- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 1 رائ
قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جد امجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
” قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ: من قرأ عشر آیات فی لیلۃ لم یکتب من الغافلین، و من قرأ خمسین آیۃ کتب من الذاکرین، و من قرأ مائۃ آیۃ کتب من القانتین، و من قرأ مائتی آیۃ کتب من الخاشعین، و من قرأ ثلثمائۃ آیۃ کتب من الفائزین و من قرأ خمسمائۃ آیۃ کتب من المجتہدین، و من قرأ ألف آیہ کتب لہ قنطار من تبر۔۔۔،،
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا اور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں، حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دوسو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص تین سو آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ ہزار آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائے گا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دے دیا ہو۔،،
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”القرآن عہد اللہ الی خلقہ، فقد ینبغی للمرء المسلم أن ینظر فی عہدہ، و أن یقرأ منہ فی کل یوم خمسین آیۃ،،
”قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہےے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔،،
آپ نے مزید فرمایا:
” ما یمنع التاجر منکم المشغول فی سوقہ اذا رجع الی منزلہ أن لا ینام حتی یقرأ سورۃ من القرآن فیکتب لہ مکان کل آیۃ یقرأھا عشر حسنات، و یمحی عنہ عشر سیأات؟،،
”حب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورۃ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے ان کے لےے دس نیکیاں لکھی جائیں اور ان کے نامہئ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔،،
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
”علیکم بتلاوۃ القرآن، فان درجات الجنۃ علی عد آیات القرآن، فاذا کان یوم القیامۃ یقال لقاریئ القرآن: اقرأ و ارق، فکلما قرأ آیۃ رقی درجۃ،،
”قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو(اس لےے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو قاریئ قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ پھر ہو جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا اس کے درجات بلند ہوں گے۔،،
حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایات کو یکجہا کر دیا ہے، شائقین ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور بحار الانوار کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں، ان میں سے بعض روایات کے مطابق قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا، زبانی اور ازبر تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔
ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:
اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:
”جعلت فداک انی احفظ القرآن عن ظھر قلبی فأقرأہ عن ظھر قلبی أفضل أو أنظر فی المصحف قال: فقال لی : لا بل اقرأہ و انظر فی المصحف فھو أفضل أما علمت ان النظر فی المصحف عبادۃ ،،؟ و قال:
”من قرأ القرآن فی المصحف متع ببصرہ، و خفف عن الدیہ و ان کانا کافرین،(١)
”میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کرلیاہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔،
قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:
i) قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کی جائے گی تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعیدنہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔
ii) دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا ہے: ”متع ببصرہ،، یعنی۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہوسکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کا نفس خوشحال ہو جاتا ہے اور اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اس کے علوم و معانی میں فکر کرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی رح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔
iii) بعص روایات میں گھروں کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوت قرآن کا چرچا ہے، کیونکہ جب انسان گھر میں قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگر قرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کرسکتا اور یہ تبلیغ اسلام میں رکاوٹ کا بہت بڑا سبب ہے۔
شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر الٰہی قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہوگی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہوجائے گی۔
گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں
”ان البیت الذی یقرأ فیہ القرآن و یذکر اللہ تعالی فیہ تکثر برکتہ، و تحضرہ الملائکۃ، و تہجرہ الشیاطین، و یضیئ لأھل السلماء کما یضیئ الکوکب الدری لأھل الأرض، و ان البیت الذی لایقرأ فیہ القرآن، و لا یذکرہ اللہ تعالیٰ فیہ تقل برکتہ، و تہجرہ الملائکۃ و تحضرہ الشیاطین۔،،(2)
”وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کردیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اھل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے، فرشتے اسے ترک کردیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔،،
قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند، قاریئ قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”من قرأ حرفاً من کتاب اللہ تعالیٰ فلہ حسنۃ والحسنۃ بعشر أمثالھا لا أقول آلم حرف و لکن ألف حرف و لام حرف و میم حرف،،
”جو شخص کتاب الٰہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ ”الم،، (یہ تینوں) ایک حرف ہے بلکہ ”الف،، ایک حرف ہے ”ل،، دوسرا حرف ہے اور ”م،، تیسرا حرف ہے۔،،
اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر(3) میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمہ اللہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔
اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑلیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصمۃ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمدبن عبد اللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصمۃ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں، اس (ابو عصمۃ) نے جواب دیا:
”ابی رأیت الناس قد أعرضوا عن القرآن، و اشتغلوا بفقہ أبی حنیفۃ، و مغازی محمد بن اسحق فرضعت ھذا الحدیث حسبۃ،،
”جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہوگئے ہیں اور ابی حنیفہ اور مغازیئ محمد بن اسحاق کی فقہمیں مصروف ہیں تو میں قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربتہ الی اللہ گھڑلیں۔،،
ابو عمر و عثمان بن صلاح، ا س حدیث کے بارے میں جو ابی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہے لکھا ہے:
”قد بحث باحث عن مخرجہ حتی انتہی الہی من اعترف بأنہ و جماعۃ و ضعوہ، و قد أخطأ الواحدی و جماعۃ من المفسرین حیث أودعوہ فی تفاسیرھم،،(4)
”اس حدیث کے بارے میں جو قرآن کے ہر ہر سورے کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جو تحقیق کی گئیوہ اس تنیجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کرلیا ہے (میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے ملک کر اسے گھڑا ہے)
واحدی اور دیگر مفسیرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کرکے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔،،
دیکھئے! ان لوگوں نے کتنی بڑی جرأت کی ہے کہ رسول خد کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب الٰہی کا سبب قرار دیتے ہیں۔
”کذلک زین للمسرفین ما کانوا یعملون ١٠:١٢،،
”جو لوگ زیادتی کرتے ہیں ان کی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کرکے دکھائی گئی ہےں۔،،
قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر
قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانیئ قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں کفر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أفلا یتدبرون القرآن أم علی قلوب أقفالھا (٤٧:٢٤)
”تو کیا یہ لو قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔،،
اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عبّاس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:
”اعربوا القرآن و التمسوا غرائبہ،،۔ ”قرآن کو بلند آواز سے پڑھان کرو اور اس کے عجائبات اورباریکیوں میں غور و خوص کیا کرو۔،،
ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:
”حدثنا من کان یقرئنا من الصحابۃ انہم کانوا یأخذون من رسول اللہ ۔ص۔ عشر آیات فلا یأخذون فی العشر الآخری حتی یعلموا ما فی ھذہ من العلم و العمل،،
”صحابہئ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کرلیتےٍ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔،،(5)
عثمان، ابن مسعود اور ابی کہتے ہیں:
”ان رسول اللہ ۔ص۔ کان یقرئہم العشر فلا یجاوز و نہا الی عشر أخری حتی یتعلموا ما فیہا من العمل فیعلمھم القرآن و العمل میعاً،،(6)
”رسول خد قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے، پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے تھے۔،،
ایک دن امیر المؤمنین علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
”تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ،
”ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد،، ٢٨:٨٥
کی تفسیر سمجھتے تھے۔،،(7)
قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحار الانوار کی ١٩ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیےکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لےے اخبار و روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہئ حیات بنا کر بھیجا ہے۔ جس سے وہ آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کرسکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر او فکر نہ کیا جائے، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی کےلئے ہے۔
زہری نے امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
”آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزینۃ ینبغی لک أتنظر ما فیہا،،(8)
”قرآن کی آیات خزانے ہےں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)،
_______________________
حواله جات
١) اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبعۃ عین الدولہ، ج١، ص ٣٧٠
2) اصول کافی، کتاب فضل القرآن
3) تفسیر قرطبی، ج ١، ص ٧، و فی الکافی کتاب فضل اقلرآن
4) تفسیر قرطبی، ج ١، ص ٧٨۔٧٩، و فی الکافی کتاب فضل القران
5) بحار الانوار، ج ١٩، ص ٢٨ باب فضل التدبر فی القرآن
6) قرطبی، ج ١، ص ٣٩
7) تفسیر القرطبی، ج ١، ص ٢٦
8) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن
باعرض سلام خیلی عالی خوب استفادہ ازش میگریم ترتیب اش یک خوردہ بیشتر توجہ دارند