- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/02/22
- 0 رائ
سوال۷: بعض لوگ کھتے ھیں کہ تقلید باطل بلکہ بدعت اور حرام ھے۔ ان کا دعوےٰ ھے کہ بعض آیات و روایات بھی حرمت تقلید( تقلید کے حرام ھونے) پردلالت کرتی ھیں۔ مثلاً سورہٴ زخرف کی آیت ۲۳:
“انّا وجدنا آبائنا علی امّة و انّا علی آثارهم مقتدون” ھم نے اپنے آباء واجداد کو ایک طریقہ پر پایا ھے۔ ھم بھی ان کی اتباع کرنے والے ھیں۔
اور اسی طرح کتاب وسائل الشیعہ باب ۱۰ کتاب القضاء میں سفیان سے روایت ھے:
قال الصادق علیه السلام لسفیان بن خالد ایّاک و الریاسة فما طلبها احد الّا هلک فقلت قد هلکنا اذا لیس احد منّا الّا هو یحبّ یذّکر و یقصد و یوٴخذ عنه فقال(ع) لیس حیث یذهب انّما ذالک ان تنصب رجلاً دون الحجة فتصدقه فی کلّ ما قال و تدعو النّاس الیٰ وقله۔(۵)
امام صادق علیہ السلام نے سفیان بن خالد سے فرمایا۔ اے سفیان! ریاست سے بچو چونکہ جو بھی ریاست کے پیچھے پڑا ھلاک ھوا۔ سفیان کھتے ھیں: میں نے عرض کی، پس ھم سب معرض ھلاکت میں ھیں کیونکہ ھم میں سے ھر ایک چاھتا ھے کہ لوگوں میں اس کا نام لیا جائے اور لوگ اس کے پاس آکر علم حاصل کریں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد یہ نھیں جو تم نے سمجھا ھے بلکہ اس مذمت سے میرا مقصد یہ ھے کہ تم کسی کو حجت یعنی تائید معصوم کے بغیر نصب کرکے ھر موضوع میں اس کی گفتار کی تصدیق اور لوگوں کو اس کی بات کی طرف دعوت دو۔
جواب: معلوم ھوتا ھے کہ جو لوگ تقلید کے منکر ھیں یا تقلید کے حرام ھونے کا فتویٰ دیتے ھیں وہ اصلاً تقلید کے معنیٰ و مفھوم سے غافل ھیں اور انھوں نے اس بارے میں علماء کی مراد نھیں سمجھی ھے کیونکہ اگر تقلید کا یہ معنی لیا جائے کہ کسی مجتھد اور اس کی گفتار کو پیغمبر اور امام کے مدّ مقابل قرار دیا جائے مثلاً مجتھد کھے کہ پیغمبر اور امام کا فرمان یہ ھے اور ان کے مقابل میں میرا فتویٰ یہ ھے یعنی اس کے فتویٰ کا استناد آیات و روایات کی طرف نہ ھو تو ایسے مجتھد کی تقلید بدعت اور حرام ھے۔ کیونکہ احکام الٰھی اور دستورات شرعی کے حصول میں کتاب خدا (قرآن مجید) اور فرامین معصومین علیھم السلام ( جو فقط ۱۴ ھستیاں ھیں) کے علاوہ کسی کی بات قابل قبول نھیں۔ لیکن اگر فرض کریں کہ ایک شخص نے سالھا سال زحمت و تکلیف کے بعد آیات قرآنی و روایات معصومین علیھم السلام سے، جو اس صورت میں جو شخص خود کلام خدا اور فرامین ائمہ علیھم السلام سے احکام خدا و دستورات دینی کو سمجھنے کی قدرت نھیں رکھتا وہ اپنے دینی مسائل میں ایسے عالم مجتھد کی تقلید کرے تو یقینا ایسی تقلید نہ فقط عقلاً صحیح ھے بلکہ (جس طرح سوال ۶ میں گزر چکا ھے) دستور ائمہ علیھم السلام کے مطابق لازم اور واجب ھے۔ اگر کبھی کوئی مجتھد کھے کہ میری رائے اور میرا فتویٰ اس طرح ھے تو اس کا مقصد یہ ھوگا کہ جو کچھ میں نے قرآن مجید اور احادیث وفرامین ائمہ علیھم السلام سے سمجھا ھے وہ یہ ھے ورنہ اس کی تقلید، رائے اور فتویٰ قابل قبول نہ ھوں گے۔ اور اگر کسی کو اس بات میں شک ھو تو خود مجتھدین و اھل فتویٰ سے سوال کر سکتا ھے۔
منکرین تقلید کے دلائل کا جواب
(گذشتہ دلائل کا جواب) وہ آیات جو تقلید کی مذمت کے لئے پیش کی جاتی ھیں، اولاً تو کفار سے متعلق ھیں۔ ثانیاً ان سے اصول دین میں تقلید کی مذمت واضح ھوتی ھے۔ چونکہ کفار پیغمبران الٰھی کے خلاف ھونے اور اپنی بری اور فاسد عادات کی پیروی کرنے کے علاوہ انبیاء کے معجزات اور دلائل کے مقابلے میں اپنے آباء و اجداد کے غلط عقائد اور طریقوں کی اتباع کرتے تھے۔ لھذا سورہٴ زخرف کی آیت/ ۲۳ جس کو سوال/ ۷ میں دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے، پیش کرتے تھے اس کے دو جواب ھیں:
پھلا جواب: آیت اصول دین میں تقلید کی مذمت کر رھی ھے اور وہ بھی انبیاء (ع) کے دلائل اور معجزات کے مقابلہ میں۔ جیسا کہ پھلے والی آیت بھی اسی مطلب کی وضاحت کر رھی ھیں:
و کذالک ما ارسلنا من قبلک فی قریة من نذیر الّاقال مترفوها انّا وجدنا آبائنا علی امّة و انّا علیٰ آثارهم مقتدون۔
(ترجمہ) اور اسی طرح ھم نے تم سے پھلے جس بستی میں (عذاب خدا سے ڈرانے والا) رسول بھیجا تو اس کے دولت مندوں نے یھی کھا کہ ھم نے اپنے باپ دا دا کو ایک طریقہ پر پایا اور ھم تو ان ھی (آباء و اجداد) کے قدم بقدم چلیں گے۔(۶)
دوسرا جواب: آیہٴ شریفہ میں اس لئے تقلید کی مذمت کی گئی ھے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرتے تھے اور یہ بات واضح ھے کہ ان کے آباء و اجداد بھی ان کی طرح جاھل و نادان تھے۔ پس در حقیقت آیہٴ شریفہ میں جاھلوں اور نادانوں کی تقلید سے روکا گیا ھے نہ کہ صاحبان علم و فضل کی تقلید سے۔
اسی طرح روایت کا جواب بھی جس کو دلیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے، اگر خود روایت میں غور و فکر کیا جائے تو واضح ھوجاتا ھے :
اولاً: حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں کہ لوگ خود کسی کو مقام فتویٰ اور قضاوت کے لئے مقرر نھیں کر سکتے یعنی لوگوں کو یہ حق حاصل نھیں ھے بلکہ مجتھد اور قاضی امام(ع) کی طرف سے منصوب ھوتے ھیں اور خود امام علیہ السلام نے ان کے فتویٰ کو معتبر قرار دیا ھے۔ جیسا کہ سوال نمبر /۶ میں گزر چکا ھے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”یا ابان اجلس فی المسجد و افت النّاس “
اور فرمایا: ”فامّا من کان من الفقهاء فللعوام ان یقلدوه“۔
اور قاضی فقیہ سے متعلق فرمایا: ”فقد جعلته علیکم قاضیاً“ (۷)
پس عوام کا مجتھد و فقیہ عادل کی تقلید کرنا خود امام علیہ السلام کے حکم کی وجہ سے ھے نہ کہ عوام نے اس کو نصب و مقرر کیا ھو اور عوام کی طرف سے اس کو یہ منصب دیا گیا ھو۔
ثانیاً :امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:ایّاک وان تنصب رجلاً دون الحجة۔(۸)
حجت سے مراد وہ ھے جس کا قول شرعاً نافذ ھو خواہ وہ امام مفترض الطاعہ ھو یا جس کو امام کی طرف سے یہ مقام عطا ھوا ھو۔
پس اس بنا پر مجتھد بھی حجت ھے لیکن امام(ع) خدا کی طرف سے اور مجتھد امام(ع) کی طرف سے حجت ھے۔
چنانچہ حضرت امام آخر الزمان علیہ السلام مکاتبہ حمیری میں ارشاد فرماتے ھیں: امّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیها الیٰ رواة احادیثنا فانّهم حجتی علیکم و انا حجة الله۔(۹)
یعنی بعد میں پیش آنے والے حوادث اور واقعات میں ان اشخاص کی طرف رجوع کرو جو ھمارے علوم کو حاصل کر کے دوسروں تک پھنچاتے ھیں کیونکہ وہ میری طرف سے حجت ھیں اور میں خدا کی طرف سے حجت ھوں۔
پس حضرت کے اس فرمان: ”ایّاک ان تنصب رجلاً “
سے مراد یہ ھے کہ امام اور جو امام کی طرف سے منصوب ھے اس کے علاوہ کسی کو حجت اور مجتھد کے عنوان سے معین کیا جائے ۔ اور مقلد (تقلید کرنے والا) بھی خود حجت (مجتھد) کو معین نھیں کرتا بلکہ امام کی طرف سے منصوب حجت کی طرف رجوع کرتا ھے۔
ثالثاً: خود تذکرہ روایت سے استفادہ ھوتا ھے کہ مجتھد اور مرجع (جس کی طرف لوگ رجوع کریں) ھونا الگ مطلب ھے اور کسی کو حجت قرار دینا الگ ھے، پھلا جائز ھے اور دوسرا حرام ھے۔ کیونکہ ھمارے پاس آئیں اور علم حاصل کریں (و یقصد و یوٴخذ عنه) آپ فرماتے ھیں میں اس کی مذمت نھیں کرتا بلکہ مذمت اس صورت میں ھے جب تم کسی کو حجت کے عنوان سے معین کرو۔ (یھاں یقینا کسی کومقرر کرنے سے مراد مسئلہ تقلید اور تحصیل علم کے علاوہ ھے) حضرت نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ھے جو آئمہ ھدی علیھم السلام ( جو پیغمبر(ص) کی طرف سے منصوب ھیں) کے مقابلہ میں بنی امیہ و بنی عباس کو اولی الامر اور حجت سمجھتے ھیں جن کے بارے میں کوئی دلیل نھیں ھے۔ اور یہ بات واضح ھے کہ اگر بفرض محال حدیث ثقلین(۱۰) (حدیث ثقلین وہ حدیث ھے جس کے متعلق سنی و شیعہ دونوں متفق ھیں کہ نبی اکرم(ص) نے فرمایا: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلّوا بعدی” میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رھا ھوں ایک اللہ کی کتاب دوسرے میری عترت یعنی اھل بیت جب تک تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے ھرگز میرے بعد کبھی گمراہ نھیں ھو گے “۔
اور یہ بات واضح ھے کہ اگر بفرض محال حدیث ثقلین سے ھمارے آئمہ ھدیٰ علیھم السلام کی امامت و خلافت ثابت نہ ھو تو کم از کم ان کے قول و فعل کی حجیت ضرور ثابت ھوتی ھے۔
رابعاً: مذکورہ روایت میں امام(ع) فرماتے ھیں: ”فتصدقہ فی کل ما قال“ یعنی جائز نھیں ھے کہ کہ کسی کو معین کردو۔ اور وہ جو کچھ کھے اس کی پیروی کرتے رھو۔
البتہ اس مطلب کا مسئلہٴ تقلید سے کوئی ربط نھیں ھے کیونکہ مقلد اپنے مجتھد کی ھربات میں تقلید و پیروی نھیں کرتا۔ مثلاً اصول دین میں تقلید باطل ھے اور فروع دین میں بھی ضروریات اور قطعیات میں تقلید صحیح نھیں ھے۔ مثلاً خود نماز، روزه، زکوٰة، خمس، حج اور جھاد کے واجب ھونے یا مثلاً شراب، جوا، مردار، غصب، ظلم اور دوسرے ان امور کے حرام ھونے میں جو دین اسلام میں سب کے لئے قطعی و یقینی ھیں، تقلید درست نھیں ھے۔ اگر کوئی مجتھد کھے کہ نماز واجب نھیں ھے یا شراب نوشی جائز ھے تو اس کی بات قابل قبول نھیں ھوگی۔
اسی طرح موضوعات میں بھی تقلید نا جائز ھے یعنی اگر مجتھد کھے کہ یہ پانی شراب نھیں ھے یا یہ کپڑا فلاں شخص کا مال ھے تو اس کی بات پر عمل کرنا واجب و لازم نھیں ھے بلکہ ایسے مسائل میں مجتھد اور دیگر افراد میں کوئی فرق نھیں، سب یکساں ھیں۔
بنا بر ایں مجتھد کا قول بعض امور و مسائل میں حجت اور معتبر ھے۔ اور وہ فروع دین کے بعض وہ مسائل ھیں جن کا مقلد کو علم نھیں اور علماء کے نزدیک مورد اختلاف ھیں۔
اور ضمناً یہ بھی معلوم ھونا چاھئے کہ جو لوگ تقلید کے حرام ھونے کا فتویٰ دے کر لوگوں کو تقلید نہ کرنے کی دعوت دیتے ھیں آیا وہ خود فتویٰ نھیں دے رھے ھیں؟ آیا لوگوں کے لئے ان کی گفتار کی پیروی اور تقلید کرنا غلط نھیں ھے؟ اگر غلط ھے تو لوگوں سے کیوں نھیں کھتے کہ ھماری گفتار کی تقلید و پیروی کرنا بھی حرام ھے۔ ھماری بات نہ ماننا۔
سوال ۸: آیا جس مجتھد کی تقلید کرنی ھے اس میں مرتبہٴ اجتھاد و قدرت استنباط کے علاوہ اور شرائط کا ھونا ضروری ھے یا نھیں؟
جواب: مجتھد و مرجع تقلید میں مرتبہٴ اجتھاد پر فائز ھونے کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا بھی ضروری ھے:
پھلی شرط: عادل ھو یعنی اس کا ایمان اس قدر کامل اور قوی ھو کہ واجبات میں سے کسی واجب کو ترک نہ کرے اور محرمات میں سے کوئی حرام کا م کو انجام نہ دے۔ دوسرے لفظوں میں گناھان کبیرہ سے دور رھے اور گناھان صغیرہ کی تکرار نہ کرے۔ پس گنھگار مجتھد کتنا ھی بڑا عالم کیوں نہ ھو اس کی تقلید جائز نھیں۔
دوسری شرط: اعلم ھو یعنی دوسرے علماء سے زیادہ عالم اور دانا ھو چند صاحبان علم و فضل مجتھدین میں سے مقلد کو وہ مجتھد اختیار کرنا چاھئے جو بقیہ مجتھدین سے علم و فضل میں بر تر ھو۔ یہ ایک فطری امر ھے کہ جب کوئی شخص کسی مھلک مرض میں مبتلا ھو تو اسی ڈاکٹر کی طرف رجوع کریگا جو باقی تمام ڈاکٹروں سے زیادہ تجربہ کار ھو گا۔ چونکہ احکام الٰھی اور دینی عقائد و مسائل بھی اھمیت رکھتے ھیں لھذا انھیں بھی اسی مجتھد اور فقیہ سے حاصل کرنا چاھئے جو سب سے زیادہ عالم اور دانا ھو۔
تیسری شرط: وہ زندہ ھو۔ یعنی جو شخص ابتدا ھی سے علمائے گزشتہ میں سے کسی کی تقلید کرے اس کی تقلید صحیح نھیں ھے۔ کیونکہ عوام کا مجھتد کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈ اکٹر کی طرف رجوع کرنے کی طرح ھے اور واضح رھے کہ عقلاء کی روش و طریقہ یہ ھے کہ مریض کے بارے میں زندہ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ھیں اور اس کے دستور پر عمل کرتے ھیں اور کسی مردہ ڈاکٹر کے دئے ھوئے کسی نسخہ پر عمل نھیں کرتے ھاں اگر کسی زندہ مجتھد کی تقلید کرلی ھے، کچھ مدت اس کے مسائل پر عمل کرنے کے بعد مجتھد فوت ھوگیا ھے تو اس صورت میں ا سکی تقلید پر دوسرے زندہ مجتھد کی اجازت کے ساتھ باقی رھا جاسکتا ھے۔
پس نتیجتاً فوت شدہ مجتھد کی تقلید پر باقی رھنا صحیح ھے۔ لیکن ابتدا ھی سے فوت شدہ مجتھد کی تقلید کرنا صحیح نھیں۔
…………
حواله جات
۵۔ معانی الاخبار ص ۱۸۰
۶۔ سورہ زخرف /۲۳
۷۔ دعائم الاسلام ج۲ ص ۵۳۰ ح ۱۸۸۵ ، کافی ج ۷ ص ۴۱۲ ح۴
۸۔ کافی ج ۲ ص۲۹۸ ح۵، معانی الاخبار ص۱۶۹ ،۱۸۰
۹۔ کمال الدین ص۴۸۴ح۴
۱۰۔ بصائر الدرجات ص۴۳۳ ، کمال الدین ص۲۳۴ ح۴۴ ، دعائم الاسلام ج۱ ص ۲۸ ، امالی شیخ صدوق ص ۲۱۶ ح۸۴۳
source : alhassanain