- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- 2022/01/17
- 0 رائ
خدا وند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظم طریقہ سے چلا رھاھے ، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نھیں آتی ھے مثال کے طور پر اگر ھم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو یقین کریں گے کہ اس کا بنانے والا ، کار گر و مزدور اور نقشہ کھینچنے والا انجینیرکوئی ضرور ھوگا ، یعنی یہ گھر انھیں افراد کی زحمات کا نتیجہ ھے کسی کے خیال میں بھی نھیں آئے گا کہ یہ خودبخود تیار ھو گیا ھوگا ۔
اگر ھم ٹیبل پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ اس پر کسی نے لکھا ھے تو دیکھ کر ھمیں اطمینان سا ھوجائے گا کہ ھماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا ، اور اس پر اپنے آثار چھوڑ گیا ھے اگر کوئی کھے بھائی صاحب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ھی اس پر رواں ھو گیا اوراس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ھے تو ھم اس کی باتوں پر تعجب کریں گے اور اس کی بات غیر معقول قرار دینگے ، اگر ھم کسی مقام پر خوبصورت تصویر بھترین پارک میں بنی ھوئی دیکھیں جو ھر ایک کا دل اپنی طرف لبھا رھی ھو تو کیا ھمارے ذھن میں یہ بات آئے گی کہ ھو نہ ھو یہ خود بخود بن گئی ھو گی ۔
ھم گاڑی میں باتیں کرتے ھوئے چلے جا رھے تھے اتفاق سے گاڑی رک گئی ڈرائیور کو اطمینان ھے کہ گاڑی بغیر وجہ کے نھیں رکے گی ، کوئی نہ کوئی ضرور موٹر میں خرابی آئی ھے ، اور بنانے کے لئے تمام کوششیں کر رھاھے ھم کھیں بھائی ٹھھرو ابھی گاڑی خود بخود صحیح ھوکر چلنے لگے گی !
ھمارے ہاتھ کی گھڑی چلتے چلتے رک گئی ھم نے بنانے والے کو دیا، کیا وہ کہہ سکتا ھے کہ یہ ابھی خود ھی سے ٹھیک ھوجائے گی ۔
آپ کو اچھی طرح معلوم ھے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نھیں ھوتا ھے ، اور اس کی تلاش ھر شخص کو ھوتی ھے ، اب میں آپ سے سوال کروں یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا (بنانے والے) کرنے والے کے پیدا ھوگئی ھے ؟ ھرگز ایسا نھیں ھے ، اتنی بڑی اور منظم دنیا پھیلے ھوئے دریا ، چمکتے ھوئے ستارے اور دمکتا ھوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا ، فصلوں کی تبدیلی ، درختوں کے شباب ، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نھیں ھو سکتا ۔
دنیا میں نظم و ترتیب
اگر ھم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ھوئی ھو کہ اس کے اجزاآپس میں اچھی طرح خوب ملے ھوئے ھوںاوراس میںرھنے والوںکیلئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیںبھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پرفراھم ھو یعنی اس میںکسی طرح کا کوئی عیب ونقص نظرنہ آرھاھواُجالے کے لئے بجلی، پینے کے لئے بھترین پانی، سونے کے لئے کمرہ، کچن ،مھمان خانہ ،حمام ،پیشاب خانہ اورجاڑے میں گرم کرنے کے لئے ھیٹر، گرمی میں سرد کرنے کے لئے (AC )اورکولربھت ھی نظافت سے پانی کے پائپ اوربجلی کے تار پھےلے ھوئے ھوں، اور اس کی بناوٹ میں ڈاکٹری پھلوؤں پر خاص توجہ دی گئی ھو، سورج کی ٹکیا پورے طور پر اس گھر میں نور چھڑک رھی ھو، جب ھم یہ ملاحظہ کرتے ھیں تو ھماری عقل فیصلہ کرنے پر مجبور ھو جاتی ھے کہ یہ ھر لحاظ سے منظم گھر خود بخود نھیں بنا ھوگا، بلکہ اس کے بنانے اور سنوارنے والا کوئی با ھوش مدبر ، دقت بیں ، نہایت ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنایا ھے ۔
اس مثال کے ذکر کے بعد چاھتا ھوں کہ اپنی روزانہ کی زندگی پر آپ لوگوں کی توجہ مبذول کراؤں انسان اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے پانی اور کھانے کا محتاج ھے کہ کھانا کھائے اور پانی پئے اور بدن کے خلیوں (CELLES)کی ضروریات کو پورا کرے تاکہ بدن کے تمام خلیہ زندہ اور اپنے کاموں میں مشغول رھکر ھماری زندگی کو اچھی طرح قائم و دائم رکھیں ، ضروری ھے کہ مختلف انواع کے کھانے کھائیں اور ان کو فوت ھونے سے بچائیں ورنہ انھیں کے ساتھ زندگی کے چراغ مدھم ھونا شروع ھوجائیں گے ۔
انسان اپنی زندگی کے لئے مفید ھوا کا نیاز مند ھے تاکہ اس کو جذب کرے اور داخلی جراثیم کو باھر نکال کر حیات کو تازگی بخشے ، آپ ملاحظہ کریں، کس طرح ھماری زندگی کو بھترین بنانے کے لئے ضروریات کی تمام چیزیں خارج میں موجود ھیں اگر کھانا تلاش کریں تو مختلف انواع و اقسام کے کھانے موجود ھیں اگر زندگی کے لئے گیھوں، چاول، سبزی، پھل اور گوشت وغیرہ کی تلاش ھوتو تمام کی تمام چیزیں خارج میں موجود ھیں، اگر پانی یا ھوا کی ضرورت ھوتو باھر موجود ھے پاؤں ھوں تو کھانے کی تلاش میں نکل سکتے ھیں آنکھیں ھوں تو مناسب اچھی غذائیں دیکھ سکتی ھیں اور ہاتھ ھوں تو اٹھا سکتے ھیں، اور پیدا کرنے والے نے ہاتھ کو بھی کیا خلق کیا ھے کہ پورے طور پر ھمارے اختیار اور ھماری ضروریات کو مختلف انداز میں پورا کرنے کے لئے تیار ھے جس طرح اور جس وقت چاھیں اٹھائیں بیٹھائیں فقط ھمارے ارادہ کے محتاج ھیں، جیسا ارادہ ھو ویسا کریں، بند کرنا چاھیں تو کھلے نہ ،اور کھولنا چاھیں تو بند نہ ھو ،کس قدر تعجب خیز ھے ہاتھوں کی بناوٹ اور اس میں انگلیوں اور ھتھیلیوں کی ظرافت ، ھونٹوں کو پیدا کیا تاکہ منھ کو بند رکھیں لقمہ باھر آنے سے محفوظ رھے ۔
مشکل ترین مسئلہ یہ ھے کہ بدن کی ضروری غذائیں جو رنگ برنگ اور مختلف اقسام کے ساتھ پائی جاتی ھیں کیا یہ اتنی آسانی سے بدن کے خلیوں کے لئے لائقِ استفادہ ھو سکتی ھیں ؟ ھر شخص کہہ سکتا ھے ، نھیں بلکہ اس میں بھترین طریقہ سے تغیر و تبدیلی واقع ھو، تاکہ وہ بدن کے استفادہ کے مطابق ھو سکے، انسان کی داخلی مشینری (Machinery)غذا کو چار مرحلہ کے بعد ہضم کے لائق بناتی ھے لہذا (بطور عبرت) خلاصة ً قارئین کے پیش خدمت ھے ۔
پھلا مرحلہ : خدا وند عالم نے ھمارے منھ میں دانت جیسی نعمت دی جو غذا کے مطابق لقمہ کو چبا کر ریزہ ریزہ کرنے کے کام آتے ھیں ، اور زبان میں حرکت عطا کی تاکہ لقمہ کو مناسب دانتوں کی طرف ھدایت کرے اور منھ کے اندر بعض حصوں کو ایسا منزہ بنایا جو کھانے کے ذائقہ اور اس کی اچھائی و خرابی، مٹھاس اور تلخی کو دماغ کی طرف منتقل کرتے ھیں ، اور اسی لقمہ (غذا ) کے مطابق، مرطوب اور نرم کرنے کے لئے مخصوص پانی چھوڑتے ھیں، تاکہ وہ لقمہ آسانی سے چبانے اور نگلنے کے لائق ھو جائے اس کے علاوہ یہ منھ کے پانی غذا کو ہضم کرنے میں کافی مدد کرتے ھیں اور خود اس کے اندر شیمیائی اور کیمیائی طاقتیں بھر پور پائی جاتی ھیں ۔
دوسرا مرحلہ : جب دانت اپنے کام سے فارغ ھوجائے یعنی لقمہ نگلنے کے لائق ھو جائے تو غذا منھ کے راستہ کے ذریعہ معدہ میں پھونچ جاتی ھے ، لقمہ کو نیچے جاتے وقت چھوٹی زبان (کوا) ناک اور سانس کے سوراخ کو بند کر دیتی ھے اور اس مخصوص پردہ کے ذریعہ ناک و سانس کے راستے کو بن کرنے کا مقصد یہ ھے کہ کھانا ناک کے سوراخ میں نہ چلا جائے ۔
تیسرا مرحلہ : کھانا کچھ دیر معدہ میں رھتا ھے تاکہ وہ ہضم کی صلاحیت پیدا کر لے ، معدہ کی دیواروں میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے غدود پائے جاتے ھیں جس سے خاص قسم کا سیّال پانی نکلتا ھے لہذا اس کے ذریعہ کھانا ہضم اور بھنے والے پانی کے مانند ھوجاتا ھے ۔
چوتھا مرحلہ : غذا پتلی نالیوں کے ذریعہ (آنت) پت کی تھیلی میں جاتی ھے اور وہاں پر بڑا غدود جس کو (لوزالمعدہ ) کھتے ھیں ، جس سے مخصوص قسم کا ،سیّال اور غلیظ پانی نکلتا ھے جو غذا کو ہضم کرنے کے لئے نہایت ھی ضروری ھے ، کھانا آنت میں بھنے والی چیزوں کی طرح رھتا ھے ، اور اس آنت کی دیواروں پر لگے ھوئے غدود اس سے غذائی مواد حاصل کرتے ھیں ، اور اس مواد کو خون کی صورت میں تبدیل کر کے تمام بدن میں پھنچاتے ھیں اور دل جو برابر حرکت میں رھتا ھے ، ان قیمتی مواد کو خون کے ذریعہ بدن کے تمام حصوںمیں بھیجتا ھے اور اس طریقہ سے انسان کے بدن کے تمام خلیے اپنی اپنی غذائیں حاصل کرتے ھیں ۔
توجہ کی بات ھے کہ انسان کے عضلات اور دنیا کی چیزوں میں کس قدر ارتباط اور رابطہ پایا جاتا ھے، کیا اب بھی کسی میں ھمت ھے جو کھے یہ دنیا خود بخود پیدا ھوگئی ھے !
اگر ھم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاھرہ کیا گیا ھے غور و فکر کریں تو تعجب کی انتھاباقی نہ رھے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گھرا تعلق اور رابطہ پایا جاتا ھے جس سے ھمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ھو جاتی ھے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں، خود بخود وجود میں نھیں آئی ھیں ۔
بلکہ پیدا کرنے والے نے بھت ھی تدبیر اور ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بعد خلق فرمایا ھے ، کیا خدا کے علاوہ کوئی ھو سکتا ھے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گھرا رابطہ پیدا کر سکے ؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نھیں ھے انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اورمناسب خلق کر سکتی ھے ؟ کیا طبیعت کے بس کا ھے جو انسان کے منھ میں ایسا غدود رکھے جس سے انسان کا منھ ھمیشہ تروتازہ بنا رھے؟ کیا چھوٹی زبان (کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ھر لقمہ اور ھر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ھے خود بخود بن جائے گی ؟ کیا یہ معدہ کے غدود جو غذا کے لئے ہاضم بنتے ھیں خود بخود خلق ھوئے ھیں ؟وہ کونسی چیز ھے (لوزالمعدہ) جو بڑے غدود کو حکم دیتی ھے کہ وہ سیّال اور غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکاؤ کرے ؟ کیا انسان کے دو عضو اپنے فائدہ کا خود خیال رکھتے ھیں ؟وہ کیا چیز ھے جو دل کو مجبور کرتی ھے کہ وہ رات ودن اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین (Protein )حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پھنچائے ؟ ہاں، خداوند عالم کی ذات ھے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظم رکھتے ھیں۔
بچپنے کا زمانہ
اب ھم اپنی زندگی کے دوسرے پھلوؤں پر بھی نظر ڈالیں، جب ھم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو اتنے لاغر و کمزور تھے کہ بات کرنے کی بھی تاب نھیں رکھتے تھے چل کر معاش فراھم کرنا کیسا ؟ ھمارے ہاتھوں میں تو لقمہ اٹھانے کی طاقت نھیں تھی جو اٹھاتے اور منھ میں رکھتے، منھ میں کیا رکھتے کہ چبانے کے لئے دانت نھیں تھا ، معدہ میں ہضم کرنے کی صلاحیت موجود نھیں تھی، اس حال میں سب سے بھترین غذا خداوند عالم نے دودھ کو ھمارے لئے قرار دیا ۔
جب ھم نے دنیا میں آنکھیں کھولی تو خدا نے اس سے پھلے ھی ماں کے سینہ میں ھماری غذا رکھ چھوڑی تھی ، اس کے دل میں ھماری محبت اور الفت کی جگہ دی تاکہ رات و دن کے ھر لمحات میں ھمارے لئے زحمت و مشقت برداشت کرے، ھماری زندگی کو اپنی زندگی ھمارے آرام کو اپنے لئے آرام سمجھے جب تھوڑا بڑے ھوئے ہاتھ پاؤں آنکھ کان اور معدہ کی قوت کے سبب سنگین غذاؤں کی طرف ہاتھ بڑھانا اور معمولی دانتوں سے کھانا شروع کیا۔
انصاف کریں
کس نے ھمارے لئے محبت پیدا کی ؟ اور ھمارے بچپنے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں جیسی شفیق و مھربان خاتون بنایا ؟ کس نے اس وسیع و عریض دنیا، چمکنے والے ستارے سورج اور چاند کو خلق کیا ؟ کس نے اس دنیا کو منظم و مرتب پیدا کیا؟ کس نے زمین اور چاند کو عمیق حسابوں سے رواں دواں کیا ؟ یہ جاڑے، گرمی، برسات اور خزاں کو کس نے معین فرمایا ؟ !
آنکھ، کان، زبان، معدہ ،دل، کلیجہ، آنت، پھیپھڑا، ہاتھ ،پاؤں ،دماغ اور دوسرے تمام بدن کے عضلات اس مہارت سے کام کرنے والے کس نے بنائے ھیں ؟
کیا ممکن ھے بے شعور و بے ارادہ طبیعت، حیوان و انسان کے اعضا کو پیدا کرنے کی علت بن سکتی ھے؟ جب کی آنکھ جیسا حصہ، نہات دقت و باریک بینی کو گھیرے ھوئے ھے نھیں ھرگز ایسا ممکن نھیں ھے بلکہ خدائے مھربان نے ان کو پیدا کیا ھے وھی ھے ، جو ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا، اور زندہ رکھتا ھے اور مارتا ھے ، خدا ھی ھے جو بندوں کو دوست رکھتا ھے اور ان کے لئے تمام نعمتوں کو پیدا کرتا ھے ھم خدا کو چاھتے ھیں اور اس کے سامنے عاجزی و فروتنی سے سر جھکاتے ھیں، اس کے احکام کی اطاعت کرتے ھیں، اور اس کے علاوہ کسی کو مستحق عبادت و اطاعت نھیں جانتے، اور اپنے سر کو دوسروں کے سامنے عاجزی و ذلت سے نھیں جھکاتے ھیں ۔
ھر موجود کے لئے علت کا ھونا ضروری ھے
ھم جن چیزوں کی تحقیق کرنا چاھتے ھیں اس کے وجود اور موجود ھونے میں کیسے فکر کریں ؟ اس مطلب کو ھم اپنے وجدان سے درک کر سکتے ھیں کہ یہ موجود خود بخود وجود میں نھیں آئی ھے موجود کے لئے وجود ، عینِ ذات نھیں ھے مقام ذات میں وجود و عدم سے خالی ھے اور وجود و عدم دونوں ھی اس کو چاھتے اور یہ دونوں کی قابلیت رکھتے ھیں ایسے موجود کو ممکن کھتے ھیں مثلا پانی پر توجہ کریں ھم وجداناً کھیں گے کہ پانی در حقیقت نہ وجود ھے اور نہ ھی عدم ، نہ بالذات وجود چاھتا ھے اور نہ عدم بلکہ دونوں کی نسبت مقام اقتضا اور خواھش ھے وہ چاھے وجود کو لے کر موجود ھوجائے اور چاھے تو عدم ھی رھے۔ پانی کی طرح دنیا کی تمام چیزیں مقام ذات میں اپنے وجود و عدم سے خالی ھیں یہاں پر ھماری عقل کھتی ھے موجودات چونکہ مقام ذات میں خود یہ وجود نھیں رکھتی ھیں ، اگر چاھیں تو وجود میں آجائیں تو چاھیے کہ ایک دوسرا عامل ھو جو اس کے نقائص اور کمی کو دور کرے تاکہ وہ چیز موجود اور ظاھر ھوسکے ۔
مقام ذات میں تمام موجودات فقیر اور ضرورت مند ھیں جب تک کہ ان کی احتیاج پوری نہ ھو ان پر وجود کا لباس نھیں آسکتا ھے اور وہ چیز موجود نھیں ھو سکتی ھے ، تمام دنیا چونکہ اپنی ذات میں کمی و نقص رکھتی ھے اور خود مستقل اور اپنے پیروں پر نھیں ھے لہٰذا ممکن ھے ، تو چاھیے ایک کامل مستقل اور بے نیاز وجود رکھنے والا جس کا وجود خود عین ذات ھو، اور اس کے لئے ممکن ھونے کا تصور بھی محال ھو، آئے اور اس کو وجود کا لباس پھنائے ایسے وجود کامل کو واجب الوجود اور خدا کھتے ھیں ، خدا کی ذات عین وجود ھے اور اس کے لئے عدم و نابودی اصلاً متصور نھیں ھے، یعنی خود اس کا وجود عین ذات اور مستقل ھے ( جیسے دال نمکین ھے نمک کی وجہ سے اور نمک خود اپنی وجہ سے نمکین ھے )اور تمام دنیا اور موجودات اس کے ضرورت مند و محتاج ھیں اور اسی سے اپنا وجود حاصل کرتے ھیں۔