- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/19
- 0 رائ
ہر بارگاہ میں ملاقات(زیارت) کا ایک خاص دستور ہوتا ہے. حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی بارگاہ میں بھی مشرف ہونے کے خاص آداب ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی زیارت کے لئے معتبر روایتوں سے زیارت نامہ منقول ہے تاکہ مشتاقان زیارت ان نورانی جملوں کی تلاوت فرما کر رشد و کمال کی راہ میں حضرت سے الہام حاصل کرسکیں اور رحمت حق کی بی ساحل سمندر سی اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے مطابق کچھ قطرے ہی اٹها سکیں۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لئے ائمہ معصومین سے مأثور زیارت نامہ وارد ہؤا ہے. سیدة العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بعد آپ سلام اللہ علیہا پہلی بی بی ہیں جن کے لئے ائمہ اطہار علیہم السلام کی طرف سے زیارت نامہ وارد ہؤا ہے. تاریخ اسلام میں رسول اللہ(ص) کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب، حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت ام البنین، شریکة الحسین ثانی زہراء حضرت زینب، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت حکیمہ خاتون اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون (سلام اللہ علیہن اجمعین) جیسی عظیم عالی مرتبت خواتین ہو گذری ہیں جن کی مقام و منزلت میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر ان کے بارے میں معصومین سے کوئی مستند زیارتنامہ وارد نہیں ہؤا ہے. مگر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے لئے زیارتنامہ وارد ہؤا ہے اور یہ حضرت معصومہ (س) کی عظمت کی نشانی ہے؛ تا کہ شیعیان و پیروکاران اہل بیت عصمت و طہارت بالخصوص خواتین اس عظمت کا پاس رکھیں اور روئے زمین پر عفت و حیاء اور تقوی و پارسائی کے عملی نمونے پیش کرتی رہیں، کہ صرف اسی صورت میں ہے آپ سلام اللہ علیہا کی روح مطہر ہم سے خوشنود ہوگی اور ہماری شفاعت فرمائیں گی۔
حضرت کا معتبر زیارت نامہ
سند زیارت
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکی ایک معتبر زیارت ہے جسے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل فرمایا ہے. ہم پہلے اس کی سند پیش کرتے ہیں:
علی ابن ابراہیم اپنے پدر سے وہ سعد سے وہ امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد تمھارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے !میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاوٴں کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر علیہم السلام کی قبر کو بیان فرمارہے ہیں؟ فرمایا :”ہاں“ جو بھی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کرے گا وہ مستحق بہشت ہے۔ جب بھی (تم حرم مشرف ہوتے ہو قبر کو دیکھ کر قبر شریف کے سرہانے (یعنی ضریح کے شمال میں) رو بقبلہ کهڑے ہوجاوٴ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر،۳۳ مرتبہ سبحان اللہ،۳۳ مرتبہ الحمد للہ پڑھو (بالکل تسبیحات حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی مانند) اور پھر کہو۔
متن زیارت
اَلـسَّلامُ عَـلی آدَمَ صَـفْوَة اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی نوُح نَبِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی اِبْرهيمَ خَليلِ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلی موُسی كَليمِ اللّهِِ، اَلسَّلامُ عَلی عيسی روُح ِاللّهِِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا خَيْرَ خَلْقَ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا صَفِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمّدَ بْنَ عَبْد ِاللّهِ، خاتَمَ النَّبِيّينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا اَميرَالْمُؤْمِنينَ عَلی بْنَ اَبی طالِب، وَصِی رَسوُلِ اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكِ يا فاطِمَة سَيِّدَة نِساءِ الْعالَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكُما يا سِبْطَی نَبِی الرَّحْمَةِ، وَ سَيِّدَی شَباب اھل ِالْجَنَّةِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ الْحُسَيْنِ، سَيِّدَ الْعابِدينَ وَ قُرَّة عَيْنِ النّاظِرينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی، باقِرَ الْعِلْم ِبَعْدَ النَّبِی،اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّد الصّاد ِقَ الْبارَّ الْامينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا موُسَی بْنَ جَعْفَر الطّهرَ الطُّهرَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ موُ سَی الرِّضَا الْمُرْتَضی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی التَّقِی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ مُحَمَّد النَّقِی النّاصِحَ الْأَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا حَسَنَ بْنَ عَلِی، اَلسَّلامُ عَلَی الْوَصِی مِنْ بَعْدِهِ. اَللّهمَّ صَلِّ عَلی نُورِكَ وَ سِراجِكَ، وَ وَلِی وَلِيِّكَ، وَ وَصِيِّ وَصِيِّكَ، وَ حُجَّتِكَ عَلی خَلْقِكَ . اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ رَسوُل ِاللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ فاطِمَة وَ خَديجَة، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ اَميرِالْمُؤْمِنينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ الْحَسَن ِوَ الْحُسَيْن ِاَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيا اُخْتَ وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيا عَمَّة وَلِی اللّهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِيابِنْتَ موُسَی بْن ِجَعْفَر، وَ رَحْمَة اللّهِ وَ بَرَكاتُه. اَلسَّلامُ عَلَيْكِ، عَرَّفَ اللّه بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَ حَشَرَنا فی زُمْرَتِكُمْ، وَ أَوَرَدْنا حَوْضَ نَبِيِّكُمْ، وَ سَقانا بِكَأْس ِجَدِّ كُمْ مِنْ يَد ِعَلِی ِّبْن ِاَبی طالِب، صَلَواتُ اللّه عَلَيْكُمْ، أَسْئَلُ اللّه أَنْ يُر ِيَنا فيكُمُ السُّروُرَ وَ الْفَرَجَ، وَ أَنْ يَجْمَعَنا وَ إِيّاكُمْ فی زُمْرَة ِجَدِّكُمْ مُحَمَّد، صَلَّی اللّه عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ أَنْ لا يَسْلُبَنا مَعْر ِفَتَكُمْ، إِنَّه وَلِی قَديرٌ. أَتَقَرَّبُ إِلَی اللّهِ بِحُبِّكُمْ وَ الْبَرائة ِمِنْ أَعْدائِكُمْ، وَ التَّسْليم ِإِلَی اللّهِ، راضِياً بِهِ غَيْرَ مُنْكِر وَ لا مُسْتَكْبِر وَ عَلی يَقين ِما أَتی بِهِ مَحَمَّدٌ – صلی اللہ علیه و آله – وَ بِه راض، نَطْلُبُ بِذلِكَ وَجْهكَ يا سَيِّدی، اَللّهمَّ وَ رِضاكَ وَ الدّارَ الْآخِرَة . يا فاطِمَةُ اِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَا ِنَّ لَكَ عِنْدَاللّْهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْن ِ. اَللّْهمّ ا ِنی اَسْئَلُكَ أَنْ تَخْتِمَ لی بِالسَّعادَة ِ، فَلاتَسْلُبْ مِنّی ِما أَنَا فيهِ،وَ لاحُولَ وَ لا قُوَة إِلا بالّله الْعَلِی الْعَظيم ِ. اَللّهمَ اسْتَجِبْ لَنا، وَ تَقَبَّلْه بِكَرَمِكَ وَ عِزَّتِكَ، وَ بِرَحْمَتِكَ وَ عافِيَتَكَ، وَ صَلَّی الّله عَلی مُحَمَّد وَ آلِهِ أَجْمَعينَ، وَ سَلَّمَ تَسْليما يا أَرْحَمَ الرّاحِمينَ.
ترجمہ:
سلام ہو آدم پر جو برگزیده هی خدا کا ۔ سلام ہو نوح پر جو نبی الله ِہیں. سلام ہو ابراہیم جو خدا کی خلیل ہیں ۔ سلام ہو موسیٰ پر جو کلیم الله ِہیں۔ سلام ہو عیسیٰ پر جو روح الله ِہیں۔
اے رسول خدا آپ پر سلام ہو، اے بہترین مخلوق خدا آپ پر سلام ہو۔ اے صفی خدا آپ پرسلام ہو۔ اے خاتم انبیاء محمد بن عبداللہ آپ پر سلام ہو۔
اے امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب وصی رسول خدا آپ پر سلام ہو۔
اے فاطمہ ای سیده خواتین عالمین، آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن حسین ای عبادت گزاروں کے سید و سردار اور ای دیکھنے والوں کی آنکھ کی ٹهنڈک، آپ پر سلام ہو۔ اے محمد بن علی ای بعد از نبی علم نبی(ص) کی رازون کی تالی کهولنی والی آپ پر سلام ہو۔ اے جعفر بن محمد صادق نیک کردار، امین آپ پر سلام ہو۔ اے موسیٰ بن جعفر پاک وپاکیزہ آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن موسیٰ رضا، مرتضی آپ پر سلام ہو۔ اے محمد بن علی پرہیزگار آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن محمد نقی خیر خواہ، امین آپ پر سلام ہو۔ اے حسن بن علی آپ پر سلام ہو۔ اے ان کے بعد جو وصی ہیں ان پر سلام ہو۔خدایا تو اپنے نور اور تابناک چراغ، اپنے ولی کے نمائندے، اپنے جانشین اور بندوں پر اپنی حجت کے اوپر سلام نازل فرما۔ اے بنت رسول خدا آپ پر سلام ہو۔ اے دختر فاطمہ و خدیجہ آپ پر سلام ہو ۔اے دختر امیر المومنین آپ پر سلام ہو۔ اے دختر حسین و حسین آپ پر سلام ہو۔ اے دختر ولی خدا آپ پر سلام ہو۔ اے ولی خدا کی خواہر آپ پر سلام ہو۔ اے ولی خدا کی پھوپھی آپ پر سلام ہو۔ اے دختر موسی بن جعفر آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ہو۔ سلام ہو آپ پر۔خدا جنت میں ہمارے اور آپ کے در میان شناخت قائم فرمائے اور ہم کو آپ لوگوں کے گروہ میں محشور فرمائے۔ آپ کے نبی کے حوض پر وارد فرمائے نیز ہمیں آپ لوگوں پر خدا کا درود ہو۔ میں خدا سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں آپ کے بارے میں خوشحال کرے اور فرج دکھائے۔ نیز ہمیں اور آپ کو آپ کے جد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں شمار فرمائے اور ہم سے آپ کی معرفت کو سلب نہ کرے۔ کیونکہ وہی سرپرست اور قدرت والا ہے۔ میں آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے برائت کے وسیلے سے خدا کی بارگاہ میں تقرب چاہتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں سر نیاز خم کرتاہوں۔
نیز اس سے راضی ہوں۔ نہ ہی منکر ہوں نہ ہی مستکبر۔یہ تمام باتیں جو چیزیں محمد لائے ہیں اس پر یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں نیز اس سے راضی ہوں۔ اے مرے آقا اسی وسیلے سے تری توجہ کا طلبگار ہوں۔ خدایا تری خوشنودی اور خانہٴ آخرت چاہتا ہوں۔
اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرمائیے کیونکہ آپ خدا کے نزدیک ایک خاص شان و مقام کی حامل ہیں۔ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارا خاتمہ سعادت پر ہو۔ پس اس ایمان کو ہم سے نہ چھین جو ہم میں موجود ہے۔ تمام حرکت و جنبش خدا ہی کے وسیلے سے ہے جو بزرگ و برتر ہے۔ خدایا ہماری حاجت کو مستجاب فرما۔ اور اپنے کرم و عزت و رحمت و عافیت سے اسے قبول فرما نیز محمد اور ان کی آل پر درود و سلام نازل فرما۔ اے سب سے زیادہ مہربان۔
زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا روایات کی منظر سے
دعا اور زیارت گوشہ تنہائی سے پر کھول کر لقاء اللہ تک عروج کرنے کا نام ہے. خالص معنویت کے شفاف چشمے کے آب گوارا سے بھرا ہؤا شفاف جام ہے؛ اور حضرت معصومہ کے حرم کی زیارت زمانے کی غبار آلود فضا میں امید کی کرن ہے، غفلت اور بے خبری کے بھنور میں غوطہ کھانے والی روح کی فریاد ہے اور بہشت کی بوستانوں سے اٹھی ہوئی فرح بخش نسیم ہے.
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مرقد منور کی زیارت انسان کو خوداعتمادی کا درس دیتی ہے، اس ناامیدی کی گرداب میں ڈوبنے سے بچا دیتی ہے اور اس کو مزید ہمت و محنت کی دعوت دیتی ہے. کریمہ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت اس امر کا باعث ہوتی ہے کہ زائر اپنے آپ کا خداوند صمد کے سامنے نیازمند اور محتاج پائے، خدا کے سامنے خضوع و خشوع اختیار کرے، غرور و تکبر کی سواری– جو تمام بدبختیوں اور شقاوتوں کا موجب ہے – سے نیچے اتر آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے. اسی وجہ سے آپ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے.
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلے میں ائمہ معصومین سے متعدد احادیث و روایت نقل ہوئی ہیں.
1- قم کے نامور محدث «سعد ابن سعد» کہتے ہیں کہ: «میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہؤا تو امام ہشتم علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «ای سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے». میں نے عرض کیا: «میری جان آپ پر فدا ہو؛ کیا آپ فاطمہ بنت موسی بن جعفر کے مزار کی بات کر رہے ہیں؟ فرمایا: «من زارها فله الجنّة؛ جو شخص ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے، اس کے لئے بہشت ہے».[1]
2- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: «من زارها عارفاً بحقّها فله الجنة = جو کوئی ان کی زیارت کرے جنت اس پر واجب اور ان کے حق کی معرفت رکهتا ہو اس پر جنت واجب ہے»[2].
اور ایک اور حدیث میں ہے کہ: «ان کی زیارت بہشت کے ہم پلہ ہے».
3 – نیز فرمایا: «انّ زیارتها تعدل الجنّة؛ جو شخص ان کی زیارت کرے اس کی جزا بهشت ہے.»
4 – امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: «من زار المعصومة عارفاً بحقّها فله الجنّة؛جو شخص از روئے معرفت آپ کی زیارت کرے اس کا انعام جنت ہے.»[3]
5 – نیز فرمایا «من زار المعصومة بقم کمن زارنی؛ جو شخص قم میں حضرت معصومہ(س) کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے.»
6- عن عليهما السلام قال: اس سلسلے میں روایت ہے کہ ابن الرضا امام محمد تقی الجوادعلیہ السلام نے فرمایا: «من زارقبرعمّتى بقم فله الجنة[4]
جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے».
7– ایک مؤمن امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے مشہد گیا اور وہاں سے کربلا روانہ ہؤا اور ہمدان کے راستے کربلا چلا گیا. سفر کے دوران اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: کیا ہوتا اگر تم سفر کے دوران قم سے عبور کرتے اور میری همشیره کی زیارت کرتے؟»
8 – مولی حیدر خوانساری لکهتے ہیں: روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص میری زیارت کے لئے نہ آسکے رے میں میرے بهائی (حمزه) کی زیارت کرے یا قم میں میری ہمشیره معصومہ کی زیارت کرے اس کو میری زیارت کا ثواب ملے گا.[5]
احادیث کی مختصر شرح
گو کہ یہ ساری احادیث حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کی دلیل ہیں مگر این روایات میں بعض نکات قابل تشریح ہیں:
جیسے: جنت کا واجب ہونا، جنت کے برابر ہونا، بہشت کا مالک ہوجانا، جو لفظ «له» سے سمجها جاتا ہے اور ان کی زیارت کا حضرت رضا علیہ السلام کی زیارت کے برابر ہونا اور حضرت رضا علیہ السلام کا اس شیعہ بهائی سے بازخواست کرنا جس نے حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت نہیں کی تهی.
حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کی سفارش صرف ایک امام نے نہیں فرمائی ہے بلکہ تین اماموں (علیہم السلام) نے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے: امام صادق، امام رضا و امام جواد علیہم السلام. اور دلچسپ امر یہ کہ امام صارف علیہ السلام نے حضرت معصومه کی ولادت با سعادت سے بہت پہلے بلکہ آپ(س) کے والد امام کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بهی پہلے ان کی زیارت کی سفارش فرمائی ہے.
دوسرا دلچسپ نکتہ پانچویں روایت ہے جس میں حضرت معصومہ کی زیارت امام رضا علیہ السلام کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے. زید شحّام نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ: «یا بن رسول الله جس شخص نے آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کی اس کی جزا کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: «جس نے ہم میں سے کسی ایک کی زیارت کی «کمن زار رسول الله (ص)؛ اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی ہو» چنانچہ جس نے سیده معصومہ(س) کی زیارت کی در حقیقت اس نے رسول خدا کی زیارت کی ہے. اور پهر حضرت رضا علیہ السلام – جو سیدہ معصومہ کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قراردیتے ہیں – فرماتے ہیں کہ : «الا فمن زارنی و هو علی غسل، خرج من ذنوبه کیوم ولدته امّه؛ آگاه رہو کہ جس نے غسل زیارت کرکے میری زیارت کی وه گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح کہ وه ماں سے متولد ہوتے وقت گناہوں سے پاک تها». ان احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیده معصومه سلام الله کی زیارت گناہوں کا کفاره بهی ہے اور جنت کی ضمانت بهی ہے بشرطیکہ انسان زیارت کے بعد گناہوں سے پرہیز کرے.
دو حدیثوں میں امام صادق اور امام رضا علیہما السلام نے زیارت کی قبولیت اور وجوب جنت کے لئے آپ (س) کے حق کی معرفت کو شرط قرار دیا ہے. اور ہم آپ(س) کی زیارت میں پڑهتے ہیں کہ «يا فاطِمَة اِشْفَعی لی فِی الْجَنَّة، فَاِنَّ لَكَ عِنْداللّْہ شَأْناً مِنَ الشَّأْن = اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرما کیونکہ آپ کے لئے خدا کے نزدیک ایک خاص شأن و منزلت ہے» امام صادق علیہ السلام کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام شیعیان اہل بیت(ع) حضرت سیده معصومہ سلام الله کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے اور زیارتنامے میں ہے کہ آپ ہماری شفاعت فرمائیں کیوں کہ آپ کے لئے ایک خاص شأن و منزلت ہے.
علماء کہتے ہیں کہ یہ شأن، شأنِ ولایت ہے جو سیده(س) کو حاصل ہے اور اسی منزلت کی بنا پر وه مؤمنین کی شفاعت فرمائیں گی اور اگر کوئی اس شأن کی معرفت رکهتا ہو اور آپ کی زیارت کرے تو اس پر جنت واجب ہے.
زیارت اور اس کا فلسفه
قاموس شیعہ میں ایک مقدس و معروف کلمہ، کلمہٴ زیارت ہے اسلام میں جن آداب کی بہت زیادہ تأکید ہوئی ہے ان میں سے ایک اہل بیت علیہم السلام اور ان کی اولاد امجاد کی قبور مبارک کی زیارت کے لئے سفر کرنا ہے۔ حدیثوں میں رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس امر کی بڑی تأکید ہے۔
مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من زارنی او زار احدا من ذریتی زرتہ یوم القیامة فانقذتہ من اھوائھا۔[6]
جو میری یا میری اولاد میں سے کسی کی زیارت کرے گا مین قیامت کے دن اس کے دیدار کو پہنچوں گا اور اسے اس دن کے خوف سے نجات دلاؤں گا۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ من اتی قبر الحسین عارفا بحقہ کان کمن حج مأة حجة مع رسول اللہ[7]
جو معرفت حقہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا تو گویا اس نے ۱۰۰ سو حج رسول اللہ کے ساتھ انجام دیئے۔
ایک دوسری روایت مین امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:امام حسین علیہ السلام آپ کی زیارت ہزار حج و عمرہ کے برابر ہے۔[8]
امام رضا علیہ السلام نے اپنی زیارت کے لئے فرمایا : جو شخص معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔[9]
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: جس نے عبد العظیم(ع) کی قبر کی زیارت کی گویا اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہے۔[10]
امام جواد علیہ السلام نے بھی امام رضا علیہ السلام کے لئے فرمایا:
اس شخص پر جنت واجب ہے جو معرفت کے ساتھ (طوس میں) ہمارے باباکی زیارت کرے۔
حضرت معصومہ سلام الله علیہا کی زیارت کف بارف میں وارد ہونے والی روایات بهی مندرجہ بالا سطور میں بیان ہوئیں.
اب سوال یہ ہے کہ ان فضائل و جزا کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تمام اجر و ثواب بغیر کسی ہدف کے فقط ایک بار ظاہری طور پر زیارت کرنے والے کو میسر ہوجائے گا؟
در حقیقت زیارت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات سے آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کریں اور خدا کی راہ میں اسی طرح قدم اٹھائیں جس طرح کہ ان بزرگوں نے اٹھائے. زیارت معصومین(ع) کے سلسلے میں وارد ہونے والی اکثر احادیث میں شرط یہ ہے کہ ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ہو تو تب ہی اس کا اخروی ثمرہ ملنے کی توقع کی جاسکے گی.
یہ بزرگ ہستیاں، عالم بشریت کے لئے نمونہ اور مثال ہیں، ہمیں ان کا حق پہچان کر ان کی زیارت کے لئے سفر کی سختیان برداشت کرنی ہیں اور ساتھ ہی خدا کی راہ میں ان کی قربانیوں اور قرآن و اسلام کی حفاظت کی غرض سے ان کی محنت و مشقت سے سبق حاصل کرنا ہے اور اپنی دینی اور دنیاوی حاجات کے لئے ان سے التجا کرنی ہے کہ ہماری شفاعت فرمائیں اور اس کے لئے ان کے حق کی معرفت کی ضرورت ہے۔
………………
حواله جات
[1]- ثواب الأعمال و عيون اخبار الرضا(ع). عوالم العلوم، ج ٢١، ص ٣٥٣ بحوالۂ اسنى المطالب ص ٤٩ تا ص ٥١.
[2]- بحار ج ٤٨ صفحه ٣٠٧.
[3]- عیون اخبارالرضا (ع).
[4]- كامل الزيارة
[5]- زبدة التصانيف، ج ٦، ص ١٥٩، بحوالۂ كريمۂ اہل بيت، ص ٣.
[6]- کامل الزیارات ص۱۱.
[7]- بحار الانوار ج ۱۰۱، ص ۴۲.
[8]- بحار الانوار ج ۱۰۱، ص ۴۳۔
[9]- بحار الانوار ج ۱۰۲، ص۳۳.
[10] – بحار الانوار ج ۱۰۲، ص۲۶۵.