- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
جناب عبد العظیم حسنی ائمہ معصومینؑ کی نگاہ میں
پیغمبراکرم اور اهل بیت , پیــغمبر اکرم(ص) , آپ(ص) کے اصحاب- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : ali ghafari
- 2024/05/01
- 2 رائ
خداوند عالم نے بشریت کو کمال تک پہچانے کے لئے اپنے رسولوں، نبیوں اور اماموں کو بھیجا اور ان کے بعد اس دنیا میں کچھ ایسے روشن ستارے، خاصان خدا بھی آئے، جو قرآن کریم اور احادیث معصومین علیہم السلام کی حکمت سے آگاہی رکھتے تھے۔ اسلامی معاشرہ، ہمیشہ ان اولیاء اور خاصان خدا، کی کاوشوں کا مرہون منت رہے گا۔ جنہوں نے تمام خطرات کے باجود اپنی ہمت و بہادری، امانت داری، اور دین کے سخت معیارات پر عمل کرتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام کی روایات کو ان کے چاہنے والوں اور سعادت و نجات کے متلاشیوں کے لئے فراہم کیا۔ ان خاصان خدا میں سے ایک ذات جناب عبد العظیم حسنیؑ کی ہے۔ جن کی ذات، اسلامی ایران کی خیر و برکت کا سرچشمہ رہی ہے۔
جناب عبد العظیم حسنی کی زندگی پر ایک نظر
جناب عبد العظیم حسنی، شہر ری کی عظیم ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی ہیں کہ جن کا نسب چار واسطوں کے ذریعہ سے امام حسنؑ مجتبیؑ سے ملتا ہے آپ کی
ولادت ۴ ربیع الثانی، ۱۷۳ھ میں ہوئی۔[1] آپ کے والد کا نام عبداللہ بن علی قافہ، اور آپ کی والدہ کا نام، ہیفاء تھا۔[2] آپ خاندانِ عصمت و طہارت کی ایک فرد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا شمار اس دور کےمحدثین اور علماءمیں ہوتا تھا، آپ ائمہ معصومینؑ کی راویوں میں سے تھے۔ جناب عبد العظیم حسنی، عابد شب زندہ دار اور متقی و زاہد انسان تھے۔ آپ کی قبر مطہر ایران کے شھر تہران کے محلہ “ری” میں ہے۔
جناب عبد العظیم حسنی کامقام ائمہ معصومینؑ کی نگاہ میں
۱-جناب شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی کتاب “کمال الدین” میں لکھتے ہیں: جب جناب عبد العظیم حسنی رحمت اللہ علیہ، امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوئے اور آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا: “أنت وليّنا حقّا”[3] آپ ہمارے حقیقی دوستوں میں سے ہیں۔
اس حدیث کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد العظیم حسنی کا شمار ائمہ معصومین علیھم السلام کے حقیقی دوستوں میں ہوتا ہے اور یہ ان کی اطاعت اور اخلاق، اخلاص کی بنیاد پر ہے۔ پس معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی عارف انسان جناب عبد العظیم حسنی رحمت اللہ علیہ کی زیارت کرے گا تو اسے اہل بیت علیھم السلام کی اطاعت کا حقیقی درس ملے گااور یقیناً بہشت میں وہی جائے گا جو اہل بیت کا مطیع وفرمابردار ہوگا جس کی طرف یہ جملہ اشارہ کررہا ہے کہ امام علیه السلام نے ارشاد فرمایا: “من زار قبره وجبت له الجنّة”[4] جس نے آپ کے قبر کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے۔
۲- کتاب “جنۃ النعیم” کے مصنف فرماتے ہے: ایک شخص جس کا نام “ابا حماد رازی” تھا جو شہر ری کے شیعوں اور امام علیہ السلام کے وفاداروں میں سے تھا، اس زمانے کی مشکلات کے با وجود شہر سامراء گیا ۔ اور حضرت علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضری دیتے ہوئے کچھ سوالات کئے۔ امام علی نقی علیہ السلام نے اس کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے ابا حماد رازی! جب بھی تمہیں دینی امور سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو عبد العظیم حسنی سے اپنے مسئلے کا جواب طلب کرو اور میرا سلام ان تک پہنچا دینا۔[5]
اس حدیث کے ذریعہ امام علیہ السلام نے جناب عبد العظیم کے علمی کمالات کی طرف روشنی ڈالی ہے تاکہ وہ افراد، جو شہر ری میں رہتے ہیں وہ ان کی عظمت سے غافل
نہ رہیں اور ان سے استفادہ کرتے رہیں، ان کے بتائے ہوئے راستہ پر عمل پیرا رہیں ۔
۳-ایک شخص جو شھر ری کا رہنے والا تھا وہ شھرسامرا، پہونچ کرحضرت امام نقی علیہ السلام کی زیارت سے شرفیاب ہوا، امام علی نقی علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آرہے ہو؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے شہر کربلا گیا تھا وہیں سے آپ کی زیارت کے لئے آرہا ہوں۔ امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: کہ اگر تم جناب عبد العظیم حسنی رحمت اللہ علیہ کی زیارت کرتے۔ جو شہر ری میں دفن ہیں تو یہ ویسا ہی ہے کہ جیسے تم نے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی ہو۔[6] اور خداوند عالم تم کو وہی ثواب دے گا جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ہے۔[7]
اس حدیث سے جو نکات درک کئے جاسکتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱- جانبازی اور جانثاری
جناب عبد العظیم حسنی میں پائی جانے والی جانثاری جیسی صفت کا نتیجہ ہے کہ امام نقی علیہ السلام نے جناب عبد العظیم حسنی کی قبر کی زیارت کرنے کے ثواب کو سید الشھدا ء حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے ثواب کے مساوی بتایا ہے۔ یہ بات بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ایک عظیم مرتبہ ہے جس کا سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ وہ دین جس کو حضرت محمد مصطفی ﷺ لیکر آئے تھے اس کو سید الشھدا ء امام حسین علیہ السلام نے بچایا۔
۲- حالات اور وقت کا تقاضہ
امام علی نقی علیہ السلام کا آپ کی زیارت کے ثواب کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے ثواب کے مساوی بیان کرنا، ممکن ہے کہ حالات اور وقت کا تقاضہ کی وجہ سے ہو اگر اس دور کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ وہ دور جس میں دشمنان اہلبیت علیھم السلام، متوکل عباسی اور دوسرے ظالم بادشاہوں نے سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کو خراب کرنے کے بعد، شیعوں کے قتل پر اپنے حکام کو لگادیا تھا تا کہ جو شخص بھی امام حسین کی زیارت کو جائے۔ جلاد ان کو قتل کردے۔ اسی بنیاد پر امام علی نقی علیہ السلام نے ان لوگوں کی جان کو محفوظ رکھنے کی خاطر یہ حدیث بیان کی تاکہ اہل بیت کے چاہنے والوں اور زائروں کی جان بچائی جا سکے ۔
۳- شہر ری، اسلام اور اہلبیتؑ کی تبلیغی مرکز
دین اسلام، دین صلح و آشتی ہے اور یہ دین سب کو مساوات کا حکم دیتا ہے اسی لئے تمام لوگوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا اور آپسی رابطہ رکھنا، یہ اسلام کا بنیادی مقصد و ھدف رہا ہے اور اسی بنیاد پر دین اسلام میں خداوند عالم نے کچھ حقوق بتائے جیسے: عبادی حقوق، ممکن ہے کہ اس دور میں جناب عبد العظیم حسنی کی زیارت کا ایک مقصد یہ بھی رہا ہو کہ “شہر ری” جو اس دور میں اسلام کے اعتبار سے دور دراز شہروں میں جانا جاتا تھا، وہاں پر لوگ جائیں اور اس عظیم ہستی جناب عبد العظیم کی زیارت کریں تاکہ لوگ آپس میں جمع ہو سکیں اور اہل بیتؑ کے علوم ومعارف کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیں۔
نتیجہ
فقیہ، عابد، زاہد، جانثار، مطیع اہلبیت علیھم السلام، جناب عبد العظیم حسنی کی زندگی کا مطالعہ کرنے اور ان کے سلسلہ میں جو احادیث یا جو کلام معصومین علیھم السلام نے بیان فرمائے ہیں، ان کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد العظیم حسنی، ائمہ معصومینؑ کے درمیان ایک عظیم مقام و منزلت کے حامل تھے۔
اس لئے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کا کسی کو واقعی دوست کہنا، یا ان کے علمی کمالات کو دیکھتے ہوئے ان کو سلام کہلوانا، یا اسی طریقہ سے جناب عبد العظیم حسنی کی زیارت کے ثواب کو امام حسین علیہ السلام کے ثواب کے برابر بتانا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے اندر ایسے صفات و کمالات موجود تھے اور جو آپ کو خدا وند عالم کی طرف سے عطا کئے گئے تھے۔ پس اگر کوئی انسان آپ کی طرح سے خدا اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے بتائے ہوئے راستہ پر عمل پیرا ہو جائے تو وہ بھی خدا اور رسول اور ائمہ معصومین کی نگاہ میں عظیم منزل پر فائز ہو سکتا ہے۔ پس جب انسان معرفت کے ساتھ جناب عبد العظیم حسنی کی زیارت کرے گا تو اُن کی زندگی کی سیرت کو اپنے لئے آئیڈیل بنائے گا۔ اور اس کا شمار بھی خدا اور اہلبیت کے خاص چاہنے والوں میں ہوگا۔
حوالہ جات
[1] صدوق، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ج۱، ص۹۵.
[2] ابن بابویہ، کامل الزیارات، ج۱، ص۳۲۴.
[1] تهرانی، الذریعه، ج۱،ص۱۶۹.
[2] ابن عنبہ، عمدة الطالب ، ص94.
[3] صدوق، کمال الدین واتمام النعمۃ، ج۲، ص۳۷۹.
[4] فیض کاشانی، الوافی، ج۱۴، ص1591.
[5] طهرانی، جنةالنعیم والعیش السلیم، ج۱، ص۴۰۶.
[6] صدوق، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ج۱، ص۹۵.
[7] ابن بابویہ، کامل الزیارات، ج۱، ص۳۲۴.
منابع
1. ابن عنبہ، السيد جمال الدين أحمد، عمده الطالب في انساب آل ابي طالب، قم: انصاريان، ۱۴۲۷ق.
2. ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، محقق:امینی،دار المرتضویہ، مکان چاپ: نجف اشرف، نوبت چاپ: اول، سال چاپ ۱۳۵۶ ش۔
3. تهرانی، شیخ آقا بزرگ، الذريعة إلى تصانيف الشيعة، اسماعيليان، قم و كتابخانه اسلاميه، تهران، سال انتشار: 1408 ھ۔ ق۔
4. صدوق، ابن بابویہ، محمدبن علی، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، دار الشريف الرضي للنشر، مكان چاپ: قم، نوبت چاپ: دوم، سال چاپ: 1406 ق۔
5. صدوق، ابن بابویہ، کمال الدین واتمام النعمۃ، محقق غفاری، علی اکبر، اسلامیہ، مکان چاپ تھران، نوبت چاپ:دوم، سال چاپ : ۱۳۹۵ق۔
6. فیض کاشانی، محمد محسن بن شاه مرتضى، الوافی، كتابخانه امام أمير المؤمنين على عليه السلام، مكان چاپ: اصفهان، سال چاپ: 1406 ق۔
7. واعظ طهرانی مازندرانی، محمدباقر، جنة النعيم والعيش السليم في احوال السيد عبدالعظيم الحسيني عليه السلام والتكريم، قم: موسسه علمي فرهنگي دارالحديث، سازمان چاپ و نشر: ۱۳۸۲
بہت عمدہ
Mashallah