- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/09
- 0 رائ
(۲۵) وبشر الذین آمنو وعملوا الصالحت ان لہم جنت تجری من تحتہا الانہٰر کلما رزقوا منھا من ثمرة رزقا قالو ھذا الذی رزقنا من قبل و اتوا بہ متشابہا ولہم فیھا ازواج مطھرة وھم فیھا خالدون
ترجمہ
ایمان لانے والوں اور نیک عمل بجالانے والوں کو خوشخبری دیجیے کہ ان کے لئے بہشت کے باغات ہیں جہاں درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جب انہیں ان میں سے پھل دیا جائے گا تو کہیں گے یہ وہی ہے جو پہلے بھی ہمیں دیا گیا تھا (لیکن یہ اس سے کس قدر بہتر ہے) اور جو پھل ان کو پیش کئے جائیں گے (خوبی و زیبائی میں) یکساں ہیں اور ان کے لئے اس میں پاکیزہ بیویاں ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر
بہشت کی نعمات کی خصوصیات
چونکہ گذشتہ بحث کی آخری آیت میں کفار اور منکرین قرآن کو درد ناک عذاب کی تہدید کی گئی ہے لہذا زیر نظر آیت میں مومنین کی سر نوشت کا تذکرہ ہے تاکہ قرآن کے روش اور طریقہ کے مطابق دونوں کے مد مقابل ہونے سے حقیقت زیادہ روشن ہوتی رہے۔
پہلے کہتا ہے کہ ان افراد کو جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ہیں بشارت دے دو کہ ان کے لئے بہشت کے باغ ہیں جن کے درختون کے نیچے نہریں جاری ہیں (وبشر الذین امنو اوعملوا الصالحات ان لھم جنات تجری من تحتھا الانھار)۔
ہم جانتے ہیں کہ وہ باغات جہاں ہمیشہ پانی نہیں ہوتا بلکہ باہر سے پانی لاکر انہیں سیراب کیا جاتا ہے ان میں زیادہ طراوت نہیں ہوتی۔ ترو تازگی تو اس باغ میں ہوتی ہے جس کے لئے پانی کا اپنا انتظام ہو اور پانی اس سے کبھی منقطع نہ ہوتا ہو، ایسے باغ کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا خطرہ نہیں ہوتا اور بہشت کے باغات اسی طرح کے ہیں۔
اس کے بعد باغوں کے گونا گوں پھلوں کے بارے میں کہا ہے ہر زمانے میں ان باغوں کے پھل انہیں دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے دیا گیا ہے (کلما رزقوا منھا من ثمرة رزقاَ قالواھذا الذی رزقنا من قبل)۔
مفسرین نے اس جملہ کی کئی تفسیریں بیان کی ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ نعمات ان اعمال کی جزا ہیں جنہیں ہم پہلے دنیا میں انجام دیئے چکے ہیں اور موضوع پہلے سے فراہم شدہ ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ جس وقت جنت کے پھل دوبارہ ان کے لیئے لائیں جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی میوہ ہیں جو ہم پہلے کھا چکے ہیں لیکن جب اسے کھائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ ان کا ذائقہ نیا اور لذت تازہ ہے۔ مثلاَ سیب اور انگور جو اس دنیا میں کھاتے ہیں ہر دفعہ وہی پہلے والا ذائقہ محسوس کرتے ہیں لیکن جنت کے میوے جس قدر بھی ظاہراَ ایک قسم کے ہوں ہر دفعہ ایک نیا ذائقہ دیں گے اور یہ جہاں کی خصوصیات میں سے ہے۔
کچھ اور حضرات کے نزدیک اس کا مقصد یہ ہے کہ جنت کے میووں کو دیکھیں گے تو انہیں دنیا کے میووں سے مشابہ پائیں گے تاکہ نامانوسی کا احساس نہ ہو لیکن جب کھائیں گے تو ان میں تازگی اور بہترین ذائقہ محسوس کریں گے۔
بعید نہیں کہ آیت میں ان تمام مفاہیم تفاسیر کی طرف اشارہ ہو کیونکہ قرآن کے الفاظ بعض اوقات کئی معنی کے حامل ہوتے ہیں[69]
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے ان کے لئے ایسے پھل پیش کئے جائیں گے جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہو گے (واتوابہ متاشابہاَ) یعنی وہ سب خوبی اور زیبائی میں ایک جیسے ہوں گے وہ ایسے اعلی درجہ کے ہوں گے کہ انہیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دی جاسکے گی۔ یہ اس دنیا کے میووں سے برعکس بات ہوگی جہاں بعض کچے ہوتے ہیں اور بعض زیادہ پک جاتے ہیں۔ بعض کم رنگ اور کم خوشبو ہوتے ہیں اور بعض خوشبو رنگ، خوشبودار اور معطر ہوتے ہیں۔ لیکن جنت کے باغات کے میوے ایک سے بڑھ کر ایک خوشبو دار، ایک سے ایک میٹھا اور ایک سے ایک بڑھ کر جاذب نظر اور زیبا ہوگا۔
اور آخر میں جنت کی جس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پاک پاکیزہ بیویاں ہیں۔ فرمایا: ان کے لئے جنت میں مطہر و پاک بیویاں ہیں (ولہم فیھا ازواج مطھرہ) یہ ان تمام آلائشوں سے پاک ہوں گی جو اس جہان میں ممکن ہے ان میں ہوں۔ گویا روح و دل پر نگاہ کریں تو پاک اور جسم و بدن پر نگاہ ڈالیں تو پاک۔
دنیا کی نعمات جو مشکلا ت ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس وقت انسان کسی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے اس وقت اس کے زوال کی فکر بھی لاحق رہتی ہے اور اس کا دل پریشان ہو جاتا ہے، اسی بناء پر یہ نعمتیں کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہتیں ۔لیکن جنت کی نعمتیں چونکہ ابدی اور جاودانی ہیں ان کے لئے فنا اور زوال نہیں ہے۔ لھٰذا وہ ہر جہت سے کامل اور اطمینان بخش ہیں اس کے آخر میں فرمایا؛ موٴمنین ہمیشہ ہمیشہ ان باغات بہشت میں رہیں گے۔ (و ہم فیہا خلدون)۔
چند اہم نکات:
(۱) ایمان وعمل: قرآن کی بہت سی آیات میں ایمان اور عمل صالح ایک ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ یہ ایک طرح کی اس بات کی نشان دہی ہے کہ ان میں جدائی نہیں ہوسکتی اور حقیقتاَ ایسا ہی ہے کیونکہ ایمان و عمل صالح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اگر ایمان روح کی گہرائیو میں اتر جائے تو یقینا اس کی شعاع انسان کے اعمال کو بھی روشن کرے گی اور اس کے عمل کو عمل صالح بنا دے گی۔ جیسے کوئی چراغ پر نور کسی کمرے میں جلا دیں تو روشندان اور دریچوں سے باہر بھی اس کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔
سورہ طلاق آیت ۱۱ میں ہے
ومن یومن بااللہ ویعمل صالحاید خلہ جنت تجری من تحتھاالانھار خلدین فیھا ابدا
جو خدا پر ایمان لے آئے اور عمل صالح انجام دے اسے خدا باغات بہشت میں داخل کرے گا جہاں درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اورجہا ں جا نے والے ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
سورہٴ نور آیت ۵۵ میں ہے
وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوالصالحات لیستخفنہم فی الارض
جو افراد ایمان لے آئیں اور اعمال صالح انجام دیں خدا کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں روئے زمین کا خلیفہ بنائے گا۔
اصلی طور پر ایمان جڑ ہے اور عمل صالح اس کا پھل اور میٹھے پھل کا وجود جڑ کی سلامتی کی دلیل ہے اور جڑ کی سلامتی مفید پھل کی پرورش کا سبب ہے۔
ممکن ہے بے ایمان لوگ کبھی کبھی عمل صالح انجام دیں لیکن یہ مسلم ہے کہ اس میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہو گی۔ ایمان جو عمل صالح کا ضامن ہے ایسا ایمان ہے جس کی جڑیں وجود انسانی کی گہرائیوں میں پہنچی ہوئی ہوں اور ان کی وجہ سے انسان میں احساس مسوٴلیت پیدا ہو۔
(۲) پاکیزہ بیویاں: یہ امر قابل غور ہے کہ جنت کی بیویوں کی اس آیت سے صرف ایک صفت ”مطھرة“ بیان کی گئی ہے۔ صفت مطہرة (یعنی پاک وپاکیزہ) کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بیوی کے لئے سب سے پہلی اور اہم ترین شرط پاکیزگی ہے باقی صفات سب اس کے ماتحت ہیں۔
پیغمبر اکرم کی ایک مشہور حدیث اس حقیقت کو روشن کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا:
ایاکم وخضراء الدمن، قیل: یا رسول اللہ و ما خضراء الدمن، قال المرئة الحسناء فی منبت السوء۔
ان سبزیوں سے پرہیز کرو جو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر اگیں۔ عر ض کیا گیا اے اللہ کے رسول آپ کا مقصد اس سبزی سے کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: خوبصورت عورت جس نے گندے خاندان میں پرورش پائی ہو[70]
جنت کی مادی و معنوی نعمات:
اگر چہ بہت سی آیات قرآنی میں مادی نعمتوں سے متعلق گفتگو ہوئی ہے مثلا باغات جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں، قصر و محلات پاکیزہ بیویاں، رنگ برنگے پھل اور میوے اور ہم مزاج دوست وغیرہ مگر ان کے ساتھ ساتھ اہم ترین معنوی نعمات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن کی عظمت و رفعت کو ہمارے پیمانوں سے ناپنا ممکن نہیں۔ مثلا سورہ توبہ آیہ ۷۲ میں ہے: وعد اللہ المومنین والمومنٰت جنٰت تجری من تحتھا الانھٰر خالدین فیھا ومسٰکن طیبةفی جنٰت عدن ورضوان من اللہ اکبر ذلک ھوالفوز العظیم
خداوند عالم نے ایماندار مردوں اور عورتوں سے باغات جنت کا وعدہ کیا ہے جن کے درختوں تلے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے اور ان کے لئے دائمی بہشتوں میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اسی طرح پروردگار کی خوشنودی بھی جو ان سب سے بالا تر ہے اور یہ عظیم کامیابی ہے:
سورہ بینہ کی آیہ ۸ میں جنت کی مادی نعمتوں کے تذکرے کے بعد فرمایا گیا ہے؛
رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ
خداوند عالم ان سے خوش ہے اور وہ بھی خدا سے خوش ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس مقام پر پہنچ جائے کہ اسے احساس ہو کہ خدا اس سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی ہے تو وہ تمام لذات کو بھلا دیتا ہے صرف اسی سے دل لگا لیتا ہے اس کے علاوہ اپنی فکر میں کچھ نہیں لاتا اور یہ ایسی روحانی لذت ہے۔ کسی طرح بھی زبان و بیاں سے ادا نہیں کی جاسکتی۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ چونکہ قیامت و معاد میں روحانی پہلو بھی ہے اور جسمانی بھی لہذا جنت کی نعمات بھی دونوں پہلو رکھتی ہیں تاکہ انہیں جامعیت حاصل ہو اور ہر شخص اپنی استعداد اور شائستگی کے مطابق بہرور ہوسکے۔
……………..
حواله جات
[69]. لفظ کے ایک سے زیادہ معانی میں استعمال کی بحث میں ہم نے ثابت کیا ہے
[70]. وسائل الشیعہ، جلد ۱، ص ۱۹۔