- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/21
- 0 رائ
تاریخچہ
جنگ موتہ، صدر اسلام کے بڑے سریوں میں سے ہے جو سنہ آٹھویں ہجری میں لشکر اسلام اور لشکر روم کے درمیان رونما ہوئی ہے۔
اس جنگ میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری، جعفر بن ابی طالب، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کے کندہوں پر تھی اور تینوں سالار شہید ہو گئے۔ مسلمان اپنے تینوں سالاروں کی شہادت اور لشکر روم کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے، خالد بن ولید کے کہنے پر واپس مدینے لوٹ آئے۔
محل وقوع
موتہ، بلقاء جو شام کے بارڈر پر واقع ہے اس کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات ہے. [1] یہ دیہات بلقاء کے پیچھے، اور بلقاء دمشق کے پیچھے واقع ہے [2] اور یہ “کرک” کا ایک دیہات ہے اور کیونکہ کرک کا پہلا دیہات مؤاب ہے، اس لئے موتہ، مؤاب کا حصہ ہے.
جنگ کی وجہ
واقدی جنگ کی وجہ کے متعلق روایت کرتا ہے: رسول خدا(ص) نے حارث بن عمیر ازدی لہبی کے ہاتھوں بصری کے بادشاہ کو خط بھیجا.[3] وہ جب راستے میں موتہ کے مقام پر پہنچا، تو شرجیل بن عمروغسانی [4] جو کہ وہاں کا حاکم تھا، نے حارث کا راستہ روک لیا، کیونکہ اسے گمان تھا کہ یہ رسول خدا(ص) کے طرف سے بھیجا گیا ہے. اس لئے اس سے پوچھا: گویا تمہیں محمد نے بھیجا ہے؟ حارث نے کہا: جی مجھے رسول خدا(ص) نے ہی بھیجا ہے. شرجیل نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیں. اور یہ پیغام لے جانے والا پہلا شخص تھا جسے قتل کیا گیا اس سے پہلے کبھی کسی پیغام لے جانے والے کو قتل نہیں کیا گیا تھا.
رسول خدا(ص) کو اس خبر کی اطلاع ملی تو آپ(ص) بہت غمگین ہوئے اور لوگوں کو اکٹھا کیا. گویا کہ انہیں کہا تھا کہ لشکر گاہ میں جمع ہوں اور وہ وہاں سے خارج ہو گئے اور “جرف” کے مقام پر خیمے لگا لئے حالانکہ ان کے لئے کوئی سپاہ سالار معین نہیں کیا گیا تھا.
سپاہ سالاروں کا تعیین
جب پیغمبر اکرم(ص) نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، اور آپ(ص) کے اصحاب بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے. [5] ابان بن عثمان احمری کی روایت جو اس نے امام صادق(ع) سے نقل کی ہے، اس میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جعفر بن ابی طالب، اس کے بعد زید بن حارثہ کلبی اور اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ کو سپاہ سالاری کے منتخب کیا [6]اور فرمایا کہ اگر عبداللہ بن رواحہ کو بھی نقصان پہنچ جائے تو، مسلمان خود اپنے لئے سپاہ سالار انتخاب کر لیں… اس کے بعد رسول خدا(ص) نے ان لوگوں کے لئے، جن کی تعداد تین ہزار تھی سفید پرچم باندھا.
پیغمبر اکرم(ص) کا خطاب
جب وہ جانے کے لئے تیار ہوئے، تو لوگ خداحافظی کے لئے ان کے ساتھ نکلے اور ان کے حق میں دعا کی اور رسول اکرم(ص) نے خطاب فرمایا:”میں آپ کو، جو مسلمان آپ کے ہمراہ ہیں ان کے حق میں تقویٰ، خیر اور نیکی کی وصیت کرتا ہوں…خدا کے نام اور خدا کی راہ میں حرکت کریں اور جو خدا سے کفر رکھتا ہے اس کے ساتھ جنگ کریں اور پیمان شکنی اور خیانت نہ کریں اور بچوں کو قتل نہ کریں. اور جب دشمنوں کے سامنے جاؤ تو، انہیں درج ذیل امور میں سے کسی ایک کی دعوت دو، اور اگر انہوں نے کسی ایک کا بھی جواب دیا تو اسے قبول کر لینا اور انہیں چھوڑ دینا.
انہیں اسلام کی دعوت دینا اور اگر انہوں نے قبول کر لی تو انہیں رہا کر دینا. اس کے بعد انہیں دعوت دینا کہ کہ دار المہاجرین (مدینہ اور اس کے اطراف) ہجرت کریں، اگر قبول کر لیا، تو سمجھو مہاجرین کے نفع و نقصان میں شریک ہیں، لیکن اگر اسلام کو قبول کر لیا اور وہی اپنے گھروں میں رہ گئے تو انہیں اطلاع دینا کہ دوسرے مسلمان عربوں کی طرح ہیں اور خدا کا حکم ان پر جاری ہوتا ہے اور مال غنیمت میں سے کچھ بھی انہیں نہیں ملے گا، مگر یہ کہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں.
اگر اسے قبول نہ کیا، تو انہیں جزیہ ادا کرنے کی دعوت دینا، اسے قبول کر لیں تو انہیں رہا کر دینا. اور اگر اسے بھی قبول نہ کیا تو خدا سے مدد مانگنا اور ان کے ساتھ جنگ کرنا اور اگر کسی قلعہ یا شہر کا محاصرہ کر لیا اور انہوں نے درخواست کی کہ خدا کے حکم کے مطابق ان کے ساتھ عمل کرو، تو اسے قبول نہ کرنا بلکہ اپنے طریقے سے انہیں پناہ دینا، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ ان کے بارے میں خدا کا کیا حکم ہے.
اور اگر کسی قلعہ یا شہر کو محاصرہ کیا اور انہوں نے درخواست کی ہم اللہ اور اس کے رسول کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں تو یہ قبول نہ کرنا بلکہ انہیں اپنے، اپنے والد اور اپنے اصحاب کے ذمے قرار دینا، کیونکہ اگر تمہارے اور تمہارے والدین کے ذمے کو توڑ دیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے ذمے کو توڑیں.” [7]
اس کے بعد رسول خدا(ص)”ثینۃ” تک لشکر اسلام [8] کے ہمراہ گئے اور وہاں پر کھڑے ہوئے اور لشکر والے آپ(ص) کے ارد گرد کھڑے ہوئے اور آپ(ص) نے خطاب فرمایا: “اللہ تعالیٰ کا نام لے کر حرکت کرو اور شام اپنے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرو. وہاں پر کچھ ایسے افراد کو دیکھو گے جو اپنی عبادت گاہوں میں، کھڑے عبادت کر رہے ہوں گے، ان کے مزاحم نہ ہونا اور کچھ افراد کو دیکھو گے جن کے سر شیطان کی کمین گاہ ہیں، ایسے سروں کو تلوار کی مدد سے بدن سے جدا کر دینا… عورتوں، بچوں اور بوڑے مردوں کو قتل نہ کرنا اور کجھوروں کو آگ نہ لگانا اور درختوں کو نہ کاٹنا اور گھروں کو خراب نہ کرنا.”
پیغمبر اکرم(ص) کی خاص سفارشیں
جب عبداللہ بن رواحہ نے رسول خدا(ص) کو خداحافظی کر لی، تو عرض کی:اے رسول خدا(ص)، مجھے کوئی سفارش کریں تا کہ اسے یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھوں. آپ(ص) نے اسے فرمایا: “تم عنقریب ایسی زمین میں داخل ہو جاؤ گے جہاں سجدے بہت کم ہیں، پس اپنے سجدوں کو زیادہ کرنا” اس کے بعد خاموش ہو گئے.
عبداللہ نے کہا: اے رسول خدا(ص) اور بھی کچھ فرمائیں. آپ(ص) نے فرمایا: “ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا کیونکہ وہ ہر کام میں تمہارا یاور (ساتھی) ہے”.
عبداللہ چلا گیا، لیکن دوبارہ واپس لوٹ کر آیا اور عرض کی: اے رسول خدا! اللہ تعالیٰ طاق ہے، اور طاق کو دوست رکھتا ہے، اس لئے اپنی تیسری سفارش بھی فرما دیں.
آپ(ص) نے فرمایا: “اے رواحہ کے بیٹے! اگر ہر چیز سے عاجز ہو، تو ایک چیز سے عاجز نہ ہونا اور وہ یہ کہ اگر دس برائیاں انجام دیں تو ایک نیکی بھی ضرور انجام دینا”.
ابن رواحہ نے کہا: اس کے بعد، آپ(ص) سے کوئی اور سوال نہیں کروں گا پھر چلا گیا.
……………………………..
حواله جات
- ر.ک : معجم البلدان، ج ۸، ص۱۹۰.
- ر.ک : طبقات ابن سعد، ج ۲، ص۱۲۸
- بصری کبری کے وزن پر ہے، حوران کا مرکز اور شام میں دمشق کا حصہ تھا اور رسول خدا(ص) دو بار اس میں داخل ہوئے اور وہاں کے لوگوں نے سنہ تیرہ ہجری کو مسلمانوں کے ساتھ مصالحہ کیا اور یہ شام کا پہلا شہر تھا جو مصالحہ کے ذریعے فتح ہوا ہے.
- اور غسّان بھی أزد سے ہے، مغازی، ج ۲، ص۷۶۰.
- مغازی واقدی، ج ۲، ص۷۵۵- ۷۵۶ اور واقدی کے علاوہ کسی نے جنگ کی وجہ ذکر نہیں کی ہے اور کسی نے مسئلہ نامہ اور رسول اور غسانی کو متعرض نہیں کیا ہے.استیعاب و الاصابة کے حاشیے میں، ج ۱، ص۳۰۵ نمبر ۱۴۵۹ اور اسد الغابۃ، ج ۱، ص۳۴۲ جسے باب رجال میں ذکر کیا ہے.
- إعلام الوری، ص۲۱۲ و مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص۲۰۵. و در تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۶۵ لکھتا ہے: کہا گیا ہے کہ پہلا سپاہ سالار جعفر اس کے بعد زید اور اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ تھا.اور معتزلی ج ۱۵، ص۶۲ میں لکھتا ہے: محدثین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ زید بن حارثہ پہلا سپاہ سالار تھا اور شیعہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے: پہلا سپاہ سالار جعفر بن ابی طالب تھا اور اس بارے میں روایات بھی ذکر کی ہیں. اور اس کے ذیل میں لکھتا ہے: میں نے محمد بن اسحاق کے اشعار جو اس نے مغازی کتاب میں نقل کئے ہیں، یہ شیعہ قول کو ثابت کرنے کی گواہی دیتے ہیں، من جملہ حسان بن ثابت نے جو شعر روایت کیا ہے جو یوں ہے: “فلا یبعدن الله قتلی تتابعوا بمؤته منهم ذو الجناحین جعفر و زید و عبدالله حین تتابعوا جمیعا و أسیاف المنیة تخطر” خدا جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے شہید ہوئے ہیں، انہیں اپنی رحمت سے دور نہ کرے، اور جو جنگ موتہ میں شہید ہوئے وہ جعفر طیار تھا اسی طرح زید اور اس کے بعد عبداللہ جو ایک دوسرے کے بعد سب چلے گئے، جب کہ موت کی تلوار نمایاں تھی. اسی طرح کعب بن مالک انصاری کہتا ہے: “ساروا امام المسلمین کانهم طود یقودهم الهزبر المشبل اذ یهتدون بجعفر و لواؤه قدّام أولهم و نعم الأوّل” مسلمان ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلے گئے گویا کہ کوئی شیر ان کی رہبری کر رہا تھا. اور جعفر کے پرچم کے پیچھے چل رہے تھے، اور وہ ان میں سے پہلا تھا، اور کیا خوب تھا وہ پہلا.
- ظاہراً یہ وصیت نماز ظہر کے بعد مسجد میں تھی جس کے مخاطب سپاہ سالار بالخصوص جعفر طیار تھے.
ثنیۃ الوداع جو شام کی جانب تھی نہ مکہ کی طرف.
منبع: https://ur.wikishia.net/