- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے شادی کے اہم پیغامات
پیغمبراکرم اور اهل بیت , اهل بیت(ع) کے بارے میں , تاریخ اور سیرت , تاریخ اور سیرت , آپ کے اخـــلاقی فضـــــائل , آپکے اخلاقی فضائل , حضرت امـــــام علــی(ع) , حضرت فــاطمــه زهــرا(س)- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/06/09
- 2 رائ
شادی کا مسئلہ انسانی معاشرے کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں ہمیشہ بہت سے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں نکاح کی روایت پر عمل درآمد کا فقدان ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ شادی کے مسئلہ میں “جہیز” اور “مھر” اور “شادی کی رسومات” کچھ نہ کچھ مسائل پیدا ہی کردیتی ہیں اس لئے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک چیز جو اس مسئلہ کو حل کرنے یا اس مسئلہ کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے وہ شادی کے مسئلہ میں ائمہ معصومین (ع) کے فرمودات اور ان کی سیرت پر عمل کرنا ہے، جیسے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی علی (ع) کی بالکل سادی سی شادی، ہم اس مقالہ میں حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی سے جو درس لے سکتے ہیں وہ بیان کریں گے تاکہ آپؑ کی شادی کے آئینہ میں ان مشکلات کا حل پیش کیا جاسکے۔
حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی
حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی کا واقعہ مختلف شیعہ اور سنی منابع میں کہیں مختصر اور کہیں تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) اور حضرت علی (ع) کی شادی کی بات، رسول خدا ﷺ کی، مدینہ سے ہجرت کے تقریباً ایک سال بعد [1]اور ہجرت کے دوسرے سال کے ابتدائی مہینوں میں صفر کے مہینے میں [2] یا ربیع الاول [3] کے مہینہ میں انجام پایا۔ [4]اور شادی کی رسومات تقریباً آٹھ یا دس مہینہ کے بعد اسی سال شوال یا ذی الحجہ کے مہینہ میں ہوئی [5]۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عمر شادی کے وقت تقریباً اس وقت نو یا دس سال کی رہی ہوگی سات سال اور اس وقت حضرت علی (ع) کی عمر بھی تقریباً اکّیس سال کی رہی ہوگی۔
اس شادی کے تین اہم ارکان ہیں، جن کی سیرت پر اس تحریر میں توجہ مرکوز کی گئی ہے، دولہا، دلہن اور دلہن کے والد ہیں، یہ تینوں ہی معصوم ہیں، اور اس مقدس کام کو انجام دینے میں ان کی سیرت خاص اہمیت کی حامل ہے۔
اب ہم اس جگہ پر پیغمبر خدا (ص)، حضرت علی (س) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت اور شادی کے آداب، سلوک کو مختصراً بیان کریں گے:
۱: مادی چیزوں کی طرف بے توجہی
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا رشتہ عمومی طور پر مشہور لوگ یا امیر لوگ اور طاقتور لوگوں کے خاندان سے آیا کرتا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف نے بھی آپ سے شادی کے سلسلہ میں بہت زیادہ جہیز کی پیش کش کی تھی، لیکن رسول خدا (ص) اور ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایسے تمام رشتوں کو رد کردیا۔ کیونکہ شادی کے سلسلہ میں جو چیز مد نظر ہونی چاہئے وہ ایمان اور عمل صالح ہے دولت و ثروت اور طاقت مد نظر نہیں ہونی چاہئے۔
۲: محبت اور پیار
حضرت علی (ع) کی حضرت فاطمہ (س) سے محبت فطری تھی۔ آپ کے ساتھ رشتہ داری کے علاوہ چونکہ حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا ﷺ(ص) کی بیٹی تھیں۔ اس لئے حضرت علی (ع) کو حضرت فاطمہ زہرا (س) سے خاص لگاؤ تھا۔ حضرت علی (ع) نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سلسلہ میں یہ قسم کھائی کہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) محبت اور الفت کی پیکر ہیں۔[6] اور حضرت علی (ع) کا حضرت فاطمہ زہرا (س) کا رشتہ ایک معنوی رشتہ تھا۔[7]
۳: لڑکی سے مشاورت
اس زمانے کے معاشرے کے رواج کے برخلاف جو لڑکیوں سے مشورہ کرنا ناگوار سمجھتا تھا۔[8] تمام رشتوں کے معاملے میں رسول خدا ﷺ نے سب سے پہلے اپنی بیٹی لئے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے مشورہ کیا اور حضرت فاطمہ زہرا (س) پہلے سے اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔ حضرت علی (ع) کے رشتہ نے، اگرچہ رسول خدا ﷺ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر کئے اور رسول خدا ﷺ نے ان کا استقبال کیا لیکن آپ نے عقد کی درخواست کا جواب اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سپرد کیا۔[9]
۴: شادی میں مساوات کی وضاحت
مساوات اور کفو کا ہونا خاندانی اجزا مین سے ہے، جس کی طرف تمام معاشرہ اور افراد توجہ دیتے ہیں۔ اگرچہ مختلف معاشروں اور لوگوں کفو اور مساوات کی وضاحت کس طرح کرتا ہے مثال کے طور پر رسول خدا ﷺ نے جناب جوبیر کی شادی،(جو کہ رسول خدا ﷺکے صحابی تھے اور اقتصادی حالات سے کمزور تھے) زلفی کے ساتھ (جو کہ قبائل کے سرداروں میں سے ایک کی بیٹی تھی) ان کی شادی کے سلسلہ میں نے فرمایا کہ مساوات کے معنی امیری وغریبی نہیں ہے۔ بلکہ ایمان اور اخلاق اور عمل صالح ہے۔
اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول خدا ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کا نہ کوئی ثانی تھا اور نہ کوئی کفو، اس لئے رسول خدا ﷺ نے حضرت فاطمہ (س) کی شادی کے بارے میں فرمایا: اگر خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا (س)کے لئے حضرت علی (ع) کو پیدا نہ کیا ہوتا تو روئے زمین پر آدم (ع) سے لے کر دوسروں تک حضرت فاطمہ زہرا (س) سے شادی کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔[10]
۵: شائستگی کا مظاہرہ کرنا
رسول خدا ﷺ (ص) کے پاس جب حضرت فاطمہ زهرا (س) کے رشتہ کی بات آتی تو حضرت فاطمه زهرا (س) بغیر الفاظ کے یعنی اپنے طرز عمل سے پیغمبر اکرم (ص) کو جواب دیتی تھی۔ جیسا کہ پہلے کچھ رشتوں کے جواب میں آپ نے منہ پھیر لیا اور اپنی مخالفت کا اظہار کیا لیکن جب حضرت فاطمه زهرا (س) نے امیر المومنین حضرت علی (س) کی رشتہ کی بات سنی تو اپنا سر جھکا لیا اور خاموشی اختیار کی ۔ رسول خدا ﷺ (ص) نے حضرت فاطمہ زهرا (س) کے حیاء کو دیکھتے ہوئے فرمایا: اللہ اکبر، فاطمه (س) کی خاموشی ان کی قبولیت کی علامت ہے۔[11]
۶: لڑکی کو رشتہ کے بارے میں بتانا
اگر چہ شادی کرتے وقت لڑکی کی رائے پوچھنا ضروری ہے لیکن صحیح راستہ اختیار کرنے میں اس کو مشورہ دینا بھی ضروری ہے اور جیسا کہ رسول اللہ (ص) کی سیرت رہی ہے۔ آنے والے رشتوں کے سلسلہ میں رسول خدا (ص) نے تمام رشتوں کو اپنے تک رکھا لیکن جس وقت حضرت علی (ع) کا رشتہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے آیا تو رسول خدا (ص) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (س) سے حضرت علی (ع) کے فضائل و مناقب، اخلاق بیان کیا اور فرمایا کہ اے میری بیٹی فاطمہ (س) اس وقت علی (ع) کا رشتہ آیا ہے اس رشتہ کے سلسلہ میں تمہاری کیا رائے ہیں۔[12] تو حضرت فاطمہ زہرا(س)نے سر کو جھکالیا، جو کہ اس رشتہ کی قبولیت کی علامت تھی۔
۷: بہت مختصر مھر کا تعین کرنا
مھر یا صداق عورت کے ساتھ حسن سلوک میں مرد کے اخلاص کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے بعض لوگوں کے نزدیک صداق میں اضافہ مستقبل کی شریک حیات کے لئے زیادہ قدر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ پرانی غلط فہمی اب بھی معاشرے میں اور کچھ افراد میں بھی موجود ہے۔ رسول خدا ﷺ نے اس رواج کی مخالفت کی، اور بہت مختصر سا مھر مقرر کر کے “مہر السنۃ” کو مقرر فرمایا تاکہ آپ کے پیروکاروں کو معلوم ہو جائے کہ خاتون کا کردار اور نکاح کی برکت زیادہ مھر رکھنے میں نہیں ہے۔ جب امام علی (ع) کی شادی ہوئی تو ان کی جائیداد صرف تین چیزیں تھیں: ایک پانی کھیچنے والا اونٹ جس سے وہ کام کرتا تھے، ایک تلوار جس کی انہیں میدان جنگ میں ضرورت تھی اور جس سے وہ میدان جنگ میں جھاد کرتے تھے اور زرہ،جسے وہ میدان جنگ میں جنگ کے وقت پہنتے تھے۔[13]
۸: سادہ جہیز
رسول خدا ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی کے سلسلہ میں جہیز کا سامان مہییا کرنے کے لئے اپنے کچھ اصحاب کو مقرر فرمایا تاکہ وہ حضرت فاطمہ زہرا (س)کا سادہ سا جہیز مھیا کریں۔ رسول خدا ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سادہ سے جہز کو دیکھ کر خدا کی بارگاہ میں دعا فرمائی خداوندعالم ان لوگوں کے وہاں برکت دے جن کے زیادہ تر ظروف مٹی کے ہیں۔[14]
۹: عام دعوت ولیمہ
دین اسلام نے ولیمہ کی دعوت دینے پر زور دیا ہے۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ رسول خدا ﷺ اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے بھی ولیمہ کی فضیلت اور سادگی پر زور دیا ہے۔
حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی سے اور جو ان کی سیرت سے درس ملتا ہے وہ یہ ہے:
۱- پہلا سبق یہ ہے کہ شادی کے مسئلہ میں ایسی بیوی کا انتخاب کرنے کی کوشش کی جائے جو کفو ہو اور دینی لحاظ سے پاک وپاکیزہ ہو۔اور حسن وجمال مال ودولت کے مسئلہ کو دوسرے درجہ پر رکھنا چاہئے۔
۲- شادی کے سلسلہ میں اصل نظر، الہی نظر ہونی چاہئے۔ جب خداوند عالم نے حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کے رشتہ کو معین کیا تو پیغمبر اکرم (ص) نے اس رشتہ کو دل سے قبول کیا اور حضرت فاطمہ زہرا (س) نے بھی اس کو قبول کیا، اگر چہ جوڑوں کے لئے خداوند عالم کا خاص حکم یقینی نہیں ہے؛ لیکن اس تناظر میں بہت سے مذہبی معیارات بیان کیے گئے ہیں کہ نوجوانوں کو سب سے پہلے ان الہی معیارات کو دیکھنا چاہیے غیر مذہبی اور غیر شرعی معیارات کو نہیں دیکھنا چاہئے۔
۳- شادی کے معاملہ میں لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ضروری اور لازم ہے، اور اس پر رشتہ زبردستی نہیں تھوپنا چاہیے۔ یقیناً والد اور بزرگوں کی رہنمائی اور مشورے کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو خداوند عالم کی طرف سے منتخب کیا تھا اور انہیں پسند کیا تھا، لیکن رسول خدا ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کو مکمل طور پر انتخاب کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔ جب تک کہ وہ مکمل طور پر کھلے دل اور مکمل اطمینان کے ساتھ شادی پر راضی نہ ہو جائیں۔ اس لئے والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ زبردستی کی شادیوں سے بچیں، جس کے برے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
۴- ہمارے معاشرے میں شادی کے لئے سب سے سنگین مسئلہ مھر کا ہے اور جو آج کے دور میں بڑھتا جارہا ہے، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی نے ظاہر کر دیا کہ معمولی مھر سے بھی شادی کرنا ممکن ہے۔
۵- ہمارے معاشرے میں شادی کے دیگر مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ، مسئلہ جہیز ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے جہیز کی اشیاء تقریباً پندرہ چیزیں تھیں۔ جو ان کے شوہر نے بھی تیار کی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد اپنی بیوی کے لئے زندگی گزارنے کا پابند ہے اور اسے لڑکی کے گھر والوں سے بہت بڑے بڑے جہیز کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور تقاضا بھی نہیں کرنا چاہئے۔
۶- شادی کی دعوت بھی سادگی سے منعقد کی جا سکتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ شادی کی تقریب پر بے پناہ پیسہ خرچ کئے جائیں اس لئے کہ دنیا کی بہترین خاتون یعنی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی دعوت کا ولیمہ ایک سادہ ولیمہ تھا اور جس سے انہوں نے ایک بڑے مجمع کی پذیرائی کی اور ان کا احترام واکرام کیا۔
۷- دنیوی لذتوں اور عیش و عشرت کی وجہ سے خداوند عالم کو ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے اور عام زندگی کا آغاز دعاؤں اور مناجات سے روشن ہونا چاہیے نہ کہ حرام موسیقی، ناچ گانے، غیر قانونی اختلاط و غیرہ جیسے گناہوں سے، جن کی وجہ سے زندگی تاریک ہو جاتی ہے۔
۸- خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ تقسیم کریں اور اپنی خوشیوں میں غریبوں اور مسکینوں کو نہ بھولیں۔
۹- شوہر اور زوجہ کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کریں کہ اس سے دونوں کی زندگی خوشگوار گذرے گی اور محبت میں بھی اضافہ ہوگا۔
۱۰- اسلامی آداب و رسوم کے مطابق شادی کے سلسلہ میں کام کو انجام دیا جائے۔
نتیجہ
خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت اور ترقی اور کمال کے لئے انبیاء (ع) اور ائمہ معصومین (ع) کو بھیجا تاکہ ہم سب اپنی زندگی میں ان کو اپنا نمونہ بنائیں اور ان کی زندگی اور ان کی سیرت کو دیکھکر اس پر عمل پیرا ہو۔ چاہے وہ زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو جیسے؛ شادی، عبادت، حلم، کرم، سخاوت، پردہ، ہر جہت سے ہم سب کو ان کی زندگی پر عمل کرکے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا چاہئے۔
حوالہ جات
[1] کلینی، الكافى، ج ۸، ص۳۴۰
[2] مجلسی، بحار الأنوار، ج ۱۹، ص۱۹۲
[3] کلینی، الكافى، ج ۸ ، ص۳۴۰
[4] مجلسی، بحار الأنوار، ج ۱۹، ص۱۹۲
[5] طوسى، الأمالى، ص ۴۳
[6] علی، كشف الغمة، ج ۱، ص ۳۶۴
[7] ابن بابویه، الأمالى، ص ۴۴۸
[8] علی، المفصل فى تاريخ العرب، ج۴، ص ۶۳۶
[9] ھاشمی، نژاد،خواستگارى سرور زنان، ص۱۸۹
[10] ھاشمی، نژاد،خواستگارى سرور زنان، ص۱۸۹
[11] ھاشمی نژاد، خواستگاری سرور جهان، ص۱۹۰، محمدی ری شهری، حکمت نامه فاطمی، ص۲۶
[12] ھاشمی نژاد، خواستگاری سرور جهان، ص191
[13] ھاشمی نژاد، خواستگاری سرور جهان، ص ۲۱۵
[14] محمدی ری شهری، حکمت نامه فاطمی، ص۲۸
منابع:
1-ابن بابویه، محمد بن علی، امالی شیخ صدوق، قم، کتابچی، دسویں شاعت، 1390
2-اربلی، علی بن عیسی، كشف الغمة في معرفة الأئمة، مترجم: زوارهای ،علی بن حسن، مصحح: میانجی، ابراهیم، تهران، اسلامیة، ۱۳۹۳
3-طوسى، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافة، ۱۴۱۴
4-علی، جواد، المفصل فى تاريخ العرب قبل الاسلام، بیروت، دار العلم للملایین 1391
5-کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری، تهران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۶۳
6-مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار ائمة الاطهار، تهران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۱۵
7-محمدی ری شھری، حکمت نامہ فاطمی، مترجم:محمد مرادی، قم، موسسۃ فرھنگی دار الحدیث،تیسری اشاعت، ۱۳۹۶
8-هاشمی نژاد، اکرم السادات، خواستگارى سرور زنان ام المومنین خدیجۃ الکبری، قم، نو آور، 1388
مضمون کا مآخذ:
محمدی ری شهری، مجتبی فرجی، رسول افقی، حسن فرزانگان، حکمت نامه فاطمی، مترجم: محمد مرادی، قم، موسسۃ فرهنگی دار الحدیث، تیسری اشاعت،۱۳۹۶
Good
خوب