- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/29
- 0 رائ
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ولادت باسعادت کے بارے میں علماء ومورخین کا بیان ہے کہ آپ بتاریخ گیارہ ذی قعدہ ایک سو ترپن ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ہوئے۔ اس موقع پر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو، پھرمیں نے مولود مسعود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ اسے لے لو یہ زمین پرخدا کی حجت ہے اور میرے بعد حجت اللہ کے فرائض کا ذمہ دار ہے۔
**************
آپ آل محمد کے تیسرے ”علی“ ہیں ۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اور مشہور ترین لقب رضا تھا۔ آپ کی نشوونما اور تربیت اپنے والد بزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اور اسی مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئیں اور ۳۰ برس کی عمر پوری ہوئی اگرچہ آخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم عراق میں قید ظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگر اس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵ برس آپ کو برابر اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈور اس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کو آزادی کی سانس نہ لینے دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمر کے آخری حصہ میں اور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہوجائے گا اس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولاد علی و فاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے انہیں جمع کرکے حضرت امام علی رضاعلیہ السلام کی جانشینی کا اعلان فرما دیا۔ ۱۸۳ ھ میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قید خانہ ہارون رشید میں اپنی عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گذار کر درجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس برس تھی والد بزرگوارکی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر متمکن تھا اور بنی فاطمہ کے لیے زندگی تنگ تھی۔
**************
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشید کا دور رہا یقینا وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد ماجد کا رہنا اس نے گوارا نہیں کیا مگر یا تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اور یا واقعی ظالم کو بد سلوکیوں کا احساس اور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کو ستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہارون رشید کا اہلبیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک رہا تھا اس کی بناء پرعام طورسے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنہیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیت کے ساتھ کوئی اچھا رویہ رکھنے پر تیار نہیں ہوسکتے تھے اور نہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ آسکتے تھے۔ ہارون کا آخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں، امین اور مامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا، امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردارسب اس کے طرف دار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز سے تھا اس لیے دربار کا عجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا، دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کر دیا کہ دار السلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام، مصر حجاز، یمن، وغیرہ محمد امین کے نام کئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران، خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقرر کئے لیکن جونہی ہارون کی آنکھ بند ہوئی خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے آخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم ۱۹۸ ھ میں موت گھاٹ اتار دیا گیا اس کا سر مامون کے سامنے پیش کیا گیا اور یوں مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدود سلطنت پر قائم ہوگئی۔
**************
مامون الرشید نے اپنے بھائی امین کو قتل تو کر دیا لیکن اسے ہر آن یہ دھڑکا لگا رہا کہ کہیں اس کے حامی بغاوت نہ کردیں دوسری طرف اسے اپنے باپ کی طرح بنی فاطمہ اور آل رسول کی جانب سے بھی خدشات لاحق تھے چنانچہ اس نے نہایت مکاری کے ساتھ خلافت کو فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا حق قرار دے کر امام علیہ السلام کو مدینے سے طوس آنے کی دعوت دی جسے امام علیہ السلام نے سختی سے مسترد کردیا کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ جس شخص نے ہوس اقتدار کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرکے اس کا سر دربار میں لاکر رکھا ہو وہ اتنی آسانی سے بھلا کیسے مسند خلافت سے دستبردار ہوسکتا ہے اور وہ بھی آل رسول کے حق میں۔ مامون دراصل اپنے اس اقدام سے آل رسول اور ان کے طرفداروں کی مخالفت کو ختم کرنا چاهتا تھا۔ چنانچہ جب آپ نے خلافت کے قبول کرنے سے انکار فرمایا، تو اس نے ولیعہدی کی پیشکش کی۔ آپ اس کے بھی انجام سے واقف تھے۔ بخوشی جابرحکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا چنانچہ آپ نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مامون کا اصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا تو امام نے فرمایا، میں قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگر کسی بات میں مجھ سے مشورہ لیا جائے تو نیک مشورہ ضرور دوں گا۔
**************
محول شیبانی کا بیان ہے کہ جب وہ ناگوار وقت پہنچ گیا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کے روضہ اقدس سے ہمیشہ کے لئے وداع ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ بے تابی کے ساتھ اندر جاتے ہیں اور با نالہ و آہ باہر آتے ہیں اور پھر اندر واپس چلے جاتے ہیں آپ نے چند بار ایسا ہی کیا اور مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے حاضر ہوکرعرض کی مولا اضطراب کی کیاوجہ ہے؟ فرمایا اے محول! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبرا جدا کیا جارہا ہوں مجھے اس کے بعد اب یہاں آنا نصیب نہ ہوگا میں اسی مسافرت اور غریب الوطنی میں شہید کردیا جاؤں گا۔
رجب ۲۰۰ ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اور متعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اور قم کی سیدھی راہ چھوڑ کر بصرہ اور اہواز کاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظر اختیار کیا گیا کہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اور طے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضر ہوکر آپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہر ہوئے تو تمام خورد وبزرگ شوق زیارت میں امنڈ پڑے، مرکب عالی جب شہر کے مرکز میں پہنچا تو خلائق سے زمین پر تل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ اس موقع پر امام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اور محمدن بن اسلم طوسی آگے بڑھے، اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضر خدمت ہوئی اور اے تمام مومنوں کے امام اور اے مرکز پاکیزگی ، آپ کو رسول اکرم کا واسطہ، آپ اپنے اجداد کے صدقہ میں اپنے دیدار کا موقع دیجئے اور کوئی حدیث اپنے جد نامدار کی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمد بن رافع ، احمد بن حارث، یحی بن یحی اور اسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطر کی باگ تھام لی۔ ان کی استدعا سن کر آپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا دئیے جائیں فورا تعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی اپنے پیارے رسول کے جگر گوشہ کا نورانی چہرہ دیکھا سینوں میں دل بیتاب ہوگئے دو زلفیں چہرہ انور پر مانند گیسوئے مشک بوئے جناب رسول خدا چھوٹی ہوئی تھیں کسی کو یارائے ضبط باقی نہ رہا سب کے سب بے اختیار دھاڑیں مارکر رونے لگے۔ بعض آپ کی سواری کے گرد گھومنے لگے اور جھک کر مرکب اقدس اورعماری کا بوسہ دینے لگے غرض کہ عجیب طرح کا ولولہ تھا کہ جمال باکمال کو دیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انور کی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہر ہوگئی اور ان کے موجودہ اشتیاق وتمنا کے اظہار میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآواز بلند پکار کر کہا کہ مسلمانوں ذرا خاموش ہوجاؤ، اور فرزند رسول کے لیے آزار نہ بنو، ان کی استدعا پر قدرے شوروغل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایا اور ان سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اور ان سے امام محمد باقر نے اور ان سے امام زین العابدین نے اور ان سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمد مصطفی صلعم نے اور ان سے جناب جبرئیل امین نے اور ان سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا کہ ”لاالہ الااللہ “ میرا قلعہ ہے جو اسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائےگا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔ یہ کہہ کر آپ نے پردہ کھینچوا دیا، اور چند قدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہا وشروطہا و انا من شروطها کہ لاالہ الااللہ کہنے والا نجات ضرور پائے گا لیکن اس کے کہنے اور نجات پانے میں چند شرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں۔
**************
روایات کے مطابق جب آپ نیشاپور سے شہر طوس پہنچے تو وہاں دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑ سے لوگ پتھرتراش کر ہانڈی وغیرہ بناتے ہیں آپ اس پہاڑی سے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے اور آپ نے اس کے نرم ہونے کی دعا کی وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ کا پتھر بالکل نرم ہوگیا اور بڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔
کہتے ہیں کہ جب آپ مرو پہنچے جسے سکندر ذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آباد کیا تھا اور جو اس وقت دارالسلنطت تھا تو مامون نے چند روز ضیافت تکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد یکم رمضان ۲۰۱ ھجری بروز پنجشنبہ جلسہ ولیعہدی منعقد ہوا، بڑی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کواشارہ کیا اور اس نے بیعت کی، پھر اور لوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے اور چاندی کے سکے سرمبارک پرنثار ہوئے اور تمام ارکان سلطنت اور ملازمین کو انعامات تقسیم ہوئے مامون نے حکم دیا کہ امام کے نام کا سکہ جاری کیا جائے، چنانچہ درہم ودینار پرحضرت امام علی رضا علیہ السلام کے نام کا نقش ہوا، اور تمام قلمرو میں وہ سکہ چلایا گیا جمعہ کے خطبہ میں حضرت کا نام نامی داخل کیا گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت کے نام مبارک کا سکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اور ضمانت کی حیثیت رکھتا تھا اس سکہ کو سفر و حضر میں حرزجان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امر تھا صاحب جنات الخلود نے بحروبرکے سفرمیں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کا ذکر کیا ہے اسی کی یادگار میں بطور ضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی بعض عقیدت مند سفر میں باز و پر امام ضامن ثامن کا پیسہ باندھتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ۳۳ ہزارعباسی مرد و زن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کوولیعہد بنا دیا گیا اس کے بعد اس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضا کے لیے بیعت لی اور دربار کا لباس بجائے سیاہ کے سبز قرار دیا گیا جو سادات کا امتیازی لباس تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشن ولی عہدی کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عید کا موقع آگیا مامون نے حضرت سے کہلا بھیجا کہ آپ سواری پر جاکر لوگوں کونمازعید پڑھائیں حضرت نے فرمای اکہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کرلی ہے کہ بادشاہت اور حکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گا اور نہ اس کے قریب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعید سے بھی معاف کردو تو بہتر ہے ورنہ میں نمازعید کے لے اسی طرح جاؤں گا جس طرح میرے جد امجد حضرت محمد رسول اللہ صلعم تشریف لے جایا کرتے تھے مامون نے کہا کہ آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں جائیں اس کے بعد اس نے سواروں اور پیادوں کو حکم دیا کہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔ جب یہ خبر شہر میں مشہور ہوئی تو لوگ عید کے روز سڑکوں اور چھتوں پرحضرت کی سواری کی شان دیکھنے کو جمع ہوگئے، ایک بھیڑ لگ گئی سب کو آرزو تھی کہ امام کی زیارت کریں۔ طلوع آفتاب کے بعد امام نے سفید عمامہ سر پر باندھا،عطر لگایا اورعصا ہاتھ میں لے کر ننگے پاؤں عید گاہ جانے پرآمادہ ہوگئے ہو گئے اور دو تین قدم چل کر کھڑے ہو گئے اور سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اور فوج کے سپاہیوں نے بھی تکبیر کہی راوی کا بیان ہے کہ جب امام رضاعلیہ السلام تکبیرکہتے تھے تو ہم لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ درودیوار اور زمین آسمان سے آپ کی تکبیر کا جواب سنائی دیتا ہے اس ہیبت کو دیکھ کر یہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اور خود لشکر والے اپنی سواریوں سے زمین پر کود پڑے سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے جلدی جلدی سنگینوں سے اپنی جوتیوں کے تسمے کاٹ دئیے ننگے پاؤں ہوگئے۔ لوگوں پر فرط جزبات سے گریہ طاری ہوگیا۔اس کی خبرمامون کوبھی ہوگئی اس کے وزیرفضل بن سہل نے اس سے کہا کہ اگرامام رضااسی حالت سے عیدگاہ تک پہنچ جائیں گے تو ہنگامہ ہوجائیگا اور سب لوگ ان کی طرف ہوجائیں گے اورہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے۔ فضل بن سہل اس انتباہ پر مامون نے فورا ایک شخص یہ پیغام دے کر امام کی خدمت میں روانہ کیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی جوآپ سے عیدگاہ جانے کے لیے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہی ہے اورمیں آپ کی مشقت کو پسند نہیں کرتا بہتر ہے کہ آپ واپس چلے آئیں اورعیدگاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام واپس اپنی قیامگاہ تشریف لے لائے۔ اگرچہ اس روز عیدکی نماز نہ پڑھاسکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں پر مامامون کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آگئی۔
http://www.hajij.com/