- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : محقق نمبر ایک
- 2024/12/28
- 0 رائ
حضرت امیر المؤمنین امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کے دوران جن تین جنگوں نے اسلامی حکومت کی بنیادوں کو کمزور کیا، جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان ہیں۔ یہ تین جنگیں نہ صرف سیاسی بلکہ نظریاتی اور عقیدتی اختلافات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان تین جنگوں نے اسلام کے اتحاد کو بہت نقصان پہنچایا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے پر مجبور کیا۔ ان تینوں جنگوں کے اجمالی جائزے سے ہم اسلامی تاریخ کے اس نازک دور کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت ظاہری کے دوران امام علی (ع) کو در پیش مشکلات کو بہتر درک کر سکتے ہیں۔
۱. جنگ جمل؛ خلافت ظاہری کی پہلی جنگ
امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کی بنیاد پر بیعت کئے ہوئے ابھی تین ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ کچھ لوگ عدالت امام علی (ع) کو برداشت نہ کر پائے اور ان کی طرف سے امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کی مخالفت شروع ہوگئی، شام میں امیر شام نے بیعت سے انکار کرتے ہوئے حضرت علی (ع) کی مخالفت کی اور آپ سے جنگ کے لئے تیار ہوا جو آپ کی خلافت ظاہری کو بڑا دھچکہ تھا۔
حضرت نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے حاکموں کو خطوط لکھا تا کہ امیر شام سے جنگ کے لئے اپنی فوجوں کو تیار کریں۔ اس دوران طلحہ و زبیر عمرے کا بہانہ کر مکہ چلے گئے اور وہاں حضرت عائشہ (جو کہ آپ کی خلافت ظاہری سے ناراض تھیں) سے ملاقات کی اور انھیں بصرہ لائے تا کہ خون خلیفہ سوم کا بدلہ لینے کا بہانہ کر کے فتنے کی آگ بھڑکا سکیں، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ خون خلیفہ سوم کی فکر میں تھے اور نہ اسلام سے کوئی ہمدردی رکھتے تھے۔
کیونکہ قاتلان خلیفہ سوم بصرے سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ بھی تھے۔ کیا ان کے پاس سوائے خلیفہ سوم کی طرفداری کرنے اور حضرت امیر المؤمنین (ع) کی خلافت ظاہری کے مخالفت کے کچھ نہیں تھا؟ طلحہ و زبیر خود ان افراد میں سے تھے، جنھوں نے خلیفہ سوم کے خلاف جنگ کی تھی۔ واضح رہے کہ ان کی پیمان شکنی (چونکہ وہ حضرت علی (ع) کی خلافت ظاہری کی بیعت کر چکے تھے) کا ہدف مقام و منصب تک پہنچنا تھا، یہ دونوں حضرت عائشہ کو لے کر ربیع الثانی 36ھ میں بصرہ آئے اور لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان سے بیعت لینے لگے تاکہ اسلامی معاشرے میں رخنہ ڈال سکیں۔
امیرالمومنین (ع) ان حالات سے بخوبی آگاہ تھے، آپ نے وہ لشکر جو شامیوں سے لڑنے کے لئے تیار کیا تھا، اُس کا رخ موڑ کر بصرہ کی جانب روانہ کر دیا اور ایک خط کوفے کے حاکم ابوموسی اشعری کو طاقتور لشکر تیار کرنے کے لئے لکھا، مگر ابوموسیٰ نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور نو (۹) ہزار دوسرے لوگ کوفے سے امام (ع) کی خلافت ظاہری کو بچانے کے لئے روانہ ہوئے، جمادی الآخر میں دو عظیم لشکر بصرہ کی سرزمیں پر آمنے سامنے ہوئے۔
تاریخ یعقوبی کے مطابق یہ جنگ چار گھنٹے چلی اور طلحہ وزبیر کا لشکر شکست کھا گیا، وہ لوگ حضرت عائشہ جو رسول اللہ (ص) کی زوجہ تھیں، کو اونٹ پر بٹھا کر لائے تھے اور اس لیے اس جنگ کا نام جمل پڑا، اونٹ کے گرد گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ امام (ع) نے حکم دیا: جب تک یہ اونٹ سالم ہے، جنگ جاری رہے گی، اس لئے اونٹ کے پیروں کو کاٹ دو، جب اونٹ کے پیر کٹے تو جنگ ختم ہوگئی۔ طلحہ و زبیر قتل ہوئے (طلحہ میدان جنگ میں مروان کے ذریعے اور زبیر میدان جنگ سے باہر)۔
ماہ مبارک رجب کی پہلی تاریخ تھی کہ امیرالمومنین (ع) نے حضرت عائشہ کو رسول اللہ (ص) کے احترام میں عزت و احترام کے ساتھ مدینہ روانہ کیا، اس جنگ میں بعض تاریخوں کے مطابق دس ہزار ایک اور روایت کے مطابق سترہ ہزار افراد دونوں طرف سے قتل ہوئے۔ اس خون کی ذمے داری ان پر ہے جنہوں نے اس جنگ کے لئے اقدامات کئے۔[1] یونہی امام علی (ع) پر خلافت ظاہری کو سنبھالے کچھ مہینے گزر نے سے پہلے ایک بڑی جنگ مسلط کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا خون یوں ہی بہہ گیا۔
۲. جنگ صفین؛ خلافت ظاہری کی دوسری جنگ
جنگ جمل کے بعد حضرت علی (ع) کوفہ تشریف لائے تا کہ اپنی خلافت ظاہری کی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور اسلام کی خدمت کریں لیکن امیر شام کو ایک بار پھر امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کے خلاف انتقام خون خلیفہ سوم کے بعد ایک اور بہانہ بھی مل گیا تھا جو کہ جنگ جمل تھا۔ امیر شام اس جنگ کے کے ذمہ دار کو بھی امام علی (ع) سمجھتا تھا جو حقیقت نہیں تھی۔
امام علی (ع) نے امیر شام کو خط لکھا کہ وہ ان کی خلافت ظاہری کی بیعت کرے، آپ کی اطاعت کرے اور شام کی حکومت کو امام کے حوالے کرے لیکن امیر شام نے جواب دینے میں تأخیر کی اور شام کے لوگوں کو خلیفہ سوم کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اکسایا۔
امیر شام نے سب جگہوں پر اعلان کرایا کہ خلیفہ سوم کے قاتل علی (ع) ہیں اور حضرت علی (ع) کو خط لکھا کہ وہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں، شام کے لوگوں کو جنگ کے لئے جمع کیا، ادھر حضرت علی (ع) نے کوفہ کے لوگوں کو صفین کی طرف بھیجا، اکثریت نے اتفاق کے ساتھ آپ کی دعوت قبول کی اور میدان میں آگئے۔ امام نے اپنی فوج کو چند دستوں میں تقسیم کیا اور ہر دستے کا ایک کمانڈر مقرر کیا، ہر ایک کی ذمے داری معین کی، امام اور شام کی افواج محرم الحرام کے اختتام سے آٹھ دن پہلے سے 37ھ صفین کے میدان میں پہنچیں۔
یہ تقریباً ایک لاکھ افراد تھے۔ جوں ہی امیر شام کا لشکر پہنچا تو امام (ع) کے بعض ساتھیوں نے چاہا کہ جنگ شروع کی جائے، امیر شام نے خط لکھا کہ جنگ میں جلدی نہ کریں، ادھر امام کی حتی الامکان کوشش تھی کہ جنگ نہ ہو تاکہ میدان جنگ کے بجائے خلافت ظاہری کی ذمہ داریوں کے مطابق مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرے، لہذا امام نے جنگ سے اپنے لشکر کو روکا، بار بار خط لکھا تاکہ امیر شام اپنی غلطی کو چھوڑ دے اور مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو جائے۔
دوسرے لفظوں میں امیر شام، امام علی (ع) کی قانونی اور عرفی خلافت ظاہری کو بیعت کے ذریعے قبول کرے اور اختلافات کو گفتگو کے ذریعے حل کرے، اس طرح کئی مہینے گزر گئے۔ ایک گروہ بے چینی سے امام سے جنگ شروع کرنے پر اصرار کر رہا تھا، مگر امام نے ہر مرتبہ انھیں روک دیا۔ البتہ اس دوران مختلف جھڑپیں بھی ہوئیں، کوشش یہ تھی کہ جنگ مزید نہ پھیلے تاکہ خلافت ظاہری کا نیا پودا مزید کمزور نہ جائے اور مسلمان ایک دوسرے کا خون نہ کریں۔
بالآخر ذی الحجہ۳۷ھ میں جنگ شروع ہوئی اور محرم الحرام کے احترام میں جنگ بند رہی، اس دوران امام نے پھر خطوط لکھے اور اپنے نمائندوں کو بھیجا۔ محرم الحرام ختم ہوتے ہی جنگ شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہوگئی، ۸ صفر کی تاریخ ایسی تھی کہ ہر طرف گھمسان کی لڑائی ہونے لگی جو رات تک جاری رہی، دس صفر کی صبح دونوں نمازوں کے بعد دونوں طرف کی فوجوں میں سخت جنگ ہوئی۔
لشکر امام پیش قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا اور شامی افواج کو سخت مشکلات کا سامنا تھا، عجیب بات یہ ہے کہ صفر کے مہینے کی درمیانی رات کو جسے ’’ليْلَةُ الْهَرِير‘‘ کہتے ہیں (ہریر کے معنی کتوں کی طرح آواز نکالنا ہے۔ امیر شام کے فوجی امام (ع) کے لشکر کے حملوں کی وجہ سے کتوں جیسی آوازیں نکال رہے تھے) جنگ جاری رہی، جب شامی افواج کو مکمل تباہی اور شکست نظر آئی، تو عمرو بن عاص نے، جو دھوکے اور فریب میں مشہور تھا، امیر شام کے حکم پر شکست سے بچنے کی راہیں سوچنا شروع کیں۔
انھوں فوج کو حکم دیا کہ قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیں، کیوں کہ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں اور ہم قرآن کو حاکم قرار دیتے ہیں۔ امام کے لشکر میں موجود منافقوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور لوگوں سے کہا، جنگ روک دو! ہم قرآن سے جنگ نہیں کریں گے اور اس حساس موقع پر لوگوں کو جنگ بندی کرنے کی طرف دعوت دی۔ ایک بڑی تعداد دھوکے میں آگئی اور امام (ع) سے اس حکمیت (جو کہ حقیقت میں امام کی خلافت ظاہری سے انکار اور بہانے کے سوا کچھ نہ تھا) کو قبول کرنے کا تقاضا کیا۔
مسئلہ حکمیت، ایک دھوکا اور فریب تھا، جو امام (ع) پر مسلط کیا گیا، اس خطرناک دھوکے سے تلخ نتیجہ سامنے آیا۔ عمرو بن عاص، امیر شام کی طرف سے جبکہ ابوموسی اشعری کو جو سادہ لوح انسان تھے، مولا علی (ع) کی طرف سے حکم اور فیصلہ کرنے حق دیا گیا، عمرو بن عاص نے ابوموسی اشعری کو بھی دھوکا دیا، جس پر ابوموسی اشعری نے کہا: علی (ع) اور امیر شام دونوں کو خلافت ظاہری سے علیحدہ کر دیا جائے، عمرو بن عاص نے کھڑے ہو کر کہا: میں علی (ع) کو خلافت ظاہری سے علیحدہ کرتا ہوں اور امیر شام کو خلافت ظاہری پر نصب کرتا ہوں۔
بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی (ع) کے لشکر کو جو حکمین کے جواب سے قبل کوفہ پہنچ چکا تھا اور حکمین کے جواب کا منتظر تھا، جب ابوموسیٰ کے دھوکا کھانے کا انہیں علم ہوا تو انہیں ہوش آیا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا، وقت گزر چکا تھا اور ایک مرکز پر جمع کر کے دوبارہ حملہ کرنا آسان کام نہ تھا۔[2]
اس جنگ میں ایسی کامیابی ہو سکتی تھی کہ جس کے نتیجے میں تاریخ اسلام میں ایک اہم تبدیلی رونما ہو جاتی اور مسلمان ہمیشہ کے لئے بنی امیہ کے شر سے محفوظ ہو جاتے، شرک و بت پرستی کی باقیات ختم ہوجاتیں اور یوں امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کو امامت اور ولایت کے حقیقی سانچے اور چہرے میں ڈھل جانے کا موقع مل جاتا لیکن اب اس کا موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا لیکن ہوا یہ کہ نہ صرف امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کر دی گئی بلکہ امام کے دائرہ ایمانی سے خارج کرنے کے آثار نمودار ہونے لگے۔
اگر ہم چاہے کہ امام علی (ع) کی خلافت ظاہری پر مسلط شدہ دوسری بڑی جنگ میں جیتی جنگ، شکست سے دچار ہونے کے عناصر اور اسباب ذکر کرنا چاہے تو خلاصہ کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کا
پہلا اصل سبب: دشمن کی دھوکا دہی؛
دوسرا سبب: دوستوں کی سادہ لوحی جبکہ منافق اس انتظار میں تھے کہ ایسا موقع ہاتھ لگے اور وہ اس سے فائدہ اٹھائیں؛
تیسرا سبب: اختلاف و تفرقہ؛
چوتھا سبب: مولا علی (ع) کے لشکر میں نظم کا نہ ہونا بیان کیا جاتا ہے۔
۳. جنگ نہروان؛ خلافت ظاہری کی تیسری جنگ
جنگ صفین اور حکمیت کے معاملے میں نتائج آشکار ہو گئے، اسی جنگ کی کھوکھ سے ایک اور جنگ کو جنم لینے کا موقع ملا، جسے جنگ نہروان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ امام علی (ع) کی خلافت ظاہری کے دوران مسلط شدہ تیسری اور آخری جنگ تھی اور اسی جنگ کی دشمنی کی بنا پر امام علی (ع) کی شہادت ہوئی۔ لہذا کہہ سکتے ہیں یہ جنگ، صفین کی تباہ کن جنگ کا نتیجہ تھا۔
وہ گروہ جس نے حکمیت کو قبول کیا تھا، بعد میں پشیمان ہوئے اور حکمیت کو قرآن کے خلاف اور کفر کہنے لگے اور ان کی بے غیرتی کی انتہا ہو گئی کہ انھوں نے امام (ع) سے مطالبہ کیا کہ وہ توبہ کریں، ورنہ ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے، امام علی (ع) جو اپنے لشکر میں سخت اختلافات دیکھ رہے تھے (کہ منافق لوگ اس اختلاف کو ہوا دے رہے ہیں) فوج کو حکم دیا کہ کوفہ کی طرف پلٹ جائیں، کوفہ میں بارہ ہزار افراد وہ تھے جو انتہائی متعصب اور لشکر سے جدا ہو گئے تھے اور مقام حروریہ جو کوفہ سے دو میل کے فاصلے پر تھا، وہاں چلے گئے۔
اس وجہ سے یہ خوارج حروریہ کہلانے لگے۔ مقام نہروان جو حروریہ کے قریب ہے، اس مقام پر امام (ع) سے جنگ کے لئے تیاری کرنے لگے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں کچھ وہ افراد بھی تھے جو امام (ع) کے دیرینہ ساتھی تھے۔ ان میں وہ افراد بھی تھے جن کی پیشانی پر عبادت کی وجہ سے نشانات تھے، قرآن کی تلاوت کی آواز ہر جگہ آتی تھی۔ در اصل یہ وہ احمق عابد تھے جو افراط کا شکار تھے، ظاہراً دین سے منسلک تھے لیکن حقیقت میں دین سے بے خبر تھے، لہذا ان کو مارقین کہتے ہیں۔
جب دونوں لشکر مد مقابل ہو گئے تو امام (ع) نے خطاب فرمایا، جس پر مخالف کے لشکر کا ایک بڑا حصہ ان سے جدا ہو گیا اور ’’التّوبَة التَّوْبَةَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ‘‘ کی آوازیں بلند کرتے ہوئے۔ امام (ع) سے معافی مانگنے لگے اور آپ نے انہیں بخش دیا۔ اس طرح ان بارہ ہزار افراد میں سے آٹھ ہزار افراد پلٹ آئے (روایت کے مطابق امام نے ایک طرف پرچم نصب کر دیا اور توابین سے کہا کہ اس کے نیچے جمع ہو جائیں) جب باقی افراد سے امام (ع) ناامید ہو گئے کہ یہ اب ہدایت کے قابل نہیں رہے۔
جب جنگ کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تو امام (ع) نے فرمایا: جنگ میں پہل نہ کی جائے، جمل و صفین کی طرح یہاں بھی آپ جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ خوارج نے حملہ کیا اور امام (ع) کے لشکر نے سخت رد عمل دکھایا اور اپنا دفاع کیا۔ خوارج کے تمام افراد (جن کی تعداد چار ہزار تھی) قتل ہوئے سوائے ان نو (۹) افراد کے جو بھاگ گئے اور امام کی فوج کے نو (۹) افراد سے زیادہ شہید نہیں ہوئے۔
امام (ع) کا یہ سچا کلام جو آپ نے جنگ سے قبل ارشاد فرمایا تھا کہ (ان میں دس سے زیادہ باقی نہیں رہیں گے اور تم میں سے دس سے زیادہ شہید نہیں ہوں گے)، یہاں واضح و آشکار ہو گیا۔[3] امام علی (ع) کی خلافت ظاہری پر مسلط شدہ یہ جنگ ۹ صفر ۳۸ھ یا ۳۹ھ کو شروع ہوئی اور یہ جنگ ایک گھنٹہ سے زیادہ طولانی نہیں تھی۔[4]
خاتمہ
جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان، امیرالمومنین (ع) کے دور خلافت ظاہری پر مسلط شدہ تین اہم جنگیں تھیں۔ جنگ جمل، بیعت شکنوں کی طرف سے امام پر مسلط کی گئی جبکہ جنگ صفین، سرکشوں نے امیر شام کی قیادت میں امام کی خلافت ظاہری پر مسلط کر دی تھی، جبکہ امام کی خلافت ظاہری پر مسلط شدہ تیسری جنگ، خوارج اور مارقین نے مسلط کر دی۔ ان تینوں جنگوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام علی (ع) کی خلافت ظاہری اختلافات اور انتشار میں بہہ گئی۔
حوالہ جات
[1]– ابن اثير، الکامل في التاريخ، ج۳، ص۲۰۷۔
[2]– ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۲۵۹۔
[3]– سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ۹۔
[4]– ابن اثير، الکامل في التاريخ، ج۲، ص۴۰۵؛ طبری، تاريخ طبری، ج۵، ص۸۶؛ مسعودی، مروج الذهب، ج۲، ص۴۱۷؛ سبحانی، فروغ ولايت، ص۶۲۰۔
منابع و مآخذ
۱۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبه الله، شرح نہج البلاغۃ، بغداد عراق، دار الکتاب العربی، ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ء۔
۲۔ ابناثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت لبنان، دار صادرۃ، ۱۳۸۵ھ۔
۳۔ سبحانی، جعفر، فروغ ولایت، قم ايران، مؤسسه امام صادق (ع)، ۱۳۷۴ش۔
۴۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم ایران، هجرت، ۱۴۱۴ ھ۔
۵۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک (تاریخ طبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره مصر، دار المعارف، ۱۹۷۰ء۔
۶۔ مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب ومعادن الجوهر، تحقیق و تعلیق سعید محمد اللحام، بیروت لبنان، دار الفکر، ۱۴۲۱ھ۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مکارم شیرازی، ناصراور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۳۱۷ تا ص۳۲۱۔