- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/19
- 0 رائ
حضرت معصومہ(س) پہلي ذيقعدہ سنہ 173ھ۔ق۔ مدينہ منورہ ميں پيدا ہوئيں حضرت معصومہ (س) کے والد گرامي شيعوں کے ساتويں امام موسي کاظم(ع) ہيں اور ان کي والدہ ماجدہ جناب نجمہ خاتون ہيں جب امام رضا(ع) پيدا ہوئے تو ان کي والدہ کو طاھرہ کے نام سے بلايا گيا پہلي ذيقعدہ کا دن امام رضا(ع) کيلئے بہت بڑا دن تھا اور اس دن بڑي انتظار کا خاتمہ ہوا اس لئے کہ جناب نجمہ خاتون کے ايک ہي فرزند جناب امام رضا(ع) تھے اور وہ بہت عرصے تک صاحب اولاد نہ ہوئيں اس لئے کہ جناب امام رضا(ع) سنہ 148ھ۔ ق۔ ميں پيدا ہوئے ليکن جناب معصومہ(س) 173ھ۔ق۔ پيدا ہوئيں يعني 25 سال کہ فاصلے کہ بعد اور امام موسي کاظم(ع) کي اولاد ميں سے کوئي بھي ہم مرتبہ امام رضا(ع) نہيں تھا تا کہ امام(ع) برادرانہ محبت کا واضح اظہار کرسکيں لہذا جب حضرت معصومہ(س) پيدا ہوئيں تو امام رضا(ع) کو ايک بڑي عظمتوں والي بہن مل گئي دنيا ميں بہت سے ايسے بہن بھائي ہيں جو ايک دوسرے کو جان سے زيادہ دوست رکھتےتھے سب سے بڑا نمونہ جناب زينب(س) اور امام حسين(ع) اور اس کے بعد جناب معصومہ(س) اور امام رضا(ع) کا ہے
جب مامون نےامام رضا(ع) کو سنہ 200 ھ۔ق۔ ميں مدينے سے بلايا توحضرت معصومہ(س) نےايک سال تک اپنے بھائي کي دوري برداشت کي ليکن ايک سال کے بعد تاب تحمل نہ رہا اور اپنے بھائي کے ديدار کيلئے مدينہ طيبہ کو ترک کيا اور مرو کي طرف روانہ ہوئيں اس سفر ميں حضرت معصومہ کے پانچ بھائي ‘ فضل، جعفر، ہادي، قاسم اور زيد اور کچھ بھتيجے اور چند غلام اور کنيزيں ان کے ہمراہ تھے
حضرت معصومہ(س) کي بيماري
جب حضرت معصومہ(س) ساوہ پہونچيں تو اہل بيت رسول اکرم کے دشمن مامون کے حکم سے ان کے راستے پر کھڑے ہو گئے اور اس کاروان کے اکثر مردوں کو شہيد کرديا
حضرت معصومہ(س) شدت غم اور بعض روايات ميں ہے کہ مسموميت کے بنا پر بيمار ہوگئيں اور ان ميں تاب سفر نہ رہا
حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا قم المقدس ميں ورود اوراستقبال
23ربيع الاول سنہ 201ھ۔ق۔ کا وہ مبارک اور مسعود دن ہے جب جناب معصومہ(س) قم ميں وارد ہوئيں اور شہر قم کے سب مرد اور عورتيں، بچے اور بوڑھے ان کے والہانہ استقبال کيلئے جمع ہوئے جناب معصومہ (س) کي سواري موسي بن خزرج کے دروازے پر رک گئي اورموسي بن خزرج کو يہ توفيق نصيب ہوئي کہ وہ 17 دن تک جناب معصومہ(س) کے ميزبان رہے
بی بی کی زیارت کی فضیلت
قم میں حضرت معصومہ(س) کا روضہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں ہر خاص و عام حاضری دیتا ہے۔ آپ کے روضے کے نزدیک عالم اسلام کی عظیم ترین دینی درسگاہ قائم ہے ایسی درسگاہ جو علمی اور دینی اہداف کے علاوہ استقامت، پائیداری اور اسلامی قیام کے مرکز کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔(۱)
اس عظیم القدر سیدہ نے ابتدا ہی سے ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں والدین اور بہن اور بھائی سب کے سب اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ تھے۔ عبادت و زہد، پارسائی اور تقوی، صداقت اور حلم، مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت، جود و سخا، رحمت و کرم، پاکدامنی اور ذکر و یاد الہی، اس پاک سیرت اور نیک سرشت خاندان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ سب برگزیدہ اور بزرگ اور ہدایت و رشد کے پیشوا، امامت کے درخشان گوہر اور سفینہ بشریت کے ہادی و ناخدا تھے۔
زیارت اور اس کا فلسفہ
عقیدہ شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ، کلمہٴ زیارت ہے اسلام میں جن آداب کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت علیہم السلام اور ان کی اولاد اطہار کی قبور مبارک کی زیارت کے لیے سفر کرنا ہے۔
احادیث میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس امر کی بڑی تاکید ہے۔
رسول خدا(ص) نے فرمایا: من زارنی او زار احدا من ذريتی زرته يوم القيامة فانقذته من اهوائها۔
جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا۔(۲)
امام صادق(ع) فرماتے ہیں: من اتی قبر الحسين عارفا بحقه کان کمن حج مأة حجة مع رسول الله۔
جو معرفت حقہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا تو گویا اس نے 100 حج رسول اللہ کے ساتھ انجام دیئے۔(۳)
ایک دوسری روایت مین امام صادق (ع) نے فرمایا: امام حسین(ع) کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے۔(۴)۔
امام رضا (ع) نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا: جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔(۵)
امام علی نقی(ع) نے فرمایا: جس نے عبد العظیم(ع) کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔(۶)
امام جواد (ع) نے بھی امام رضا علیہ السلام کے لیے فرمایا: اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے بابا کی زیارت کرے۔
حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل و جزا کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہو گا؟
در حقیقت زیارت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھائے۔ زیارت معصومین(ع) کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ہو تو تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جا سکے گی۔
یہ بزرگ ہستیاں، عالم بشریت کے لئے نمونہ اور مثال ہیں، ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنی ہے کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔
حضرت معصومہ (س) کا مأثور زیارتنامہ
ہر بارگاہ میں زیارت کا ایک خاص دستور ہوتا ہے۔ حضرت معصومہ (س) کی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایتوں سے زیارت نامہ منقول ہے تا کہ مشتاقان زیارت ان نورانی جملوں کی تلاوت فرما کر رشد و کمال کی راہ میں حضرت سے الہام حاصل کر سکیں اور رحمت حق کی بھی ساحل سمندر سے اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی اٹها سکیں۔
حضرت معصومہ(س) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لیے آئمہ معصومین سے مأثور و منقول زیارت نامہ نقل و ذکر ہوا ہے۔ سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا(س) کے بعد آپ(س) پہلی بی بی ہیں جن کے لیے آئمہ اطہار(ع) کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہوا ہے۔
تاریخ اسلام میں رسول اللہ (ص) کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب، حضرت امیر المؤمنین (ع) کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سیدہ (س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابو الفضل (ع) کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین، شریکۃ الحسین ثانی زہرا حضرت زینب، حضرت امام علی النقی (ع) کی ہمشیرہ حضرت حکیمہ خاتون اور حضرت امام مہدی (عج) کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہن اجمعین) جیسی عظیم عالی مرتبت خواتین ہو گزری ہیں جن کے مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارتنامہ وارد نہیں ہوا ہے جبکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لیے زیارتنامہ وارد ہوا ہے اور یہ حضرت معصومہ(س) کی عظمت کی نشانی ہے، تا کہ شیعیان و پیروان اہل بیت عصمت و طہارت بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت و حیاء اور تقوی و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کہ صرف اسی صورت میں ہے آپ سلام اللہ علیہا کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور ہماری شفاعت فرمائیں گی۔
………….
حواله جات
(۱).دلائل الامامہ ص309/ مستدرک سفینة البحار ج8 ص257
(۲). کامل الزیارات ص11
(۳). بحار الانوار ج 101، ص 42
(۴). بحار الانوار ج 101، ص 43
(۵) بحار الانوار ج 102، ص33
(۶). بحار الانوار ج 102، ص265