- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/06/08
- 0 رائ
حالات پر غورو فکر کرنے سے ہر صاحب نظرکے لئے واضح زهو جاتا ھے کہ خلفائے وقت اور دشمنان اہل بیت علیہم السلام جتنا ائمہ ھدیٰ کو جسمانی اذیتیں پہنچا کر نابود کرنے کی کوشش کرتے تھے اوران کے شیعوں سے سختی سے پیش آتے تھے، اتنا ہی ان کے پیروکاروں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور ان کا ایمان مزید مستحکم ہوتا جارہا تھا اوردربار خلافت ان کی نظروں میں ایک نجس اور ناپاک دربار سمجھا جاتا تھا۔
یہ مطلب، ایک باطنی عقیدہ تھا جوائمہ اطہارعلیہم السلام کے معاصر خلفاء کو ہمیشہ رنج وعذاب میں مبتلا کر رہا تھا اور حقیقت میں انھیں بے بس اور بیچارہ کرکے رکھ دیا تھا۔
مامون، بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا اور حضرت امام رضاعلیہ السلام کا معاصر تھا۔ اس نے اپنے بھائی امین کو قتل کرنے کے بعد خلافت پر اپنی گرفت مظبوط کرلی اور اس فکر میں پڑا کہ اپنے آپ کو باطنی رنج و پریشانی سے ہمیشہ کے لئے نجات دے اور زور و زبردستی اور دبائو کے علاوہ کسی اور راستہ سے شیعوں کو اپنے راستہ سے ہٹا دے۔
اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جس سیاست کو مامون نے اختیار کیا، وہ یہ تھی کہ اپنا ولی عہد، حضرت امام رضا علیہ السلام کو بنایا تاکہ حضرت کو ناجائز خلافت کے نظا م میں داخل کر کے، شیعوں کی نظروں میں آپ کو مشکوک کر کے ان کے ذہنوں سے امام کی عصمت وطہارت کو نکال دے۔ اس صورت میں مقام امامت کے لئے کوئی امتیاز باقی نہ رہتا، جو شیعوں کے مذہب کا اصول ہے، اس طرح ان کے مذہب کی بنیاد خود بخود نابود ہو جاتی۔
اس سیاست کو عملی جامہ پہنانے میں ایک اور کامیابی بھی تھی وہ یہ کہ، بنی فاطمہ کی طرف سے خلافت بنی عباس کو سرنگوں کرنے کے لئے جو پے درپے تحریکیں سراٹھا رہی تھیں، ان کو کچل دیا جاتا، کیونکہ جب بنی فاطمی مشاہدہ کرتے کہ خلافت ان میں منتقل ہوچکی ہے، تو فطری طور پر اپنے خونین انقلابوں سے اجتناب کرتے۔ البتہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بعدامام رضاعلیہ السلام کو راستے سے ہٹانے میں مامون کے لئے کوئی حرج نہیں تھا۔
مامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کو پہلے خلافت قبول کرنے اوراس کے بعد ولی عہدی کاعہدہ قبول کرنے کی پیش کش کی۔ امام نے مامون کی طرف سے تاکید، اصرار اور دھمکی کے نتیجہ میں آخر کار اس شرط پر ولی عہدی کو قبول کیا کہ حکومت کے کاموں میں جیسے عزل و نصب میں مداخلت نہیں کریں گے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے ایسے ماحول میں لوگوں کے افکار کی ہدایت کرنے کا کام سنبھالا اور جہاں تک آپ کے لئے ممکن تھا مختلف مذاہب وادیان کے علماء سے بحثیں کیں اوراسلامی معارف اور دینی حقائق کے بارے میں گراں بہا بیانات فرمائے (مامون بھی مذہبی بحثوںکے بارے میں کافی دلچسپی رکھتا تھا) اسلامی معارف کے اصولوں کے بارے میں جس طرح امیر المومنین کے بیانات بہت ہیں اور دیگر ائمہ کی نسبت بیش تر ہیں۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ تھی، کہ آپ کے آباء واجداد کی بہت سی احادیث جو شیعوں کے پاس تھیں، ان سب کوآپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ کے اشارہ اور تشخیص سے ان میں سے، دشمنوں کے نا پاک ہاتھوں کی جعل اور وضع کی گئی احادیث کو مشخص کرکے مسترد کیا گیا۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ولی عہدی کے طور پر جو سفر مدینہ منورہ سے” مرو”تک کیا، اس کے دوران ، خاص کر ایران میں عجیب جوش و خروش پیدا ہوا اور لوگ ہر جگہ سے جوق در جوق زیارت کے لئے آپ کی خدمت میں آتے تھے اور شب و روز آپ کے شمع وجود کے گرد پروانہ وار رہتے تھے اور آپ سے دینی معارف و احکام سیکھتے تھے۔
مامون نے جب دیکھا کہ لوگ بے مثال اور حیرت انگیز طور پر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی طرف متوجہ ہیں تو اس کو اپنی سیاست کے غلط ہونے کا احساس ہوا، اسلئے اس نے اپنی غلط سیاست میں اصلاح کرنے کی غرض سے امام کو زہر دیکر شہید کیا اور اس کے بعد اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کے بارے میں خلفاء کی اسی پرانی سیاست پر گامزن رہا۔
امام رضا علیه السلام کی شہادت
مامون رشید نے امام(ع) کو صرف اس غرض سے ولی عہد بنایا تھا کہ امام(ع) کے ذریعہ علویوں کی مخالفت پر قابو پائیگا اور امام(ع) اس کے سیاسی امور میں مدد کریں گے۔ جب اس نے امام کی امور سلطنت میں بے رخی دیکھی اور ساتھ ساتھ آپ(ع) کے علم، فضل اور روحانیت کا چرچہ دیکھا تو وہ عوام کی متوقع بیداری سے خائف ہوگیا اور اس کو خلافت عباسی کے لئے خطرہ سمجھا، بغداد کے عباسیوں پر قابو پانے سے پہلے اس نے اپنے وزیر خاص فضل بن سہل کو قتل کروایا اور پھر ٢٠٣ھ میں امام(ع) کو زہر دیکر شہید کردیا ”ایک سیل خوں رواں ہے حمزہ سے عسکری تک۔” مورخین کی اکثریت ماموں کو اس جرم کا ذمہ دار سمجھتی ہے جبکہ بعض امام(ع) کی ناسازی طبع کو رحلت کا سبب قرار دیتے ہیں اور شبلی نعمانی”المامون” میں مامون کو اس جرم سے بالکل بری قرار دیتے ہیں۔
امام (ع) کے روز شہادت میں ١٧ صفر، آخر ماہ صفر اور رمضان کے آخری ہفتہ کی تواریخ قابل ذکر ہیں۔ مقام قبر کے لئے خراسان کے انتخاب پر ابن حسن جارچوی لکھتے ہیں کہ عید کے دن امام نماز تو نہ پڑھاسکے لیکن اہل خراسان کو امام کے بلند مقام کا اندازہ ہوگیا اور ان کے دلوں میں امام(ع) کے لئے مودت اس قدر پیوست ہو گئی کہ آج صدیاں گزر نے کے بعد بھی ان کی وفاداریاں عیاں ہیں شاید ان کا یہی طرز عمل تھا کہ امام(ع) نے اس سر زمین کو اپنا دائمی مسکن بنا لیا۔
تتمہ
تتمہ کلام میں اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) سے لیکر امام حسن عسکری (ع) تک ہمارے کسی امام کی طبعی موت واقع نہیں ہوئی۔ واقعہ کربلا نے تیغ و سناں کے زخموں کا سلسلہ تو ختم کردیا لیکن ائمہ کی زہر خورانی کا ایک مسلسل عمل قائم رہا اور نت نئے طریقوں سے یہ مقصد حاصل کیا گیا ائمہ کی مدت حیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں امام رضا (ع) کے بعد کے ائمہ یعنی امام تقی جواد(ع)، امام هادی(ع) اور امام حسن عسکری(ع) جو ملقب بہ ابن الرضا(ع) بھی ہیں دشمنوں کے ہاتھوں کو تاہی عمر کا شکار ہوئے۔ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو خدائے تعالیٰ کو بھی ان انوار عصمت کی حفاظت کے سلسلہ میں نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑی پہلے مرحلے میں جسے ہم غیبت صغریٰ کا آزمائشی دور بھی کہہ سکتے ہیں اس نے اپنے ولی کو ایک معینہ مدت ٦٩ سال تک پردہ میں چھپادیا۔ اس دوران علما کے ایک گروہ کو تیار کیا گیا جو نواب اربعہ کے نام سے موسوم ہوئے جن کی خدمات سے بتدریج اجتہاد کے نظام کا ارتقاء عمل میں آیا۔ یہ خداوند تعالیٰ کا ہمارے مراجع اجتہاد کی قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد کی علامت ہے کہ بالآخر اس نے اپنے ولی کو مصلحتاً ایک غیر معینہ مدت تک پردہ غیب”غیبت کبریٰ” میں چھپادیا ہے، خدا ہماری مدد کرے اور توفیق دے کہ ہم” انتظار امام (ع) ” کی امانت کو” انتصار امام (ع)” سے بدلنے کے قابل ہوسکیں۔
http://alhassanain.org/urdu