- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/15
- 0 رائ
ابتدائیہ:
امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت اور علمی فیوض کے عنوان پر اس مقالہ کو میں زیارت جامعہ کے چند کلمات سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔
السلام علیکُم یا اَھل بیتِ النُبوَۃِ و مو ضَع الرّساَلَۃ ۔۔۔۔۔۔ کلا مَکُم نُورُ وَاَمَرکُم رُشد، وَ صیّتکُم الّتقویٰ وَفعلُکُم خَیرَ عَادَتُکُم الا حَسانِ ۔۔۔۔۔۔ ان ذکِر الخَیر کُنتُم اَوّلَہ وَاَصلَہ’ وَفَرَعَہُ وَ مَعدَ نہ وما وَایہُ و منتَھا ۃُ ( مفاتیح الجنان)
ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے نبوت کے گھر والو اور پیغام ربانی کے مرکز۔ آپ کی گفتگو سر تاپائے نور، آپ کا فرمان ہدایت کا سرچشمہ ، آپ کی نصیحت تقویٰ کے بارے میں آپ کا عمل خیر ہی خیر، آپ کی عادت احسان کرنے کی ہے جب کبھی نیکیوں کاتذکرہ ہو تو آپ حضرت سے ہی ان کی ابتداء ہوتی ہے اور انتہا بھی ۔ اس کی اصل بھی آپ ہیں اور مخزن اور مرکز اور انتہا بھی آپ ہیں۔ ( ترجمہ رضی جعفر)
زیارت جامعہ محمد و آلِ محمد (ص) کا قصیدہ ہے، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کا اہم پر احسان ہے کہ انہوں اپنے انتہائی فصیح و بلیغ کلام میں زیارت جامعہ کی تدوین کی جو حقائق اور معرفت کا بے پایاں سمندر ہے۔ حضرت امام جعفر (ع) صادق کی شخصیت زیارت جامعہ میں بیان کردہ ان خصائص کی مجسم تصویر ہے۔
امام صادق(ع) کی ہمہ گیر شخصیت کا احاطہ نا ممکن ہے، اس مختصر مقالہ اور تیز رفتار زندگی کے تقاضوں کے پیش نظر اختصاراً امام صادق(ع) کی شخصیت کے چند اہم گوشوں کا تعارف ، نشر علوم، تدوین ۔ فقہ اور دانشگاہ جعفری کے فیوض اور امام کے چند شاگردوں کی علمی خدمات کا ایک تعارفی جائزہ مقصود ہے۔
٢۔ مختصر حالات:
جعفر کے معنی نہر کے ہیں۔ گو یا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائی گی۔ امام جعفر(ع) صادق کی تاریخ ولادت ١٧ ربیع الاوّل پر سب کو اتفاق ہے مگر سال ولادت میں اختلاف ہے روایت رجال کے بموجب سنہ ولادت ٨٠ ھ ہے جب کہ محمد ابن یعقوب کلینی اور شیخ صدق کا اتفاق ٨٣ ھ پر ہے۔ آپ نے بہ فضل خدا ٦٥ سال عمر پائی اور مدتِ امامت ٣٤ سال رہی ( ١١٤ ھ تا ١٤٨ھ) چہاردہ معصومین میں طویل عمر اور عہد امامت کے حوالہ سے آپ کی امتیازی خصوصیت ہے۔ آپ کی مادر گرامی جناب اُمِ فروہ بنت ِ قاسم بن محمد بن ابو بکر تھیں۔ اپنی والدہ کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے خود امام صادق(ع) نے فرمایا” میری والدہ ایک با ایمان با تقویٰ اور نیک خاتون تھی۔” ( احمد علی ۔١) صاحب مروج الذھب کے حوالہ سے ان معظمہ کی عظمت اور مرتبہ کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ خود امام باقر نے آپ کے والد قاسم سے اپنے لئے خواستگار ی کی تھی۔ آپ کی مشہور کنیت عبداﷲ ہے اور بے شمار القاب میں ( الصادق) زیادہ مشہور ہے۔ آپ کے ٧ بیٹے یعنی اسماعیل ، عبداﷲ ، موسیٰ ( بن کاظم (ع)) اسحاق، محمد(الدیباج) ، عباس اور علی ، اور تین بیٹیاں ام فروہ، اسماء و فاطمہ تھیں۔ آپ کے دو ازواج مطہرات میں ایک فاطمہ بنت الحسین امام زین العابدین کی پوتی تھیں۔
امام صادق(ع) کے دورِ امامت میں بنی امیہ کے سلاطین میں ہشام بن عبدالملک ، ولید بن یزید بن عبد الملک ، یزید بن ولید ، مروان حمار اور خاندان بنی عباس کے ٢، افراد ابو العباس السفاح اور منصور دوانیقی تھے۔ ان میں عبدالملک کے بیس سال کا عہد اور منصور دوانیقی کے دس سال شامل ہیں۔ ( رئیس احمد ۔٢)
منصوردوانیقی ایک خود سر اور ظالم حکمران تھا۔ آئمہ اہلبیت اور ان کے دوستوں پر حاکمان وقت کے مظالم کے سلسلے میںصرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ” ایک سیل خوں رواں ہے حمزہ سے عسکری تک” منصور نے امام کو قتل کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ بالآخر اس کے حکم پر حاکم بن سلیمان نے آپ کو زہر دے دیا جس سے ١٥ رجب ١٤٨ ھ کو آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ بعض مورخین کے بموجب تاریخ شہادت ١٥ شوال ہے۔ ( عنایت حسین جلالوی۔٣)
٣۔ شخصیت کی عظمت:
شیعہ عقیدہ کی رو سے امامت کسبی نہیں بلکہ وہبی وصف ہے یعنی اس کا تعین خود اﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام دوسرے آنے والے کی نشان دہی کرتا ہے اس عمل کو (نص) کہتے ہیں یعنی منشائے الہیٰ کا اظہار، امام صادق(ع) کے بارے میں امام باقر (ع) کی بے شمار نصوص معتبر کتابوں میں ملتی ہیں( شیخ مفید ۔ الار شاد، بحار الانوار وغیرہ) ۔ امام جعفر ِ صادق کی عظیم شخصیت پر مسلسل اور انتھک کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئمہ علیہ السلام کی زندگی کا ہر قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان کی زندگی کا ہر پہلو صحیفہ رشد و ہدایت ہے۔ ان حضرات نے اپنی زندگیاں اطاعت خدا اور رسول میں وقف کردی تھی اور وحی الہٰی اور تعلیمات نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔ امام کی حیاتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ بشریت کی یہ قد آور شخصیت اپنے علم و عمل سے انسانیت کو کس قدر فیص بخشا ہے۔ اس کا اندازہ امام سے متعلق ان آراء سے ہوسکتا ہے ۔ جس کا اظہار مختلف مفکرین نے وقتاً فوقتاً کیا ہے اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔ ( محسن نقوی ۔٤)
٤۔ تصانیف:
نور المشرقین منِ حیاۃ الصادقین میں آغا سلطان مرزا نے ( اعیان الشیعہ) کے حوالہ سے امام کی تصانیف کی طویل فہرست دی ہیں ان میں سے چند مشہور حسب ذیل ہیں ۔ ( ١٥٠ تصانیف۔ ٨٠ بلاواسطہ اور ٧٠ بالواسطہ)
١۔رسالہ عبداﷲ ابن ِ النجاشی ۔ ٢۔رسالہ مروی عن الاعمش ٣۔ رسالہ توحید مفضل ٤۔کتاب الاہلیلجہ
ان کے علاوہ امام کے مختلف دینی اور لا دینی طبقات اور دہریوں سے مناظروں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جس میں اعترافات طبیب ہندی، امام ابو حنیفہ سے مناظرہ ، صوفیوں کے گروہ سے مناظرہ اور مشہور دہریہ ابو شاکر دیصانی سے مناظرہ قابل ذکر ہیں۔
٥۔ واقعہ حضرت زید اور سیاسی بصیرت:
امام کی شخصیت کے مطالعہ میں ان کی سیاسی بصیرت بھی زیر بحث آتی ہے۔ اس ضمن میں قاتلانِ امام حسینؑ کے خلاف حضرت زید ابن علی ابن الحسین کا معرکہ ایک اہم واقعہ ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد بنو حسن اور بنو حسین مدینے میں نہایت قلیل آمدنی پر گوشہ تنہائی میں گزارہ کرتے تھے سیاست میں مطلقاً حصہ نہیں لیتے تھے۔ ان کے علم و فضل اور زہد و عبادت کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کر تے تھے جس کی وجہ سے بنو امیہ اور بنو عباس ان کے مخالف تھے۔ انہیں طرح طرح سے اذیت دیتے تھے۔ بالآخر زید اور ان کے لڑکے یحییٰ کو بنو امیہ کے مسلسل ظلم نے تلوار سے اپنی حفاظت کرنے پر مجبور کردیا۔ ( جسٹس امیر علی، ہسٹری آف سارا سن) جناب زید خاندانِ اہلبیت کے ایک اہم فرد تھے اور علم حدیث اور فقہ میں آپ کا رتبہ بہت بڑا تھا۔ ٤٢ سال کی بھر پور جوانی میں بنو امیہ کے خلاف جہاد کیا اور ١٢٢ھ میں شہادت پر فائزہ ہوئے زید کے بعد ان کے بیٹے یحییٰ نے ان کی تحریک کو جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن ١٢٥ھ میں وہ بھی شہید ہو گئے۔
زید کے مجاہدہ کے اس حساس معاملہ میں امام کی پالیسی سمجھنے کے لئے یہ نکتہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ امام نے اپنی آنکھوں سے خوارج کا فتنہ دیکھا تھا، اس فتنہ نے اہلِ مدینہ کو جس کرب میں مبتلا اور شدت و مصیبت سے دو چار کیا تھا وہ بھی دیکھا۔ علم امامت سے وہ محمد نفس ذکیہ اور ابراہیم اور یحییٰ بن زید کے مستقبل سے واقف تھے جس میں باطل کی سرنگونی کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ان حالات میں گو امام زید کی تحریک میں عملاً شریک نہیں تھے وہ ان کی کامیابی کے آرزو مند تھے۔ اس ضمن میں امام کا یہ بیان قابل غور ہے۔ ” اﷲ تعالیٰ زید پر رحم فرمائے، وہ مومن تھے،عارف تھے۔ عالم تھے، صادق تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وفائے عہد کرتے، اگر حکومت ان کے ہاتھ آجاتی تو اس ذمہ داری کو خیر خوبی کے ساتھ وہ انجام دیکر دکھا دیتے۔” اس بیان میں وفائے عہد کلیدی الفاظ ہیں جو حضرت زید کی نیک نیتی پر سند ہیں۔ زید کے ساتھ امام کی عدم شرکت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو علم کی اشاعت اور فقہ کی تدوین جیسے اعلیٰ اہداف کی تکمیل کے لئے وقف کرنا چاہتے تھے جس کے نتائج دوامی نوعیت کے تھے۔ ( رئیس احمد۔٢)
٦۔ تدوین فقہ ایک جائزہ:
امام جعفر صادق(ع) کے تذکرہ میں ذہن فوری فقہ جعفری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ تدوین فقہ کی کوشش امام صادق کے حوالہ کے بغیر نا ممکن سمجھی جاتی ہے۔ مکتب تشیع کی فقہ یعنی فقہ جعفری تو اپنی وجہ تسمیہ ہی سے امام صادق(ع) کی مرہون منت اور احسان مندی ظاہر کرتی ہے۔
عربی میں فقہ کے لغوی معنی علم و فہم ہے اور فقیہ کے معنی عالم ہیں لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اصطلاحاً اس سے دینی مسائل اور استدلالی علم مراد لیا جاتا ہے۔ جس میں احکام شریعہ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ احکام واجب ، مستحب ، حرام ، مکروہ ، اور مباح کے محور کے اطراف اپنے میں سبب، شرط ، مانع ، صحت بطلان، رخصت اور عزیمت کے پہلو لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تمام فقہی اصطلاحات ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی اس مختصر تشریح کے بعد اب تدوین کا مطلب جمع کرنا یا مرتب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم تددوین کی نسبت سے امام جعفرِ صادق(ع) کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپ نے فقہ محمدیہ کے احکام کو جمع اور مرتب کیا کہ وہ ایک مستقل علم بن گیا۔ (مظفرحسن۔٣)
اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے چند واضح ادوار نظر آتے ہیں، امام صادق(ع) کی علمی فیوض کو سمجھنے کےلئے فقہ اسلامی کے تدریجی ارتقاء کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کا سبب سے پہلا عہد حضرت ختمی مرتبت کی ظاہری رسالت سے ١١ھ تک محیط ہے جس میں سوائے چند استثنائی واقعات ( صلح حدیبیہ، حدیث قرطاس) کے بظاہر مسلمانوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ رحلت سر کار کائنات کے فوری بعد سب سے بڑا فقہی اختلاف آنحضرت کی جانشینی کے سلسلہ میں نمودار ہوا اس دور میں جو پہلے تین خلفائے راشدین کے زمانہ یعنی تقریباً ٢٤ سال(٣٥ھ) تک پھیلا ہوا ہے قرآن اور سنت کے علاوہ فقہ کے ماخذ میں قیاس اور اجماع کا اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ روایت حدیث پر کڑی پابندی لگادی گئی جس کی وجہ سے قیاس پر زیادہ انحصار ہوا۔ تیسر ادور ٣٥ھ تا ٤٠ ھ میں خلافت امیر المومنین کے دوران قرآن و سنت ہی ماخذ فقہ رہے اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ ( شبیہہ الحسن۔٣) تدوین فقہ کا ایک اہم اصول فکر کی یکسانیت ہے فقہ کی تدوین میں احکامات الہیہ اور منشائے قدرت یعنی نص کے تعین کے لئے وصل قول بھی ایک اہم اصول رہا ہے۔ احکام فقہ میں نص کے تعین اور تلاش کے طریقوں پر تفصیلی بحث علامہ رشید ترابی نے ( اسلام میں اجتہاد) کے عنوان پر اپنے ایک مقالہ میں کی ہے جو ١٩٥٧ء میں ایک بین الاقوامی سیمنار میں پیش کیا گیا۔
اثنائے عشری شیعہ عقیدہ کی رو سے اسلام کی اصل تشریح وہی ہے جو وفاتِ پیغمبر کے بعد حضرت امیر المومنین سے لے کر بار ہویں امامت تک بلا فصل جاتی ہے۔ بالآخر ہر حکم کا منبع قول معصوم ہوتا ہے اور جو کچھ راوی کی زبان پر آئے گا وہ عصمت فکر اور معیار صداقت پر پورا اتریگا۔ ( اسد اریب ۔٥) حضرت علی سے امام حسین تک یہ وصل قول انتہائی بھر پور انداز میں عیاں ہے۔
چوتھا دور ٦٠ ھ تا ١٣٣ ھ کا ہے جو بنی امیہ کی خلافت کا زمانہ ہے اس دور میں شہادت امیر المومنین ، امام حسن کی ظاہری خلافت سے دستبرداری اور شہادت، سانحہ کربلا و مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تاراجی کے واقعات دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سلاطین بنو امیہ کس فقہ کے پابند تھے۔ جس میں ان باتوں کی انہیں اجازت تھی۔ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں البتہ فدک واپس کیا گیا لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ کس فقہ کے تحت چھینا گیا تھا۔
پانچواں طویل دور ١٣٥ھ سے ٢٦٠ھ یعنی ١٢٥ سال پر محیط ہے دور امام صادق کی امامت کے ابتدائی زمانے سے شہادت امام حسن عسکری کے بعد تک پھیلا ہوا ہے، سیاسی اور فکری اعتبار سے تاریخ اسلام کا یہ نہایت اہم دور تھا اس زمانے میں بے شمار تاریخ ساز واقعات اور تحریکات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں امت مسلمہ بشمول شیعہ فقہی اعتبار سے مختلف مسلکوں میں بٹ گئی۔ اس دور میں روایت حدیث پر کوئی پابندی نہیں تھی اور وقتی مصلحتوں اور حاکمانِ وقت کی سرپرستی کے نتیجے میں وضع حدیث ایک مشغلہ اور پیشہ بن گیا تھا۔ اس دور میں امام جنبل ،امام بخاری ،امام مسلم ، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی کی مسانید کی تدوین ہوئی اب وہ صحابہ اور تابعین بھی نہیں رہے جنہوں نے یہ احادیث سنے تھے اور اصل اور نقل میں تمیز کر سکتے تھے۔ مزید برآں فتوحات اور اسلامی سلطنت کی توسیع اور بڑھتے ہوئے بیرونی روابط کے نتائج میں ایک نیا خفلشار اسلامی فلسفہ میں ایران، روم اور یونان کے فلسفوں کی آمیزش کی صورت میں نمودار ہوگیا تھا۔ ( شبیہ الحسن ۔٣)
٧۔ تدوین فقہ اور امام صادق(ع)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس افرا تفری کے عالم میں فقہ اسلامی کو اس اصل روح میں محفوظ رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ واقعہ کربلا اور اس کے تسلسل میں دربارِ شام میں جناب زینب کے خطبہ نے ثابت کردیا کہ حق اور نا حق اورر استی اور گمراہی میں حد فاصل قائم رکھنے کا فریضہ آئمہ حق نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ یہ ذمہ داری ان آئمہ نے نہایت منصوبہ بندی سے انجام دی۔ اس کی خاموش ابتداء امام زین العبدین (ع) نے اپنی دعاؤں سے کی جن کے ذریعے امت کے افراد کے ذہنوں کی تربیت کا انتظام کیا گیا۔ بعد ازاں امام محمد باقر (ع) نے مدینے میں اپنی درس گاہ میں با قاعدہ درس کا آغا زکیاجس کی بنیادوں کو امام جعفر صادق(ع) نے استوار کیا۔ امام جعفر صادق(ع) کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ آپ کو اپنی ٦٥ سال عمر میں سے تقریباً ١٢ سال اپنے دادا حضرت علی ابن الحسین کی معیت میں اور پھر ١٩ سال اپنے والد ماجد کے زیر سایہ گزار نے کا موقع ملا اور پھر خود اپنی امامت کے ٣٤ سال میسر ہوئے۔ اس دوران بنو امیہ اور بنو عباس کو اپنی لڑائیوں میں مشغولیت نے آل محمد (ص) کے ساتھ تعرض کا موقع نہیں دیا۔ امام صادق(ع) نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس درس گاہ کو ایک عظیم دانش گاہ کے رتبہ تک پہنچا دیا۔ میرے راقم کے اندر کا استادیہ کہہ رہا ہے کہ اس دانشگاہ کے نصاب کا دستاویز بہت پہلے ہی امام زین العابدین نے صحیفہ کاملہ کی شکل میں تیار کردیا تھا۔ بظاہر یہ دعاؤں کا مجموعہ اپنے اندر حکمت اور دانائی، احکام خداوندی، عبد اورمعبود کے تعلقات، حقوق الناس اور تخلیق کائنات جیسے کثیر الجہت عنوانات پر مشتمل تھا جو پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔ محمد ابن یعقوب کلینی نے ١٦١٩٩ احادیث پر مشتمل اصول کافی بطور تدریسی مواد مہیا کیا جس کو من لا یحضر الفقیہ، تہذیب اور استبصار نے مزید و سعت دی اور اس طرح تقریباً ٦٠ ہزار احادیث پر مشتمل یہ مایہ ناز سر مایہ بنا جس کی موجودگی میں ہمارے علماء کو قیاس اور رائے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امام صادق(ع) کی تدوین فقہ کی انہی کوشش کی بنا ء پر فقہ محمدی کو فقہ جعفری سے موسوم کیا گیا کیونکہ اس کو فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سے ممتاز کیا جاسکے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب باقی فقہوں کو ریاست کی سرپستی حاصل تھی فقہ جعفری پُر زور مخالفتوں کا مقابلہ کرتی ہوئی پھیلی اور یوں اپنی ترقی کی راہیں طے کرتی رہی( محمد حسین ۔٦) اس کی ارتقاء میں قابل ِ ذکر سنگِ میل علامہ حلی( ساتویں صدی) علامہ بہبہانی ( گیارہویں صدی) شیخ مرتضیٰ (تیرھویں صدی) اور پھر موجودہ دور میں ایران ، عراق، بیروت اور دمشق کے حوزہ علمیہ نے اس کی آبیاری کا فریضہ سنبھالا ہواہے۔
موجوده دور میں فقہ جعفری کی اعلیٰ علمی حلقوں میں پذیرآئی کی ایک قابل ذکر مثال مصر کی عظیم دانشگاہ جامعہ ازہر کے چانسلر مفتی علامہ شیخ محمود شلتوت کا ایک منصفانہ اور جرات مندانہ قدم ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اجتہاد کا دروازہ کھلاہے اور قوی دلیل کی موجودگی میں ایک مذہب یافقہ کے ماننے والوں کے لئے دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے اور اس بناء پر انہوں نے قانونی طور پر فتویٰ دیا کہ دوسرے مذہب کی طرح شیعہ فقہ پر بھی عمل صحیح ہے۔ ان کا یہ اقدام قدر و منزلت کا متقاضی ہے۔ (عقیقی۔٧)
فقہ جعفری کی برتری کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ دیگر تمام فقہوں کے بانی بالواسطہ یابلا واسطہ امام صادق کے شاگرد تھے اور اس پر ان کو نازل بھی تھا۔ فقہ جعفری میں دور جدید کی ضروریات کے مطابق اجہتاد کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کی تمام صلاحتیں موجود ہیں۔ یہ ایک عادلانہ نظام ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز کی راہ بتاتا ہے جہاں سرور کے موقعوں پر خوشی کے اظہار کا ڈھنگ اور آلام و مصائب میں تعزیت کے اسلوب بتائے جاتے ہیں۔ جہاں اکابرین کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور عبرت کے نشانات سے دوری سکھائی جاتی ہے یہ ایک صالح معاشرے کے قیام میں مدد دیتا ہے۔ ( عبدالکریم مشتاق ۔٣)
source : www.tebyan.net