- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/10/18
- 0 رائ
بعض وہ کتب جن میں تحریک حسینی اور واقعہ عاشورا کو قلمبند کیا گیا ہے، بہت ہی کم دکھائی دے گا کہ جناب میثم تمّار کو اس قیامِ مقدس کے شہداء کے زمرہ میں شمار کیا گیا ہو۔ جبکہ آپ ان نیک اور خاص اولیاء کے پرچم داروں میں سے تھے۔ جنہیں اسی دوران اہل بیت علیہم السّلام کی دوستی اور بنو امیہ کی مخالفت کی بنیاد پر شہید کیا گیا۔ آپ کی شہادت کی خصوصیات نے انہیں راہِ خدا میں شہید ہونے والے شہداء کے درمیان سر بلند کردیا ہے۔
جناب میثم تمّار
جناب میثم تمّار، امیر المؤمنین، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ کی عظمت اور بزرگی؛ اور علم غیب سے آگاہی کے بارے میں اس قدر روایات موجود ہیں کہ جو بیان کی محتاج نہیں ہیں۔ اور اگر عصمت و عدالت کے درمیان کوئی مرتبہ ہوتا تو اس کا جناب میثم تمّار پر ضرور اطلاق ہوتا۔ [1]
جناب میثم تمّار کی، خداوند متعال اور اہل بیت علیہم السّلام کے وہاں خاص منزلت ہی باعث بنی کہ انہیں (علم منایا و بلایا) عطا کیا گیا۔ ان سے بہت زیادہ غیبی خبریں نقل ہوئی ہیں۔ جن میں سے ایک جناب حبیب بن مظاہر کو امام حسینؑ کے ہمراہ شہید ہونے اور ان کے سر کو کوفہ میں پھرائے جانے کی خبر دینا ہے۔ اور اسی طرح جناب مختار کو بھی خبر دی کہ وہ ابن زیاد کے زندان سے رہائی پائیں گے اور امام حسینؑ کے انتقام کے لیے قیام کرکے ابن زیاد کو قتل کریں گے۔[2]
نقل ہوا ہے کہ جناب میثم تمّار، بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے، جنہیں امیر المومنینؑ نے خرید کر آزاد کردیا تھا۔ آنحضرتؑ نے سوال کیا کہ: تمہارا نام کیا ہے؟ جناب میثم تمّار نے عرض کیا: سالم، حضرت علیؑ نے فرمایا: مجھے رسول خدا ﷺ نے خبر دی ہے کہ عجم میں تمہارے والدین نے جو تمہارا نام رکھا تھا وہ “میثم” ہے۔ جناب میثم تمّار نے عرض کیا: رسول خداﷺ اور آپؑ نے درست فرمایا، خدا کی قسم میرا نام “میثم” ہے۔ حضرت علیؑ نے فرمایا :اب سالم نام کو ترک کردو اور وہ نام استعمال کرو جسے رسول خداﷺ نے بتایا ہے۔ نیز انھوں نے اپنا نام میثم اور کنیت ابو سالم رکھا۔
جناب میثم تمّار اور حضرت علیؑ کے درمیان گفتگو
ایک دن امیر المومنین حضرت علیؑ نے جناب میثم تمّار سے فرمایا: اے میثم، میرے بعد تم کو گرفتار کرکے سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور تم کو خنجر سے مارا جائے گا اور پھر جب تیسرا دن آئے گا تو تمہاری ناک اور مونھ سے خون بہنا شروع ہوگا جس سے تمہاری ڈاڑھی رنگین ہو جائے گی۔ اور تمہیں عمرو بن حریث کے گھر کے پاس سولی چڑھایا جائے گا۔ اے میثم، میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں وہ کھجور کا درخت دکھاؤں جس پر تمہیں لٹکایا جائے گا۔
جناب میثم تمّار کا طریقہ کار
جناب میثم تمّار اس درخت کے پاس آکر نماز بجالایا کرتے اور کہا کرتے تھے: “اے درخت تو کس قدر مبارک ہے کہ مجھے تیرے لئے خلق کیا گیا اور تمہاری پرورش میری خاطر ہوئی”۔ آپ ہمیشہ اس درخت کے پاس رہتے یہاں تک کہ اسے کاٹ دیا گیا۔ جناب میثم تمّار اپنے تختہ دار پر لٹکائے جانے کی جگہ کو پہچانتے تھے اور وہ عمرو بن حریث کے پاس جا کر ان سے کہا کرتے کہ میں تمہارا ہمسایہ بننے والا ہوں میرے لئے بہترین ہمسایہ رہنا۔ عمرو، چونکہ ان کی بات کو نہیں سمجھ پاتا لہذا وہ کہتا تھا: کیا ابن مسعود یا ابن حکیم کا گھر خریدنا چاہتے ہیں؟
جب جناب میثم تمّار کوفہ پہنچے اور ابن زیاد ملعون نے انہیں گرفتار کرلیا۔ جب انہیں ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تو ابن زیاد کو بتایا گیا کہ یہ شخص علیؑ کے وہاں قریبی ترین افراد میں سے ہے، ابن زیاد کہنے لگا: افسوس تم پر اے عجمی!
پھر ابن زیاد نے جناب میثم تمّار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تمہارا رب کہاں ہے؟ جناب میثم تمّار نے جواب دیا: ستمگاروں کی کمین میں، جن میں سے ایک تو ہے۔ ابن زیاد کہنے لگا، تو عجمی ہونے کے با وجود جس چیز کا طلب گار ہے اسے پالے گا! تیرے مولا نے تجھے میرے بارے میں کیا بتایا ہے؟ جناب میثم تمّار نے کہا: انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ میں دسواں آدمی ہوں گا جسے تو تختہ دار پر لٹکائے گا۔ ابن زیاد کہنے لگا: میں اس کی مخالفت کروں گا۔ جناب میثم تمّار نے کہا کہ تو کیسے اس کی مخالفت کر سکتا ہے جبکہ مجھے جتنی بھی خبریں دی گئیں وہ سب خداوند متعال، رسول خداﷺ اور جبرائیل کی جانب سے دی گئیں ہیں۔ مجھے اپنے سولی پر چڑھائے جانے کی جگہ کا بھی علم ہے اور میں وہ پہلا انسان ہوں گا جسے لجام ڈالی جائے گی!
جناب میثم تمّار اور جناب مختار کی زندان میں گفتگو
پس جناب میثم تمّار کو جناب مختار کے ہمراہ زندان میں ڈال دیا گیا۔ جناب میثم تمّار نے جناب مختار سے کہا: تم زندان سے رہا ہو جاؤ گے اور خونِ حسینؑ کا انتقام لوگے اور جو ہمیں قتل کرنے والا ہے اسے بھی قتل کرو گے۔ جیسے ہی ابن زیاد نے مختار کو قتل کرنے کے لئے بلوایا تو یزید کی طرف سے نامہ لیکر قاصد آن پہنچا کہ مختار کو آزاد کردیا جائے۔ اور میثم تمّار کو قتل کردیا جائے لہذا جناب میثم تمّار کو زندان سے باہر لایا گیا۔
ایک شخص نے جناب میثم تمّار کو دیکھ کر کہا: اے میثم، تو نے کس لئے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالا ہے؟ جناب میثم تمّار مسکرا کر کہنے لگے: آج کھجور کے درخت سے دیدار کے وعدہ کا دن ہے۔ مجھے اس کے لئے خلق کیا گیا ہے اور اس کی پرورش میرے لیے ہوئی ہے!
شہادتِ جناب میثم تمّار
جب جناب میثم تمّار کو سولی پر معّلق کیا گیا تو لوگ عمرو بن حریث کے گھر کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ عمرو، نے کہا: خدا کی قسم! میثم ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں تمہارا ہمسایہ ہونے والا ہوں! جب میثم کو لٹکایا گیا تو عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ اس درخت کے نیچے جھاڑو دے، پانی چھڑکے اور صفائی کرے۔
جناب میثم تمّار نے بنی ہاشم کے فضائل بیان کرنا شروع کئے تو ابن زیاد کو بتایا گیا کہ یہ میثم، تمہیں رسوا کرکے چھوڑے گا۔ ابن زیاد نے کہا؟ میثم کو لجام ڈال دو۔ جناب میثم تمّار خدا کے وہ پہلے بندے تھے جنہیں اسلام میں لجام ڈالی گئی۔ اور انہیں خنجر سے مارا گیا، جناب میثم تمّار نے تکبیر کہی جس کے بعد ان کے منہ اور ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا۔
بعض وہ کتب جن میں اس عظیم شہید کی شہادت کی داستان نقل ہوئی ہے۔ ان کی عبارت سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کی شہادت ذی الحجہ۶۰ ہجری کے اواخر میں ہوئی۔
شیخ مفیدؒ کہتے ہیں: جس سال ان کی شہادت ہوئی اسی سال وہ حج کی سعادت سے شرفیاب ہوئے تھے۔
شیخ مفیدؒ کہتے ہیں: ابن زیاد نے جناب مسلم کی شھادت سے پہلے ہی جناب میثم تمّار اور جناب مختار کو زندان میں ڈال دیا تھا۔ بنابریں آپ کی شہادت اس وقت واقع ہوئی جب امام حسینؑ مکہ مکرمہ میں تھے۔[3]
بعض کتب میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ میثم تمّار کی شہادت امام حسینؑ کے عراق پہنچنے سے دس دن پہلے ہوئی۔[4] مزید ایک مآخذ میں صراحتاً کہا گیا ہے کہ ان کی شہادت عاشورا سے دس یا بیس دن پہلے ہوئی۔[5]
ان سب اقوال کی روشنی میں جناب میثم تمّار کی شہادت امام حسینؑ کے مکہ مکرمہ سے خروج اور عراق کے راستہ پر رواں دواں ہونے کے دوران ہوئی۔
نتیجہ
تاریخِ اسلام میں جناب میثم تمّار کی ذات گرامی ایک مقام و منزلت رکھتی ہے، جنہوں نے اہل بیتؑ کے فرامین پر عمل کیا اور اہل بیتؑ کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی گذاری اور جس کی وجہ سے جناب میثم تمّار کو شہادت نصیب ہوئی۔ اور دین اسلام کی خاطر جس طریقہ سے امام حسینؑ اور دوسرے خاصان خدا نے اپنی جان قربان کی۔ اسی طریقہ سے جناب میثم تمّار نے بھی قربانی پیش کی۔ یعنی جناب میثم تمّار کا شمار بھی در حقیقت شھدائے کربلا میں ہوتا ہے۔
حوالہ جات
[1] شاھرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۸، ص۴۴؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۲۶۲.
[2] مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۵۳.
[3] مفید، ارشاد، ص۱۷۰.
[4] طبرسی، اعلام الوری، ص۱۷۴؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۲۶۲؛ مفید، ارشاد، ص۱۷۶.
[5] شاھرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۸، ص۴۴.
منابع
۱- طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الھدی، موسسۃ آل البیت علیھم السلام لاحیاء التراث، قم، ایران، 1376، ھ ش.
۲- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار لدرر اخبار الائمۃ الاطھار، دار المعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۲۱، ھ ق.
۳- مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، موسسۃ آل البیت علیھم السلام، لاحیاء التراث، قم ۱۴۳۱، ھ ق.
۴- مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، المؤتمر العالمي لألفية الشيخ المفيد، قم، ۱۴۱۳، ھ ق.
۵- نمازی شاھرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، فرزند مولف، تھران، ایران،۱۴۱۴، ھ ق.
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
طبسی، نجم الدین، امام حسینؑ کے مکّی ایّام، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، قم، ۱۳۹۲، ھ ش