- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/27
- 0 رائ
الف: تلاوت قرآن کی اہمیت، قرآن کی روشنی میں
حضرت پیامبر گرامی کے مبعوث ہونے کا فلسفہ ہی قرآن کی تعبیر میں”یتلوعلیہم آیاتنا ویزکیھم ”ہے جس سے تلاوت کلام پاک کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔ (۱ )
نیز کچھ آیات کی تفسیر اس طرح کی ہے ”ان الذین یتلون کتاب اللہ ”
” یعنی جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں وہ اللہ کے فضل وکرم کے امید وار ہیں
” یا رسول من اللہ یتلو صحفا مطہرۃ ”خداکے رسول (ص) جو پاک اوراق پڑھتے ہیں ” (۲ )
قرآن کی تلاوت کے بارے میں قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں ان سے نہ صرف اہمیت وعظمت واضح ہوجاتی ہے بلکہ قرآن کی تلاوت کے فوائد اورنتائج سے دنیا اورآخرت میں مستفیض ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔
ب: تلاوت کلام پاک سنت کی روشنی میں :
ہماری گفتگو زیادہ تھکا دینے والی اور لمبی نہ ہو جائے اس لئے صرف چند ایک روایات اوراحادیث کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاکروںگا اگر کوئی تفصیلی معلومات کے خواہاں کا تو کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتاہے ۔( ۳ )
حضرت امام جعفر صادق -نے فرما یا :
” علیکم تلاوۃ القرآن فان درجات الجنۃ علی عدد آیات القرآن فاذاکان یوم القیامۃ یقال لقاری القرآن وأقراء وارق فکما قرأآیۃ رقی درجۃ ””تم قرآن کی تلاوت کرو کیونکہ جنت کے درجات قرآنی آیات کی تعداد کے برابر ہیں جب قیامت بر پا ہوگی تو کلام پاک کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا پڑھو اوراپنے درجات میں اضافہ کرتے جاؤ لہذاجب وہ ایک آیت کی تلاوت کرتا ہے تو اسکا ایک درجہ بلند ہوتا ہے ۔!(۴ )
نیز حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا :
” من قرأ من کتاب اللہ تعالی فلہ حسنۃ والحسنۃ عشر امثالہا لا اقول” الم ”حرف ولیکن الف حرف لام حرف ومیم حرف ””اگر کوئی کتاب اللہ کی ایک حرف کی تلاوت کرے تو اسے ایک نیکی کاثواب دیا جاتا ہے اورنیکی کا دس ثواب ہواکرتا ہے ،میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے ۔(۵)۔
تفسیر وتحلیل :
قلت وقت کی وجہ سے قارئین محترم کی توجہ کو تلاوت کی اہمیت پر دلالت کرنے والی آیات اوراحادیث کے بارئے میں مفصل کتابوں کی طرف مبذول کرتا ہوںرجوع کیجیے ،تاکہ تلاوت کلام پاک کی اہمیت اورعظمت سے آگاہ ہوسکیں۔
مذید روایات کے متعلق تفسیر درمنثور،تفسیر قرطبی کی طرف رجوع کریں مذکورہ روایات کا مقصد قرآن کی تلاوت کی عظمت کو بیان کرنا ہے ،حتی بعض روایات میںصاف لفظوں میںبیان ہوا ہے کہ جب قاری قرآن کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو نکیر ومنکر جو اللہ کی طرف سے میت کو قبر میں رکھنے کے بعد سولات کے لئے مامور ہیںپوچھنے کے لئے آتے ہیں اورسولات کے وقت سختی سے پیش آئیںگے اس وقت یہی قرآن ہے جس کی اس نے تلاوت کی تھی نکیر ومنکر سے سفارش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ تم اس پر سختی نہ کرو یہ وہی شخص ہے جس نے میری تلاوت کی ہے(۶ )
لہذا قرآن قبر میں ہمارئے شفیع قیامت کے ہولناک سختیوں کے وقت نور کی شکل میں ہماری سفارش کے لئے آنی والی واحد کتاب ہے جسکی ہر وقت تلاوت کرنا چاہیے تبھی تو احادیث معصومین میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے گھر میںقرآن ہو لیکن اس کی تلاوت نہ ہوتی ہو ۔
قرآن فہمی کے لئے درج ذیل علوم کی ضرورت ہے :
الف : علم تجوید : علم تجوید وہ علم ہے جس میں ایسے قوانین اورقاعدہ کلیہ سے بحث کی گئی ہے کہ جس سے قرآن کے الفاظ کے صحیح تلفظ اورصحیح مخارج کی ادائی گی کی مدد ملتی ہے ،اس کے علاوہ آواز کی خوبصورتی کی مشق بھی کرائی جاتی ہے تاکہ قرآن کی تلاوت کو خوبصورت آواز میں تلاوت کرسکے ۔
ب: علم اللغۃ : جس میں قرآن کے ہر الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معانی سے اگاہ کیا جاتا ہے تاکہ ہم قرآن کو سمجھ سکیں ۔
ج : علم الادب : جس میں نحو وصرف کے قوانین اورفارمولوں سے آگاہ کیاجاتاہے تاکہ قرآن جس پاک اوربلند اہداف اورمقاصدکے لئے نازل ہوا ہے وہ آسانی سے معاشرے میں پیش کرسکیں ۔
د: تفسیر : جس میں آیات اورروایات عقل اوردیگر علوم کے اصول وقوانین کے آیات کی شان نزول اور الفاظ کے ظاہری اورباطنی معانی کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ قرآن کے حقائق سے ہر ایک فیضیاب ہوسکے ۔
اوراسی طرح ایسے علوم کو بھی فہم قرآن کے لئے سیکھنا چاہیے کہ جن کو علوم آلی یاخادم العلوم سے تعبیرکیا گیا ہے جیسے ، المنطق، یا حکمت وغیرہ۔
یہ علوم قرآن فہمی کی راہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ،لہذامدارس دینیہ اورحوزات میںجسطرح ایسے علوم کو بنیادی طورپریادکیا جاتا ہے اس طرح دیگرتمام اسلامی مراکز میں بھی ترویج کرناچاہیے تاکہ قرآن کے پیغام سے تمام مسلمان حضرات معاشرتی اور انفرادی زندگی میں فیضیاب ہوسکیں ۔
الف : قرآن کی عظمت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ”ذالک الکتاب لاریب فیہ ”اس کتاب میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ”یا فرما یا ہے کہ قرآن نور ہے قرآن ذکر ہے قرآن ہدایت کنندہ کتاب ہے قرآن حق ہے ،ان جیسے الفاظ سے قرآن کی فضیلت قرآ ن کی رو سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔لیکن قرآن کی فضیلت کو قرآن کی روسے ثابت کرنا اشکال اوردورجیسے اعتراض سے دوچار ہے لہذا اس کی تفسیر اورتحلیل سے اجتناب کروں گا ۔
ب: فضیلت قرآن سنت کی روشنی میں ثابت کرنے کے لئے کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتے ہیں (۷ )
حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا قرآن حبل المتین ہے یعنی مضبوط رسی ہے عروۃ الوثقی ہے یعنی مضبوط وسیلہ ہے ”ان ہذا القرآن ہو النور المبین ”” یعنی بتحقیق یہ کتاب واضح روشنی ہے ”ومن اشتشفی بہ شفا ء اللہ ”” اگرکوئی شخص قرآن سے شفا مانگے تو خداوند اسے شفا عطا فرماتا ہیں ”
مولی امیر المومنین کی زبان سے عظمت قرآن کو ثابت کر نا چاہیں تو نہج البلاغہ میں کئی خطبوں اورکچھ ناموںمیںاشارہ فرمایا ہے رجوع کیجیے ۔ (۸ )
آپ نے فرمایا اللہ نے قرآن کو مجتہدین اورصاحب نظر علماء کے دلوں کے لئے بہار باطنی تشنگی کے لئے سیرابی قرار دیا ہے قرآن ایسا چراغ ہے کہ جس کی لوکبھی خاموش نہیںہوتی، قرآن ہر امراض کے لئے باعث شفا ہے ۔
نیز دیگر أئمہ معصومین کی زبان قرآن کی عظمت سے مطلع ہونے کے لئے اصول کافی جلد دوم کتاب فضل القرآن میںبیسوں صحیح السند احادیث موجود ہیں رجوع فرمائیں
نیز تفاسیر کی کتابوں میںقرآن کی فضیلت اورعظمت پر دلالت کرنے والی بہت سی احادیث اور روایات کو نقل کیاہے۔(۹)
ج: عقل کی روسے قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے میں مندرجہ ذیل نکات کافی ہیں، کہ عقل ہر چیز کی خوبی اور بدی اور کائنات کے حقائق کو درک کرنے کی صلاحیت اور طاقت کا نام ہے جس کی نظرمیں قرآن ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس کی تہہ تک کوئی غواص نہیں پہنچ سکتا ہر غواص اس علم کے دریاسے کسب فیض حاصل کرسکتا ہے کیونکہ عقل کی نظر میں قرآن تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اور خلاصہ ہونے کے علاوہ کائناتی تمام علوم کا مجموعہ بھی ہے لہذا ہر بشر قرآن سے مستفید ہوسکتا ہے مسلمان ہو یا نہ ہو ماہر اخلاقیات ہو یا نہ ہو، معاشیات کا ماہر ہو یا نہ ہو عالم ہو یا جاہل ،فقیہ ہو یا نہ ہو سائنسدان ہو یانہ ہو فزیک دان ہو یا نہ ہو ہرایک اپنی صلاحیت کی حیثیت سے قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے کیونکہ اس کائنات کو خلق کرنے کے بعد اللہ نے ہی بشر کو علم سے فیضیاب کیا ہے ورنہ انسان ذاتی حوالے سے جاہل محض ہے اللہ نے ہی پیامبروں کے ذریعے علم وحلم اور دیگر فنوں اور ہنروں سے مالامال فرمایا ہے لہذا آج اگر انسان کسی فیلڈ میں پڑھے لکھے یا ہنر مند سمجھا جاتا ہے تو یہ اللہ کی مرہون منت ہے کہ جس نے ہر دور میں بشر کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہدایت یافتہ ،ہنر مند ہستیوں کو مبعوث فرمانے کے ساتھ ایسا دستور العمل بھی بھیجاکہ جو اپنے دور کے تمام علوم کا مجموعۃتھا ، ان باتوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کائناتی تمام علوم کاسر چشمہ ذات باری تعالی ہے لیکن ہردور کے ملحدین اورغاصبین اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں سے فنون اورہنروں کے اصول وضوابط کو ہڑب کرتے تھے اوراس کو اپنی ذاتی کوشش اورصلاحیت کا نتیجہ سمجھتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ ہم نے علم فزیک سائنس اورٹیکنالوجی کے قوانین ریاضی کے فارمولوں کو ایجاد کیاہے،اور ہم نے ہی کہکشانوں کی خاصیت زمین وآسمان، سورج اورچاند اورستاروں کے چھوٹے وبڑئے تمام اسرار کو انکشاف کیاہے جو اس مادی زندگی کی فلاح وبہبود کے لئے بہت ہی ضروری ہے ۔
لہذا وہ لوگ ادیان الہی کو بدنام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین یعنی خشک تقدس اورترک دنیا وتقوی کا مجموعۃ ہے جس میں نہ کوئی فن اورہنر کے اصول وضوابط کا ذکرملتا ہے نہ کوئی لوازمات زندگی کے انکشافات کے فرمولے موجود ہیں نہ کوئی سائنسی تحقیقات اورایجادات کی تفسیراور وضاحت ہے لہذاان کی نظر میں دین اور مذہب تمام چیزوں سے محروم فقط کچھ رسومات کو انجام دینے کا نام ہے ،جبکہ آدم سے قائم تک کے ادیان الہی کابغور مطالعہ کریں تو بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہر دور میںنظام الہی ہی بشر کے تمام احتیاجات پر مشتمل اصول وضوابط کا مجموعہ رہا ہے لہذا ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کوئی ایسا فرمولہ پیش کروجو کسی کتب آسمانی سے نہ لیاگیا ہو !فقط کتب آسمانی کے علوم کو ھڑب کر کے اپنے نام پر ثبت کر نے سے خالق اورایجاد کنندہ نہیں بن سکتے ۔
اور قرآن کریم تمام کتب آسمانی جو ایک سو چودہ کتابیں بتائی جاتی ہیں ان تمام علو م کا ایک سمندر ہے جس سے ہر بشر اپنی نیاز مندی اوراحتیاجات کو دور کرسکتاہے ،فلاسفر کے لئے فلسفی اورعقلی فارمولے،ماہرین اقتصاد ومعایشات کے لئے اقتصادی فارمولے ریاضی دان کے لئے ریاضی کے فارمولے فیزیک والوں کے لئے کیماوی اورفیزیک کے نکات سائنسدان کے لئے سائنسی ایجادات اورانکشافات کے قاعدہ وقوانین ،مفکرین کے لئے فکری اورتدبیری ،نکات فقیہ ومجتھدین کے لئے فقہی دستورات ،ادیبوںکے لئے ادبی نکات ،فصاحت وبلاغت والوں کے لئے اپنے رشتے کے حوالے سے جواہرات سے بھری ہوئی کتاب کا نام قرآن ہے۔
البتہ قرآن میں ہر ایک فارمولے اور نکات کا نام جو A یا B کی شکل میںتمام جزیات کا بیان نہیں ہواہے لیکن جزیات کی تشریح اور تفسیر نہ کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اس کا قرآن میں سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے، بلکہ ہم خود علوم قرآن سے دور ہیں ! لہذا ہر دور میں باالخصوص اس دور کے جتنے انکشافات اور ایجادات ہیں سب کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے لیکن ہماری اپنی کوتاہی اور جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ان نکات اور فارمولوں تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی، کیونکہ ہم نے قرآن فہمی کی کلاسوں میں کبھی شرکت نہیں کی ۔
قرآن کے بارے میں تدبر اور تفکر کا حکم ، کفار و مشرکین سے لڑنے کا حکم ، عمل صالح کی اتنی اہمیت اور تاکید گذشتہ اقوام اور امتوں کے حالات سے عبرت لینے کی سفارش، آبادی اور نابودی سعادتمندی اور شقاوتمندی کے اسباب وعلل وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی رحمت اورقدرت پوری کائنات پر حاکم ہے نیز اللہ نے بارہا صبر وتحمل سے زندگی گذار نے کی تلقین کی اسے ذرا سی توجہ اور گہری نظروں سے غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس کی تہہ تک بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن میں کائناتی علوم کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے ، بلکہ ہم نے قرآن کے قیمتی مطالب اور نکات سے استفادہ کرنے کی بجائے اس دور کے ہر حوالے سے محدود افراد کے توہمات اور خرافات سے بھری ہوئی کتابوں سے استفادہ کرنا اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔
حواله جات
( ۱ ) سورہ جمعہ
(۲)سورہ بینہ
( ۳ ) بحارالانوار کتاب قرآن ،اوراصول کافی ج ٢باب فضل القرآن
( ۴ ) البیان ص ٣٤
( ۵ ) اصول کافی ج ٢باب فضل القرآن
( ۶ ) ثواب الاعمال وعقابہا
( ۷ ) بحار الانوار کتاب فضل القرآن ، اور اصول کافی ٢فضل القرآن )
( ۸ ) نہج البلاغہ
(۹ ) تفسیر بیضاوی ، تفسیردر منثور ،تفسیر صافی والمنار