خلافت ابوبکر پر بارہ بزرگ صحابہ کے اعتراضات کا تاریخی جائزہ

خلافت ابوبکر پر بارہ بزرگ صحابہ کے اعتراضات کا تاریخی جائزہ

کپی کردن لینک

رسول خدا (ص) نے غدیر خم میں حضرت علی (ع) کے لئے فرمایا: "مَنْ کنتُ مَولاہُ فَعلی مولاہجس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی مولا ہیں۔ اور انھیں کے بارے میں فرمایا: "انتَ مِنِّی بِمَنۡزلةِ ھَارُونَ مِنۡ موسیٰ” تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ لہذا رسول خدا (ص) کے بعد صرف آپ ہی خلافت کے مستحق ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سے بزرگ اور مشہور صحابہ نے خلافت ابوبکر کے غصب ہونے پر اعتراض کیا ہے۔ ان میں سے ہم بعض کا ذکر کرر ہے ہیں:

۱۔ سلمان محمدی (فارسی)

جناب سلمان نے خلافت ابوبکر پر حسب ذیل الفاظ میں اعتراض اور اس سے دست بردار ہونے کو اس طرح کہا: اے ابوبکر اگر تمہیں کوئی ایسا امر درپیش آجائے کہ جس سے تم ناواقف ہو، تو کس کی طرف رجوع کرو گے؟ اور اگر کوئی تم سے ایسا سوال کرے کہ جس کو تم نہ جانتے ہو، تو کس کا سہارا لوگے؟

بتاؤ جو شخص تم سے زیادہ جانتا ہے، تم سے زیادہ رسول الله (ص) سے نزدیک ہے، تم سے زیادہ قرآن کی تاویل اور رسول (ص) کی سنت کا علم رکھتا ہے، جس کو نبی نے اپنی زندگی میں اپنی تمام امت پر مقدم کیا ہے اور اپنی وفات کے وقت اس کے بارے میں تم سے وصیت کی ہے؛ تمہارے پاس اس کو خلافت سے دور کرنے کا کیا بہانہ ہے؟

افسوس تم نے رسول خدا (ص) کی بات کو پس پشت ڈال دیا اور ان کی وصیت کو بھلا دیا، وعدہ خلافی کی اور تم نے اپنے اس پیمان کو توڑ دیا، جو رسو ل خدا (ص) نے تم سے اسامہ کی قیادت میں لشکر میں شریک ہونے پر لیا تھا۔[1]

۲۔ عمار بن یاسر

جناب عمار یاسر نے مہاجرین و انصار میں سے ان لوگوں پر اعتراض کرتے ہوئے جنہوں نے خلافت ابوبکر کو قبول کیا تھا، کہا: اے گروہ قریش، اے مسلمانوں! اگرتم کو علم ہے تو مجھ کو وضاحت کی ضرورت نہیں، اور اگر نہیں جانتے، تو یاد رکھو کہ پیغمبر (ص) کے اہلبیت (ع) خلافت کے مستحق ہیں، ورثہ کے اعتبار سے بھی خلافت پر ان کا دوسروں سے زیادہ حق ہے، کیونکہ وہ دین کے امور میں زیادہ ثابت قدم، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ امانتدار، قوم و ملت کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والے اورسب سے بڑھ کر امت رسول کے خیر خواہ ہیں۔

اپنے خلیفہ کو نصیحت کرو کہ اس سے پہلے کہ امت کا شیرازہ منتشر جائے، تمہارے کام میں ضعف پیدا ہو، تمہاری پریشانی آشکار ہو، فتنوں کے بادل تمہارے سروں پر منڈلانے لگیں، تمہارے درمیان اختلاف رونما ہو اور تمہارے دشمن تم پر غالب آنے کی طمع کرنے لگیں؛ وہ حق کو اس کے اہل کے سپرد کر دے۔

تم خوب جانتے ہو کہ بنی ہاشم تم سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں اور حضرت علی (ع) تم سب سے زیادہ پیغمبر (ص) کے نزدیک ہیں، وہی خدا و رسول (ص) کے حکم کے مطابق تمہارے خلیفہ ہیں۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کا تم نے بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ علی (ع) ہی وہ ہیں کہ جب رسول خدا (ص) نے تمہارے سب کے دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے؛ بند کرا دیئے تھے، لیکن ان کے دروازہ کو کھلا رہنے دیا۔

اس کے علاوہ جب تم نے نبی کی بیٹی فاطمہ زہرا (ع) سے رشتہ مانگا، تو انہوں نے تمہارے درمیان سے صرف انہیں کا انتخاب کیا۔ اور انہی کے بارے میں فرمایا: "أنَا مَدِیْنَةُ العِلْمِ وَعَلِي بَابُھَا، وَمَنْ أرادَ الحِکۡمَة َفَلْیَأتِھَا مِنْ بَابِھَا” میں علم کا شہر ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ہیں، جو علم و حکمت چاہتا ہے دروازہ سے آئے۔

تم سب پر جب کوئی دینی مشکل پڑتی ہے، تو تم ان کا دامن تھامتے ہو، انہی کی طرف رجوع کرتے ہو، حالانکہ وہ تم سب سے بے نیاز ہیں وہ کسی کے محتاج نہیں ہیں، کیونکہ ان میں وہ کمالات و فضا ئل موجود ہیں جو تمہارے بافضیلت لوگوں میں بھی نہیں پائے جاتے۔

تمہیں کیا ہوگیا ہے، جو ان سے رو گردانی کرکے ان کے حق کو غصب کر رہے ہو اور اس بے قیمت دنیا (خلافت ابوبکر) کو آخرت کے مقابلہ میں اختیار کر بیٹھے ہو؟! یاد رکھو! ظالموں کے لئے بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ لہذا اللہ نے جو مقام ان سے مخصوص فرمایا ہے، وہ انھیں عطا کرو اور ان سے روگردانی نہ کرو۔ الٹے پاؤں پلٹنے کی کوشش نہ کرو، ورنہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے قرار پاؤ گے۔[2]

۳۔ ابوذر غفاری

جب لوگوں نے حضرت علی (ع) کو خلافت سے دور کر دیا، تو جناب ابوذر غفاری نے خلافت ابوبکر پر اعتراض کرتے ہوئے، مہاجرین و انصار سے اس طرح خطاب فرمایا: اے گروہ مہاجر و انصار! تم سب جانتے ہو کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: میرے بعد خلافت علی (ع) کا حق ہے، پھر (میرے بیٹے) حسن و حسین (ع) کا حق ہے اور پھر ان کے بعد میرے اہلبیت (ع) میں اولاد حسین (ع) کا حق ہے۔ لیکن تم نے اپنے رسول (ص) کے فرمان کو پس پشت ڈال کر ان کے عہد و پیمان کو بھلا دیا ہے اور دنیا کی پیروی کرنے لگے ہو۔

تم نے فانی دنیا کے لالچ میں آخرت کی ان نعمتوں سے ہاتھ کھینچ لیا کہ جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں، وہ آخرت جو کبھی بھی ختم نہ ہوگی۔ جس کی نعمتیں کبھی تمام نہ ہوں گی، جس میں رہنے والے کبھی رنجیدہ خاطر نہ ہوں گے اور نہ ان کو موت آئے گی۔

تم نے بھی گذشتہ امتوں کی طرح کیا ہے کہ جنہوں نے اپنے پیغمبروں کے بعد ان کے فرمان کو بھلا دیا تھا اور راہ مستقیم سے منحرف ہو گئے تھے۔ تم نے بھی بالکل ان ہی کی طرح اپنے پیغمبر (ص) کے حکم کا انکار کیا اور احکام الٰہی کو تبدیل کردیا ہے، البتہ تمہارے اس ناشائستہ عمل کی سزا تم کو بہت جلد ملنے والی ہے اور خدا کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے "وَ مَا اللَّهُ‏ بِظَلَّامٍ‏ لِلْعَبِيد"[3] جناب ابوذر نے خلافت ابوبکر حکم الہی کا انکار اور اس میں تحریف کرنا قرار دیا ہے، جو کفر و فسق کا باعث ہے۔

۴۔ مقداد

جناب مقداد نے خلافت ابوبکر پر سخت لہجے میں اعتراض کرتے ہوئے کہا: اے ابوبکر ظلم سے ہاتھ روک لو، اپنے رب سے توبہ کرو، چپ چاپ اپنے گھر میں بیٹھ جاؤ، اپنے کئے پر آنسو بہاؤ اور خلافت کو ا س کے حوالہ کر دو، جو اس کا مستحق اور سزاوار ہے۔

تم خوب جانتے ہو کہ رسول خدا (ص) نے تم سے حضرت علی (ع) کی بیعت لی تھی اور تمہارے اوپر لازم قرار دیا تھا کہ اسامہ بن زید کی اطاعت کرو اور اس کے پرچم کے سایہ میں دوسروں کی طرح روانہ ہو جاؤں۔ اس طرح تمہیں متوجہ کیا تھا کہ تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا اس خلافت پر قابض ہونا سراسر غلط ہے۔

اے ابوبکر! اللہ سے ڈرو اور اپنے اس بد عمل سے باز آجاؤ، کیونکہ اسی میں تمہاری دنیا و آخرت کی سلامتی ہے۔ دنیا کے لالچ میں نہ پڑو اور نہ ہی قریش وغیرہ کے دھوکہ میں آؤ۔ اس لئے کہ دنیا کی زندگی جلد ختم ہو جانے والی ہے۔ اس کے بعد تم کو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری دینی ہے، جہاں تم کو تمہارے کئے کی جزا ملنی ہے۔

تم کو بخوبی علم و یقین ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد علی بن ابی طالب (ع) خلافت کے ہر جہت سے حقدار ہیں۔ لہذا اس منصب کو ان کے حوالہ کردو، جو اللہ نے ان ہی سے مخصوص کیا ہے، کیونکہ اس سے تمہاری پردہ پوشی بھی ہو جائے گی اور تمہاری پیٹھ بھی ہلکی ہو جائے گی۔ خدا کی قسم میں نے تم کو خلوص اور ہمدردی کی بناپر نصیحتیں کی ہیں، اگر تم ان کو قبول کرو۔ تمام امور کی بازگشت خدا کی سمت ہے۔[4]

۵۔ عتبہ بن ابی لہب

عتبہ نے بھی خلافت ابوبکر پر اعتراض کیا ہے۔ چنانچہ حضرت علی (ع) کو خلافت سے دور کرنے کو ان اشعار میں بیان کیا ہے:

"مَا کُنْتُ أَحْسَبُ أَنَّ الأَمرَ مُنصرِفٌ * عَن ھَاشِمٍ ثم مِنھُم عَنْ أَبِي حَسَنِ
عن أوَّلِ النَّاسِ إیماناً وسابقةً * وَأَعْلَمِ النَّاسِ بالقُرآنِ و السُّنَنِ
وَآخِر النّاس عھداً بالنبي وَمَنۡ * جَبرئیلُ عُونٌ لہ في الغُسۡلِ و الکَفَنِ
مَنْ فِیہ ما فیھم لا یَمۡتَرونَ بہ * لَیسَ في القوم ما فیہ مِن الحَسنَ”[5]

میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ خلافت کو بنی ہاشم سے چھین لیا جائے گا، وہ بھی حضرت علی (ع) جیسی شخصیت سے، جو اسلام اور ایمان میں سب پر فضیلت رکھتے ہیں، وہ قرآن اور سنت رسول کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔ وہ آخر تک رسول خدا (ص) کے ہمراہ رہے اور آپ کے عہد و پیمان پر عمل کیا اور پیغمبر (ص) کو غسل و کفن دینے میں جن کی مدد جبرئیل امین (ع) جیسے فرشتہ نے کی ہے۔ جو کمالات ان کے اندر ہیں کسی میں نہیں پائے جاتے اور جو اچھائیاں ان میں ہیں کسی میں نہیں پائی جاتیں۔

۶۔ ابوایوب انصاری

ابو ایوب انصاری نے خلافت ابوبکر پر تنقید اور ان کے طرفداروں سے یوں خطاب فرمایا: اے بندگان خدا اپنے نبی (ص) کے اہلبیت (ع) کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور اس حق کو جو اللہ نے ان کے لئے قرار دیا ہے، ان کے سپرد کر دو، کیونکہ تم نے بھی ہماری طرح متعدد مقامات پر سنا ہے کہ رسول خدا (ص) فرماتے تھے:

میرے بعد میرے اہلبیت (ع) تمہارے امام و پیشوا ہیں "أَھْلُ بَیْتِی أَئِمتُکُم بعدی” اور حضرت علی (ع) کی طرف اشارہ کرکے انھوں نے فرمایا تھا: "ھٰذا أمِیۡرُ البَرَرَة وَقَاتِلُ الکَفَرَةِ، مَخۡذُولٌ مَنْ خَذَلَہ، مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرہ، فتُوبُوا إلیٰ اللہ مِنْ ظُلمِکُم إیَّاہُ إنَّ اللہ تَوَّاب رَحِیْم وَ لا تَتَوَلَّوا عَنْہ مُعَرضِیْن”[6]

یہ نیکو کاروں کے امام اور کافروں کا قتل کرنے والے ہیں، جو ان کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا، جو ان کو ذلیل و خوار کرنا چاہے گا، خدا اس کو ذلیل و رسوا کرے گا۔ پس خدا کی بار گاہ میں اس ظلم پرجو تم نے ان پر کیا ہے معافی مانگو۔ بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے اور ان سے منہ نہ موڑو۔

۷۔ ابی بن کعب

ابی بن کعب نے ان الفاظ میں خلافت ابوبکر پر سخت اعتراض کیا: اے ابوبکر اللہ نے جو حق دوسرے کے لئے قرار دیا ہے، اس سے انکار نہ کرو اور نبی نے جو سفارش اپنے منتخب کردہ وصی کے بارے میں کی ہے اس کو نادیدہ کرکے نبی کی نافرمانی کرنے والے نہ بنو۔ رسول خدا (ص) کے حکم سے روگردانی نہ کرو اور حق کو اس کے اہل کے حوالہ کر دو، تاکہ سالم و محفوظ رہ سکو اور اپنی گمراہی پر اصرار نہ کرو ورنہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

اپنے کئے کی توبہ کرو تاکہ بخشے جاؤ اور جو منصب اللہ نے دوسرے کے لئے قرار دیا ہے اسے اپنے سے مخصوص نہ کرو، ورنہ تم اپنے عمل کے عذاب میں گرفتار ہوگے۔ اس لئے کہ عنقریب تم کو جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اس کو چھوڑ کر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضرہونا پڑے گا۔ اور پھر وہ تم سے ان تمام چیزوں اور گناہوں کے بارے میں پوچھے گا جو تم نے انجام د یئے اور تمہارا پروردگار بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔[7]

۸۔ نعمان بن عجلان

نعمان بن عجلان نے بھی دیگر اصحاب کی طرح خلافت ابوبکر پر اعتراض کیا اور مہاجرین کو اپنے ان اشعار سے خطاب کیا:

"قُلتُمۡ حَرَامٌ نَصۡبُ سَعۡدٍ و نَصۡبُکُمۡ * عَتِیۡقَ بنَ عثمانٍ حَلالٌ أبابَکر

و أھۡلٌ ابوبکر لھا خیر قَائمٍ * وَ أَنَّ علیاً کان أَخۡلَقَ بالأمر

و کان ھواناً في عليٍ و إنّہ * لأھلٌ لھا یا عُمَر مِنْ حَیث لا تدري”[8]

یعنی مہاجرین نے سعد بن عبادہ کے خلیفہ بننے سے انکار کیا اور خلافت کو ان پر حرام جانا، کیونکہ وہ قریش سے نہیں تھا۔ مہاجرین نے قریش ہونے کی بناپر اپنے کو انصار کی نسبت زیادہ خلافت کا حقدار اور سزاوار سمجھا، کیونکہ وہ نسبت کے اعتبار سے پیغمبر (ص) سے قربت رکھتے ہیں۔ حضرت علی (ع) تمام لوگوں میں پیغمبر اسلام (ص) سے زیادہ نزدیک اور زیادہ قریب ہیں، پس وہی سب سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں۔

۹۔عثمان بن حنیف

عثمان بن حنیف نے خلافت ابوبکر کے سلسلہ میں اعتراض کرتے ہوئے کہا: ہم نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ "أھْلُ بَیْتِي نُجُومُ الأَرْضِ فَلا تَتَقَدَّمُوھُم، فَھُمُ الولاةُ مِنْ بَعدِي”[9] میرے اہلبیت زمین کے ستارے ہیں ان پر سبقت نہ کرنا، یہی میرے بعد تمہارے پیشوا و امام ہیں۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو اس وقت ایک شخص نے کھڑے ہوکر آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت کون ہیں؟

آپ نے فرمایا: "علي والطاہرون مِنْ وُلۡدِہ”[10] علی (ع) اور ان کی اولاد طیبہ میرے اہلبیت ہیں۔

۱٠۔ سہل بن حنیف

سہل بن حنیف نے بھی کھڑے ہو کر خلافت ابوبکر کو ناحق اور حضرت علی (ع) کے حق میں اپنی مکمل تائید کا اعلان اس طرح کیا۔ خدا کی حمد و ثنا کے بعد قریش کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے گروہ قریش گواہ رہنا میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول خد ا (ص) نے اسی مسجد میں علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا تھا:"أَيُّهَا النَّاسُ هَذَا عَلِيٌّ إِمَامُكُمْ مِنْ بَعْدِي وَ وَصِيِّي فِي حَيَاتِي وَ بَعْدَ وَفَاتِي وَ قَاضِي دَيْنِي وَ مُنْجِزُ وَعْدِي وَ أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي عَلَى حَوْضِي فَطُوبَى لِمَنِ اتَّبَعَهُ وَ نَصَرَهُ وَ الْوَيْلُ لِمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ وَ خَذَلَه”[11]

اے لوگو! یہ علی (ع) میرے بعد تمہارے امام ہیں، میری زندگی میں اور میرے بعد میرے وصی اور جانشین ہیں۔ یہی میرے قرض کو ادا کرنے والے اور میرے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں۔ یہی سب سے پہلے حوض کوثر پر مجھ سے مصافحہ کریں گے، خوش نصیب ہے وہ شخص جو ان کی اطاعت کرے۔ جہنم ہے اس کے لئے جو ان سے کنارہ کشی اختیار کرے اور ان کو تنہا چھوڑ دے۔

۱١۔ خزیمہ بن ثابت

خزیمہ بن ثابت رسول اسلام (ص) کے مشہور اصحاب میں سے تھے اور پیغمبر (ص) کے نزدیک بڑے معتبر تھے۔ آپ بڑے سچے اور دین میں نہایت محتاط تھے۔ لہذا رسول خدا (ص) نے ان کی گواہی دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دی تھی۔ آپ حضرت علی (ع) کے ان عاشقوں اور فرمابرداروں میں تھے، جنہوں نے دوسرے بزرگان دین کی طرح قریش کے سامنے خلافت ابوبکر کا جنازہ نکال دیا اور حضرت علی (ع) کے خلیفۂ برحق ہونے کی مکمل طور پر تائید ہے۔

آپ فرماتے ہیں: اے حاضرین بزم! کیا تم کو اس بات کا علم ہے کہ رسول (ص) خدا نے میری گواہی کو دو آمیوں کی گواہی کے بجائے قبول کیا؟

سب نے کہا: ہاں، تم نے سچ کہا۔

خزیمہ نے کہا: پس جان لو کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا (ص) کی زبان اقدس سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: "أھلُ بَیتِيْ یُفَرِّقُونَ بَینَ الحقِّ والباطل، وھم الأئِمَّةُ الذِین یُقْتَدَیٰ بھم”[12] میرے اہلبیت حق کو باطل سے جدا کرنے والے ہیں اور وہی تمہارے پیشوا ہیں جن کی اطاعت تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں نے جس حدیث کو سنا تھا تم سے بیان کردیا ہے۔ ایسے سچے صحابی نے جب خلافت ابوبکر کو باطل اور ناحق قرار دیا ہے، تو اصحاب کے ماننے والے کس کی مانیں گے؟

۱٢۔ ابو الھیثم بن تیہان

ابو لھیثم بن تیہان حضرت علی (ع) کی عظمت و بلندی اور ان کے حق کی واقعی معرفت رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی انصار کے سامنے بھر پور طریقہ سے حضرت علی (ع) کی حمایت کی اور اس بات کی گواہی دی کہ صرف حضرت علی (ع) خلافت کے حقدار ہیں۔

چنانچہ انہوں نے خلافت ابوبکر کو غدیر کے ذریعہ ناحق ثابت کرتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ جب ہمارے نبی نے حضرت علی (ع) کو غدیر خم میں امام کے عنوان سے پہچنوایا تھا، تو اس وقت انصار کہنے لگے: رسول خدا (ص) نے ان کو خلافت کے لئے مقرر کیا ہے۔ ان میں سے بعض نے کہا: نہیں رسول خدا (ص) کا قصد صرف ان کی دوستی و محبت کا اظہار تھا۔

اس سلسلہ میں بہت بحث و تکرار ہوئی یہاں تک ہم نے چند آدمیوں کو رسول خدا (ص) کے پاس بھیجا، تاکہ اس سلسلہ میں معلومات حاصل کریں۔ رسول خدا (ص) نے ان کے جواب میں فرمایا: علی (ع) میرے بعد میری امت کے سر پرست اور میری امت کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔ میں نے جو دیکھا اس کو بیان کردیا ہے، اب چاہے کوئی اس بات کو مانے یا انکار کرے۔[13]

ابوہیثم کی گواہی سے خلافت ابوبکر کا باطل ہونا اور اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنے بعد خلافت و امامت کے منصب کو غدیر خم میں حضرت علی (ع) کے حوالہ کیا تھا۔

خاتمہ

اس تحریر سے خلافت ابوبکر کا ناجائز اور غاصبانہ ہونا ثابت ہوتا ہے، جو صرف زور، زبردستی سے لی گئی تھی۔ جو لوگ اصحاب کا کلمہ پڑھتے ہیں، حق و انصاف سے فیصلہ کر کے حق کی پیروی کریں۔ ہم نے یہاں خلافت ابوبکر پر بعض اصحاب کے اعتراض کو ذکر کیا ہے۔

اگر آپ کو اصحاب کی ہی بات ماننی ہے، تو ان اصحاب کی پیروی میں خلافت ابوبکر کو ناحق اور حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب ماننا پڑے گا۔ خدا و رسول (ص) اور ان کے نیک اصحاب کی سیرت میں علی (ع) بلا فصل خلیفہ ہیں۔

حوالہ جات

[1]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۹۹۔۱۰۰۔
[2]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۲۔
[3]۔ ابن بابويه، الخصال، ج‏۲، ص۴۶۳؛ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۷۷۔
[4]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۱۔
[5]۔ ابو الفداء، تاریخ ابی الفداء، ج۱، ص۱۵۹؛ امینی، الغدیر، ج۷، ص٩٣؛ اخطب خوارزم، المناقب، ج۱، ص٣٠؛ يعقوبى‏، تاريخ اليعقوبى، ج۲، ص١٢٤؛ صفدی، الوافی بالوفیات، ج۲۱، ص١٨٣۔
[6]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۳۔
[7]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۲۔
[8]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۶، ص۳۱؛ صفدی، الوافی، ج۲۷، ص۸۶۔
[9]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج‏1، ص۷۹۔
[10]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۳۔
[11]۔ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۳۔
[12]۔ ابن بابویہ، الخصال، ج‏۲، ص۴۶۴؛ طبرسی، الإحتجاج، ج‏۱، ص۷۸۔
[13]۔ قرشی، حیاۃ الامام الحسن بن علی (ع)، ج۱،ص۱۶۷؛ طبرسی، الإحتجاج، ج۱، ص۱۰۳۔

مآخذ و مصادر

1. ابن ابی الحدید، عبد الحميد‏، شرح نهج البلاغة، مكتبة آية الله المرعشي، قم‏، ۱۳۷۸ھ- ۱۳۸۳ش۔
2. ابن بابويه، محمد‏، الخصال، قم، جامعة المدرسین حوزہ علمہ قم، ١٤٠٣ھ۔
3. ابوالفداء، اسماعیل، تاريخ أبي الفداء، مصحح: دیوب، محمود، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء۔
4. اخطب خوارزم، موفق، المناقب، نجف اشرف، المطبعة الحيدرية، ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۵ء۔
5. امینی، عبد الحسین، الغدیر في الكتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدير للدراسات الإسلامية، ۱۴۱۶ھ۔
6. صفدی، خلیل، الوافی بالوفیات، محقق: ارن‍اووط، اح‍م‍د؛ مصطفی‌، ترکی‌، بیروت، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۲۰ھ /۲۰۰۰ء۔
7. طبرسی، احمد‏، الإحتجاج على أهل اللجاج، مشهد، نشر المرتضى‏، ۱۴۰۳ھ۔
8. قرشی، باقر شریف، حياة الإمام الحسن بن علي عليهما السلام، بیروت، دار البلاغة، ۱۴۱۳ھ/ ۱۹۹۳ء۔
9. يعقوبى‏، احمد بن أبى يعقوب، تاريخ اليعقوبى، بيروت، دار صادر، بغیر تاریخ۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت، ۱۴۴۲ھ۔ ق،۲۰۲۱ء، ص۲۶۱-۲۷۷۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے