- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : ali ghafari
- 2024/04/29
- 4 رائ
شجاعت ايک عظيم صفت ہے۔ جس انسان کے اندر یہ پائی جاتی ہے۔ وہ بے خوف و خطر جنگ کے میدان میں آجاتا ہے۔ شجاع انسان ہر میدان میں اپنی شجاعت کا جوہر پیش کرتا ہے؛ چاہے وہ میدان جنگ ہو یا معاشرہ ہو، چاہے وہ فردی ہو یا اجتماعی، اسی لئے جب ہم تاریخ کے اوراق پر نگاہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے افراد تاریخ میں نظر آتے ہیں جو حقیقی شجاع تھے اور انہوں نے میدان جنگ کے علاوہ معاشرہ میں خواہ وہ فردی اعتبار سے یا اجتماعی اعتبار سے ہو انہوں نے جرات کا مظاہرہ کیا اور آج بھی ان کے فضائل زندہ حقیقت بن کر تاریخ میں موجود ہے اور انہیں شجاع افراد میں سے ایک جناب حمزہؑ کی ذات گرامی ہے۔ جن کے فضائل قرآن کریم کی آیات سے بھی واضح ہے۔
جناب حمزہؑ کی زندگی پر ایک نظر
جناب حمزہؑ بن عبد المطلب، جن کا لقب اسد اللہ، اسد الرسول،[1] سید الشہداء ہے۔[2] جناب حمزہؑ سردار مکہ کے فرزند ارجمند تھے۔ جناب حمزہؑ کی والدہ جن کا نام ہالہ تھا۔[3] جناب حمزہؑ رسول خدا ﷺ کے رضاعی بھائی اور شفیق دوست تھے۔[4] دین اسلام قبول کرنے سے پہلے جناب حمزہؑ ہی نے ابو لہب اور مشرکوں کی طرف سے نبی ﷺکی توہین کا جواب دیا۔[5] بعثت کے دوسرے سال آپ نے اسلام کو قبول کیا اور جناب حمزہؑ کی حمایت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ پر قریش کا دباؤ کم ہو گیا۔[6] رسول اللہﷺ کی جلا وطنی کے وقت جناب حمزہؑ بھی شعب ابی طالب میں رسول خداﷺ کے ہمراہ تھے۔[7] جنگ احد میں جناب حمزہؑ نے دو تلواروں کے ساتھ جھادکیا ۔ [8] جنگ احد میں جناب حمزہؑ کی شہادت ہندہ کے حبشی غلام کے ہاتھوں سے ہوئی۔[9] جناب حمزہؑ کی شہادت کے بعد آپ کے جسم اقدس کے ساتھ ہندہ جگر خوارہ کا برتاؤ جو رسول خداﷺ اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑے رنج و الم کا سبب ہوا۔[10] اور انصار کی عورتوں نے اپنے وارثوں پر گریہ کرنے سے پہلے جناب حمزہؑ پر گریہ کیا اور رسول خدا ﷺکو اس جانکاہ سانحہ پر تعزیت وتسلیت پیش کی۔[11] رسول خدا ﷺ نے جناب حمزہؑ کے جنازہ پر پانچ تکبیروں کے بجائے ستر تکبیریں کہیں۔ [12]
جناب حمزہؑ کے فضائل
جن آیات میں جناب حمزہؑ کا نام آیا ہے ان آیات کا جائزہ لینے سے آپ کے یہ فضائل ثابت ہوتے ہیں:
1۔ تقویٰ
“قُلْ أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذَلِکُمْ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِالْعِبَاد”[13]
کہہ دیجئے: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہو گی اور اللہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ، اور جناب عبیدہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[14]
تقویٰ، اپنے نفس کو محفوظ رکھنا اور اپنے آپ کواس دنیا میں ایسے کاموں تک محدود رکھنا جن سے آخرت میں فائدہ ہو۔ تقویٰ کا خاص درجہ یہ ہے کہ: “ہراس چیز سے پرہیز کرنا جو انسان کے قلب کو حق سے پھیر دے۔”[15]
۲- خوشبختی اور نجات
“وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون”[16]
اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔
جناب ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت رسول خدا ﷺ اور حضرت علیؑ اور جناب حمزہؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[17] جناب حمزہؑ کی تاریخ زندگی میں جب ہم نظر کرتے ہیں تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ رسول خدا ﷺ کی دشوار وقت میں مدد اور حمایت کی اور اس کے ساتھ ساتھ رسول خدا ﷺ کا ان کے دشمنوں سے دفاع بھی کیا ہے لہذا ان باتوں سے یہ روشن ہوتا ہے کہ بلا شبہ جناب حمزہؑ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن افراد سے یہ آیت ان کی خوشبختی اور نجات، فلاح وبھبودی کا وعدہ کررہی ہے۔
۳- شہید
“وَ مَنْ یُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَ الصِّدِّیقِینَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحِینَ وَ حَسُنَ أُولئِکَ رَفِیقاً”[18]
“اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ انبیاء، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔”
قرآن کریم میں لفظ “شہید” مقتول کے معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اصطلاح میں “شہید” سے مراد وہ شخص ہے جو خدا کی راہ میں قتل کیا گیا ہو۔ اس آیت کریمہ میں جناب حمزہؑ کو بعنوان “شہید ” یاد کیا گیا ہے۔[19] اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ میں نبی ہونے کے اعتبار سے نبوت میں سب سے پہلا نبی ہوں اور بعثت میں (مبعوث ہونے کے اعتبار سے) سب سے آخری یعنی خاتم الانبیاء ہوں اور صدیقین میں حضرت علی علیہ السلام ہیں اور شہداء میں جناب حمزہؑ اور جناب جعفر طیار اور صالحین میں سے میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کے دو فرزند حسنؑ و حسینؑ ہیں جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔[20]
۴- خدا کی آیات پر ایمان
“وَإِذا جاءَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیاتِنا فَقُلْ سَلامٌ عَلَیْکُمْ”[21]
اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آجائیں تو ان سے کہیے: “سلام علیکم”
یہ آیت حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ، جناب جعفر طیار اور جناب زید کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت جناب حمزہؑ کے حقیقی ایمان کی گواہی دینے والی آیات میں سے ہے۔[22] اور اس آیت کے ذریعہ سے جناب حمزہؑ اور اِن افراد کے ایمان کی واضح تصدیق اور تائید ہو رہی ہے۔
5۔ اصحاب اعراف
“وَبَیْنَهُما حِجابٌ وَعَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ یَعْرِفُونَ کُلاًّ بِسِیماهُمْ”[23]
اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہوگا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے۔
جن آیات میں جناب حمزہؑ کا نام آیا ہے، ان میں ایک سورہ، سورہ اعراف ہے جس کی چھیالسویں آیت ہے، اعراف خدا کے مخلص بندوں کا ایک گروہ ہے جو دوسروں سے بلند مرتبہ رکھتا ہے اور جنتی اور جہنمی دونوں قبیلوں کو جانتا ہے۔ روایت کے مطابق اعراف کے افراد یہ ہیں: جناب عباس، جناب حمزہ علیہ السلام، حضرت علیؑ اور جناب جعفر طیار، جو صراط کے ایک مقام پر کھڑے ہو کر اپنے دوستوں کو سفید چہروں سے اور اپنے دشمنوں کو سیاہ چہروں سے پہچانیں گے۔[24] لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہؑ، اصحابِ اعراف میں سے ہیں جو بہت بلند درجہ رکھتےہیں۔
6۔ مسجد الحرام کی سرپرستی کی لیاقت
“وَما کانُوا أَوْلِیاءَهُ إِنْ أَوْلِیاؤُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُون”[25]
اس کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
مسجد الحرام کی سرپرستی لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھی اور سورہ انفال کی چوتیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی صفت کو ایک بہترین صفت کے طور پر ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے: “(کافر) کعبہ کے محافظ نہیں ہیں بلکہ اس کے محافظ صرف متقی افرادہیں۔”
ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ، جناب جعفر طیار اور جناب عقیل، متقیوں میں سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے سچے دوست ہیں۔[26] بلاشبہ جناب حمزہ علیہ السلام ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنے تقویٰ کی وجہ سے مسجد الحرام کے سرپرست ہونے کے مستحق ہیں، اس کے علاوہ یہ کہ وہ سردار مکہ یعنی جناب عبدالمطلب کے فرزند ارجمند ہیں۔
7۔ بغض و عناد سے دل کا پاکیزہ ہونا
“وَ نَزَعْنامافِی صُدُورِهِمْ مِنْ غِل”[27]
اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہو گا ہم نکال دیں گے۔
اس آیت کریمہ میں بہشتیوں کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے: یہ آیت حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ اور جناب جعفر طیار جیسے؛ بزرگوں کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ خدا نے ان کے دلوں کو بغض و عناد سے پاکیزہ رکھا ہے۔[28] “غل” سے مراد نفرت، دشمنی اور حسد ہے جو انسان کے دل میں چھپی ہوتی ہے۔[29] اور یہ رذیل صفت دوسروں کو نقصان پہنچانے پر مجبور کرتی ہے۔[30] اس آیت کے مطابق اہل جنت، جنت میں داخل ہونے سے پہلے اس بری صفت سے پاک و پاکیزہ ہو جائیں گے۔ روایت کے مطابق جناب حمزہ ان آسمانی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے دلوں سے ہر طرح کی نفرت اور حسد کو نکال دیا ہے۔
8۔ خدا کے ولی
“أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ”[31]
سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک روایت میں ہے کہ بعض بندے (حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ، جناب جعفر طیار اور جناب عقیل) ایسے ہیں جن سے انبیاء اس لیے رشک کرتے ہیں کہ وہ خدا کی رحمت سے دنیاوی مال و اسباب کے بغیر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ انہیں کوئی خوف و غم نہیں ہے۔ پھر انہوں نے سورہ یونس کی آیت نمبر 62 کی تلاوت کی۔
“ولی” کا لفظ خدا اور مومن دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خدا مومن کا نگہبان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس کے معاملات کا نگہبان ہے اور بندے کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مومن خدا کا ولی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ مومن خدا سے اس قدر نزدیک ہے کہ اسے خدا کی طرف سے ہدایت، کامیابی، تائید اور تصدیق جیسی تمام روحانی نعمتیں ملتی ہیں۔[32] لہٰذا یہ کہا جا سکتا
ہے کہ جناب حمزہؑ دونوں اعتبار سے خدا کے ولی ہیں اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا ولی خدا ہے۔
۹- خدا کی راہ میں جھاد
“هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ”[33]
یہ مومن و کافر دو باہمی دشمن ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔
یه آیت جناب حمزہ ؑکے لیے راہ خدا میں جہاد کرنے کی سعادت کا ذکر کرتی ہے۔ “یہ دنیا کے دشمن ہیں جو میرے رب میں لڑ رہے ہیں” یہ دو گروہ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے خوشنودی کی راہ میں جھاد کیا ہے۔ روایت میں ہے کہ جناب ابوذر نے قسم کھا کر کہا کہ یہ آیت جنگ بدر کے دشمنوں کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ اور جناب ابو عبیدہ مشرکین سے جھاد کر رہے تھے۔[34] اس آیت کے مطابق غزوہ بدر کے جھادکی وجہ ربوبیت کا جھاد تھا جب ایمان اور کفر ایک دوسرے کے مقابلہ میں جھاد کر رہے تھے اور جناب حمزہؑ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کفر کے مقابلہ میں جنگ کی۔
10۔ آسمانی نعمتوں کا حامل ہونا
“إِنَّ اللَّهَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ یُحَلَّوْنَ فِیها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَ لُؤْلُؤاً وَ لِباسُهُمْ فِیها حَرِیرٌ۔وَ هُدُوا إِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَ هُدُوا إِلى صِراطِ الْحَمِید”[35]
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ یقیناً انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے ان کی آرائش کی جائے گی اور ان جنتوں میں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ اور انہیں پاکیزہ گفتار کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں لائق ستائش (خدا) کی راہ دکھائی گئی ہے۔
اس آیت کریمہ کے شان نزول میں، روایات میں جناب حمزہؑ کا نام آیا ہے۔ اور اس آیت کریمہ میں “الذین امنوا” کے مصداق حضرت علیؑ،
جناب حمزہؑ اور جناب عبیدہ ہیں جنہوں نے جنگ بدر میں اپنی جانیں قربان کیں اور اسلام کا دفاع کیا۔[36]
11۔ خدا کی طرف سے ایک اچھا وعدہ
“أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا”[37]
کیا وہ شخص جسے ہم نے بہترین وعدہ دیا ہے اور وہ اس (وعدے) کو پا لینے والا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیاوی زندگی کا سامان فراہم کر دیا ہے۔
اس آیت کا پہلا حصہ حضرت علیؑ اور جناب حمزہؑ کے بارے میں نازل ہوا اور دوسرا حصہ ابو جہل کی مذمت سے مربوط ہے۔[38] اس آیت کریمہ میں نیکی کا وعدہ، خدا کی بخشش اور جنت کا وعدہ ہے۔[39] لہٰذا جناب حمزہؑ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نیک بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے اور یہ وعدہ اس آیت میں “فَهُوَ لَاقِيهِ “کے جملہ سے پورا ہوا ہے۔
۱۲-جھاد، کفران نعمت، احسان کی جزا
“وَ مَنْ جاهَدَ فَإِنَّما یُجاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعالَمِینَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وعَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّئاتِهِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِی کانُوا یَعْمَلُونَ”[40]
اور جو شخص جفاکشی کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فائدے کے لیے جفاکشی کرتا ہے، اللہ تو یقیناً سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کا صلہ بھی ضرور دیں گے۔
اس آیات میں جناب حمزہؑ کو ایک مجاہد کے طور پر روشناس کرایا ہے اور ان کے ایمان اور عمل صالح کے ذریعے خدا ان کے گناہوں پر پردہ ڈالے گا اور ان کی اعمال کا بہتر اجر دے گا اور اسی طریقہ سے روایت میں بھی ہے کہ “یُجاهِدُ لِنَفْسِهِ” سے مراد حضرت علیؑ، جناب حمزہؑ اور جناب ابو عبیدہ کی تعریف میں نازل ہوا۔[41]
۱۳- خدا کے ساتھ عہد کی وفاداری
“فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى نَحْبَه”[42]
ان میں سے بعض نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا۔
اس آیت کے شان نزول میں بھی جناب حمزہؑ کا نام آیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ان مخلص مومنین میں سے جو خدا وند عالم اور رسول خداﷺ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرنے میں ثابت قدم رہے وہ جناب حمزہؑ کہ ذات گرامی ہے۔[43] جنگ سے فرار نہ کرنا ایک عہد تھا جس پر وہ ثابت قدم رہے۔[44] یہ فضیلت جناب حمزہؑ کے ایمان کی گواہی دے رہی ہے۔
نتیجہ
ان تمام آیات قرآنیہ کو دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شجاعت کے صرف ایک ہی پہلو نہیں ہوتے بلکہ مختلف پہلو ہوتے ہیں اور وہ پہلو قرآن کریم کی نگاہ سے جناب حمزہؑ میں نظر آتے ہیں؛ جیسے کہ جناب حمزہؑ کا تقوی، خوشبختی، خدا کی راہ میں جھاد، خدا سے وفاداری، اصحاب اعراف میں شمار ہونا، وغیرہ کے سلسلہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
حوالہ جات
[1] سورہ احزاب ۲۳
[2] قمی، تفسیر قمی، ج۱، ص۳۰۷
[3] طباطبائی، تفسیر المیزان، ج۱۶، ص۲۹۰
[4] مشھدی، تفسیر کنزالدقائق، ج۹، ص۶۸
[5] سورہ قصص ۶۱
[6] مشھدی، تفسیر کنز الدقایق، ج۱۰، ص۸۸
[7] طباطبائی، تفسیر المیزان، ج۱۶، ص۹۰
[8] سورہ عنکبوت 6 – 7
[9] فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ص۳۱۸
[10] سورہ حج ۱۹
[11] بحرانی، البرهان، ج۳، ص۸۶۲
[12] سورہ حج ۲۳-۲۴
[13] سورہ حجر ۴۷
[14] بحرانی، البرهان، ج۳، ص۳۷۴
[15] ابن منظور، لسانالعرب، ج۱۱، ص۴۹۹
[16] طباطبائی، تفسیر المیزان، ج۱۲، ص۱۷۳
[17] سورہ یونس ۶۲، حسکانی، شواهدالتنزیل، ج۱، ص۳۵۴
[18]طباطبائی ،تفسیر المیزان، ج۱۰، ص۸۸
[19] سورہ اعراف ۴۶
[20] طباطبائی، تفسیر المیزان، ج۸، صص۱۲۲–۱۲۹
[21] سورہ انفال ۳۴
[22] حسکانی، شواهدالتنزیل، ج۱، ص۲۸۳
[23] سورہ النساء ۶۹
[24] حسکانی، شواهدالتنزیل، ج۱، ص۱۹۷
[25] مشھدی، تفسیر کنزالدقائق، ج۳، ص۴۶۲
[26] سورہ انعام۵۴
[27] فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ج۱، ص۱۳۴
[28] سورہ آل عمران ۱۵
[29] حسکانی، شواهدالتنزیل، ج۱، ص۱۵۱
[30] نجفی، تفسیر آسان، ج۳، ص۱۲۰
[31] سورہ آل عمران ۲۰۰
[32] حسکانی، شواهدالتنزیل، ج۱، صص ۱۷۴ و ۱۸۰
[33] واقدی، المغازی، ج۱،ص۶۸
[34] رضی الشریف، نهج البلاغه، نامه۲۸
[35] ابن کلبی، جمهرة النسب، ج۱، ص۲۸
[36] کلینی، کافی، ج۵، ص۴۳۷
[37] بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۱۳۱
[38] ابنعبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۳۶۹
[39] ابناسحاق، السیر و المغازی، صص۱۶۰و ۱۶۱
[40] واقدی، المغازی، ج۱، ص۲۱۱
[41] واقدی، المغازی، ج۱، ص۲۸۶
[42] ابنعبدالبرّ، الاستیعاب، ج۱، ص۳۷۴
[43] واقدی، المغازی، ج۱، صص ۳۱۵-۳۱۷
[44]رضی الشریف، نهج البلاغه، نامه ۲۸
منابع
1. ابن إسحاق المطلبي، محمد، السير والمغازي، تحقيق: سهيل زكار، دار الفكر، بيروت الطبعة: الأولى 1398هـ /1978م
2. ابن عبد البرّ، يوسف بن عبد الله، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، المحقق: علي محمد البجاوي، دار الجيل، بيروت الطبعة: الأولى، 1412 هـ – 1992 م.
3. ابن کلبی، هشام بن محمد، جمهرة النسب، حسن ناجی، عالم الکتب.
4. ابن منظور، محمد بن مكرم، لسانالعرب، دار إحياء التراث العربي مکان نشر، لبنان – بیروت نوبت چاپ اول سال نشر1408ق – 1988م.
5. بحراني، هاشم بن سليمان، البرهان في تفسير القرآن، تهران: كتاب صبح: نهاد كتابخانه هاي عمومي كشور، ۱۳۸۹ –
6. بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر بن دادو البلاذری، جمل من انساب الاشراف، تحقیق، سهیل زکار وریاض الزرکلی، دار الفکر، بیروت، طبعه اولی، ۱۴۱۷.
7. حسکانی، عبیداللهبن عبدالله، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل فی الایات النازله فی اهل البیت(ص)، تحقیق و تعلیق محمدباقرمحمودی، تهران، وزاره الثقافه و الارشاد الاسلامی، موسسه الطبع قم، مجمع احیاء الثقافه الاسلامیه، 1411ق. = – 1369.
8. رضی، شریف، ابو الحسن محمد الرضی بن الحسن الموسوی، نهجالبلاغه ، مترجم: صبحی صالح، دار الکتب اللبنانی.
9. طباطبایی، محمد حسین،تفسیر المیزان، دفتر انتشارات اسلامي (وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم) مكان چاپ: قم، نوبت چاپ: پنجم سال چاپ: 137۴.
10. فرات الکوفی، تفسیر فرات کوفی، محقق کاظم، محمد، عربی، مؤسسة الطبع و النشر في وزارة الإرشاد الإسلامي مكان چاپ: تهران سال چاپ: 1410 ق.
11. قمى، على بن ابراهيم تفسیر قمی، محقق / مصحح: موسوى جزائرى، طيّب عربی، دار الكتاب مكان چاپ: قم سال نوبت چاپ: سوم ،چاپ: 1404 ق.
12. قمی مشهدی، محمدرضا ، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، قم: دار الغدیر، 1423ق .
13. کلینی، محمد بن یعقوب، فروع کافی، تصحیح وتحقیق، علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیه، تهران، نوبت چاپ سوم، سال چاپ ۱۳۶۷.
14. نجفی، محمد جواد، تفسیر آسان، کتابفروشی اسلامیه، نوبت چاپ اول۔سال چاپ ۱۳۷۹
15. واقدی، محمد بن عمر،مغازی، دانشگاه شیراز، نشر (مرکز نشر دانشگاه شیراز)، ستاد انقلاب فرهنکی، چاپ اول، سال چاپ،۱۳۶۱.
مضمون کا مآخذ
امانی، مدینه، بررسی فضائل حضرت حمزه(ع) در قرآن، پايگاه اطلاعرسانی دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آيتاللهالعظمی سيدعلی خامنهای (مدظلهالعالی) مؤسسه پژوهشی فرهنگی انقلاب اسلامی، farsi.khamenei.ir
Very good
ماشاء االلہ
بھت عمدہ
Bhut Acha matalib