- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/27
- 0 رائ
۲۷۔ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ:
۲۷۔ فاسق وہ ہیں جو خدا سے محکم عہد و پیمان کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں وہ تعلق جنہیں خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی لوگ خسارے میں ہیں۔
تفسیر
حقیقی زیاں کار
گذشتہ آیت کے آخر میں چونکہ فاسقین کے گمراہ ہونے سے متعلق گفتگو تھی لہذا اس آیت مین ان کی تین صفات بیان کرکے انہیں مکمل طور پر مشخص کردیا گیا ہے۔ ذیل میں ان علامات و صفات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) فاسق وہ ہیں جو خدا سے محکم عہد و پیمان باندھ کر توڑ دیتے ہیں(الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ)۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے خدا سے مختلف پیمان باندھ رکھے ہیں۔ توحید و خدا شناسی کا پیغام اور شیطان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کا پیمان۔ فاسق ان تمام پیمانوں کو توڑ دیتا ہے وہ فرمان حق سے سرتابی کرتا ہے اور شیطان اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتا ہے۔
یہ پیمان کہاں اور کس طرح باندھا گیا تھا: یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پیمان تو دو طرفہ معاملہ ہے ہمیں بلکل یاد نہیں کہ ہم نے گذشتہ زمانے میں اس سلسلہ میں اپنے پروردگار سے کوئی عہد و پیمان کیا ہو۔
ایک نکتہ کی طرف متوجہ ہونے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ روح کی گہرائی اور سرشت انسان کے باطن میں ایک مخصوص شعور اور کچھ خاص قسم کی قوتیں پائی جاتیں ہیں جن کی ہدایت کے ذریعہ انسان سیدھی راہ اختیار کر سکتا ہے اور اسی ذریعہ سے وہ خواہش نفس کی پیروی سے بچتے ہوئے رہبران الہی کی دعوت کا مثبت جواب دے سکتا ہے اور خود کو اس دعوت سے ہم آہنگ کر سکتا ہے۔
قرآن اس مخصوص فطرت کو عہد و پیمان الہی قرار دیتا ہے حقیقت میں یہ ایک تکوینی پیغام ہے نہ کہ تشریعی و قانونی۔ قرآن کہتا ہے: الم عھد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین و ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم
اے اولاد آدم — کیا ہم نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا جو تمہارا واضح دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا جو سیدھا راستہ ہے(یسین، ۶۱)
واضح ہے کہ یہ اسی فطرت توحید و خدا شناسی کی طرف اشارہ ہے اور انسان میں راہ تکامل طے کرنے کا جو عشق ہے اس کی نشاندہی ہے۔
اس بات کے لئے دوسرا شاہد وہ جملہ ہے جو نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں موجود ہے:
و بعث فیھم رسلہ و واتر الیہ انبیائہ یستادوہ میثاق فطرتہ:
خداوند عالم نے یکے بعد دیگرے لوگوں کی طر ف ا پنے رسول بھیجے تاکہ ان سے یہ خواہش کریں کہ وہ اپنے فطری پیمان پر عمل کریں۔
مزید واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ خدا نے انسان کو ہر نعمت وافر دی ہے اور اس کے ساتھ عملی طور پر اس سے زبان آفرینش میں عہد و پیمان لیا ہے۔ اسے آنکھ دی ہے تاکہ اس سے حقائق کو دیکھ سکیں کان دیا تاکہ حق کی آواز سن سکے اور اسی طرح دیگر نعمات ہیں۔
جب انسان اپنی فطرت کے مطابق عمل پیرا نہ ہو یا خدا داد قوتوں کا غلط استعمال کرے تو گویا اس نے عہد و پیمان خدا کو توڑ دیا۔ فاسق تمام کے تمام یا ان میں سے بعض فطری پیمانوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔
(۲) اس کے بعد قرآن فاسقین کی دوسری علامت کی نشاندہی یوں فرماتا ہے: جو تعلق خدا سے قائم رکھنے کو کہا ہے وہ انہیں منقطع کر دیتے ہیں (و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل)۔
بہت سے مفسرین نے اگرچہ اس آیت کو قطع رحمی اور عزیزداری کے رشتے کو منقطع کرنے سے مخصوص سمجھا ہے لیکن مفہوم آیت پر گہرا غور نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے معنی زیادہ وسعت اور زیادہ عمومیت رکھتے ہیں جس کی بنا پر قطع رحم اس کا ایک مصداق ہے کیونکہ آیت کہتی ہے کہ فاسقین ان رشتوں اور تعلقات کو منقطع کر دیتے ہیں جنہیں خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اب یہ پیوند، رشتہ داری کے ناتے اور دوستی کے ناتے، معاشرے کے ناتے، خدائی رہبروں سے ربط و پیوند اور خدا سے رابطہ سب پر محیط ہیں لہذا آیت کو قطع رحمی اور رشتہ داری کے رابطوں کو روندنے کے معنی میں منحصر نہیں کرنا چاہیئے۔
یہی وجہ ہے کہ مفسرین کے نزدیک اس آیت سے مراد انبیاء و موٴمنین سے رابطہ منقطع کرنا ہے، بعض کے نزدیک اس کا مفہوم انبیاء اور آسمانی کتابوں سے رابطہ قطع کرنا ہے کیونکہ خدا نے ان سے رابطہ استوار رکھنے کا حکم دیا ہے واضح ہے کہ یہ تفسیریں بھی آیت کے مفہوم کا جز ہیں.
بعض روایات میں”ما امراللہ بہ ان یوصل“ کی تفسیر امیرالموٴمنین اور اہلبیت سے مربوط کی گئی ہے۔[74]
(۳) فاسقین کی ایک اورعلامت زمین میں فساد پیدا کرنا ہے جس کی آخری مرحلے میں نشاندہی کی گئی ہے۔ وہ زمین میں فساد پیدا کر تے ہیں (ویفسدون فی الارض)۔
یہ واضح ہے کہ جنہوں نے خدا کو بھلادیا ہے، اس کی اطاعت سے رخ موڑ لیا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے رحم اور شفقت کا برتاوٴ نہیں کرتے وہ دوسروں سے کیسا معاملہ کریں گے۔ وہ اپنے مقصد برادری، اپنی لذتوں اورذاتی فائدوں کی فکر میں رہیں گے۔ معاشرے کی حالت کچھ بھی ہو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا ہدف تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی جائے۔ اس ہدف وغرض تک پہنچنے کے لئے وہ کسی بھی غلطی کی پرواہ نہیں کرتے۔ واضح ہے کہ اس طرز فکر و عمل سے معاشرے میں کیسے کیسے فسادات پیدا ہوتے ہیں۔
زیر بحث آیت کے آخر میں ہے کہ یہی لوگ زیاں کار اور خسارہ اٹھانے والے ہیں (اولئک ھم ا لخاسرون)۔ واقعاَ ایسا ہی ہے۔ اس سے تدبیر کیا خسارہ ہو گا کہ وہ تمام مادی اور روحانی سرمایہ جس سے انسان بڑے بڑے اعزاز اور سعادتیں حاصل کرسکتا ہے۔ اسے اپنی فنا و نابودی، بدبختی اور سیاہ کاری کی راہ میں خرچ کر دے اور جو لوگ مفہوم فسق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اطاعت کے مرکز سے خارج ہوگئے ہیں ان کی قسمت میں اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔
چند اہم نکات
(۱) اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت: گذشتہ آیت اگر چہ تمام خدائی ناطوں کے احترام کے متعلق گفتگو کرتی ہے لیکن بلا شک و تردد رشتہ داری کا ناطا اور تعلق اس کا واضح اور روشن مصداق ہے۔
اسلام صلہ ٴرحمی، عزیزوں کی مدد و حمایت اور ان سے محبت کرنے کی بہت زیادہ اهمیت کا قائل ہے اور قطع رحمی اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے رابطہ منقطع کر نے کو سختی سے منع کرتا ہے۔
صلہ ٴ رحمی کی اتنی اہمیت ہے کہ رسول اکرم فرماتے ہیں۔
صلة الرحم تعمر الدیار و تزید فی الاعمار و ان کان اھلھاغیر اخیار
رشتہ داروں سے صلہ رحمی شہروں کی آبادی کا باعث ہے اور زندگیاں اس سے بڑھتی ہیں اگر چہ صلہ رحمی کرنے والے لوگ اچھے نہ ہوں۔[75]
امام صادق کے ارشاد میں سے ہے؛
صل رحمک و لو بشربة من ماء و افضل ما یوصل بہ الرحم کف الاذی عنھا
رشتہ داری کی گرہ اور ناطے کو مضبوط کرو چاہے پانی کے ایک گھونٹ سے ہوسکے اور ان کی خدمت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ (کم ازکم) تم سے انہیں کوئی تکلیف و اذیت نہ پہنچے۔[76]
قطع رحمی کی قباحت اور گناہ اس قدر ہے کہ امام سجاد نے اپنے فرزند کو نصیحت کی کہ وہ پانچ گروہوں کی صحبت سے پرہیز کریں اور ان پانچ گروہوں میں سے ایک قطع رحمی کرنے والے ہیں:
و ایاک و مصاحبة القاطع لرحمہ فانی وجدتہ ملعونا فی کتاب االلہ
قطع رحمی کرنے والے کی معاشرت سے پرہیز کرو کیونکہ قرآن نے اسے ملعون اور خدا کی رحمت سے دور قرار دیا ہے[77]
سورہ محمد آیہ ۲۲،۲۳ میں ارشاد ہے:
فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنھم اللہ۔
پس اس کے سوا تم سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ اگر اقتدار تمہارے ہاتھ آجائے تو زمین میں فساد برپا کردو اور قطع رحمی کرو۔ ایسے ہی لوگ خدا کی لعنت کے سزاوار ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قرآن میں قطع رحمی کرنے والوں اور رشتے داری کے پیوند کو توڑنے والوں کے لئے سخت احکامات ہیں اور احادیث اسلامی بھی ان کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ خدا کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مغضوب کون سا عمل ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا خدا سے شرک کرنا پوچھا اس کے بعد کون سا عمل زیادہ باعث غضب الہی ہے تو فرمایا: قطع رحمی۔[78]
(اسلام نے جو رشتہ داری کی اس قدر حفاظت و نگہداری کی تاکید کی ہے اس کی وجہ یہ ہے ایک عظیم معاشرے کا استحکام ترقی، تکامل اور اسے عظیم تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کام چھوٹی اکائیوں سے شروع کیا جائے یہ عظمت اقتصادی اور فوجی لحاظ سے درکار ہو یا روحانی و اخلاقی لحاظ سے، جب چھوٹی سے چھوٹی اکائیوں میں پیش رفت اور․․․ خود بخود اصلاح پذیر ہو جائیگا۔
اسلام نے مسلمانوں کی عظمت کے لئے اس روش سے پورے طور پر فائدہ اٹھایا ہے۔ اس نے اکائیوں کی اصلاح کا حکم دیا ہے اور عموماَ لوگ ان کی مدد، اعانت اور انہیں عظمت بخشنے سے روگردانی نہیں کرتے کیونکہ ایسے افراد کی بنیادوں کو تقویت پہنچانے کی نصیحت کرتا ہے جن کا خون ان کے رگ و ریشہ میں گردش کررہا ہے اور جو ایک خاندان کے ارکان ہیں۔ واضح ہے کہ جب رشتہ داری کے چھوٹے گروپ کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو بڑا گروپ بھی عظمت حاصل کر ے گا اور ہر لحاظ سے قوی ہو گا ،وہ حدیث جس میں ہے کہ ”صلہ رحمی شہروں کی آباد ی کا باعث ہے“غالباَ اسی طرف اشارہ کرتی ہے
(۲) جوڑنے کے بجائے توڑنا: یہ قابل غور ہے کہ آیت کی تعبیر میں اس طرح ہے کہ خدا نے جس چیز کو جوڑنے کا حکم دیا ہے فاسق اسے توڑتے ہیں۔ یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا قطع کرنا وصل سے پہلے ممکن ہے؟ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ وصل سے مقصد ان روابط کو جاری رکھنا ہے جو خداوند عالم نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان یابندیوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان طبعی طور پر اور فطری طور پر قائم کئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خدا نے حکم دیا ہے کہ ان فطری اور طبعی رابطوں کی محافظت و پاسداری کی جائے لیکن گنہ گار انہیں قطع کر دیتے ہیں(اس پر خصوصی غور کیجئے)
…………….
حواله جات
[74]. نورالثقلین ،جلد، ۵۴( مزید توضیح کے سلسلے میں نیز ان روایات کے لئے جو ان ہیوندوں کے مفہوم کی وسعت سے متعلق ہیں اسی تفسیر (نمونہ) میں سورہ ٴرعد کی آیہ ۲۱ کے ذیل میں ملاحظہ کیجئے)
[75]. سفینة البحار، جلد ۱، ص ۵۱۴
[76]. سفینة البحار، جلد ۱، ص ۵۱۴
[77]. سفینة البحار، جلد ۱ ص ۵۱۶ ( مادہ رحم)
[78]. سفینة البحار، جلد ۱ ص ۵۱۶ ( مادہ رحم)