خدا کی ذات میں شرک اور اس کی وحدانیت کے دلائل

خدا کی ذات میں شرک اور اس کی وحدانیت کے دلائل

2022-01-09

736 بازدید

کپی کردن لینک

شرک ایک ایسا گمراہ کن عقیدہ ہے جو انسانی تاریخ میں مختلف شکلوں میں موجود رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں فطری مظاہر، آسمانی اجسام، یا دیگر مخلوقات کو خدا کا شریک سمجھنا شامل ہیں، حالانکہ عقل و دلیل کی رو سے یہ تصور بالکل بے بنیاد ہے۔

شرک آمیز عقائد کی ابتدا کیسے ہوئی

سوال یہ ہے کہ شرک آمیز عقائد انسانوں کے درمیان کیسے رائج ہوئے، اس سلسلے میں ماہر سماجیات کے نظریات مختلف ہیں، لیکن ان تمام نظریات میں سے کوئی بھی نظریہ قابل اعتماد دلائل سے متصف نہیں ہے، اس ضمن میں شاید یہ کہنا درست ہو کہ آسمانی اور زمینی موجودات میں تنوع و اختلاف، شرک آمیز عقائد میں مبتلا ہونے کا سبب بنا، اس طرح ان لوگوں نے ہر موجود کے لئے ایک خاص خدا کو فرض کر لیا، اچھائیوں اور برائیوں کے لئے الگ الگ خدا کے ہونے پر اعتقاد پیدا کر لیا، اور اس طرح ان لوگوں نے جہان کے لئے دو خدا فرض کر لیئے۔

اس کے علاوہ چونکہ زمینی حوادثات میں جب آفتاب، ماہتاب اور ستاروں کی دخالت کو مشاہدہ کیا تو ان کے ذہنوں میں یہ خیال آیا کہ یہ چاند سورج اور ستارے زمینی موجودات کی بہ نسبت ربوبیت سے متصف ہیں، اور چونکہ اپنی طبیعت میں کسی معبود کی پرستش کو لمس کرتے تھے لہٰذا ان لوگوں نے اپنے خیالی معبودوں کے لئے بت بنا لئے، اور ان کی پرستش میں مشغول ہو گئے، اس طرح بتوں کو ضعیف افکار سے متصف لوگوں کے درمیان اصالت مل گئی۔

اور پھر ہر قبیلہ نے اپنے توہُّمات کی بنیاد پر بتوں کی عبادت کے لئے قوانین وضع کر لئے تاکہ ایک طرف خدا پرستی کی حس کی تسکین ہوتی رہے اور دوسری طرف اپنی نفسانی خواہشات کو تقدس کا لباس عطاء کر سکیں، اور انہیں مذہبی شکل و صورت دے کر اپنی مراد حاصل کر لیں، اسی وجہ سے آج بھی بت پرستوں کے درمیان ناچنا، گانا، شراب نوشی اور شہوت رانی، مذہبی رسومات کے تحت رائج ہے۔

مذکورہ تمام عوامل کے علاوہ سب سے مہم وجہ وقت کے ظالموں اور جبارں کی خود خواہی اور تکبر جیسے عوامل سبب بنے، کہ وہ پنا مقصد حاصل کرنے کے لئے سادہ لوح افراد کے افکار سے فائدہ اٹھائیں، لہٰذا اپنی قدرت و حدود سلطنت کو وسعت دینے کے لئے شرک آلود عقائد کی بنیاد ڈالی، اور اس کی ترویج کرتے رہے اور اپنے لئے ایک قسم کی ربوبیت کے قائل ہوگئے اور اس طرح طاغوتوں کی پرستش مذہبی مراسم کا جز شمار کی جانے لگی کہ جس کی مثالیں ہند، چین، ایران اور مصر کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی قابل مشاہدہ ہیں۔

بہرحال شرک آلود ادیان مختلف اسباب و علل کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں جنہوں نے دین الٰہی کے سائے میں انسان کے تکامل اور کامیابی کے راستے میں بڑے موانع ایجاد کئے، اسی وجہ سے انبیاء الٰہی کی تبلیغ کا ایک عظیم حصہ، شرک اور شرک آلودہ افراد سے مقابلے کے لئے مخصوص تھا۔

لہٰذا شرک آلود عقائد کی بنیاد، جہانی حوادثات کے مقابلے میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے موجود کی ربوبیت کے اعتقاد پر استوار ہے، یہاں تک کہ بہت سے مشرکین اس جہان کے خالق کی، یگانگی کے قائل تھے، اور خالقیت میں توحید کو قبول کرتے تھے، لیکن وہ اس سے کم مرتبہ دوسرے درجے کے خدا کے بھی قائل تھے جو ان کے اعتقاد کے مطابق بطور مستقل اس جہان کو چلانے والے ہیں، اور خالق جہان کو خداؤں کا خدا اور رب الارباب کا نام دیتے تھے۔

لیکن یہ کم درجے والے خدا کہ جس کے اختیار میں کائنات کا نظام ہے بعض لوگوں کے گمان کے مطابق فرشتہ ہیں کہ جنہیں مشرکین عرب خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، لیکن بعض لوگوں کے خیال کے مطابق جنّات ہیں، یا ستاروں کی روحیں یا گذشتہ لوگوں کی روحیں یا پھر نامرئی موجودات ہیں۔ جو لوگ اس طرح کے عقیدے رکھتے ہیں وہ اس تناقض سے بے خبر ہیں، لہٰذا ان کے عقائد کو باطل کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے تناقض کو بیان کردیا جائے۔

خدا کی یکتائی کے اثبات میں مختلف دلیلیں فلسفی اور کلامی کتابوں میں موجود ہیں، لیکن ہم یہاں پر صرف انہیں دلائل کو پیش کریں گے کہ جو ربوبیت میں یگانگت کو براہ راست ثابت کرتے ہوں اور مشرکین کے عقائد کو باطل کرتے ہوں۔

خدا کی وحدانیت پر دلائل

اگر اس جہان کے لئے دو یا دو سے زائد خداؤں کے فرض کو تسلیم کرلیا جائے تو چند حال سے خالی نہیں، یا یہ کہ اس جہان کی تمام مخلوقات، ان تمام خداؤں کی مخلوق اور معلول قرار پائے گی یا یہ کہ مخلوقات کے مجموعوں، میں سے ہر مجموعہ، مفروض خداؤں میں سے کسی ایک کی مخلوق اور معلول ہوگا یا یہ کہ یہ تمام موجودات، تنہا ایک خدا کی خلق کردہ اور بقیہ خدا مدبّر کی حیثیت سے ہوں گے۔

لیکن ایک موجود کے لئے چند خداؤں کا ہونا محال ہے، اس لئے کہ دو یا چند خالقوں یعنی علت جہان آفرین (وجود بخشنے والی علت) کا کسی موجود کو خلق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان خداؤں میں سے ہر ایک، کسی ایک وجود کا اضافہ کرے، جس کے نتیجے میں متعدد وجود خلق ہو جائیں گے، حالانکہ ہر موجود کے لئے صرف ایک ہی وجود ہے، وگرنہ ایک موجود نہیں رہ سکتا۔

لیکن دوسرا فرض یہ کہ ان خداؤں میں سے ہر ایک، کسی ایک مخلوق یا مخلوقات کے کسی خاص مجموعے کا خالق کہلائے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ہر مخلوق اپنے خالق کی مدد سے قائم ہو اور کسی دوسری مخلوق کا محتاج نہ ہو مگر یہ احتیاج ایسی ہو جو اس کے خالق تک پہنچتی ہو اور تنہا وہی خدا اس مخلوق کی رسیدگی کرتا ہو، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس جہان کے لئے چند خداؤں کا فرض متعدد نظام کے موجود ہونے کا لازمہ ہے جو ایک دوسرے سے جدا ہیں، حالانکہ اس جہان میں صرف ایک ہی نظام ہے۔

اور تمام موجودات ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے سے متاثر ہیں، ایک دوسرے کے محتاج ہیں، گذشتہ و آئندہ کے تمام موجودات میں ارتباط برقرار ہے، ہر موجود اپنے بعد آنے والے موجود کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے پس وہ جہان جس میں صرف ایک ہی نظام برقرار ہے اور اس کے اجزا ایک دوسرے سے مربوط ہیں، اسے چند علتوں کا معلول (چند خداؤں کا خلق کردہ) نہیں قرار دیا جاسکتا۔

اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تمام مخلوقات کا خالق ایک خدا ہے اور بقیہ خدا جہان کی تدبیر اور اس کی ہدایت کے عہدے دار ہیں، تو یہ فرض بھی صحیح نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ ہر معلول اپنی پوری ہستی کے ساتھ علت وجود آفرین کے ذریعے قائم ہے اور کوئی بھی مستقل موجود اس میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ یہ تمام معلولات علت وجود آفرین کی طاقت و قدرت کے زیر سایہ ہیں اور تمام تاثیر اور اثر پذیری اس کے اذن تکوینی کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔

اس بنا پر ان خداؤں میں سے کوئی بھی حقیقی رب نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ رب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مربوب کی ذات میں بطور مستقل تصرف کرے جبکہ فرض یہ ہے کہ ایسے تصرفات مستقل نہیں ہیں، بلکہ یہ سارے تصرفات اس کی ربوبیت کے زیر سایہ اور اسی کی قدرت سے انجام پاتے ہیں۔

اس طرح کے اختیارات و تصروفات، توحید (ربوبی) سے منافات نہیں رکھتے، جیسے کہ اگر خالقیت بھی اذنِ خدا سے ہو تو توحید خالقیت کے منافی نہیں ہے قرآن اور روایات میں بعض بندوں کے لئے ایسی خالقیت اور غیر استقلالی ربوبیت ثابت ہے، جیسا کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ (ع) کے بارے میں فرمایا ہے:

’’وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي‘‘[1]

اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل بناتے اور پھر اس پر کچھ دم کرتے ہو اور وہ میرے حکم سے سچ مچ پرندے بن جاتے ہیں۔

اسی طرح ایک ا اور مقام پر فرمایا: ’’فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا‘‘[2]

اور ان کی قسم جو زمین و آسمان کے درمیان تیرتے پھرتے ہیں۔

آسان الفاظ میں بحث کا خلاصہ

جہان کے لئے چند خداؤں کا توہّم، خدا کو مادی اور اعدادی علتوں سے قیاس کرنے کے ذریعے وجود میں آیا ہے حالانکہ علت وجود آفرین کو ایسی علتوں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی، اور کسی بھی معلول کے لئے چند علت وجود آفرین یا رب یا مستقل مدبّر فرض نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا اس توہّم کو دفع کرنے کے لئے پہلے علت وجود آفرین کے معنی اور پھر اس کی خصوصیات اور نوعیت میں خوب غور کرنا ہوگا، تاکہ معلوم ہو جائے کہ معلولِ واحد کے لئے چند علتوں کا تصور باطل ہے، اور پھر اس جہان کے انتظامات میں غور و فکر کرنا ہوگا تاکہ معلوم ہو جائے کہ ایسا منظم جہان چند خداؤں یا چند ارباب یا مستقل مدبروں کا خلق کردہ نہیں ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی واضح ہوگئی، کہ خدا کے بعض شائستہ بندوں کے لئے ولایت تکوینی کو ماننا جبکہ مستقل خالقیت اور ربوبیت کے معنی میں نہ ہو تو، یہ توحید سے منافات نہیں رکھتا، جیسا کہ پیغمبر اکرم ﷺ اور ائمہ (ع) کی ولایت تشریعی، الٰہی ربوبیت تشریعی سے کوئی منافات نہیں رکھتی، اس لئے کہ یہ خدا کی عطا کردہ اور اسی کے حکم سے ہے۔

خاتمہ

عقلی دلائل شرک کے بطلان کو واضح کرتے ہیں، کیونکہ کائنات کی ربوبیت اور تخلیق کی اصل علت صرف ایک ہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ نظامِ کائنات میں ایک سے زائد خداؤں کا وجود ہے، تو اس سے نہ صرف کائنات کا نظم درہم برہم ہو جائے گا، بلکہ یہ تصور ایک سے زیادہ خداؤں کے ایک لامتناہی سلسلے کو جنم دے گا جس کا اختتام ناممکن ہے۔ ایسا تسلسل عقلاً محال ہے، جو واضح کرتا ہے کہ حقیقی مالک اور مدبر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی واحد ذات ہے۔

حوالہ جات

[1]۔ مائدہ: ۱۱۰۔

[2]۔ نازعات: ۵۔

کتابیات

قرآن مجید۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مصباح، محمد تقی، درس عقائد، مترجم: ضمیر حسین بہاولپوری، سولہواں درس، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، 1427ھ۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے