- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 12 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/15
- 0 رائ
٨۔ امام جعفر صادق(ع) کے علمی فیوض:
مخلوقات کی ہدایت کی غرض سے انبیاء اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ تخلیق کیا گیا جو ہم تک آنحضرت اور آئمہ اہلبیت کی صورت میں پہنچا۔ باوجود یکہ ختمی مرتبت کے بعد کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع نہ ماحول میسر ہو سکا ہر امام نے اپنے عہد میں فیوض امامت امت تک پہچانے کا مناسب انتظام کیا۔ کربلا کے مصائب کے بعد امام زین العبدین(ع) نے ایک انوکھے انداز میں تبلیغ دین کی جو صحیفہ کاملہ کی صورت میں آثارِ علمیہ کا ایک شاہکار ہے۔ امام محمد باقر(ع) وہ کوہِ علم ہیں جس بلندیوں تک انسان کی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ آپ کا شریعت کدہ علم و حکمت کا سرچشمہ تھا۔ امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت کا اہم رخ یہ ہے کہ آپ نے اپنے علمی انقلاب سے معارف اسلام کے افق کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل بعد جب حضرت امام رضا نیشا پور میں قدم رکھتے ہیں تو ہزار ہا افراد امام کی اواز سننے اور ارشاد کوکاغذ پر محفوظ کرنے سراپا مشتاق تھے ( احمد علی۔١)
یوں تو سلسلہ امامت کے ہر فرد نے جس قدر ممکن ہوسکا ظلم و ستم اور قیدو بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا، لیکن امام صادق(ع) کو اپنے عہد میں موقع مل گیا تھاکہ آنحضرت کے مقصد یعنی ( کتاب و حکمت کی تعلیم) کو فروغ دیں۔ اس دور میں علم کا پھیلا ؤ اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل کھلی مجلسوں میں زیر بحث آنے لگے ۔ اس ضمن میں جسٹس امیر علی لکھتے ہیں۔ ” یہ تحریک امام صادق(ع) کی سر کردگی میں آگے بڑھی جن کی فکر و سیع ، نظر عمیق اور جنہیں ہر علم کی دستگاہ حاصل تھی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکرکے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مجلس بحث ودرس میں صرف وہی افراد نہیں آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے حاضر ہوتے تھے۔ ”
دوسری صدی کی ابتداء یعنی ١٣٣ھ میں اموی خلافتوں کے خاتمہ پر عباسی دور شروع ہوا۔ یہ عبوری دور انتقال و تحویل اقتدار کی کشمکش کا وقفہ تھا، جس کو استعمال کرتے ہوئے امام صادق(ع) نے علوم و معارف اسلام کی ترویج و اشاعت کا اہم کام انجام دیا۔ یہ وہ دور تھاجب فتوحات اور بیرونی دنیا سے بڑھتے ہوئے روابط کے نتیجے میں رومی اور یونانی فکری اثرات عربستان میں مختلف فنون، علوم اور نظریاتی رجحانات کو متاثر کر رہے تھے جو اسلام کے خلاف ایک بیرونی یلغار ثابت ہو رہے۔ ( موجودہ عالمگیر یت یا گلوبلائزیشن کی ایک صورت میں) یہ ایک ایسی سرد جنگ تھی جس کے زہر یلے اثرات اور ہلاکت سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا صرف تلوار کی دھار اور اسلحہ کی طاقت سے ممکن نہ تھا کیونکہ علم و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ نسلی تعصب اور جہالت سے فکری اور علمی طوفان پر بندھ نہیں باندھ سکتے ( علامہ رضی۔٣) امام صادق واقف تھے کہ ایسی صورت میں سب سے بہتر حکمت عملی امت مسلمہ کو حصول علم و دانش کی طرف راغب کرنا ہے۔ ان فیوض کے اجراء کے لئے مدینے میں آپ کا گھر اور مسجد نبوی ایک بڑے علمی تحقیقی مرکز کی شکل اختیار کر گئے اراس حلقہئ تعلیم ، تدریس و تحقیق میں کم از کم چار ہزارطلباء مختلف شہروں اور ملکوں سے آکر زیر تعلیم تھے۔ شیخ طوسی کے بموجب یہ تعداد ٣١٩٧ مرد اور ١٢ خواتین پر مشتمل تھی۔ حسن بن علی بن زیاد جو شاگرد امام رضا(ع) تھے اور خود بھی اساتذہ حدیث میں شمار ہوتے تھے فرماتے تھے کہ ” میں نے مسجد کوفہ میں نوسو استاد حدیث کو دیکھا ہے جو امام صادق(ع) سے حدیث نقل کرتے تھے” صاحبان اصول یعنی وہ لوگ جو اصل کتاب جس میں راوی اور معصوم کے درمیان صرف ایک واسطہ ہوتا ہے امام کی خدمت میں حاضر ہو کر ارشادات قلم بند کرتے جاتے۔ اس طرح ایسی چار سوں کتابیں تیار ہوئیں جن کو” اصول اربعماۃ”(چار سو اصول) کہا جاتا ہے۔ محمد ابن یعقوب کلینی نے چار سو کتابوں کی مدد سے ” اصول کافی” مرتب کی جو فقہ جعفریہ کی بنیادی کتاب ہے۔( محمد محمدی۔٨) یہ امام صادق(ع) کا فیض تھا آج ہمارا حدیثوں کا سرمایہ اتنا مستند اور مستحکم ہے۔
امام صادق(ع) کے علمی فیوض کے ضمن میں یہ عرض ہے کہ علم تو آئمہ کی میراث ہے جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سوال کرنے والے کو مطمئن کردیا۔ ان کے ذاتی تقدس اور دینی نظام میں ان کے مقام کے حوالے سے امام سے حصولِ فیوض کو زیادہ تر دینی معاملات تک محدود رکھا گیا۔ یہ ہماری بصیرت کی کوتاہی ہے۔ ورنہ علوم طبعیہ اور کونیہ (کائناتی معلومات) علوم میں بھی ہم اپنے آئمہ کو انتہائی مقام پر فائز دیکھتے ہیں۔ نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں اس ضمن میں بے شمار اشارے موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے امام جعفر صادق کو درس و تدریس ، بالمشافہ افہام و تفہیم ، مناظرون اور مواعظہ حسنہ کی صورت میں ایسا ما حول اور موقع میسر ہو اکہ علوم جدیدہ کے شعبہ میں بھی اپنے فیوض سے مستفید کر سکے بلکہ یہ کہنا بر محل ہوگا کہ اس سلسلہ میں بھی انہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ (محسن نقوی ۔٤)
٩۔مغز متفکر اسلام:
مختلف علوم میں امام کی دسترس کا بنیادی راز یہ ہے کہ آئمہ اور معصومین کا علم لدنی ہوتا ہے اور کائنات کی ہر چیز ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ یہ الہامی علم ہے جس کی بنیاد روحانیت ، تزکیہ نفس اور معارف الہیہ ہیں اس موقع پر ایک اہم کتاب کا حوالہ مقصود ہے جس کا ہمارے علمی حلقوں میں بے حدچرچا ہے، فرانس کے شہر اسٹراسبرگ کی یونیورسٹی کے مطالعاتی مرکز سے شائع ہونے والی کتاب کا فرانسیسی زبان سے ذبیح اﷲ المنصوری نے ”مغز متفکر جہانِ شیعہ ” کے نام سے فارسی ترجمہ کیا تھا۔ ہمارے دانشور محمد موسیٰ رضوی نے اس کتاب کی اردو زبان میں تلیخض ” حضرت امام جعفری صادق کے بارے میں ٢٣ یورپی دانشوروں کی تحقیق” کے عنوان سے دو حصوں میں ادارہئ تبلیغات ِ اسلامی کے ذریعہ شائع کروائی۔ اردو داں طبقہ کے لئے ان کی یہ خدمت لائق تحسین ہے۔ بعد ازاں قیام پبلی کیشنز لاہور نے ١٩٩٤ء میں اصل فارسی کتاب کا مکمل اردو ترجمہ شائع کیاجس کے مترجم سید کفایت حسین ہیں۔ اصل کتاب کی مناسبت سے اس کا نام ” مغز متفکر اسلام ” ہے لیکن اس کا عوامی نام ” سپر مین اِن اسلام ” زیادہ زبان زد عام ہے۔
اس کتاب میں ایسے مطالب درج ہیں جو پہلی مرتبہ عام قاری تک پہنچے ہیں، یہ کتاب ایک علمی کاوش ہے جو ٢٥ دانشوروں کی تحقیق کا نتیجہ ہے جس میں صرف دو مسلمان ہیں (حسین نصر، موسیٰ صدر) باقی یورپ اور امریکہ کی مختلف جامعات سے منسلک پروفیسر اور مستشرقین ہیں۔ اس کا وش کا پس منظر یہ ہے کہ ستر ہویں صدی عیسوی سے اسلامی مسائل یورپ کے دانشوروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے ۔ اسٹر اسبرگ یونیورسٹی کا تحقیقاتی مرکز جوادیاں عالم پر ریسرچ کرتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد اہل تشیع اور ان کے مذہب کی عظیم شخصیات کی علمی سطح ، خدمات اورفیوضات کا جائزہ لیا اور اس جائزہ کے دوران مختلف کتب خانوں میں موجود شیعہ دانشوروں کی علمی تحقیقات اور دستاویزات کے مطالعہ کے نتیجہ میں ان دانشوروں کو امام جعفر صادق کی آفاقی شخصیت کا پہلی مرتبہ انداز ہوا۔ (موسیٰ رضوی ۔٩)
یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ممتاز دانشور محمد ابوزہرا مصری کے مطابق” اختلاف فکر و نظر اور اختلاف حزب و طائفہ کے باوجود علماء اسلام کسی امر پر اس درجہ متفق نہیں ہوئے جتنے امام جعفر صادق کے علم و فضل پر یعنی حق زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتا ۔ یہان یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کے انتخاب کی اساس امام صادق کی روحانیت نہیں ہے اور نہ یہ توقع رکھنی چاہئے کی متذکرہ غیر مسلم دانشور امام کی ذاتی، مذہبی یارو حانی شخصیت کی طرف کوئی جھکا ؤ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے امر باعث طمانیت ہے جو نتائج اخذ کئے گئے اور جو انکشافات پیش کئے گئے بالکلیہ علم و فضل اور سائنسی علوم کی جانچ کے عالمی معیار پر پورے اترے، یہی اس کتاب کی پذیرائی کا منفرد پہلو ہے۔ اس کتاب میں علوم جدیدہ سے متعلق انکشافات اور مندرجات پڑھ کر ایک فخر محسوس ہوتا ہے جب امام ایک استاد کی طرح نہایت دقیق مسائل مثلاً ماحول کا تحفظ ، دنیا کے حالات میں بد نظمی کے اسباب ، کائنات کا متحرک ہونا، تخلیق کائنات ، وائرس ، جراثیم اور اینٹی باڈیز( ضد اجسام) اور مادہ کی دوامیت جیسے نظریات کے اسباب و علل اور توضیحات نہایت آسان پیرا یہ میں سمجھا تے ہیں ۔ تیرہ سو سال پہلے جب انسانی ذہن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا اور نہ صحت کے ساتھ جانچنے والے آلات موجود تھے اس وقت امام جعفر صادق(ع) نے حیات و کائنات کے حوالہ سے ایسے افکار و نظریات پیش کئے جو صدیوں بعد علمی اور سائنسی تجربات کی پیش رفت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات سے حد درجہ مطابقت رکھتے ہیں۔ ( کفایت حسین ۔١٠)
١٠۔ چند مثالیں
اس مقالہ میں ان امور پر تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں لیکن صرف سرسری طور پر چند نظریات کی طرف اشارہ مقصود ہے تاکہ تجس کو مہمیز ملے۔
ا۔ عناصر اربع: امام نے واضح کیاکہ عناصر اربع میں ہوا ایک مجرو عنصر نہیں اور نہ ہی پانی ، بلکہ یہ مرکبات ہیں آج ہمارے پاس ١٠٩ عناصر کی ایک طویل فہرست ہے ۔
ب۔ زمین کی حرکت: امام نے آیاتِ قرآنی کی روشنی میں ثابت کیا کہ سورج اپنی جگہ قائم ہے اور زمین سورج کے اطراف اپنے محور کے گرد گھومتی ہے جس سے دن رات اور موسم تبدیل ہوتے ہیں ، یہ ایک انقلابی دریافت ہے۔
ج۔ ماحول کے تحفظ کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ آدمی کو زندگی اس طرح گزارنی چاہئے کہ اس کا ماحول آلودہ نہ ہو ورنہ بالآخر زندگی گزارنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائیگا۔ آج ماحولیات سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
د۔ امام کی نظر میں طوفان، سیلاب ، زلزلہ کائنات کی بدنظمی نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ناقابل ِ تسخیر اور تغیر قواعد کی اطاعت کا نتیجہ ہے جس کے خلاف انسان کو ئی تدارک نہیں کرسکتا۔ ( ثقلین ۔١١)
خلاصۃ عرض ہے کہ امام صادق(ع) نے کلیات کی طرف اشارہ کردیا ہے اگر ان کی جزئیات پر موجود سائنس علوم اور وسائل کے ساتھ تحقیق کی جائے تو انسانیت کی بھلائی کے اسباب مہیا ہو سکتے ہیں۔
١١۔ امام صادق(ع) کے شاگرد اور اصحاب:
ایک درخت اپنے پھل سے، ایک آدمی اپنے ساتھیوں سے اور ایک استاد اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ امام صادق(ع) کے شاگرد اور اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے ان میں چند معروف نام آبان بن تغلب ، ہشام ابن الحکم، مفضل بن عمر، حماد بن عیسیٰ ، زرارۃً بن اعین، محمد بن علی المعروف مومن طاق اور آخر میں لیکن بہت قابل احترام جابر بن حیان ہیں۔
امام جعفر صادق سے پہلے تحصیل علم کے لئے لوگوں میں خاص رغبت نہیں پائی جاتی تھی اس عدم تو جہی کا ایک سبب درس و تدریس کا طریقہ تھا، مسلمانوں میں حصول ِ علم کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے امام صادق(ع) نے باہمی ربط کا موثر طریقہ رائج کیا جس کو موجودہ زمانہ میں Intractive طریقہ کہتے ہیں اس میں شاگرد کو سوالات کرنے کی آزادی تھی امام سے مختلف افراد کے مناظروں میں اس طریقہ کی جھلک نظرآتی ہے، امام کی دانشگاہ میں مختلف علوم یعنی فقہ، حدیث ،اصول، علم کلام اور تفسیر کے علاوہ علوم طبیعی اور علمِ ابدان سے متعلق امور پر درس و تدریس اور بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ امامؑ اپنے شاگردوں کو تاکید فرماتے تھے کہ جو کچھ سمجھو اور سنو لکھ لو کیونکہ جب تک لکھو گے نہیں اس وقت تک حفاظت نہ کرسکو گے۔ علم و حکومت کو زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لئے ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے، انسان کا حافظہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو تحریر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امام صادق کا منشایہ تھاکہ ذہن کی دی ہوئی دولت اور بصیرت کی نعمت کو الفاظ کے مکتوبی حصار میں محفوظ کرلینا چاہئے۔ ( مظفر حسن ۔٣)
امام کے چند شاگردوں کا مختصر تذکرہ حسب ذیل ہے۔
الف۔ آبان بن تغلب ابو سعد الکوفی: انہوں نے ٣ آئمہ کا زمانہ دیکھا۔ یعنی امام زین العابدین، سے امام صادق(ع)، وہ قاری بھی تھے اور فقیہ بھی۔ قرآن، حدیث، نعت اورتجوید میں دوسروں پر سبقت رکھتے تھے ان کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ امام محمدباقر(ع) نے ان سے فرمایا تھا کہ مسجد مدینہ میں بیٹھو اور لوگوں کو فتوے دو اس کے علاوہ سوائے صحیح بخاری کے دیگر تمام صحابہ میں ان کے حوالہ سے روایتیں موجود ہیں یعنی یہ بین الفریقین قابل اعتماد ہیں۔ ان کی اہم کتاب (غریب القرآن) ہے جو اس موضوع پر پہلی کتاب ہے جس میں الفاظ قرآنی کے مفہوم پر اشعار عرب سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ”کتاب الفضائل” اور” کتاب القرات” آپ کی اہم تالیفات ہیں۔ (محسن نقوی۔٤)
ب: ہشام بن الحکم البغدادی لکندی: ان بزرگ ہستی کا تاریخ اور رجال کی کتب میں خاص تذکرہ کیا گیا ہے ان کی علمیت کے اندازہ کے لئے یہ کافی ہے کہ انہوں نے ”الردعلیٰ ارسطا طالیس” نامی کتاب میں ارسطو کے فلسفہ پر تنقید کی ہے ۔ ان کی پوری زندگی مناظروں میں گزری جس میں جاثلیق نصرانی عالم سے مناظرہ، امامت حق کی اطاعت کا وجوب اور ابو حنفیہ سے مناظرے شامل ہیں۔ امام صادق(ع) سے رسائی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی مذہب کو تبدیل کردیا اور مکمل طور پر اپنے آپ کو خدمت امام کے لئے وقف کردیا اور آخری وقت تک پاسداران ولایت ہی رہے۔ ان کی تصانیف بصورت مناظر ے کے حوالے موجود ہیں۔ ہشام کے متعلق امام صادق(ع) کا قول ہے ”ہشام ہمارے حق کا سراغ رساں ہے ہماری صداقت کا موئد ہمارے اعدا کی باطل قوتوں کا دفع کرنے والا ہے۔” امام محمد تقی (ع) نے ہشام کے متعلق کہا۔ ” اﷲ ان پر رحمت کرے وہ کسی طرف سے ہم پر حرف نہیں آنے دیتے تھے۔”(محسن نقوی ۔٤)
ج۔ جابر بن حیان: امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت اور علمی فیوض کے سلسلے میں جابر بن حیان طوسی کے ذکر کو خصوصیت حاصل ہے، جابر ١٠٤ ھ میں پیدا ہوئے اور ٢٠٢ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ حجاج بن یوسف کے ہاتھوں اپنے والد کی شہادت کے بعد مدینہ آگئے اور امام کی خدمت میں پہنچے۔ جابر نے امام سے کسب فیض کے بعد علم کیمیا میں اہم انکشافات اور نظریات پیش کئے جس کی بناپر ان کو ”بابائے کیمیا” کے لقب سے یاد کرتے ہیں جابر نہ صرف علم کیمیا کے ماہر تھے بلکہ حیاتیات اور نباتات ، علم حجر( جیالوجی) اورنفسیات پربھی ان کے متعدد کتابیں اور رسالے موجود ہیں۔
جابر کی سائنس کی بنیاد کلام الہی پر ہے۔ جابر نے امام صادق(ع) سے روایت کی کہ ( پارہ چاندی) ہے جو آگے چل کر تمام عناصر میں یگانگت اور صرف ایٹمی نمبر کے فرق کے نظرئے کی توثیق کرتا ہے۔ جابر کلام معصوم کے حوالہ سے ایک سائنسدان کی صفت کا پروفائل یوں بناتے ہیں ” کہ علوم عقلیہ پر تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ صالح ہو اور کلام مجید اور کلام معصومین سے آگاہی رکھتا ہو۔ ایسے شخص کو فاضل ہونا چاہئے، اور بصیرت والی آنکھیں ہونی چاہئے اسے آلات کے استعمال کا علم ہونا چاہئے۔ ( علی سرور ۔٣)
آخر میں عرض یہ ہے کہ مغرب کے علمی سفر کا آغاز سولہویں صدی سے ہو تا ہے جبکہ لوگ نو جوانوں کو مشورہ دیتے تھے کہ تہذیب یا علم کے لئے عربی سیکھو جس کی بنیاد وہ معلومات یا نکات ہیں جن کو امام صادق کے فیض اور سرپرستی میں حاصل کر کے جابر جیسے شاگرد وں نے سائنس کو مالا مال کردیا، جابر کے ٥٠٠ رسائل اور کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا گیا کچھ کتابیں فرانسیسی تراجم کے ساتھ ایران ، مصر، ترکی ، جرمنی اور فرانس کے کتب خانوں کی زینتیں ہیں۔ اب انٹر نیٹ اور ویب کی سہولتوں کے ذریعے امام کے فیوض دنیا کے ہر کونے میں علم کے پیاسوں کی دسترس میں ہیں۔
١٢۔ فقہ جعفری میں گروہی تقسیم:
مقالہ کے اختتامی مرحلہ پر فقہ جعفری میں گروہی تقسیم کے اسباب و عمل کا جائزہ ضروری ہے، بڑے فرقوں میں مرور زمانہ کے ساتھ تفریق و تقسیم تعجب کی بات نہیں شیعیت میں گروہی تقسیم کے واقعات عہد امام جعفر صادق(ع) سے پہلے بھی رونما ہوئے تھے لیکن امام صادق کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا جس کے نتیجے میں شیعہ بالآخر اسماعیلی ، بوہری اور اثنا عشری مسلکوں میں تقسیم ہو گئے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ منصب امامت ” بذریعہ نص” کے بارے میں جو وحدت فکر تھی اس میں بتدریج تبدیلی ظہور پذیر ہوئی اور منصب امامت بطورایک کسبی رتبہ کے نظریہ کا فروغ ہوا۔ اس رجحان سے متوازی قیادت کا تصور ابھرا جو امامت ازروئے نص کے اصول سے متادم تھا۔
شیعیت میں تفریق کا ایک اور ممکنہ سبب بھی قابل غور ہے، امام صادق(ع) نے شیعیت کو ایسے نقطہ عروج پر پہنچادیا تھا کہ ہر کوئی طالع آزما اس کو اپنے مفاد میں اپنا نا چاہتا تھا لیکن مجبوری یہ تھی کہ ان میںکوئی بھی اس پایہ کا عالم یا محدث نہیں تھاکہ فقہ جعفری سے بہتر تصور پیش کرسکے۔ بالآخر انسانی ذہن کی تخریبی صلاحیتوں کے ذریعے ایک عظیم الشان مسلک میں شکست و ریخت کے سامان پیدا کئے گئے۔ اس منصوبہ کو انجام دینے کے لئے امام صادق کے سب سے بڑے بیٹے اسماعیل کی وفات کو نزاعی مسئلہ بنادیا جب کے اسماعیل امام کی زندگی میں ٢٦ سال کی عمر میں ١٣٣ھ میں وفات پا چکے تھے۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسماعیل کو منصور دوانیقی کے ظلم سے بچانے کے لئے ان کی وفات کا شہرہ کیا گیا لیکن اس ضمن میں تاریخ خاموش ہے۔ کسی کمزور یا بے بنیاد نص کو بناء پر امام صادق کی شہادت کے بعد ایک گروہ نے امامت کو اسماعیل کے ذریعہ ان کے بیٹے محمد تک پہنچا دیا اور انہیں اپنا ساتواں امام مان لیا اور سبعیہ کہلائے۔ یہ ١٣٣ھ میں محمد ابن اسماعیل کی وفات کے بعد امامت ختم سمجھتے ہیں اور ہدایت کے لئے ایک حاضر امام کا وجود ضروری سمجھتے ہیں۔ اپنے اس عقیدے کی ترویج کے لئے انہوں نے افریقہ کو مناسب سمجھا کیونکہ یہ عباسیوں کی دسترس سے دور تھا۔ مزید یہ کہ افریقہ میں امام جعفر صادق نے ١٤٥ ھ میں عقائد اہلبیت کی تعلیم کے لئے دو داعی بھیجے۔ مصری فاطمئین کے دور میں اسماعیلی عقیدے کو رواج ملا۔ ان کے ایک نامور امام نزار( عزیز باﷲ) کے انتقال پر ٣٤٤ھ ١١٩٥ء میں نیابت کے مسئلہ پر ان میں دو شاخیں ہوگئیں۔ ایک گروہ آغا خانی اور اسماعیلی اور دوسرا نزار کے بھائی مستعلی کی تقلید کی نسبت سے مستعلیہ کہلایا۔ موخر الذکر نے فقہ جعفری کی تقلید میں اپنے ہاں ایک مہدی غائب کا تصور پیش کیا اور ہدایت کے امور ایک داعی کے سپرد کردیئے جو ابھی تک جاری ہے۔ ( زاہد علی ۔١٢) عام زبان میں شش امامی داؤدی بو ہرہ کہلاتے ہیں۔ دیگر فقہی امور میں یہ فقہ جعفری سے قریب ہیں اس کے برعکس اسماعیلی عقائد میں فقہ جعفریہ سے انحراف ہے، دونوں گروہ دنیوی آسائش اور نجات اُخروی کے وعدوں پر پیرؤں کو اپنی طرف کھنچتے ہیں۔
شیعوں کا وہ گروہ جو امام صادق(ع) کی نص کی بنیاد پر حضرت امام موسیٰ کاظم(ع) کے ذریعہ سلسلہ امامت کو بارہویں ہادی تک مسلسل رکھا وہ شیعہ اثنا عشری کہلائے اور یہی اپنے آپ کو اعلانیہ فقہ جعفری سے متمسک قرار دیتا ہے۔
شیعوں میں گروہی تقسیم کی اس بحث کے منطقی انجام میں یہ عرض ہے کہ تاریخ امامت حقہ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک امام کے بیٹوں کے درمیان امامت پر فائز ہونے کے مسئلہ پر اختلاف ہو جائے یا جس بیٹے کو امام نے جانشین قرار دے دیا وہ باپ کی زندگی میں ہی وفات پا جائے اور نص کی تنسیخ ہو جائے۔ اس لحاظ سے بحمد اﷲ فقہ جعفری پر عامل مومنین کو اپنی فقہ کی حقانیت پر صد فیصد یقین اور اطمینان قلب ہے، خدا ہم کو اس مسلک پر ثابت قدم رکھے۔
source : www.tebyan.net