- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/27
- 0 رائ
الف: تفسیر بالرّای ب: تفسیر غیر بالراّی
تفسیر بالرای
یعنی آیات کو مفسر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق تفسیر کرنا چاہے تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ اور موافق ہو یا مخالف جیسے اس دور میں بہت سے لوگ کسی اصول و ضوابط کے بغیر سامعین کو قائل کرنے کی خاطریا مقالہ نویسی مقالے کی تزین کے واسطے آیات کا ایک ٹکڑا یاایک جملہ جو آیت کے ابتدا اور انتہا سے ہٹ کر فقط ایسے جملے کو بیان کرتا ہے جوبظاہر خطیب اور مقالہ نویس کے اہداف کے مطابق نظر آتا ہے ،جبکہ اس جملے کے آغاز اورانتہاء کو لایاجائے توآیت کا معنی اور مفہوم کچھ اورنظر آتاہے لہذا آیات قرآنی کو تفسیر کرنے کیلئے پوری آیات پر احاطہ علمی ہونے کے علاوہ شان نزول اور اس کی تفسیر کے بارے میں آئمہ سے منقول روایات اور صاحب نظر حضرات کی تفسیر کامطالعہ کرنے کے بعد تفسیرکرنا چاہیے ۔
تفسیر بالرای کو حکم شرعی کی رو سے دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
( ١ ) تفسیر بالراّی جایز
( ٢ ) تفسیر بالراّی غیر جائز
اگر کوئی شخص برسوں سال آیات عظام کے سامنے زانو ے ادب تہہ کرتے ہوئے حوزہ میں تعلیمات اسلامی کے حصول کیلئے پوری ایک عمر تلمذ کرتے ہوئے تفسیر کے ماہرین سے تفسیر کے اصول و ضوابط لے چکے ہو ںتو اس کی روشنی میں آیات کی تفسیر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق بیان کریں، تو ایسی تفسیر بلا اشکال جائز ہے،جیسے علامہ طباطبائی، طبرسی، آیت اللہ خوئی، صدر المتالہین، حضرت استاد محترم عارف زمان زہد و تقوی کا مجسم مفسر قرآن آیۃاللہ جوادی آملی ،فیض کاشانی،عبد اللہ شبر،حضرت استاد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، حضرت حجۃالاسلام قرائتی صاحب تفسیر الفرقان کہ انہیں حضرات نے سالوں سال حضرات آیات عظام کی شاگردی اور تلمذ کرنے کے بعد اپنے آرای حدسیہ اور اجتہاد کے مطابق تفسیر کرنے کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے، لیکن ایسی تفسیر ان روایات اور احادیث کے دائرہ سے خارج ہے جو تفسیر بالرای کی حرمت اور مذمت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ لوگ صاحب نظر ہیں تمام تعلیمات اسلامی کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں، فقہ اللغہ، فقہ الحدیث ، فلسفہ اور منطق علم اصول اور فقہ کے قواعد و ضوابط روایات اور آیات کی روشنی میں اپنا نظریہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسے مفسرین کی نہ فقط مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی اخلاقی اور دینی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے کہ قرآن کریم جو اللہ کی طرف سے بشر کی ہدایت کے لئے آیا ہے، اس کی اس طرح تفسیر کریں تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور ہدایت پائیں، کیونکہ قرآن ہدایت کی خاطر آیا ہے، اس کا افہام اور تفہیم کرنا ہر دور میں فرض ہے،جو تفسیر کے بغیر ناممکن ہے ۔
تفسیر بالرّای غیر مجاز: یعنی قرآن کے الفاظ اور آیات کی اس طرح تفسیر کرنا جو اپنے خیالات اور گما ن کے مطابق ہے، جس پر کوئی دلیل عقلی اور نقلی موجود نہیں ہے خود اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے صاحب نظر بھی نہیں ہے، ایسی تفسیر کے جواز اور حرمت کے بارے میں دو نظریے ہیں۔
١۔ ایسی تفسیر حرام ہے کیونکہ سورہ اعراف آیت ٢٣ اور سورہ بقرہ آیت ١٦٩ اور سورہ اسراء آیت ٣٦ کی روشنی میں کسی بات اور نظریہ کو علم و یقین اور دلیل کے بغیر فقط خیالات اور گمانوں کی بناء پر پیش کرناحرام ہے کہ جس کی مذمت اور حرمت آیات قرآنی کے علاوہ روایات صحیح السند اور معتبرہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے . رجوع کیجئے ۔(١)”لہذا من فسر القرآن برایہ فلیتبواء مقعدہ فی النار” سے مراد ایسی تفسیر ہے ۔
اور ہمارے دور میں بغیر پڑھے اور دینی مراکز میں تربیت علمی اور اخلاقی پائے بغیر فقط اسکولز اور کالج یا یونیورسٹی یا بغیر پڑھے لکھے مقررین کی کیسٹوں سے یاد کرکے تفسیر کرنے والے مقررین اور مقالہ نویس حضرات کی تفسیر جو معمولا بغیر اصول وضوابط کی تفسیرہوتی ہے، اس تفسیر کے زمرے میں داخل ہے ایسی تفسیرنہ فقط مذہب تشیع کی توہین کا باعث اور شریعت میں حرام ہے بلکہ سیدھا سادہ ایمان رکھنے والے مسلمانوں کو لوٹنے کا ذریعہ بھی ہے، تاریخ اسلام میں ایسے مفسرین کا نام بھرا ہوا ہے ۔
چنانچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے مفسرین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :
” من فسّر القرآن برأیہ ان اصاب لم یؤجر و ان اخطاء فلیتبوا مقعدہ من النار ”
” اگر کوئی شخص اپنے خیال کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے اگرچہ واقع کے مطابق بھی ہو پھر بھی کوئی ثواب نہیں دیا جاتا ہے لیکن اگر واقع کے خلاف آئے تو اس کو جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے ۔(۲ )
کیونکہ شیعہ امامیہ کے مفسرین نے ہر دور میں تفسیر قرآن کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت امام صادق کے علاوہ دیگر آئمہ کے کلام کی رو سے کیاہے ،نہ اپنا خیال اور گمان چونکہ آئمہ نے بارہا فرمایا:” نحن مفسروا القرآن”” ہم سے ہی قرآن کے بارے میں سوال کرو،ہم ہی قرآن کے مفسر ہیں،نیز دور حاضر میں کچھ لوگ خطیب زمان مثالی مقرر کی حیثیت سے یاپروفیسرز یا ڈاکٹر ز یا ماسٹرز اور ٹیچرز کی سند لیکر دینی مراکز اور حوزہ علمیہ میں تربیت پائے بغیر اور تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط یاد کئے بغیر قرآن کی تفسیر میں سرگرم ہیں ایسے لوگوں کی دو قسمیں ہیں :
١۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریے کو نقل کرتے ہیں نہ اپنا خیال اور گمان ، اس میں نہ کوئی مذمت ہے اور نہ حرام ، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ تربیت یافتہ مفسرین اور مجتہدین کے نظریہ کو نقل کرنا تفسیر بالرّای نہیں ہے ۔
٢۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طر ح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریہ سے ہٹ کر اپنے خیال کے مطابق آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایسے لوگ نہ فقط مفسر نہیں ہیں بلکہ مذہب اورکتاب و سنت کی توہین کے مترادف ہے، بیشک وہ پڑھے لکھے ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہیں،لیکن تفسیر قرآن کرنا ان کا کام نہیں ہے ، لہذا جو لوگ تعلیمات اسلامی کے بنیادی اصول و ضوابط کو سکھائے بغیرفقط پڑھے اور لکھے ہونے کی حیثیت سے قرآن کی تفسیر کریں تو کتاب و سنت کی توہین کا باعث ہے ، جسکی سزا ہماری فقہی کتابوں میں بحث حدود و التعزیرات میں مجتہدین نے مفصل بیان کی ہے، رجوع کیجئے ۔(۳)
نیز ایسی تفسیر کی مذمت اور حرمت پر اہل السنت کے محدثین اور محققین نے اپنی کتابوں میں حضرت پیغمبر اکرم(ص) سے متعدد روایات کو نقل کی ہے، رجوع کیجئے.(۴)
٢۔ تفسیر بالراّی کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر تفسیر جایز ہے چاہے تفسیر کے بنیادی اصول و ضوابط اور شرایط کے مطابق ہویا نہ ہو بلکہ اپنے خیالات اور رأی حدسیہ و اجتہاد کے مطابق ہو،پھر بھی جائز ہے ، کیونکہ اللہ نے سورہ محمد آیت ٢٤ میں سورہ ص آیت ٢٩ میں قرآن کے بارے میں تدبیر و تفکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنے اجتہاد اور خیالات کے مطابق بھی قرآن کی تفسیر کرنا چاہئے ۔
لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کو انسان کی ہدایت اور نجات کےلئے نازل کیا۔ جو سیکھنے کی صورت میں ہر انسان چاہے ذہن کے حوالہ سے ذہین ہو یا نہ ہو سمجھ سکتے ہیں،نیز ہر اہل زبان آیات محکم کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جس کو سمجھنے کے لئے اجتہاد اور اخبار حدسیہ خیالات پردازی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پورے قرآن میں تین مطلب کی اشارہ کیا گیا ہے :
( الف)اخلاقیات (ب)اعتقادات (ج) احکامات۔
انہی میں سے فقط ان آیات میں اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے جو احکام شریعہ کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی قرآن میں بہت محدود ہیں کہ جن پر مجتہدین نے آیات الاحکام کے نام پر کتابیں لکھی ہیں جس میں فقط پانچ سو آیات بیا ن ہوئی ہیں ان میں بیشک اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا اجتہاد ساٹھ سال اسلامی تعلیمات حاصل کرنے، سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کے بعد دلیل شرعی اور عقلی کی روشنی میں ہوتاہے نہ گمان اور خیالات اور استحسان و قیاس کی رو سے ایسا اجتہاد نہ فقط جائز ہے ،بلکہ بہت سے مجتہدین کی نظر میں ایسا اجتہاد واجب کفائی ہے، کچھ دیگر مجتہدین کی نظر میں واجب عینی ہے،چنانچہ حضرت آیت اللہ مرحوم نائینی کی نظر میں احکامات میں قدرت اور استطاعت کی صورت میں اجتہاد کرنا واجب عینی ہے، نیز جن آیات میں قرآن کے متعلق تدبر اور تفکر کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں . اور جو بھی اچھا سمجھیں اللہ سے منسوب کریں بلکہ آیات قرآنی میں تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن دیگر کتب کی مانند نہیں ہے، جو ظاہری عبارات اور الفاظ کو پڑھیں اور فورا حکم کریں ، لہذا حقیقت میں کڑی نظر سے غور کریں تو آیات تدبر و تفکر سے تفسیر بالرّای کا جائز نہ ہونا سمجھا جاتا ہے نہ جائزہونا۔
( ٢ ) ان کی دوسری دلیل :یہ ہے کہ اگر تفسیر بالرّای جائز نہ ہوتو احکام کو تعطیل کرنا لازم آتا ہے کیونکہ آیات کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں احکام مجہول رہ جاتے ہیں جس سے انسان احکام الہی کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اس دلیل کا جواب علوم قرآن کے ماہرین نے اس طرح دیا ہے کہ تمام علما اور بہت سے مجتہدین کا عقیدہ یہ ہے کہ باب اجتہاد زمان غیبت میں مفتوح ہے مجتہدین کا نظریہ زمان غیبت میں مقلدین پر حجت اور واجب العمل ہے، چاہے ان کا نظریہ واقع کے مطابق آئے یا نہ آئے واقع کے مطابق آنے کی صورت میں دو ثواب دیا جاتا ہے جبکہ خطا اور اشتباہ کی صورت میں اس پر عقاب نہیں کیا جاتا ہے لہذا احکام پر عمل کرنے کیلئے تفسیر بالرای کرنے کی ضرورت غلط ہے کیونکہ احکام کو انجام دینے میں مجتہدین کے فتوی کی ضرورت ہے نہ اینکہ خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی ضرورت (۵)
حواله جات
( ١ ) اصول کافی، باب الاالرّی والمقاییس، اصول کی مفصل کتابیں جیسے رسائل شیخ بحث ظواہر وغیرہ۔
( ۲ ) بحار الانوار،ج٩٢،ص١١ )
( ۳ ) شرایع الاسلام ج٢کتاب حدود و التعزیرات، مسالک ج٧ کتاب حدود و التعزیرات، وسائل الشیعہ ج١٨، مراجع وقت کے رسالہ عملیہ وغیرہ )
( ۴ ) سنن ترمذی، سنن بیہقی، صحیح بخاری، صحیح مسلم )
(۵ ) شناخت قرآن،ص٢٠٦