- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 2 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/10/17
- 0 رائ
کربلا میں، جو لوگ حضرت امام حسین(علیہ السلام) پر اپنی جان قربان نہ کرسکے، تو کربلا کے واقعہ کے بعد ان لوگوں نے توبہ کیا اور سلیمان ابن صرد خزاعی کی قیادت میں امویوں کے خلاف آواز اٹھائی جو توابین کے نام سے مشھور ہیں، یہ قیام پہلی[۱] یا پانچویں[۲] ربیع الثانی، سن۶۵، ہجری میں “عین الوردہ” نامی مقام پر رونما ہوا۔
لوگوں کے ذہنوں میں عام طور پر یہ سوال آتا ہے کہ یہ قیام بلافاصلہ کربلا کے واقعہ کے بعد رونما کیوں نہیں ہوا، اس کے جواب میں بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت کی سیاسی فضا اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کے حکومت کے خلاف کوئی بھی اقدام کیا جائے لیکن جب یزید مر گیا اور عبید اللہ ابن زیاد شام کی طرف بھاگ گیا، اس وقت امام حسین(علیہ السلام) کے چاہنے والوں کو حضرت امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بہترین موقع فراہم ہوا۔ حضرت امام حسین(علیہ السلام)کے قاتلوں کو ان کےجرم کی سزا دینے کا موقع ملا[۳]۔
اس قیام کی وجہ کیا تهی
اس میں کوئی شک نهیں که جن کوفیوں نے حضرت امام حسین(علیہ السلام) کا ساتھ نہیں دیا تھا وہ لوگ اپنے اس عمل پر پشیمان تھے اور یہ پشیمانی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی تھی جب تک یا تو یہ لوگ امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کو قتل نہ کر دیتے یا خود قتل ہو جائیں، اسی لئے ان لوگوں نے توبہ کرتے ہوئے یہ عھد کیا کہ یا امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کو قتل کردین گے یا خود قتل ہوجائین گے[۴]۔
توابین کی رہبری
توابین کی رھبری سلیمان ابن صرد خزاعی کو سونپی گئی اور اس قیام کی رھبری کے بارے میں دوسروں کے بھی نام تاریخ میں مرقوم ہیں[۵] سلیمان ابن صرد خزاعی نے یہ کہتے ہوئے قیام کا آغاز کیا کہ ہم نے جو امام حسین(علیہ السلام) کا ساتھ نہیں دیا ہے یہ خدا کی ناراضگی کا سبب بنا ہے، اسی لئے جب تک ہم ان کے قاتلوں سے انتقام نہیں لین گے یا اپنی جان خدا کی راہ میں قربان نہیں کرینگے، خدا ہم سے راضی نہیں ہوگا[۶]۔
سلیمان ابن صرد خزاعی اپنے سپاہیوں کے ساتھ پہلے کربلا گئے اور وہاں پر امام حسین(علیہ السلام) کی قبر کے پاس توبہ کی اور شام کی جانب روانہ ہوئے یہاں تک کہ”عین الوردہ” نامی مقام پر پہونچے جہاں پر یہ قیام رونما ہوا[۷]۔
توابین کا یہ قیام شکست سے دوچار ہوا لیکن اس قیام میں شیعوں کو کچھ حد تک کامیابی بھی ملی اور شیعوں کو اس قیام کی مدد سے کچھ فائدے بھی حاصل ہوئے[۸]۔
اس قیام کے فائدے
۱۔ امویوں کے دلوں میں ایک خوف اور حرازس کا سرایت ہونا۔
۲۔ دوسرے قیاموں کے لئے راستوں کا ہموار ہونا[۹]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواله جات:
[۱] مستدرک سفینه البحار؛ج۴، ص۶۸.
[۲] طقوش، محمد سهيل؛ دولت امويان، قم، پژوهشكده حوزه و دانشگاه، ۱۳۳۰ش، پہلی چاپ، ص ۸۰-۸۱.
[۳] دولت امویان، ص ۷۹.
[۴] ابن اثير، عزالدين؛ الكامل، ترجمه ابوالقاسم حالت، عباس خليلي، تهران، مؤسسه مطبوعاتي علمي، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۳۱۲-۳۱۳.
[۵] الکامل، ص ۳۱۵.
[۶] شهيدي، سيد جعفر؛ تاريخ تحليلي اسلام، تهران، شركت انتشارات علمي و فرهنگي، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۶.
[۷] قمي، شيخ عباس؛ نفس المهموم، ترجمه شيخ محمدباقر كمرهاي، قم، مسجد مقدس جمكران،۱۳۷۰ش، ص۷۶۸-۷۷۱.
[۸] محمد جعفري، سيد حسين؛ تشيع در مسير تاريخ، ترجمه سيد محمدتقي آيت اللهي، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامي،۱۳۷۲ش، ص۲۶۲.
[۹] حیاة الشعر فی الکوفه، ص 73۔
منبع: https://ur.btid.org/