- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/06/02
- 0 رائ
دحو الارض کی خصوصیات ان امور میں سے ہیں جنہیں قرآن کریم میں مخصوص مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور دحو الارض ان خصوصیات میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تیسویں پارہ کے سوہ نازعات میں بیان فرمایا ہے اور جس میں دحو الارض کی تخلیق کا ایک مرحلہ پیش کیا ہے۔ سورہ نازعات کی آیت میں مفسرین نے اپنے علم کی بنیاد پر یا سامعین کی فہم و فراست کے مطابق، ان کے اختیار میں موجود ذرائع کے مطابق دحو الارض کی مختلف تشریحات پیش کی ہیں۔
لغات میں یہ دو الفاظ “دحو” اور “طحو” ذکر کیے گئے ہیں:
“وسعت دینا” “جدا کرنا”[1]” نقل کرنا اور لے جانا” “آمادہ کرنا”[2] “بچھانا”[3] “گھمانا”[4]
انسانی علم کے نکتہ نظر سے زمین
ایک: زمین کی تخلیق
کائنات کے ماہرین نے یہ بتانے کے لیے مختلف ماڈلز پیش کیے ہیں کہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور پھر زمین کیسے وجود میں آئی۔[5] اور جن میں سب سے مشہور بگ بینگ ماڈل ہے۔ یہ نظریہ بیسویں صدی کے اوائل میں پیش کیا گیا تھا اور “ادوین ہابل” کے نتائج کے بعد اسے تقویت ملی۔[6] اور “جرج لمایتر بلژکی”اور” ژرژ کاموف روسی” اس نظریہ کے پہلے حامیوں میں سے تھے۔[7]
متذکرہ نظریہ، جسے “ابتدائی کنڈینسڈ کلاؤڈ یونیورس” کہا جاتا ہے۔[8] وہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات کی ایک ابتداء تھی اور یہ کائنات اختتام تک پہنچے گی۔[9] اس نظریہ کے مطابق، مادّی کائنات مادے کی خلائی قسم کے دھما کے سے وجود میں آئؕی ہے۔ زمانہ اور وقت کو ایک ابتدائی نقطہ سے خلق کیا گیا ہے اور اب اس واقعے کو تقریباً 14 بلین سال گزر چکے ہیں، ایک بہت ہی گھنے ذرہ، جس کا نام نامعلوم وجوہات کی بناء پر لامحدود کے ایک وسیع گولے کے طور پر ہے۔ کھربوں سے زیادہ درجہ حرارت والی گھنی اور جلتی ہوئی گیسیں[10] جو زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہلیوم پر مشتمل تھیں تقریباً 13.7 بلین سال پہلے پھٹ گئیں، جگہ کی تبدیلی کے ثبوت کے طور پر بگ بینگ اور اس کا پھیلاؤ اب بھی جاری ہے۔[11]
دو: زمین کی شکل
سب سے آسان مشاہدات کے مطابق، ابتدائی انسانوں کا خیال تھا کہ وہ ایک مسطح جسم پر رہتے ہیں، اور ان میں سے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ زمین آسمان کے بیچ میں رکھا ہوا ایک سطحی پتھر ہے اور جو ہر طرف سے پھیلا ہوا ہے۔[12]
بظاہر، “فیثاغورث” پہلا شخص ہے جس نے زمین کے گول ہونے کا ادراک کیا اور ارسطو نے چاند گرہن کے رجحان اور چاند پر زمین کے گول سایہ کے ذریعے اس مسئلے کو ثابت کیا [13] اور ” آراتوستن” اور اس کےبعد” ابرخس نیقه ای” روئے زمین پر یقین رکھتے تھے اور اس کے چکر کا محاسبہ لگاتے تھے۔[14]
اسلام کے ظہور کے بعد اور رنسانس صدیوں پہلے بہت سے مسلمان سائنسدانوں نے قطعی دلائل کے ساتھ زمین کے گول ہونے کو ثابت کیا اور اس پر اپنی فلکیاتی سرگرمیوں کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے بتانی، ابو الوفاء بوزجانی[15] ابو معشر بلخی[16]اور ابو ریحان بیرونی[17]اور بہت سے دوسرے دانشمندوں کے نام عالم اسلام نے ذکر کیا۔
تین: ارتھ میکانکس
زمین سمیت ہر ایک آسمانی جسم کی کئی مختلف اور باقاعدہ حرکتیں ہوتی ہیں، جو اپنے آپ میں یا دوسرے خلائی اجسام میں مختلف اثرات کی اصل ہیں۔ دو صدی عیسوی سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی تک، فلکیات اور کائناتیات کی پوری سائنس پر حاوی نظریہ زمین کو کائنات کا مرکز مانتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ دیگر خلائی اجسام زمین کے گرد گھومتے ہیں۔[18] یہ نظریہ منظومه “بطلمیوسی” کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس نظریہ کے بانی کے دوسرے افراد مقروض ہے۔[19]
ایسا لگتا ہے کہ پہلا نظریہ جو یونان میں مرکزی زمینی نظام کے خلاف پیش کیا گیا تھا وہ” آریستارخوس ساموسی” کا نظریہ تھا جو سورج کے گرد زمین کی عبوری حرکت کے بارے میں تھا، آرکیمیڈیز نے بھی اس مفروضے کو “آریستارخوس”سے منسوب کیا ہے۔[20]
اسلامی دنیا میں بہت سے سائنس دانوں نے مرکزی زمینی نظام کی مخالفت کی اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ درستگی اور نزاکت کے ساتھ وہ زمین کی حرکت کی تفصیلات جیسے کہ اس کی بیضوی حالت کو دریافت کرنے اور قدرتی اور صحیح طریقے کی خاکہ فراہم کرنے اور ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔[21]
زمین کی حرکت کی اقسام
بہت سی تبدیلیاں اور تغییرات جو ہم، ارد گرد کی فطرت میں محسوس کرتے ہیں وہ زمین کی مختلف اور باقاعدہ حرکتوں، رات، چھوٹے دن اور موسموں کی ان دو تبدیلیوں کے عروج سے وجود میں آتے ہیں۔ زمین کی حرکات کے نتیجے میں ہونے والے منظر ہیں، ان حرکات میں سے، درج ذیل کا ذکر کیا جا رہا ہے:
ایک: عبوری تحریک
زمین کی متراکم حرکت گھڑی کی مخالف سمت میں ہے اور سورج کے گرد 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 51 سیکنڈ میں یہ حرکت مکمل ہوتی ہے[22] زمین ایک شمسی سال میں تقریباً 30 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج کے گرد 937 ملین کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے۔
دو: وضعی حرکت
زمین اپنے محور کے گرد گھڑی کی مخالف سمت میں 23 گھنٹے، 56 منٹ اور 4.09 سیکنڈ تک گھومتی ہے، جسے فلکیاتی دن کہا جاتا ہے۔ خط استوا پر زمین کی گردش کی رفتار تقریباً 1670 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور قطبین پر صفر ہے۔[23] زمین کی دایری شکل، دوسرے سیاروں کی گردش، فوکولٹ اور کوریولیس کا تجربہ ہے کہ زمین کی وضعی حرکت کے دلایل مین سے ان لوگوں نے اسے مانا ہے۔[24]
تین: دوسری حرکتیں
سورج اور دیگر ستارے اندرونی کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہیں، زمین سمیت نظام شمسی اس راستے پر 240 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔[25] زمین کے لیے دوسری حرکتیں ثابت ہوئی ہیں۔[26] جس کے سلسلہ میں گفتگو کے لئے اور زیادہ وقت کی ضرورت ہے۔
تفسیری نظریات
ان آیات مانند:
“وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا“[27]
“وَ هُوَ الَّذي مَدَّ الْأَرْضَ وَ جَعَلَ فيها رَواسِي”[28]
“وَ الْأَرْضَ بَعْدَ ذَالِكَ دَحَئهَا”[29]
“وَ هُوَ الَّذِى مَدَّ الْأَرْضَ وَ جَعَلَ فِيهَا رَوَاسىِ وَ أَنهْارًا“[30]
کی سائنسی تشریح کے نظریات کے مجموعہ کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک ان آیات کی تعلیمات کا ایک حصہ کو بتاتا ہے۔
ایک: دحو الارض اور زمین کی خلقت اور وسعت
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ “دحو” کا لفظ ترقی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس استعمال کی بنا پر مفسرین نے “دحو الارض” کو زمین اور زمین کی وسعت اور اس کی خشکی سے تعبیر کیا ہے۔ طبرسی نے “دحو” سے مراد زمین کی وسعت کو مراد لیا ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہے کہ: “بلاشبہ اللہ تعالی نے آسمان کے بعد زمین کو وسعت دی، اگرچہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی تھی، لیکن وہ کعبہ کے نیچے مدغم تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے وسعت دی۔”[31]
دو: دحو الارض اور زمین کی حرکت
“دحو” کے لغوی معنی کے اعتبار سے بعض مفسرین اس آیت سے زمین کی حرکت سمجھتے ہیں۔ علامہ طباطبائی نے “مخلوط” کے معنی کا حوالہ دیتے ہوئے سورہ نازعات کی آیت نمبر تیس میں زمین کی وضعی حرکت کے بارے میں اس تبدیلی کو سمجھا اور تحریر کرتے ہیں : “گالیلہ” نے ایک ہزار سال پہلے زمین کی حرکت کے بارے میں کہا تھا۔ قرآن نے زمین کی گردش کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور نہج البلاغہ اور بعض احادیث میں لفظ “دحو” کے مشتق استعمال کی طرف اشارہ کیا ہے اور تحریر کیا ہیں: اہلبیت(ع) کی احادیث میں اس پر بہت زیادہ بحث کی گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں “دحو الارض” زبان زدہ عام وخاص ہوگیا ہے۔[32]
تین: دحو الارض اور زمین کا گول ہونا
جن مصنفین نے آیت کی علمی تشریح کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے اس آیت کا استعمال کرہ ارض کے دو مختلف تاثرات پیش کرتے ہوئے کیا ہے:
پہلا گروہ: وہ مصنفین ہیں جو آیت کریمہ میں”دحو” کا مطلب حرکت کرنا سمجھتے ہیں۔ لیکن گول ہونے کو حرکت کے لوازم میں سے جانا ہے۔[33] کیونکہ جس وقت زمین حرکت کرنے لگی اور اسے اپنی جگہ سے دوسری جگہ کیا گیا، تو یہ ایک مائع اور آتش گیر مادہ تھا، اور اس کے نتیجے میں مختلف خرکتیں دایری شکل کو جنم دیتی ہے۔[34]
دوسرا گروہ: وہ ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عربی میں لفظ “دحیہ” کے معنی انڈے (بیضاوی شکل) کے ہیں، اس لیے لفظ “دحیہ” کے معنی یہ ہیں کہ اس نے زمین کو دحیہ (بیضاوی شکل)کی طرح رکھا جس کے معنی انڈے (بیضاوی شکل) عطا کی۔[35]
نتیجہ
قرآن مجید میں اس لفظ کے ایک سے زیادہ معنی میں استعمال ہونے کے امکان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے که زیر بحث آیات زمین کی پوزیشنی اور وضعی حرکت کے ساتھ ساتھ اس کی وسعت اور اس کی وسعت کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ آیات کریمه جو زمین پر پانی کے بننے اور پودوں کے بڑھنے اور پہاڑوں کے نکلنے کی بات کرتی ہیں “دحو الارض”کی تفسیر ہے اور ارضیاتی شواہد بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ زمین کی تشکیل میں یہ عمل ،زمین پر زندگی کے حالات فراہم کرنے اور مستحکم کرنے کے لئے ہے، جو ایک خدائی نعمت اور انسانی شکر گزاری کا سبب ہیں۔
حوالہ جات
[1]راغب اصفہانی، مفردات، ص308
[2] ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ص434
[3]جوہری، الصحاح، ج۶، ص ۲۳۳۴
[4] زمخشری، الفائق، ص418
[5]کولز،کیهان شناسی، ص۲۸
[6] اوبلاکر، فیزیک نوین، ص51
[7] عدالتی، اصول ومبانی جغرافیایی ریاضی، ص89
[8] گراھیل، واژه نامه نجوم و اختر فیزیک، ص۲۰
[9]عدالتی، اصول ومبانی جغرافیایی ریاضی،ص89
[10]آسیموف، جهان چگونه زاده شد؟، ص۲۲
[11]تہانو، پس از سه دقیقه نخستین، ص128
[12]کلارک، ستاره شناسی،اصول وعمل، ص ۲۵
[13]برانکلین، زمین سیاره شماره سه، ص ۱۱۷
[14] عادلتی، اصول ومبانی، جغرافیای ریاضی، ص 1۹
[15]قربانی، زندگی نامه ریاضی دانان دوره اسلامی، ص154
[16]موسوی بجنوردی، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۶، ص۲72
[17] نفیس، خدمات مسلمانان به جغرافیا، ص92
[18] دگانی،نجوم به زبان ساده، ص۲۱۶
[19] روسو، تاریخ علوم، ص 106
[20] ڈورانٹ ، تاریخ تمدن ،ج۲،ص ۷۰۷
[21] مسترحمی، تفیسر آیات نجومی با تاکید بر پاسخ به شبهات، ص385
[22]عدلتی، اصول ومبانی جغرافیایی ریاضی، ص 301
[23] جعفری، فرھنگ بزرگ گیتا شناسی، ص132
[24]عادلتی، اصول و مبانی جغرافیایی ریاضی، ص 274
[25] دیکسون، نجوم دینامیکی، ص۱۵۵
[26] عدلتی، اصول و مبانی جغرافیایی ریاضی، ص 336
[27] سورہ شمس :۶
[28] سوره ق :۳
[29]سورہ نازعات:30
[30] سوره رعد:۳۰
[31]طبرسی، مجمع البیان، ج۱۰، ص 261
[32]طباطبائی، اعجاز قرآن: 13
[33] وحید الدین خان، 1973: 208
[34] معرفت، التمھید فی علوم القران،ج۶،ص ۱۶۶
[35] ماردینی، موسوعۃ الاعجاز العلمی فی القران الکریم، ص 88
منابع و مآخذ
- ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغة، بیروت، دار الکتب اسلامیة، ١٤٢٠ق.
- اوبلاکر اریک، فیزیک نوین ترجمه، بهروز بیضایی، تهران، قدیانی،۱۳۷۰ش.
- برائلی، برانکلین منسفیلد، زمین سیاره شماره سه، تهران، بنگاه ترجمه و نشر کتاب،۱۹۸۷م.
- تهانو، پادمانابان، پس از سه دقیقه، نخستین ترجمه محسن شادمهری تهران، ققنوس،۱۳۸۲ش.
- جعفری، عباس،فرهنگ بزرگ گیتاشناسی، تهران، گیتاشناسی، ۱۳۷۹ش.
- جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغة وصحاح العربیة، بیروت، دار العلم،١٤٠٤ق،
- دورانت، ویل، تاریخ تمدن، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی.
- دیکسون، رابرت تی،نجوم دینامیکی ترجمه احمد خواجه نصیر طوسی، تهران، نشر دانشگاهی،۱۳۸۲ش.
- راغب اصفهانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، قم، ذوی القربی، ١٤٢٦ ق.
- روسو، پی یر، تاریخ، علوم، ترجمه، حسن صفاری، تهران، امیر کبیر، ۱۳۳۵ ش.
- زمخشری، جارالله محمود بن عمر، الفائق فی غریب الحدیث، بیروت، دار الکتب العلمیة،١٤١٧ق.
- سروپاولی رادا، کریشنان، تاریخ فلسفه شرق و غرب ترجمه، خسرو جهانداری، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی،١٣٦٧ ش
- طباطبایی، سید محمد حسین، اعجاز قرآن، قم، بنیاد علمی و فکری، علامه طباطبایی١٣٦٢ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان لعلوم القرآن، ناصر خسرو تهران،۱۳۷۲ش.
- عبدالحلیم، سمیر، الموسوعة العلمیة فی الاعجاز القرآنی، اردن، مکتبة الاحباب،۲۰۰۰م.
- عدالتی، تقی و فرخی، حسن، اصول و مبانی جغرافیای، ریاضی، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۸۵ش.
- قربانی، ابوالقاسم، زندگی نامه ریاضی دانان دوره اسلامی، تهران، مرکز نشر دانشگاهی،١٣٦٥ ش.
- کلارک ا. ای رُی،ستاره شناسی، اصول و عمل، ترجمه، سید احمد سیدی، مشهد، آستان قدس رضوی،۱٣٦٦ش.
- کولز، پیتر،کیهان شناسی، تهران، بصیرت،۱۳۹۰ش.
- گراهیل، مک، واژه نامه نجوم و اختر فیزیک، ترجمه، محمد تقی عدالتی، تهران، پژوهشگاه علوم انسانی و مطالعات فرهنگی،۱۳۷۸ ش.
- ماردینی، عبدالرحیم، موسوعة الاعجاز العلمی فی القرآن الکریم، دمشق، دار المحبة، ١٤٢٥ق.
- مستر حمی، سید عیسی، تفسیر آیات نجومی با تاکید بر پاسخ به شبهات، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۹۷ش.
- معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن مشهد دانشگاه علوم اسلامی رضوی،۱۴۱۷ق.
- موسوی بجنوردی، کاظم ، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرة المعارف بزرگ اسلامی،۱۳۷۱ ش.
- نفیس، احمد ، خدمات مسلمانان به جغرافیا، مشهد، بنیاد پژوهشهای اسلامی آستان قدس رضوی،۱۳۷٤ ش.
- وحیدالدین خان، الاسلام یتحدی مدخل علمی الی الایمان، قاهره، المختار الاسلامی،۱۹۷۳م.
مضمون کا مآخذ:
مسترحمی، سید عیسی، تحلیل تفسیری رابطه آیة دحو الارض با دانش بشری، مقاله علمی-پژوهشی، نشریه علمی مطالعات تفسیری،شماره ۵۰، تابستان ۱۴۰۱.