- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/02/20
- 0 رائ
س ۱: تقلید کیا ھے؟
جواب: دلیل طلب کئے بغیر کسی کا قول قبول کرنا تقلید ھے۔ جس طرح بیمار اپنے طبیب کے دستور کی پیروی اور اسی کے مطابق عمل کرتا ھے۔
سوال ۲: تقلید کن موضوعات میں ھوسکتی ھے۔ مقلد کسے کھتے ھیں؟
جواب: کسی بھی موضوع میں جب انسان کوئی مطلب نہ سمجه سکے اور دوسروں سے اتباعاً اخذ کرے اسے تقلید کھیں گے۔ البتہ تقلید کے غالب موارد ایسے امور ھیں جھاں تعلیم و تجربہ کی احتیاج ھوتی ھے۔ چونکہ کسی بھی علم سے بے بھرہ افراد عالم و ماھر اور تجربہ کار سے ھی اس علم کے مسائل کو حاصل کرتے ھیں۔ لھذا ایسے افراد کو مقلد اور عالم و ماھر فن کو اس علم و فن کا مجتھد کھتے ھیں۔ جیسے ڈاکٹر و طبیب انسانی بدن کے حالات اور صحت و مرض سے واقفیت رکھتا ھے۔ دواساز دواؤں کی خصوصیات سے مطلع ھوتا ھے۔ معمارمکان کے بنانے میں ماھر ھے۔ زرگر سونا چاندی اور دوسرے جواھرات کی تشخیص میں ماھر ھے۔ درزی لباس اور اس کی سلائی میں استاد ھے۔ گھڑی ساز گھڑی کی خوبی و بدی اور اس کے داخلی حالات سے آگاہ ھے اور حکیم و فلسفی اپنی استعداد بشری کے مطابق موجود ات کے حقایق سے با خبر ھوتا ھے۔
نتیجہ: ھر علم و فن کے عالم، دانشمند اور متخصّص کو اس علم کا مجتھد اور ناواقف حضرات جب اس مجتھد کی طرف رجوع کرتے ھیں تو انھیں مقلد کھا جاتا ھے۔
مذھبی مسائل دو قسم کے ھیں:
۱۔ اصولی مسائل جن میں توحید ، صفات پروردگارمثلاًعدل وغیرہ نبوت، امامت اورقیامت سے متعلق مسائل شامل ھیں۔
۲۔ فروعی مسائل جن میں مسائل عبادات و معاملات وغیرہ شامل ھیں۔
پھلی قسم ھماری بحث سے خارج ھے کیونکہ یہ بات مسلم ھے کہ اصولی مسائل میں تقلید نھیں ھو سکتی بلکہ ھر عاقل انسان کے لئے ضروری ھے کہ وہ ان اصولی مسائل کی معرفت حاصل کرنے کے لئے فکری و عقلی استدلال سے کام لے اور پھر انھیں اپنے عقاید میں شامل کرے۔
یھاں ھماری بحث دین کے فروعی مسائل سے متعلق ھے۔
اصولی مسائل کے لئے مختصر، روشن اور عام فھم دلیل بیان کی جاسکتی ھے لیکن احکام فرعیہ کے استنباط (سمجھنے) کے لئے کچھ شرائط کا ھونا ضروری ھے جو سب لوگوں کو میسر نھیں۔
سوال ۳: احکام شرعیہ میں مجتھد اور مرجع تقلید کون ھوتا ھے؟
جواب: مجتھد وہ شخص ھے جو لوگوں کے مذھبی، معاشرتی، اجتماعی معاملات اور زندگی کے دیگر امورو مبتلا بہ مسائل کو دلائل و براھین کے ذریعے ان کے مدارک سے اخذ کرے ۔ بالفاظ دیگر مجتھد وہ ھوتا ھے جو آفاقی قوانین و وظائف انسانی کہ جنھیں خداوند متعال نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ھے، کو ان کے مآخذ و مدارک سے اخذ کرے تاکہ ان پر وہ خود اور دیگرافراد عمل پیرا ھو سکیں۔
سوال ۴: ایک مسلمان اور معتقد انسان کا اپنے مذھبی مسائل میں کیا وظیفہ ھے؟
جواب: وہ خود مجتھد ھویا جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے۔
سوال ۵: اس کی کیا وجہ ھے کہ انسان کو ان دو میں سے ایک راہ اختیار کرنی ھوتی ھے؟
جواب: اس میں کوئی شک نھیں کہ ادیان آسمانی میں سے کسی دین نے اپنے پیروکاروں کو حیوانات کی طرح بلا تکلیف و وظیفہ نھیں چھوڑا ھے بلکہ کچھ احکام اور دستور وضع کئے تا کہ ان کا علم حاصل کرکے ان پر عمل کیا جائے۔ دین اسلام نے بھی جو آخری دستور آسمانی اور خاتم ادیان ھے کچھ احکام اور قوانین بیان کئے ھیں جن کا استنباط قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام سے کافی دقت کے ساتھ مخصوص شرائط پرنظر رکہ کر کیا جاتا ھے۔ پس جو شخص خود تحقیق کرے اور مذکورہ بالا مدارک سے اپنے مبتلا بہ مسائل کو حاصل کرے وہ مجتھد ھے۔ اورجو شخص اتنی صلاحیت یا اتنا وقت نھیں رکھتا تو اس کو چاھئے کہ مجتھد کی پیروی کرے۔ ایسے شخص کو مقلد کھتے ھیں۔
سوال ۶: تقلید کن دلائل کی روسے واجب ھے؟
جواب: جو شخص دینی احکام میں خود مجتھد نھیں ھے مندرجہ ذیل دلائل کی رو سے اس کے لئے کسی مجتھد کی تقلید کرنا ضروری ھے۔
پھلی دلیل: حکم عقل، تقاضائے فطرت اور روش عقلاء پر مبنی ھے۔ مثلاً کوئی مریض خود اپنے مرض اور اس کی دوا کی تشخیص نہ کر سکتا ھو اور اس کے لئے دوسرے کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھو تو اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ اسے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاھئے اور ڈاکٹر کے موجود ھوتے ھوئے بھی اس کی طرف رجوع نہ کرے جس کی وجہ سے مرض بڑہ جائے یا موت آجائے تو عقلاء اس کی مذمت کریں گے اور اس کا عذر مورد قبول نہ ھوگا۔ اب جبکہ مریض یہ سمجہ کر کہ ڈاکٹر کی تشخیص، بیماری کے اصل علل و اسباب اور اس کے ازالے کا طریقہ اس کے احاطہٴ قدرت سے باھر ھے ڈاکٹر سے اپنے علاج کی دلیل طلب کرے تو مورد تنقید واقع ھوگا۔
دوسری دلیل: آیہٴ شریفہ
” و ما کان الموٴمنون لینفروا کافّة فلو لا نفر من کلّ فرقة منھم طائفة لیتفقّھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعو ا الیھم لعلھم یحذرون “(سورہٴ برائت/ ۱۲۲)
یعنی تمام مومنوں کے لئے اپنے وطن کو تحصیل علم دین کے لئے چھوڑنا ممکن نھیں ھے، پس حتماً ھر گروہ میں سے چند آدمیوں کا تحصیل علم دین کے لئے جانا ضروری ھے اور وہ جب اپنے اپنے وطن واپس لوٹیں تو ان کو چاھئے کہ دوسرے لوگوں کو دینی احکام تعلیم دیں اور ان کو عذاب الٰھی سے ڈرائیں ، شاید وہ ا ن کی گفتار کی پیروی کرتے ھوئے عذاب الھی سے ڈریں۔
یہ آیہٴ شریفہ تفقہ یعنی تحصیل علم و احکام دین کو بعض افراد کے لئے واجب قرار دینے کے علاوہ ان احکام کا دوسروں تک پھنچانا بھی لازمی قرار دے رھی ھے۔
التبہ احکام دین حاصل کرنے اور دوسروں تک پھنچانے کے دو طریقے قابل عمل ھیں کہ آیہٴ شریفہ دونوں کی تائید کر رھی ھے۔
پھلا طریقہ: خود روایت کا حاصل کرنا اور دوسروں تک پھنچانا۔ غالباً سابقہ زمانے میں اصحاب معصومین علیھم السلام کا طریقہ بھی تھایھی وجہ ھے کہ ان کو راوی اور ناقلین حدیث کھا جاتا تھا اسی وجہ سے کھا گیا ھے کہ اس آیہٴ شریفہ سے خبرواحد کی حجیت بھی مراد ھوتی ھے۔
دوسرا طریقہ: اس فن کا ماھر اور تتبع کرنے کرنے والا عالم دین، آیات و روایات میں غور فکر کرکے اصولی اور فقھی قواعد کے ذریعہ تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد (جسے اجتھاد کھا جاتا ھے) جس نتیجہ پر پھنچے اس کو فتویٰ کی صورت میںدوسروں کے سپرد کرے ،جیسے کہ آئمہ علیھم السلام کے بعض شاگرد ایساھی کرتے تھے۔ حضرت ولی عصر آخر الزمان ارواحنا فداہ کے زمانہ غیبت سے لوگوں تک احکام دین پھنچانے کا یھی طریقہ علماء نے اختیار کر رکھا ھے اور آیہٴ شریفہ بھی اس طریقہ کواپنے اندر شامل کرتی ھے۔
پس اس مختصر بیان سے یہ تنیجہ حاصل ھوتا ھے کہ آیہ شریفہ نقل روایت کے حجت اور معتبر ھونے کے ساتھ ساتھ مجتھد کے فتویٰ کے حجت و معتبر ھونے کو بھی ثابت کر رھی ھے۔
تیسری دلیل: وجوب تقلید کے دلائل میں سے تیسری دلیل وہ روایات ھیں جو اس بارے میں آئمہ علیھم السلام سے ھم تک پھنچی ھیں اور ثابت کرتی ھیں کہ جو لوگ احکام دین اور مذھبی مسائل کو نھیں جانتے انھیں چاھئے کہ اس فن میں ماھر علماء اور محققین کی تقلید کریںیعنی اپنے مبتلا بہ مسائل ان سے حاصل کریں۔
اس سلسلہ میں چند روایات مندرجہ ذیل ھیں:
پھلی روایت : نجاشی جو علمائے شیعہ میں سے ھیں اپنی علم رجال کی معروف کتاب میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں کہ آپ نے اپنے شاگردوں میں سے ایک ممتاز شاگرد ابان سے فرمایا:
”یا ابان! اجلس فی المسجد النبی و افت النّاس فانّی احبّ ان یریٰ فی اصحابی مثلک“۔
یعنی اے ابان! جب مدینہ آؤ تو مسجد پیغمبر میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے دو (یعنی احکام دین بتاؤ) کیونکہ میں پسند کرتا ھوں کہ لوگ میرے اصحاب میں سے تم جیسے صحابی دیکھیں۔(۱)
ابان جو مجتھد اور صاحب فتویٰ تھے، امام علیہ السلام نے ان کو فتویٰ دینے کا حکم فرمایا تا کہ لوگ سنیں اور اس پر عمل کریں اور امام(ع) کی نظر میں تمام مجتھدین اور صاحب فتویٰ ابان کی طرح ھیں یعنی حکم امام(ع) کے مطابق ھر شخص کے لئے جو خود مجتھد نھیں ھے، ضروری ھے کہ اپنے مبتلا بہ مسائل میں کسی کی تقلید اور اس کے فتووں پر عمل کرے۔
دوسری روایت:کتاب وسائل الشیعه (مذھب شیعہ میں حدیث کی مستند کتاب) کے باب ۱۰ ”کتاب القضاء“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ھوئی ھے کہ آپ نے” معاذ“ نامی شخص سے فرمایا: بلغنی انّک تقعد فی الجامع و تفتی فیه قلت نعم یحیی الرجل اعرفه بمودّتکم وحبّکم فاخبره بما جاء عنکم فقال اصنع ”قم ملخصاً“
اے معاذ میں نے سنا ھے کہ تم مسجد میں بیٹھ کر لوگوںکو فتوے دیتے ھو؟ میں نے عرض کی کہ ھاں ایسا ھی ھے، جوکچھ میں نے آپ سے حاصل کیا ھے آپ کے محبّوں و دوستوں کے لئے بیان کرتاھوں۔ آپ نے فرمایا ایسا ھی کرو۔(۲)
معاذ روایات معصومین علیھم السلام سے حکم الھی کا استنباط کر کے فتویٰ کی صورت میں لوگوں کو بتاتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی معاذ کے اس عمل کی تائید فرمائی۔ امام علیہ السلام کی نظر میں معاذ اور دوسرے مجتھدین یکساں ھیں یعنی مجتھدین کا فتویٰ لوگوں کے لئے حجت ھے اور اس پہ عمل کرناضروری ھے۔
تیسری روایت: کتاب وسائل الشیعہ باب۱۰ ” کتاب القضاء‘ ‘ میں عبد العزیز نامی ایک شخص حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ھے ۔ یا حضرت: میرا گھر بھت دور ھے میں اپنے مبتلا ء بہ مسائل جاننے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر نھیں ھوسکتا ۔ آیاآپ یونس بن عبد الرحمٰن کی تائید فرماتے ھیں اورکیامیں ان سے اپنے دینی مسائل حاصل کر سکتا ھوں ؟ امام علیہ السلام بے فرمایا: ھاں۔(۳)
چوتھی روایت : کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تفسیر سے نقل ھے:
”فامّا من کان من الفقهاء صائناً لنفسه حافظاً لدینه مخالفاً لهوا ه مطیعاً لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه“۔(۴)
مجتھدین اور فقھاء میں سے جو شخص اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھنے والا، اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ، خواھشات نفسانی کی مخالفت کرنے والا اور حکم خدا کی اطاعت کرنے والا ھو تو عوام پر لازم ھے کہ اسکی تقلید کریں۔
گزشتہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ عوام میں سے ان لوگوں پر جو دینی مسائل اور احکام الٰھی سے پوری طرح مطلع نھیں ھیں لازم ھے کہ کسی مجتھد (فقیہ) یعنی اس فن کے ماھر شخص کی تقلید و پیروی کریں۔ اگر چہ وہ لوگ دوسرے علوم و فنون میں خود ماھر و متخصص کیوں نہ ھوں جیسا کہ مجتھد فقیہ کے لئے بھی دوسرے علوم و فنون کے مبتلاء بہ مسائل میں متخصّص اور ماھر فن کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے۔ پس یہ کھنا بجا ھوگا کہ اس دنیا میں صحیح اور عقلی زندگی کی بنیاد تقلید پر ھے کیونکہ معاشرے کے تمام افراد نہ فقط تمام علوم و فنون میں ماھر و متخصّص نھیں بن سکتے بلکہ مبتلا ء بہ مقدار کی تحصیل پر بھی قادر نھیں ھیں” جس کی وجہ سے معاشرہ کا ھر فرد دوسرے کا محتاج ھے“ مثلاً ڈاکٹر کے لئے مکان بنانے میں معمار کی طرف اور معمار کے لئے بیماری میں ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا ضروری ھے اور ان دونوں کے لئے دینی مسائل میں مجتھد و فقیہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی تقلید کرنا لازم ھے۔
رجوع تقلید کا لازم و واجب ھونا عقل و خرد کے علاوہ قرآن اور احادیث کی رو سے بھی ثابت ھے۔
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے اس موضوع کی مفصل کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔
……………………..
حواله جات
۱۔ رجال نجاشی ص۱۰، فھرست طوسی ص۵۷ ح۶۱
۲۔ اختیار معرفة الرجال ج۲ ص ۵۲۳ ح ۴۷۰
۳۔ وسائل (۳۰ جلدی) ج ۲۷ ص ۱۴۸ چاپ آل البیت ۔وسائل (۲۰جلدی) ج ۱۸ ص ۱۰۷ ح ۳۴
۴۔ احتجاج ج۲ ص ۲۶۳، بھار ج۲ ص ۸۸