- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 2 دقیقه
- 2022/02/17
- 0 رائ
سوال: گو کہ اکثريت حقانيت کي دليل نہيں ہے مگر پھر بھي سوال يہ ہے کہ تفکر خلافت کے پيروکاروں کي تعداد کيوں تفکر امامت کي نسبت زيادہ ہے؟
تفکر خلافت کے پيروکاروں کي تعداد کيوں تفکر امامت کي نسبت زيادہ ہے؟
سوال: گو کہ اکثريت حقانيت کي دليل نہيں ہے مگر پھر بھي سوال يہ ہے کہ تفکر خلافت کے پيروکاروں کي تعداد کيوں تفکر امامت کي نسبت زيادہ ہے؟
جواب: تفکر خلافت اگر چہ طلحہ کے ہاتھوں عثمان بن عفان کے قتل کے بعد تقريبا ختم ہوکر رہ گئي اور معاويہ نے اپنے فاسق و فاجر بيٹے “يزيد” کي وليعہدي کا اعلان کرکے اس طرز فکر کا گلا گھونٹ ديا مگر بنو اميہ اور ان کے بعد بنو عباس نے اپني بادشاہت کا سلسلہ خلافت کا لبادہ اوڑھ کر جاري رکھا اور يوں اہل خلافت کو بہت لمبے عرصے تک حکومت و اقتدار کا موقع ميسر رہا جس کي وجہ سے تفکر خلافت يا مکتب خلافت کے پيروکاروں کي کمّيت ميں اچھا خاصا اضافہ ہوا.
سوال: شيعيان اہل بيت (ع) کي تعداد ميں کب اضافہ ہوا؟
جواب: خلفائے ثلاثہ يعني ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے ميں شيعيان اہل بيت (ع) کميت کے لحاظ سے کافي قليل تھے مگر جب اہل مدينہ و مصر و عراق نے علي عليہ السلام کي بيعت کي اور علي عليہ السلام نے امت اسلامي کي خلافت کا ظاہري عہدہ سنبھالا تو کمّيت کے لحاظ سے اہل تشيع نے قدرے ترقي کي اور سنہ 35 ہجري کے بعد اہل عراق نے مذہب تشيع اختيار کيا اور جب امام حسن عليہ السلام نے معاويہ کے ساتھ صلحنامے پر دستخط کئے تو معاويہ نے شيعيان اہل بيت(ع) کے لئے گھٹن کي فضا قائم کي اور انہيں سماجي حقوق سے محروم کرديا.
امام حسين عليہ السلام اور آپ(ع) کے اصحاب و انصار کي شہادت کے بعد، تھوڑي مدت کے لئے تشيع کي فکري اور اعتقادي حرکت رکاؤ کا شکار ہوئي مگر کوفہ اور بصرہ کے شيعيان اہل بيت(ع) نے اپني تحريکوں کے ذريعے شيعہ سياسي حرکت کو زندہ رکھا. اس کے برعکس بنو اميہ کے بادشاہوں اور ان کے واليوں نے– جن ميں سے بعض تو بالفطرہ مجرم اور قاتل تھے اور قتل انسان سے لذت اٹھاتے تھے– شيعوں کے لئے زندگي اجيرن بنادي حتي کہ بنو مروان کي بادشاہي ميں تو شيعيان اہل بيت(ع) کي تعداد گھٹ بھي گئي مگر قيام عاشورا کے شعلي ابھي بھڑک رہے تھے[اور آج بھي بھڑک رہے ہيں] اور پھر عاشورا کے انقلاب کا جذباتي پہلو بھي بہت ہے مؤثر تھا جس کي وجہ سے اہل تشيع کي آبادي کم ہوجانے کا سلسلہ بہت جلد رک گيا اور جب موقع ملا تو تشيع کي کلياں کھلنے لگيں اور شيعوں کي آبادي نے ترقي کے منازل طے کرنا شروع کردئيے.
source : tebyan