اور تقوی پیدا کیا ہے جس کی نظیر و مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ملتی“۔
زول لابوم: یہ ایک فرانسیسی مفکر ہے۔ اپنی کتاب ”تفصیل الآیات “میں کہتا ہے:
”دنیا نے علم و دانش مسلمانون سے لی ہے اور مسلمانوں نے یہ علوم اس قرآن سے لئے ہیں جو علم دانش کا دریا ہے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نہریں جاری ہوئی ہیں“
دینورٹ: یہ ایک اور مستشرق ہے، لکھتا ہے:
ضروری ہے کہ ہم اعتراف کرلیں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رواج پذیر ہیں زیادہ تر تعلیمات قرآن کی برکت سے ہیں۔ اور ہم مسلمانوں کے مقروض ہیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شہر ہے[67]
ڈاکٹر مسز لوراواکیسا گلیری: یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں۔”پیش رفت سریع اسلام “میں لکھتی ہیں:
”اسلام کی کتاب اسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ہے قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، قرآن کے اسلوب اور طرز کا نمونہ گزشتہ ادبیات میں نہیں پایا جاتا اور یہ طرز روح انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتی ہے وہ اس کے امتیازات اور بلندیوں سے پیدا ہوتی ہے کس طرح ممکن ہے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب محمد خود ساختہ ہو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نہیں کی۔ ہمیں اس کتاب میں علوم کے خزینے اور ذخیرے نظر آتے ہیں جو نہایت ہوش مند اشخاص، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست دان اور قانون دان لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ہیں اسی بناء پر قرآن کسی تعلیم یافتہ مفکر و عالم کا کلام ہوسکتا“[68]
…………………
حواله جات
[62]. اعجازلقرآن رافعی
[63]. قرآن و آخرین پیامبر
[64]. مجمع البیان، جلد ۱۰، سورہٴ مدثر
[65]. مقدمہ کتاب”عذر تقصیربہ پیش گاہ محمد و قرآن-“ (یہ اصل کتاب کے فارسی ترجمہ کا حوالہ ہے۔ مترجم
[66]. عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“
[67]. قرآن برفراز اعصار بحوالہ المعجزہ الخالدة۔
[68]. پیش رفت سریع اسلام۔ (یہ بھی اصل کتاب کے فارسی ترجمے کا حوالہ ہے۔ مترجم