- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/02/08
- 1 رائ
وہ دلیلیں جو یہ ثابت كرتی ھیں كہ “حی علٰی خیر العمل” اذان و اقامت كا جزء ھے، اور اس كے بغیر اذان و اقامت درست نھیں، مندرجہ ذیل ھیں:
اول: وہ روایتیں جو اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ھیں۔
ان احادیث میں سے بطور مثال ھم وہ چند حدیثیں جن كو مندرجہ ذیل اصحاب نے صحیح سند كے ساتھ ذكر كیا ھے، پیش كر رھے ھیں:
1) عبداللہ بن عمر
2) سھل بن حنیف
3) بلال
4) ابی محذورہ
5) ابن ابی محذورہ
6) زید بن ارقم
عبد اللہ ابن عمر سے مروی احادیث
الف) نافع كا بیان ھے كہ ابن عمر كبھی كبھی “حی علی الفلاح” كے بعد “حی علی خیر العمل” بھی كھتے تھے۔1
ب) لیث بن سعد نے نافع سے روایت كی ھے كہ ابن عمر اپنے سفر میں اذان نھیں كھتے تھے۔ اور اپنی اذان میں “حی علی الفلاح” اور كبھی كبھی “حی علی خیر العمل” بھی كھتے تھے۔ 2
ج) لیث بن سعد نے نافع سے روایت كی ھے كہ كبھی كبھی ابن عمر اپنی اذان میں “حی علی خیر العمل” كا اضافہ كیا كرتے تھے۔
د: اسی طرح كی روایت نسیر بن ذعلوق نے ابن عمر سے كی ھے كہ وہ سفر میں ایسا كیا كرتے تھے۔4
ھ) عبدالرزاق نے معمر سے، انھوں نے یحییٰ سے، انھوں نے ابی كثیر سے، اور انھوں نے ایك شخص سے روایت كی ھے كہ ابن عمر جب اذان میں “حی علی الفلاح” كھتے تھے تو اس كے بعد “حی علی خیر العمل” بھی كھتے تھے اور اس كے بعد “اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الااللہ” كھتے تھے۔ 5
اور یھی روایت ابن ابی شیبہ 6 نے ابن عجلان اور عبید اللہ كے توسط سے اور انھوں نے بحوالہ نافع ابن عمر بیان كی ھے۔
سھل بن حنیف كی بیان كردہ احادیث
الف: بیھقی نے روایت كی ھے كہ “حی علیٰ خیر العمل” كے اذان میں ذكر كرنے كی روایت ابی امامہ، سھل بن حنیف سے نقل كی گئی ھے۔ 7
ب: ابن وزیر نے محبّ طبری شافعی كی كتاب احكام الاحكام كے حوالہ سے ان الفاظ میں نقل كیا ھے: صدقہ بن یسار نے ابی امامہ سھل بن حنیف سے روایت كی كہ جب وہ اذان دیتے تھے تو “حی علیٰ خیر العمل” كھتے تھے۔
یہ روایت سعید بن منصور نے بیان كی ھے۔8
بلال (رض) سے مروی احادیث
الف) عبداللہ بن محمد بن عمار نے، عمار بن حفص بن عمر اور عمر بن حفص ابن عمر سے اور انھوں نے اپنے آباء و اجداد سے، اور انھوں نے بلال (رض) سے روایت كی ھے كہ بلال (رض) صبح كی اذان دیتے تھے اور اس میں “حی علی خیر العمل” كھتے تھے۔ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان كو حكم دیا كہ “حی علیٰ خیر العمل” كو ھٹا كر اس كی جگہ پر “الصلاة خیر من النوم” كھا كرو۔ 9
روایت كا آخری حصہ قابل قبول نھیں ھے۔ كیونكہ “الصلاة خیر من النوم” كا اذان میں اضافہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے بعد (عمر بن خطاب كے زمانہ میں) ھوا ھے۔ جس پر بھت سی روایات گواہ ھیں جن كا تذكرہ ھم آئندہ كریں گے۔10
ب) بلال (رض) صبح كی اذان دیتے تھے، اور اس میں “حی علی خیر العمل” كھتے تھے۔ 11
ابی محزورہ سے منقول روایات
الف) محمد بن منصور نے اپنی كتاب “الجامع” میں اپنی اسناد كے ساتھ رجال مریضیین (پسندیدہ راوی) كے حوالہ سے ابی محزورہ، جو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے ایك مؤذن تھے، سے روایت كی ھے، كہ وہ كھتے ھیں: مجھے رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان میں “حی علی خیر العمل” كھنے كا حكم دیا۔ 12
ب) عبد العزیز بن رفیع سے مروی ھے كہ ابی محذورہ نے كھا: میں نوجوان تھا۔ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی اذان كے آخر میں “حی علیٰ خیر العمل” كھا كرو۔ 13
ابن ابی محذورہ كی روایت
“شفاء” میں ھذیل بن بلال المدائنی سے روایت ھے كہ میں نے ابن ابی محذورہ كو “حی علیٰ الفلاح، حی علیٰ خیر العمل” كھتے ھوئے سنا۔ 14
زید بن ارقم سے مروی حدیثروایت ھے كہ انھوں نے اپنی اذان میں “حی علی خیر العمل” كھا۔ 15
حلبی كھتے ھیں … ابن عمر اور علی بن الحسین علیھما السلام كے بارے میں منقول ھے كہ یہ دونوں اپنی اذان میں “حی علی الفلاح” كے بعد “حی علیٰ خیر العمل” كھتے تھے۔ 16
علاء الدین حنفی نے اپنی كتاب “التلویح فی شرح الجامع الصحیح” میں كھا ھے: “حی علی خیر العمل” كی روایت كے بارے میں ابن حزم كھتا ھے كہ یہ صحیح ھے، كہ عبد اللہ بن عمر اور ابی امامہ سھل بن حنیف “حی علٰی خیر العمل” كھا كرتے تھے۔ مصنف پھر كھتے ھیں: “علی بن الحسین” (ع) بھی یھی كیا كرتے تھے۔ 17
اور ابن نباح اپنی اذان میں “حی علی خیر العمل” كھا كرتے تھے۔ 18
دوم: وہ روایتیں جو صحیح سندوں كے ساتھ اھل بیت علیھم السلام سے وارد ھوئی ھیں
حضرت علی علیہ السلام سے مروی حدیث
روایت میں ھے كہ آپ فرماتے ھیں كہ میں نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو كھتے ھوئے سنا ھے كہ جان لو! تمھارے اعمال میں سب سے بھتر نماز ھے۔ اور بلال (رض) كو “حی علی خیر العمل” كے ساتھ اذان كھنے كا حكم دیا۔ یہ روایت شفا میں منقول ھے۔ 19
حضرت علی بن الحسین علیھما السلام سے منقول روایات
الف) حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے: علی ابن الحسین علیھما السلام جب اذان میں “حی علی الفلاح” كھتے تھے تو اس كے بعد “حی علٰی خیر العمل” بھی كھتے تھے اور فرماتے تھے كہ یھی اذان اول ھے۔ 20
ھاں پر “اذان اول” كو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی اذان كے علاوہ اور كسی اذان پر حمل كرنا صحیح نھیں ھے۔21
ب) اسی روایت كو حلبی، ابن حزم اور دوسرے راویوں نے بھی امام علی بن الحسین زین العابدین علیھما السلام سے نقل كیا ھے۔
ج) علی بن الحسین علیھما السلام سے روایت ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب موذن كی اذان سنتے تھے تو اس كو دھراتے تھے۔ اور جب موذن “حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی علٰی خیر العمل” كھتا تو آپ (ص) “لا حول ولا قوة الا باللہ” كھتے تھے… الخ۔ 22
د) امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار علی بن الحسین علیھما السلام سے روایت كی ھے كہ جب آپ “حی علی الفلاح” كھتے تھے تو اس كے بعد “حی علٰی خیر العمل” ضرور كھتے تھے۔ 23
حضرت محمد باقر علیہ السلام سے مروی احادیث
الف) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: كلمہ “حی علی خیر العمل” اذان كا جز تھا۔ عمر بن خطاب نے حكم دیا كہ اس كے كھنے سے پرھیز كیا جائے۔ كھیں ایسا نہ ھو كہ لوگ جھاد سے رك جائیں اور نماز ھی پر اكتفا كرنے لگیں۔24
ب) حضرت ابی جعفر (امام محمد باقر) علیہ السلام سے منقول ھے كہ آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے زمانہ میں اذان “حی علی خیر العمل” كے ساتھ كھی جاتی تھی۔ اور ابوبكر كے زمانہ خلافت اور عمر كی خلافت كے اوائل میں بھی اذان میں یہ فقرہ رائج تھا۔ پھر عمر نے “حی علٰی خیر العمل” كے چھوڑنے اور اذان و اقامت سے حذف كرنے كا حكم دیا۔ لوگوں نے اس سے اس كی وجہ درہافت كی تو اس نے كھا: جب لوگ یہ سنیں گے كہ نماز “خیر العمل” (سب سے بھترین عمل) ھے تو جھاد كی بابت سستی اور اس سے روگردانی كرنے لگیں گے۔ 25
اسی طرح كی روایت حضرت جعفر بن محمد الصادق علیھما السلام سے بھی منقول ھے۔26
اور پھر گردش لیل و نھار كے ساتھ ساتھ “حی علی خیر العمل” صرف علویین، اھل بیت (ع) اور ان كے شیعوں كا شعار بن كر رہ گیا۔ یھاں تك كہ حسین بن علی جو “صاحب فتح” كے نام سے مشھور ھیں، كے انقلاب كا آغاز ھی اسی طرح ھوا كہ عبد اللہ بن حسین افطس گلدستۂ اذان پر چڑھ گئے جو كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی قبر مطھر كے سرھانے واقع تھا، اور موذن سے كھا كہ “حی علٰی خیر العمل” كے ساتھ اذان كھو۔ موذن نے جب ان كے ھاتھ میں تلوار دیكھی تو ایسا ھی كیا۔ اور جب عمری (منصور كی طرف سے مدینہ كا گورنر) نے اذان میں “حی علٰی خیر العمل” سنا تو ماحول اپنے خلاف محسوس كیا، وہ دھشت زدہ ھوگیا اور چلایا: “دروازے بند كرو اور مجھے پانی پلاؤ……” 27
تنوخی نے ذكر كیا ھے كہ ابو الفرج نے خبر دی ھے كہ اس نے اپنے زمانہ میں لوگوں كو اپنی اذان میں “حی علٰی خیر العمل” كھتے ھوئے سنا ھے۔28
حلبی كا بیان ھے كہ بعض نے ذكر كیا ھے: آل بویہ كی حكومت میں رافضی حیعلات (حی علی الصلاة، و حی علی الفلاح) كے بعد “حی علی خیر العمل” كھتے تھے۔ جب سلجوقیہ كی حكومت آئی تو انھوں نے موذن سے “حی علٰی خیر العمل” كھنے كو منع كردیا، اور حكم دیا كہ صبح كی اذان میں اس كی جگہ پر دو مرتبہ “الصلاة خیر من النوم” كھا جائے۔ یہ 448 ھجری كی بات ھے۔
………………….
حواله جات
- 1. السنن، بیھقی: 1/ 624، حدیث نمبر: 1991
- 2. السنن، بیھقی: 1/ 624، حدیث نمبر: 1991
- 3. السنن، بیھقی: 1/ 244۔ دلائل الصدق: ج/3، قسم/ 2، ص/100، بحوالہ مبادی الفقہ الاسلامی: 38، بحوالہ شرح تجرید، جس كی روایت ابن ابی شیبہ نے كی ھے اور “شفاء” میں اس كو نقل كیا ھے۔ جیسا كہ صعدی نے “جواھر الاخبار والآثار المستخرجة من لجة البجر الذخار”، كی جلد/2، ص192، پر نقل كیا ھے۔
- 4. السنن، بیھقی: 625، مطبع: دار الكتب العلمیہ، لبنان۔
- 5. السنن، بیھقی:: 1/ 460
- 6. السنن، بیھقی: 1/ 145، اور مصنف عبد الرزاق كا حاشیہ: 1/ 460
- 7. السنن، بیھقی: 1/ 425
- 8. دلائل الصدق: ج/3، قسم /2، ص/100، بحوالہ مبادی الفقہ الاسلامی: 38، سن طباعت 1354 ھجری۔
- 9. مجمع الزوائد: 1/ 330۔ طبرانی كی كتاب الكبیر كے حوالہ سے۔ مصنف عبدالرزاق: 1/ 460، حدیث نمبر: 1786۔ سنن بیھقی: 1/ 625، حدیث نمبر: 1994۔ منتخب الكنز، حاشیہ مسند: 3/ 276۔ ابی شیخ كی كتاب “كتاب الاذان” كے حوالہ سے۔دلائل الصدق، ج/3، قسم/2، ص/99
- 10. رجوع كریں، الموطاء، مالك: 46۔ سنن دارقطنی۔ مصنف عبدالرزاق: 1/ 474، 574، حدیث نمبر: 1994۔ نمبر 1827، 1829، 1832۔ منتخب عبدالرزاق حاشیۂ مسند: 3/ 278۔ اس میں ھے كہ یہ كھا كہ یہ بدعت ھے۔ ترمذی اور ابو داؤد وغیرہ۔
- 11. منتخب كنز العمال، حاشیۂ مسند: 3/ 276۔ دلائل الصدق: ج/3، قسم/2، ص/99، بحوالہ كنز
- 12. بحر ذخار: 2/ 192، جواھر الاخبار والآثار: حاشیہ/ 192
- 13. میزان الاعتدال، ذھبی: 1/ 139۔ لسان المیزان، عسقلانی 1/ 268
- 14. میزان الاعتدال، ذھبی: 1/ 139۔ لسان المیزان، عسقلانی 1/ 268
- 15. امام صادق و مذاھب اربعہ: 5/ 382
- 16. السیرة الحلبیہ۔ باب الاذان: 2/ 98، مطبع: مكتبة الاسلامیہ
- 17. دلائل الصدق: ج/3، قسم/2، ص/100، بحوالہ مبادی الفقہ الاسلامی: 38۔ سن طباعت 1354 ھجری، المحلی: 3/ 160
- 18. رجوع كریں: وسائل الشیعہ: 4/ 245، باب كیفیت اذان، حدیث نمبر: 12، جامع احادیث الشیعہ۔ قاموس الرجال
- 19. جواھر الاخبار والآثار المسترجہ من الحجة البحر الزخار: 2/ 191۔ امام صادق ع. اور مذاھب اربع: 5/28463.سنن بیھقی: 1/ 625، حدیث نمبر: 1993، دلائل الصدق: 3/ قسم/2، ص/100، بحوالہ مبادی الفقہ الاسلامی: 38، بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ، جواھر الاخبار والآثار: 2/ 192
- 20. دلائل الصدق: 3، قسم/2، ص/100، بحوالہ مبادی الفقہ الاسلامی: 38
- 21. دعائم الاسلام: 1/ 145۔ بحار الانوار: 84/ 179
- 22. جواھر الاخبار والآثار، صعدی: 2/ 192
- 23. البحر الزخائر، جواھر الاخبار والآثار دونوں كے حاشیہ پر.: 2/ 192
- 24. دعائم الاسلام : 1/ 142۔ بحار الانوار: 84/ 156
- 25. دعائم الاسلام : 1/ 142۔ بحار الانوار: 84/ 156
- 26. مقاتل الطالبین: 1446
- 27. نشوار المحاضرات: 2/ 133
- 28. نشوار المحاضرات: 2/ 133
Very good effort,jazak allah