حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ قرآن و عترت کا باہم اٹوٹ رشتہ

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ قرآن و عترت کا باہم اٹوٹ رشتہ

کپی کردن لینک

حدیث ثقلین، اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ہے جسے، علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام ﷺ سے نقل کیا ہے۔ مختلف زمانوں اور صدیوں میں حدیث ثقلین کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پیغمبر اسلام ﷺ کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ہیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نہیں کرسکتا۔

علماء اہل سنت اور حدیث ثقلین کا جائزہ

علمائے اہل سنت کے نقطہ نظر سے حدیث ثقلین کا جائزہ لینے سے پہلے ہم ان سے بعض افراد کی گواہی یہاں نقل کرتے ہیں:

”مناوی“ کے بقول: حدیث ثقلین ایک سو بیس سے زیادہ صحابیوں نے پیغمبر اسلام ﷺ سے نقل کی ہے۔[1]

’’ابن حجر‘‘ کے بقول: حدیث ثقلین بیس سے زیادہ طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔ [2]

عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم، جن کا انتقال 1306ء میں ہوا ہے، انہوں نے حدیث ثقلین کو علمائے اہل سنت کی 502 کتابوں سے نقل کیا ہے۔ حدیث ثقلین کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چھ جلدوں میں اصفہان سے شائع ہوچکی ہے، شائقین اس کتاب کے ذریعے اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

اگر ہم اہل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں، تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ہونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجے پر نظر آتی ہے، جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث ثقلین کا متن یہ ہے:

”انّى تارِكٌّ فيكُم الِثقْلَين، كِتابَ اللَّهِ وَ عِترتى اهل بَيْتى ما انْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِما لَن تضِلُّوا ابداً وَ انَّهمَا لَنْ يَفتَرقا حتّى‌ يَرِدا عَلَىَّ الحَوضِ“

”میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت (ع) ہیں، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پہنچ جائیں“

البتہ حدیث ثقلین اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ہوئی ہے۔ حتی ابن حجر نے لکھا ہے کہ، پیغمبر اکرم ﷺ نے حدیث ثقلین کے آخر میں اضافہ فرمایا:

”هَذَا عَلِيٌّ مَعَ اَلْقُرْآنِ وَ اَلْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لا يَفْتَرِقَانِ“[3]

”یعنی یہ علی ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ہمراہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے“

یہ روایت حدیث ثقلین کی وہ مختصر صورت ہے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے اور اس کی صحت پر گواہی دی ہے۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر ﷺ نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اہل بیت (ع) کے اٹوٹ رشتے سے آگاہ کیا ہے۔

پیغمبر اکرم ﷺ نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو ’’حجة الوداع‘‘ کے موقع پر غدیر خم میں[4]، منبر پر[5]، اور بستر بیماری پر[6] جبکہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا، بیان کیا تھا۔ اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث ثقلین کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ہے۔

اگرچہ حدیث ثقلین مختلف صورتوں سے نقل ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین“ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ”امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ہے، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم ﷺ کی عترت و اہل بیت (ع) کے درمیان اٹوٹ رابطے کا ذکر۔

حدیث ثقلین کا مفاد

ثقلین فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ہیں کوئی بہت نفیس اور قیمتی امر۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز ہے۔

حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی عترت و اہل بیت (ع) گناہ تو دور خطا و لغزش سے بھی محفوظ و معصوم ہیں، کیونکہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ہے وہ قرآن کی ہی طرح (جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھا ہے) ہر خطا و لغزش سے محفوظ ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ جو پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم ﷺ سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رہے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے، اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ دونوں الٰہی حجتیں اور پیغمبر اکرم ﷺ کی یادگاریں، ہمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ہر طرح کی کجی و انحراف سے دور ہیں۔

کیونکہ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی عاصی و گناہگار انسان کی اطاعت ہم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطاکار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دے دے۔ قرآن کا ہمسر اور اس کے برابر تنھا وہی گروہ ہوسکتا ہے جو ہر گناہ اور ہر خطا و لغزش سے پاک ہو۔

امامت کے لئے سب سے اہم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کا محفوظ رہنا ہے۔ حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی عترت و اہل بیت (ع) قرآن کی طرح ہر عیب و نقص، خطا و گناہ سے پاک ہیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ہے لہٰذا انہیں بہرحال گناہ و معصیت سے پاک ہونا چاہئے۔

امیر المومنین (ع) کا حدیث ثقلین سے استدلال

کتاب ”احتجاج“ کے مولف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس“ سے (جو تابعین میں سے ہیں اور حضرت علی (ع) کے عظیم شاگرد ہیں) نقل کرتے ہیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی میں مہاجرین و انصار کا ایک جلسہ ہوا جس میں ہر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کررہا تھا۔ اس جلسے میں امام علی (ع) بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ہوئے سب کی باتیں سن رہے تھے۔

آخرکار لوگوں نے امام (ع) سے درخواست کی کہ آپ (ع) بھی اپنے بارے میں کچھ بیان کریں، امام (ع) نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ہوئی تھیں اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:

يَا أَيُّهَا اَلنَّاسُ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي فَتَمَسَّكُوا بِهِمَا لاَ تَضِلُّوا

”اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رہا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت (ع) پس ان دونوں سے وابستہ رہو کہ ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔[7]

مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی عترت و اہل بیت (ع) سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نہیں ہیں کیونکہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نہیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ہے جن کی امامت پر، شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں اگر ہم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کرلیں تو عترت و اہل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نہیں رہ جائیں گے کیونکہ پیغمبر اکرم ﷺ کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہوسکتے ہیں جو ہر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ہیں اور امت کے درمیان طہارت، پاکیزگی، اخلاقی فضائل اور وسیع علم کے ذریعے مسلمانوں میں مشہور ہیں اور لوگ انہیں نام و نشان کے ساتھ پہچانتے ہیں۔

حدیث ثقلین سے متعلق ایک نکتے کی یاد دھانی

اس مشہور اور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ہوچکا اور ہم نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے ہر جگہ ’’کتاب و عترت“ کو اپنی دو یاد گاروں کے عنوان سے یاد کیا ہے اور ان دو الٰہی حجتوں کے باہم اٹوٹ رشتے کو ذکر کیا ہے لیکن اہل سنت کی بعض کتابوں میں کہیں کہیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی“ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی“ ذکر ہوا ہے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ہوا ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ہے اور اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: در حقیقت سنت پیغمبر اکرم ﷺ جو قرآنی آیات کی مفسر ہے اس کی بازگشت خود قرآن کی طرف ہے اور دونوں کی پیروی لازم و واجب ہے۔

ہمیں اس وقت اس سے سروکار نہیں کہ یہ توجیہ درست ہے یا نہیں۔ جو بات اہم ہے یہ ہے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور پر اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے وہ وہی ”کتاب اللہ و عترتی“ ہے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی“ بھی پیغمبر اکرم ﷺ سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ہوگی۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی۔ جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہیں ہوئی ہے۔ اور جو شہرت و تواتر اصل حدیث ثقلین کو حاصل ہے وہ اسے حاصل نہیں ہے۔

مزید معلومات کے لئے اس مضمون "شیعہ اور سنی کی رائے میں عترتی یا سنتی تعبیر کی حقیقت” کا مطالعہ کریں۔ یہ مضمون آپ کو اس موضوع پر جامع اور مفصل معلومات فراہم کرے گا۔

عترت پیغمبر ﷺ سفینہ نوح کے مانند

اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفاد پیغمبر اسلام ﷺ کے اہل بیت (ع) کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتا ہے۔

سلیم ابن قیس نے لکھا ہے کہ: میں حج کے زمانے میں مکہ میں موجود تھا۔ میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ہوئے بلند آواز میں کہہ رہے ہیں:

اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ہوں۔ میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ ہوں۔ اے لوگو! میں نے پیغمبر اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ ”إن مثل أهل بيتي في أمتي كمثل سفينة نوح في قومه، من ركبها نجى ومن تركها غرق“

میرے اہل بیت (ع) کی مثال میری امت میں جناب نوح (ع) کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ہے کہ جو شخص اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ہوگیا۔[8]

حدیث سفینہ، حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ہے اور محدثین کے درمیان عظیم شہرت رکھتی ہے۔

کتاب ’’عبقات الانوار‘‘ کے مولف علامہ ’’میر حامد حسین‘‘ مرحوم نے اس حدیث کو اہل سنت کے 90 مشہور علماء و محدثین سے نقل کیا ہے۔[9]

حدیث سفینہ کا مفاد

حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم ﷺ کی عترت کو نوح (ع) کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت (ع) کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ہے۔

اب یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاہیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ہدایت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ہے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ہے؟

جو لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت (ع) پیغمبر اکرم ﷺ کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ہے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ہیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جبکہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔

لہٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلے میں وارد ہونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی قیادت و سرپرستی کے لئے اہل بیت (ع) کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اہل بیت (ع) کی عصمت و طہارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ہونے کی بہترین گواہ ہے، کیونکہ ایک گناہگار و خطاکار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات دے سکتا ہے اور گمراہوں کی ہدایت کرسکتا ہے؟!

حضرت امیر المومنین (ع) اور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رہبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کہیں زیادہ ہیں، اور اس مختصر مقالے میں سمیٹے نہیں جاسکتے لہٰذا ہم اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔

نتیجہ

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کے مطابق عترت کے مصداق وہ افراد ہیں جو معصوم، پاکیزہ اور علم و فضل میں ممتاز ہوں۔ یہ پاک ہستیاں پیغمبر اکرم ﷺ کی اولاد یا ان سے منسلک افراد میں سے ہیں، جنہیں امت خوب پہچانتی ہے۔ دیگر احادیث کی طرح یہ دو حدیثیں بھی اہل بیت (ع) کی قیادت، خلافت، امامت اور بلا فصل جانشینی کے حق کو ثابت کرتی ہیں۔ ان دونوں احادیث سے اہل بیت کی حقانیت و افضلیت واضح ہوتی ہے۔ اور یہ اہل بیت (ع) اور قرآن میں ایک اٹوٹ بندھن کو ثابت کرتی ہیں۔

حوالہ جات

[1]۔ مناوی، فیض القدیر، ج3، ص14۔

[2]۔ ابن‌ حجر ہیتمی‌، صواعق المحرق‍ۃ، حدیث 135۔

[3]۔ قندوزی، ینابیع المود‍ۃ، ص32 و ص40۔

[4]۔ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج3، ص109۔

[5]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص76،

[6]۔ ابن‌ حجر هیتمی‌، الصواعق المحرق‍ۃ، ص75۔

[7]۔ طبرسی، احتجاج طبرسی، ج1، ص210۔

[8]۔ طبرسی، احتجاج طبرسی، ج1، ص228۔

[9]۔ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج3، ص343۔

فہرست منابع

1۔ ابن‌ حجر هیتمی‌، احمد بن‌ محمد، الصواعق المحرق‍ۃ في الرد علي أهل البدع و الزندق‍ۃ، المنصور‍ۃ (مصر)، مکتبۃ فیاض، 1429ھ ق۔

2۔ حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرك علی الصحيحین، بيروت، دارالتاصيل، 1438ھ ق۔

3۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، قم، اسوه، 1424ھ ق۔

4۔ قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المود‍ۃ، بیروت، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، 1418ھ ق۔

5۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامع‍ۃ لدُرر أخبار الأئم‍ۃ الأطهار، بیروت، دار إحياء التراث العربي، 1403ھ ق۔

6۔ مناوی، محمد عبد الرؤوف، فيض القدير، بیروت، دار المعرفة، 1391ھ ق۔

مضمون کا مآخذ

سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، بائیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے