- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/17
- 0 رائ
سوال: اسلام میں روزہ کا حکم کیا ہے؟
اس سوال کا جواب سورہ (بقرہ) کی آیت نمبر ۱۸۳ اور ۱۸۵ میں بیان کیا گیا ہے ، خدا وند متعال ان آیات مین ایک مھم عبادت کو بیان کیا ہے اور اس لب ولحجہ کے ساتھ زکر کیا ہے» (یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَى الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُمْ).
ائے ایمان لانے والوں تم پر روزہ کو اُسی طرح واجب قرار دیا گیا ہے جس طرح سے تم سے پہلی اُمت پر روزہ کو فرض کیا گیا تھا اور اس کے بعد تفصیل سے روزہ کے متعلق اس طرح بیان کیا ہے،
۔اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَائِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَاٴَنْتُمْ لِبَاسٌ لَہُنَّ عَلِمَ اللهُ اٴَنَّکُمْ کُنتُمْ تَخْتَانُونَ اٴَنفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالآنَ بَاشِرُوہُنَّ وَابْتَغُوا مَا کَتَبَ اللهُ لَکُمْ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاٴَبْیَضُ مِنْ الْخَیْطِ الْاٴَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ ثُمَّ اٴَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَی اللَّیْلِ وَلاَتُبَاشِرُوہُنَّ وَاٴَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِ تِلْکَ حُدُودُ اللهِ فَلاَتَقْرَبُوہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ
ترجمہ
۱۸۷۔ تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلا ل کردیا گیاہے ۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو (دونوں ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی حفاظت کا باعث ہو) خدا کے علم میں تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے ( اور اس ممنوع کام کو تم میں سے انجام دیتے تھے) پس خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی اور تمہیں بخش دیا ۔ اب ان سے ہمبستری کرو اور تمہارے لئے جو کچھ مقرر کیا گیا ہے اسے طلب کرو او ر کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمایان ہو جائے اس کے بعد روزے کورات تک مکمل کرو اور جب تم مساجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھو توان سے مباشرت نہ کرو ۔ یہ حدود الہی ہیں ان کے نزدیک نہ جا نا خدا اس طرح اپنی آیات کو لوگو ں کے لئے واضح کرتا ہے ہو سکتاہے کہ وہ پرہیزگار ہو جائیں۔
شان نزول
روایات اسلامی سے پتہ چلتا ہے کہ جب شروع میں روزے کا حکم نازل ہو اتو مسلمان صرف یہ حق رکھتے تھے کہ رات کو سونے سے پہلے کھانا کھا لیں چنانچہ اگر کوئی شخص کھانا کھائے بغیر سوجا تا اور پھر بیدار ہو تا اس کے لئے کھانا پینا حرام تھا ۔
ان دنو ں ماہ رمضان کی راتوں میں ان کے لئے اپنی بیو یوں سے ہم بستری کرنا مطلقا حرام تھا ۔ اصحاب پیغمبر میں سے ایک شخص جس کا نام مطعم بن جبیر تھا ایک کمزور انسان تھا ۔ ایک مرتبہ افطار کے وقت گھر گیا ۔ اس کی بیوی اس کے افطار کے لئے کھانا لینے لگی تو تھکان کی وجہ سے وہ سو گیا ۔ جب بیدار ہوا تو کہنے لگا اب افطار کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں ۔وہ اسی حالت میں رات کو سوگیا ۔ صبح کو روزے کی حالت میں اطراف مدینہ خندق کھودنے کے لئے (جنگ احزاب کے میدان میں) حاضر ہو گیا ۔ کام کے دوران میں کمزوری اور بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا ۔ پیغمبر اکرم اس کے سرہا نے تشریف لائے اور اس کی حالت دیکھ کر متاثر ہوئے۔
نیز بعض جوان مسلمان جواپنے آپ پر ضبط نہیں کرسکتے تھے ماہ رمضان کی راتو ں کو اپنی بیو یو ں سے ہم بستری کر لیتے تھے۔
ان حالات میں یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی کہ رات بھر کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور اپنی بیویوں سے ہم بستری بھی کرسکتے ہیں۔
تفسیر
حکم روزہ میں وسعت جیسا کہ آپ شان نزول میں پڑ ھ چکے ہیں ابتدا ئے اسلام ماہ رمضان کے دن اور رات دونوں میں مسلمانوں کے لئے اپنی بیو یو ں سے اختلا ط کر نا مطلقا ممنوع تھا اور اسی طرح رات کو ایک مرتبہ سو جانے کے بعد کھانا پینا بھی نا جائز تھا اور شاید یہ اس لئے تھا کہ مسلمانوں کو آزمایا جائے اور انہیں احکام روزہ قبول کرنے کے لئے مائل کیا جائے ۔
زیر نظر آیت روزے اور اعتکاف کے سلسلے میں چار اسلامی احکام پر مشتمل ہے پہلے مسلمانوں کے لئے وسعت پیدا کرتے ہو ئے فرمایا گیا ہے : ماہ رمضان کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی بیویوں سے جنسی میل جول حلال کردیا گیا ہے ( احل لکم لیلة الصیام الرفث الی نساء کم )۔اس کے بعد اس موضوع کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو تا ہے : عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو (ھن لباس لکم و انتم لباس لھن)۔
لباس ایک طرف تو انسانی بدن کو سردی گرمی اور خطرناک چیزوں کے اثرات سے حفاظت کرتا ہے ۔ دوسری طرف انسان کے عیوب چھپاتا ہے اور پھر یہ انسان کے بدن کی زینت ہے ۔ مندرجہ بالا آیت میں استعمال ہونے والی تشبیہ ان سب نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
میاں بیوی ایک طرف سے ایک دوسرے کو کجرویوں سے بچاتے ہیں ۔ ایک دوسری کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے راحت و آرام کا سبب ہیں اور ہر ایک دوسرے کے لئے زیب و زینت بھی بنتا ہے۔
یہ تعبیر میاں بیوی کے انتہائی معنوی و روحانی ربط و قربت کو بیان کرتی ہے اور اس سلسلے میں ان کی برابری کو بھی پورے طور پر واضح کرتی ہے۔ وہ تعبیر جو مرد کیلئے ہے و ہی بغیر کسی تبدیلی کے عورت کے لئے بھی ہے۔
اس کے بعد اس قانون الہی کی تبدیلی کی علت اور سبب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو تا ہے ۔ خدا جانتا تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے ہو اور تم میں سے بعض ممنوع کام انجام دیتے تھے۔ خدانے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں بخش دیا (علم اللہ انکم کنتم تختافون انفسکم فتاب علیکم و عفاکم عنکم) ہاں اس بناء پرکہ تم کہیں زیادہ گناہ سے آلودہ نہ ہو جاؤ خدانے اپنے لطف و رحمت سے تمہارے لئے اس پر و گرام کو آسان بنا دیا ہے ۔ اس کی مدت و حدود میں کمی کردی ہے ۔ اب جب کہ ایسا ہے تو تم ان سے مباشرت کرسکتے ہو اور جو کچھ خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے وہ طلب کرسکتے ہو ( فالئن باشروھن و ابتغوا ما کتب اللہ لکم)۔
یہ مسلم ہے کہ اس آیت میں امر کا صیغہ وجوب کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اجازت ہے اور ممنوعیت جسے اصولیین کی اصطلاح میں( امر عقیب خطر) کہتے ہیں کے جواز کی دلیل ہے۔
(و ابتغو ما کتب اللہ لکم) لکم اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے بعد اس وسعت اور تخفیف حکم سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ قوانین آفرینش کے مطابق حفظ نظام اور بقا ئے نسل کی راہ ہے۔
اس کے بعد دو سرا حکم بیان کیا گیا ہے ۔ فرماتا ہے: کھا ؤ اورپیوؤ یہاں تک کہ صبح کی سفید د ھاری رات کی سیاہ دھاری تمہارے لئے نمایاں ہو جائے (و کلواو اشربوا حتی یتبین لکم الخیط الا بیض من الخیط الاسو من الفجر) اس طرح اب مسلمان حق رکھتے کہ وہ تمام رات کھانے پینے کی چیزوں سے استفادہ کریں۔
تیسرے حکم کے لئے ارشاد ہوتاہے: اس کے بعد روزے کورات تک مکمل کرو ( ثُمَّ اٴَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَی اللَّیْلِ)یہ جملہ روزہ داروں کے لئے دن بھر کھانے پینے اور جنسی اختلاط سے باز رہنے کی تاکید کے طور پرہے نیز یہ جملہ روز ے کے آغاز اور انجام کی خبر بھی دیتاہے اور وہ یہ کہ روزہ طلوع فجر سے شروع ہوتاہے اور رات کے آنے پر ختم ہوتاہے۔
آخر میں چوتھا اور آخری حکم بیان کرتے ہوئے فرماتاہے: مساجد میں اعتکاف کے دوران میں، اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت نہ کرو (ِ (وَلاَتُبَاشِرُوہُنَّ وَاٴَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی الْمَسَاجِدَ)۔اس حکم کا بیان گذشتہ حکم میں استثنا ء سے مشابہ ہے کیونکہ اعتکاف میں جس کی مدت کم از کم تین دن ہے روز ہ رکھا جاتا ہے اس عرصے میں عورتوں سے نہ دن کو مباشرت کی اجازت ہے نہ رات کو۔
آخر میں تمام احکام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے: یہ خدائی حدود ہیں ان کے نزدیک نہ جانا (تلک حدود اللہ فلا تقربوھا)کیونکہ سر حد کے قریب جانا وسوسے پیدا کرتاہے اور بعض اوقات سبب بنتاہے کہ انسان حدود سے تجاوز کرکے مبتلائے گناہ ہو جائے۔
ہاں۔ خدا تواسی طرح لوگوں کے لئے اپنی آیات کو واضح کرتاہے کہ شاید وہ پرہیزگار ہوجائیں(کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ)۔
باطل کے در میان فرق کرنے دالاہے۔ پس جو شخص ماہ رمضان میں حضر میں ہو وہ روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ دوسرے دنوں میں بجالائے ۔ خدا تمہارے لئے راحت و آرام چاہتاہے ، زحمت و تکلیف نہیں، تم یہ دن پورے کرو اور خدا کی اس لئے بزرگی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت کی ہے ۔ ہوسکتاہے تم شکرگزار ہوجاؤ۔تفسیر روزہ تقوی کا سرچشمہ ہے:چند اہم اسلامی احکام کے بیان کے بعد زیر نظر آیات میں ایک اور حکم بیان کیاگیاہے جو چند اہم ترین اسلامی عبادات میں شمار ہوتاہے اور وہ روزہ ہے۔ اسی تاکید سے ارشاد ہوتاہے: اے ایمان والو! روزہ تمہارے لئے اس طرح سے لکھ دیا گیاہے جس طرح تم سے پہلے کی امتوں کے لئے لکھا گیاتھا ( یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ )ساتھ ہی اس انسان ساز اور تربیت آفرین عبادت کا فلسفہ چھوٹے سے پر معنی جملے میں یوں بیان کرتاہے: ہوسکتا ہے تم پرہیزگار بن جاؤ (لعلکم تتقون)۔جی ہاں۔ جیسا کہ اس کی تشریح میں آگے بیان کیاجائے گا کہ روزہ روح تقوی اور پرہیزگاروں کی تربیت کے لئے تمام جہات سے ایک مؤثر عامل ہے۔اس عبادت کی انجام دہی چونکہ مادی لذائد سے محرومیت اور مشکلات سے وابستہ ہے۔ خصوصا گرمیوں میں یہ زیادہ مشکل ہے اس لئے روح انسانی کو مائل کرنے اور اس حکم کی انجام دہی پرآمادہ کرنے کے لئے مندرجہ بالا آیات میں مختلف تعبیرات کو استعمال کیاگیاہے۔پہلے ”یا ایہا الذین امنوا“ سے خطاب کیاگیاہے۔ اس کے بعد یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ روزہ تم ہی سے مخصوص نہیں بلکہ گذشتہ امتوں میں بھی تھا اور آخر میں اس کا فلسفہ بیان کیاگیا ہے جس کے مطابق اس پرمنفعت خدائی فریضہ کے اثرات سو فیصد خود انسان کے فائدے میں ہیں اس طرح اسے ایک پسندیدہ اور خوشگوار موضوع بنادیاگیاہے۔ ایک حدیث میں امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:لذة ما فی النداء ازال تعب العبادة و العناء۔یعنی۔یا ایہا الذین امنوا کے خطاب کی لذت نے اس عبادت کی تکان ، سختی اور مشقت کو ختم کردیاہے۔ روزے کی سنگینی اور مشکل میں کمی کے لئے بعد کی آیت میں چند احکام اور بیان کئے گئے ہیں ۔ارشاد فرمایا: چند گنے چن روزہ رکھو (ایاما معدوداة) ایسا نہیں کہ تم پورا سال روزہ رکھنے پر مجبور ہو یا یہ سال کا کوئی بڑا حصہ ہے بلکہ یہ تو سال کے ایک مختصر سے حصے میں تمہیں مشغول رکھتاہے۔دوسری بات جو اس آیت میں ہے یہ ہے کہ تم میں سے جو افراد بیمار ہیں یا مسافر ہیں کہ جن کے لئے روزہ باعث مشقت و زحمت ہے انہیں اس حکم میں رعایت دی گئی ہے کہ وہ ان دنوں کے علاوہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھیں (سفر ختم ہوجانے اور بیماری سے صحت یابی کے بعد) (فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر)۔تیسری بات یہ کہ جنہیں روزہ رکھنے میں انتہائی زحمت و تکلیف ہوتی ہے (مثلا بوڑھے مرد ، بوڑھی عورتیں اور دائمی مریض جن کے تندرست ہونے کی امید نہیں) ان کے لئے ضروری نہیں کہ وہ روزہ رکھیں، بلکہ اس کے بجائے کفارہ ادا کرنے کے لئے مسکین کو کھانا کھلادیں (و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین)
یطیقونہ“ کا مادہ ہے”طوق“ جس کا اصلی معنی ہے وہ حلقہ جو گلے میں ڈالتے ہیں یا جو طبعی طور پر گردن میں ہوتاہے (جیسے رنگدار حلقہ جو بعض پرندوں کے گلے میں ہوتاہے) بعد ازاں یہ لفظ انتہائی توانائی اور قوت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یطیقونہ کی آخری ضمیر روزے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس طرح اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جنہیں روزے کے لئے انتہائی قوت اور توانائی خرچ کرنا پڑے اور روزہ رکھنے میں انہیں سخت زحمت اٹھانا پڑے جیسا کہ بڑے بوڑھے اور نا قابل علاج بیمار ہیں، روزہ ان کے لئے معاف ہے اور وہ اس کی جگہ صرف فدیہ ادا کریں۔
لیکن بیمار اگر تندرست ہوجائیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ قضا روزہ رکھیں۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یطیقونہ کا معنی ہے کہ جو گذشتہ زمانے میں قوت و توانائی رکھتے تھے (کا نوا یطیقونہ) اور اب طاقت نہیں رکھتے (بعض روایات میں بھی یہ معنی کیا گیا ہے)۔
بہر حال مندرجہ بالا حکم منسوخ نہیں ہو اور آج بھی پوری طاقت سے باقی ہے اور یہ جو بعض کہتے ہیں کہ پہلے روزہ واجب تخییری تھا اور لوگوں کو اختیار دیا گیاتھا کہ وہ روزہ رکھیں یا فدیہ اور کریں، آیت میں موجود قرائن اس کی تائید نہیں کرتے اور اس پر کوئی واضح دلیل بھی موجود نہیں ہے۔
جو شخص اس زیادہ راہ خدا میں کھانا کھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے (فمن تطوع خیرا فہو خیر لہ)۔
آیت کے آخر میں اس حقیقت کو واضح کیاگیاہے کہ روزے کا تمہیں ہی فائدہ پہنچے گا: اور روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو (و ان تصوموا خیروہ لکم ان کنتم تعلمون)۔
بعض چاہتے ہیں کہ اس جملے کو اس امر کی دلیل قرار دیں کہ روزہ ابتداء میں واجبتخییر تھا۔ مسلمانوں کہ یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ روزہ رکھیں یا اس کی بجائے فدیہ دے دیں تا کہ آہستہ آہستہ روزے کی عادت پڑجائے۔ بعد ازاں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور روزے نے وجوب عینی کی شکل اختیار کرلی۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت روزے کے فلسفے کی تاکید کے طور پرآئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ عبادت بھی دوسری عبادات کی طرح خدا کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتی بلکہ اس کا تمام فائدہ خود انسانوں کو ہے۔ اس کی شاہد وہ تعبیرات ہیں جو قرآن کی دیگر آیات میں نظر آتی ہیں۔ مثلا:
ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون
یہ تمہارے لئے ہی بہتر ہے اگر تم جان سکو۔ (جمعہ ۔۶)
یہ آیت نماز جمعہ کے وجوب عینی حکم کے بعد (اجتماع شرائط کی صورت میں) آئی ہے۔
سورہ عنکبوت کی آیت ۱۶ میں ہے:
وَإِبْرَاہِیمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوہُ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُون
اور جب ابراہیم نے بت پرستوں کی طرف رخ کرکے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔
یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جان لو۔
اس سے واضح ہوجاتاہے کہ ”ان تصوموا خیر لکم“ سب روزہ داروں کے لئے خطاب ہے نہ کہ کسی خاص طبقے کے لئے ۔
زیر نظر آخری آیت روزے کے زمانے، اس کے کچھ احکام اور فلسفے کو بیان کرتی ہے۔ فرمایا: وہ چند گنے چنے دن جن میں روزہ رکھنا ہے ماہ رمضان کے ہیں (شہر رمضان) وہی مہینہ جس میں قرآن نازل ہواہے (الذی انزل فیہ القرآن)۔
وہی قرآن جو لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے جو ہدایت کی نشانیاں اور واضح دلیلیں لئے ہوئے ہے اور جو حق و باطل کے امتیاز اور ان کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کا معیار رکھتاہے (ہدی للناس و بینات من الہدی و الفرقان)۔
اس کے بعد مسافروں اور بیماروں کے بارے میں روزے کے حکم کو دوبارہ تاکیدا بیان کیاگیاہے: جو لوگ ماہ رمضان میں حاضر ہوں انہیں تو روزہ رکھنا ہوگا مگر جو مسافر یا بیمار ہوں وہ اس کے بدلے بعد کے دنوں میں روزہ رکھیں (فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ و من کان مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر)۔
مسافر اور بیمار کے حکم کا تکرار اس سے پہلی اور اس آیت میں ممکن ہے اس وجہ سے ہو کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ مطلقا روزہ نہ رکھنا کوئی اچھا کام نہیں اور ان کا اصرار ہے کہ بیماری اور سفر میں بھی روزہ رکھاجائے لہذا قرآن اس حکم کے تکرار سے لوگوں کہ یہ سمجھانا چاہتاہے کہ جیسے صحیح و سالم افراد کے لئے روزہ رکھنا ایک فریضہ الہی ہے ایسے ہے بیماروں اور مسافروں کے لئے افطار کرنا بھی فرمان الہی ہے جس کی مخالفت گناہ ہے۔
آیت کے آخر میں دوبارہ روزے کی تشریح اور فلسفے کا بیان ہے۔ فرمایا: خدا تمہارے لئے راحت و آرا م اور آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے لئے زحمت و تکلیف اور تنگی نہیں چاہتا: (یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر) یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ روزہ رکھنا اگرچہ ظاہرا سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لئے راحت و آسائش اور آرام کا باعث ہے۔
ممکن ہے یہ جملہ اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو کہ احکام الہی ستمگر اور ظالم حاکموں کے سے نہیں جنہیں بلا مشروط بجالانے کے لئے کہاجاتاہے لیکن جہاں انسان کے لئے کوئی حکم بجالانا سخت مشقت کا باعث ہو وہاں حکم الہی کے تحت انسانی ذمہ داری کو سہل تر کردیاجاتاہے اسی لئے روزے کا حکم اپنی پوری اہمیت کے با وجود بیماروں اور مسافروں کے لئے اٹھادیا گیاہے۔
مزید ارشاد ہوتاہے: غرض اور مقصد یہ ہے کہ تم ان روزوں کی تعداد کو مکمل کرو (و لتکملو العدة) یعنی ہر صحیح و سالم انسان پر لازم ہے کہ وہ سال میں ایک ماہ کے روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کے جسم و روح کی پرورش کے لئے ضروری ہے۔ اسی بناء پر ماہ رمضان میں اگر تم بیمار تھے یا سفر میں تھے تو ضروری ہے کہ اتنے ہی دنوں کی بعد میں قضا کرو تا کہ وہ تعداد مکمل ہوجائے یہاں تک کہ عورتوں پرایام حیض کی نماز کی قضا تو معاف ہے لیکن روزے کی قضا معاف نہیں ہے۔
آخری جملے میں ارشاد ہوتاہے: تا کہ اس بناء پر کہ خدانے تمہاری ہدایت کی ہے تم اس کی بزرگی بیان کرو اورشاید اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو (و التکبر و اللہ علی ما ہدکم و لعلکم تشکرون)۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ خدا کی بزرگی بیان کرنے کے مسئلے کا ذکر بطور قاطع ہے (لتکبروا اللہ علی ما ہدکم) جب کہ شکرگذاری کے لئے لعل (شاید) کہا گیا ہے۔
تعبیر کا یہ فرق ممکن ہے اس لیے ہو کہ اس عبادت کی انجام دہی بہرحال مقام پروردگار کی تعظیم ہے لیکن شکر کا مفہوم ہے نعمات الہی کو ان کی جگہ پر صرف کرنا اور روزے کے عملی آثار اور فلسفوں سے فائدہ حاصل کرنا۔ اس کی کئی ایک شرایط ہیں جب تک وہ پوری نہ ہوں شکر انجام نہیں پاتا اور ان میں سے زیادہ اہم حقیقت روزہ کی پہچان ، اس کے فلسفوں سے آگاہی اور خلوص کامل ہے۔