- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- 2022/02/14
- 0 رائ
انسان کی صفات، خدا وند متعال کی صفات کا ایک پرتو ہونا چاہئیں تا کہ انسانی معاشرے میں الہٰی صفات کا نور پھیلے۔ اسی اصول کی بنیاد پر جس قدر قرآن مجید عدل الہٰی کو بیان کر تا ہے، اسی قدر انسانی معاشرے اور ہر انسان میں عدل و انصاف قائم کر نے پر اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید بار بار ظلم کو معاشروں کی تباہی و بربادی کا سبب بتاتا ہے اور ظالموں کے انجام کو درد ناک ترین انجام شمار کرتا ہے۔
قرآن مجید گزشتہ اقوام کی داستانیں بیان کرنے کے ضمن میں بار بار اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ دیکھو ظلم و فساد کے نتیجہ میں کس طرح وہ اقوام عذاب الہٰی سے دو چار ہو کر نابود ہوئے ، تم بھی اس سے ڈرو کہ کہیں ظلم کرنے کے نتیجہ میں اس قسم کے انجام سے دوچار نہ ہو جاؤ۔
قرآن مجید واضح الفاظ میں ایک بنیادی اصول کے عنوان سے کہتا ہے:
<إنّ اللہ یاٴمر بالعدل والاحسان و إتیاء ذی القربیٰ وینھی عن الفحشآء والمنکر والبغی> (سورہ نحل/۹۰)
”بیشک اللہ عدل،احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بد کاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے۔“
قابل توجہ بات ہے کہ جس طرح ظلم کرنا ایک برا اور قبیح کام ہے، اسی طرح ظلم کو برداشت کرنا بھی اسلام اور قرآن کی نظر میں غلط ہے، چنانچہ سوره بقرہ کی آیت نمبر ۷۹ ۲ میں آیا ہے: ”لا تظلمون ولا تظلمون > ( سورہ بقرہ/۲۷۹)
”نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے “
اصولی طور پر ظلم کو قبول کرنا ظلم کی حوصلہ افزائی، اس کی تقویت اور ظالم کی مدد کر نے کا باعث ہے۔
ظلم کا سر چشمہ کیا ہے؟
”ظلم“ کا سر چشمہ مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ہے:
الف۔جہل: بعض اوقات ظالم انسان حقیقت میں نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ نہیں جانتا ہے کہ وہ کس کی حق تلفی کرتا ہے، اور اپنے کام سے بے خبر ہے۔
ب۔ احتیاج: کبھی دوسروں کے پاس موجود چیز کی احتیاج انسان کو وسواس میں ڈالتی ہے کہ اس شیطانی کام کو انجام دے، جبکہ اگر بے نیاز ہو تا، اس قسم کے مواقع پر اس کے لئے ظلم کرنے کی کوئی دلیل موجود نہ ہوتی۔
ج۔ عجز و ناتوانی: بعض اوقات انسان راضی نہیں ہو تا کہ دوسروں کا حق ادا کر نے میں کوتاہی کرے لیکن اس میں یہ کام انجام دینے کی قدرت و توانائی نہیں ہوتی ہے اور ناخواستہ ”ظلم“کا مرتکب ہوتا ہے۔
د۔خود پرستی، حسد اور انتقامی جذبہ: گاہے مذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک مؤثر نہیں ہوتا ہے، لیکن”خود پرستی“اس امر کا سبب بنتی ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کو پائمال کرے ۔یا ”انتقامی جذبہ“اور”کینہ و حسد“ اسے ظلم وستم کر نے پر مجبور کرتے ہیں ۔یا کبھی”اجارہ داری“دوسروں کی حق تلفی کا سبب بن جاتی ہے۔اور ان کے مانند دوسرے عوامل و اسباب۔
لیکن چونکہ مذکورہ بری صفات اور عیوب و نقائص میں سے کوئی چیز خداوند متعال کے وجود مقدس میں نہیں پائی جاتی، وہ ہر چیز کا عالم ،سب سے بے نیاز، ہر چیز پر قادر اور ہر ایک کے بارے میں مہربان ہے، اس لئے اس کے لئے ظلم کا مرتکب ہونا معنی نہیں رکھتا ہے۔
اس کا وجود بے انتہا اور کمال لا محدود ہے، ایسے وجود سے خیر، نیکی، عدل و انصاف، مہر بانی اور رحمت کے علاوہ کوئی چیز صادر نہیں ہو تی ہے ۔
اگر وہ بد کاروں کو سزا دیتا ہے تو وہ حقیقت میں ان کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، جو انھیں ملتا ہے، اس شخص کے مانند جو نشہ آور چیزیں یا شراب پینے کے نتیجہ میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید فر ماتا ہے: <ھل تجزون إلاّ ماکنتم تعلمون>(سورہ نمل/۹۰)
”کیا تمھیں تمھارے اعمال کے علاوہ بھی کوئی معاوضہ دیا جاسکتا ہے۔“
از اصول عقائد ، مکارم شیرازی