- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/10/20
- 0 رائ
مشہور روایات کی بنیاد پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت سات ذی الحجة ١١٤ ہجری میں واقع ہوئی ہے (١) لہذا ضروری ہے کہ ہم ان کی معرفت حاصل کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے اہم نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے امام علیہ السلام کے کلام کی تفسیر، مخاطبین کے سامنے پیش کریں۔
لقب باقر العلوم(علیہ السلام) کے مفہوم میں غورو فکر
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کے متعلق باقر العلوم کے لقب سے ملقب ہونے کے سلسلہ میں فرمایا : یقینا انہوں نے لقب باقرالعلوم کو اپنے آپ سے مخصوص کیا ہے کیونکہ آپ نے مختلف علوم کو واضح کیا ہے اور تمام علوم جیسے تفسیر، عقاید، فقہ اور اخلاق میں اسلامی نظریات کو بیان کیا ہے اور آپ نے اس سلسلہ میں اس قدر احادیث بیان کی ہیں کہ فقط محمد بن مسلم نے تیس ہزار حدیث، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں(٢)۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی عظیم میراث، اسلامی علوم کی وضاحت
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے ائمہ علیہم السلام خصوصا امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل شدہ احادیث کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں، ہم تک نہیں پہنچی ہیں ، اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی(٣) ، لیکن شیعوں کی اکثر احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے ، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں راہنما ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب دشمنوں کا فشار بہت کم تھا اور بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے ، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث کو اپنے آبائو اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں(٤)۔
معظم لہ نے امام باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم تعلیمات کے متعلق اس طرح فرمایا: اس وقت فقہی، اصولی،تفسیری، عقایدی ، اخلاقی جس کتاب کا بھی مطالعہ کریں اس میں قال الباقر (علیہ السلام) اور قال الصادق (علیہ السلام) ملتا ہے اور ان دو راہنمائوں نے ہمیں اسلامی علوم کی عظیم میراث عطا کی ہے۔
فقہ شیعہ، امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی مرہون منت ہے
شیعه مرجع تقلید نے فقہ شیعہ کی وسعت اور ترقی کو امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی تعلیمات کا نتیجہ شمار کیا ہے اور فرمایا: اگر آج ہماری فقہ کو قیاس کی ضرورت نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی احادیث ہیں جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ہمارے سامنے علم کا دروازہ کھلا ہوا ہے، جبکہ دوسروں کے سامنے ان علوم کا دروازہ بند ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ قیاس اور ظنون کی طرف چلے گئے ہیں۔
لہذا علم کی اس شکوفایی کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہئے کیونکہ ہم شیعہ اور اہل تسنن کی جو کتاب بھی کھولتے ہیں اس میں انہی دو اماموں کی احادیث سے روبرو ہوتے ہیں ، ان دونوں اماموں نے اصول دین کی بنیادوں کو بہت ہی اچھے طریقہ سے بیان کیا ہے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام کے علمی مناظرات
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور شیعی معارف کو وسعت دینے کیلئے دوسرے توحیدی ادیان سے علمی مناظرات انجام دئیے ہیں۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام علیہ السلام کے مناظرات کی تشریح کرتے ہوئے شام میں عیسائی اسقف سے مناظرہ کو بہت اہم شمار کیا اور فرمایا : جیسا کہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ جب امام کو شام کے سفر پر مجبور کیا گیا اور آپ شام پہنچ گئے اور پھر شہر دمش سے واپس روانہ ہونے لگے تو لوگوں کے افکار کو بیدار کرنے اور اپنے علم کو آشکار کرنے کا بہت اچھا موقع فراہم ہوا جس کی وجہ سے شام کے لوکوں کے افکار تبدیل ہوگئے(٥)۔
معظم لہ کے کلام میں عیسائی اسقف سے امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ کی شرح و تفسیر
آغا فرماتے ہیں: واقعہ یہ تھا کہ ہشام کے پاس ا مام محمد باقر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا، لہذا وہ امام کے مدینہ واپس جانے پر راضی ہوگیا جس وہ امام اپنے فرزند کے ساتھ قصر خلافت سے خارج ہوئے تو ناگاہ راستہ میں ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیا،آپ نے تفحص حال کیاتومعلوم ہواکہ نصاری کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے ،راہب جوانتہائی ضعیف تھا، مقررہ وقت پربرامدہوا،اوراس نے چاروں طرف نظردوڑانے کے بعدامام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکربولا:
١۔ کیا آپ ہم میں سے ہیں، فرمایا: میں امت محمدیہ سے ہوں۔
٢۔ آپ علماء سے ہیں یاجہلاء میں سے ہیں، فرمایا: میں جاہل نہیں ہوں۔
٣۔ آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں؟ فرمایا: نہیں۔
٤۔ جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں، فرمایا: ضرور پوچھیے۔
یہ سن کر راہب نے سوال کیا:
١۔ شب وروزمیں وہ کونسا وقت ہے، جس کا شمار نہ دن میں ہے اورنہ رات میں، فرمایا: وہ سورج کے طلوع سے پہلے کا وقت ہے جس کا شمار دن اوررات دونوں میں نہیں، وہ وقت جنت کے اوقات میں سے ہے اورایسا مبترک ہے کہ اس میں بیماروں کو ہوش آجاتا ہے، درد کو سکون ہوتا ہے جو رات بھر نہ سو سکے اسے نیند آتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے۔
٢۔ آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب و پاخانہ کی ضرروت نہ ہوگی؟ کیا دنیا میں اس کی مثال ہے؟ فرمایا بطن مادرمیں جو بچے پرورش پاتے ہیں ان کا فضلہ خارج نہیں ہوتا۔
٣۔ مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کا میوہ کم نہ ہوگا اس کی یہاں کوئی مثال ہے، فرمایا ہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہیں ہوتی۔
٤۔ وہ کون سے دو بھائی ہیں جو ایک ساتھ پیدا ہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمر پچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی، فرمایا”عزیز اورعزیر پیغمبر ہیں یہ دونوں دنیا میں ایک ہی روزپیدا ہوئے اورایک ہی روز مرے پیدائش کے بعد تیس برس تک ساتھ رہے پھرخدا نے عزیرنبی کو مار ڈالا(جس کا ذکر قرآن مجیدمیں موجو دہے) اور سو برس کے بعد پھرزندہ فرمایا اس کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ اور زندہ رہے اور پھرایک ہی روز دونوں نے انتقال کیا۔
یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ جب تک یہ شخص شام کے حدود میں موجود ہے میں کسی کے سوال کا جواب نہ دوں گا سب کو چاہئے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعد وہ مسلمان ہوگیا۔
یہ بات بہت تیزی سے دمشق میں پھیل گئی اور شام کے لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے، ہشام کو امام باقر علیہ السلام کی افتخار آمیز کامیابی سے خوش ہونا چاہئے تھا لیکن وہ پہلے سے بھی زیادہ امام سے ڈرنے لگا اور اس نے ظاہر سازی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سے ہدایا اور تحائف بھیجے، ساتھ ہی ساتھ حکم دیا کہ آج ہی دمشق سے چلے جائیں(٦)۔
حضرت امام باقرعلیہ السلام کی علمی حیثیت
کسی معصوم کی علمی حیثیت پرروشنی ڈالنی بہت دشوار ہے، کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کوعلم لدنی ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپور متولد ہوتا ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اور معصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات، علمی کارنامے اور آپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی از خروارے، لکھتا ہوں جن پرعلماء عبور حاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنا منطق الطیرواوتینامن کل شئی” ہمیں طائروں تک کی زبان سکھا گئی ہے اورہمیں ہرچیزکاعلم عطا کیا گیا ہے(مناقب شہرآشوب جلد٥ ص١١) ۔
روضة الصفاء میں ہے کہ بخدا سوگند کہ ماخازنان خدائیم درآسمان زمین الخ خدا کی قسم ہم زمین اورآسمان میں خداوندعالم کے خازن علم ہیں اور ہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں، وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابو مریم عبدالغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض پرداز ہوا کہ:
١۔ مولا کونسا اسلام بہتر ہے جس سے اپنے برادر مومن کوتکلیف نہ پہنچے
٢۔ کونسا خلق بہتر ہے فرمایا صبر اور معاف کر دینا
٣۔ کونسا مومن کامل ہے فرمایا جس کے اخلاق بہتر ہوں
٤۔ کون سا جہاد بہتر ہے، فرمایا جس میں اپنا خون بہہ جائے
٥۔ کونسی نماز بہتر ہے، فرمایا جس کا قنوت طویل ہو
٦۔ کون سا صدقہ بہتر ہے، فرمایا جس سے نافرمانی سے نجات ملے
٧۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے، فرمایا میں اچھا نہیں سمجھتا،
٨۔ پوچھا کیوں؟ فرمایا کہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمد و رفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں:
١۔ محبت دنیا، ٢۔ فراموشی مرگ، ٣۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھا پھرمیں نہ جاؤں، فرمایا میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتا ہوں۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہداورشرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا، بڑے بڑے صحابہ اور نمایاں تابعین، اور عظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابرین عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند ”باقرالعلوم” ہوگا، علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص١٥٧،علامہ شیخ مفید۔
علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث، علم سنن اور تفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون، ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین اور امام حسین کی اولاد میں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے۔ ملاحظہ ہو کتاب الارشاد ص٢٨٦، نورالابصار ص١٣١، ارجح المطالب ص٤٤٧۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کے علمی فیوض و برکات اور کمالات و احسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کا دماغ خراب ہوگیا ہو اورجس کی طینت و طبیعت فاسد ہوگئی ہو، کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ”باقرالعلوم” علم کے پھیلانے والے اور جامع العلوم ہیں، آپ کا دل صاف، علم وعمل روشن و تابندہ نفس پاک اور خلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسر ہوتے تھے۔
عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اور گہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اور عاجز و ماندہ ہیں آپ کے ہدایات و کلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص١٢٠) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقر علیه السلام علامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے(وفیات الاعیان جلد١ ص٤٥٠) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا(تذکرةالحفاظ جلد١ص١١١)۔
علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمد باقر کے علمی تذکرے دنیا میں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح و ثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں: جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرناچ اہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجز رہے گا، کیونکہ وہ خود محتاج ہے اور اگر فرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد و حساب مسائل و تحقیقات کے ذخیرے مہیا کردیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہر قسم کی تاریکیون میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص٥٢،وتاریخ الائمہ ص٤١٣) ۔
علامہ ابن شہر آشوب کابیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد٥ ص١١) ۔
مولف: حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ)
……………………………….
منابع: تنظیم و ترتیب اور تحقیق ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
حوالہ جات:
١ ۔ فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩) ۔
٢۔ فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩) ۔
٣ ۔ گزشتہ حوالہ ۔
٤ ۔ اعتقاد ما ، صفحہ ١٢٢ ۔
٥ ۔ شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢) ۔
٦ ۔ شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢) ۔