- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
مغربي دنيا ميں دين سےدوري کے وجوهات
ھم سبھي جانتے ھيں کہ بالخصوص اٹھارھويں صدي کے بعد يورپ ميں عوام کا ايک بڑا طبقہ کفر اور بے ديني کي طرف مائل ھو گيا ھے اور ايسابھت کم ھوتا ھے کہ عام طور پر کسي دين کو اختيار کيا جائے۔ مغرب ميں کفر کي طرف رغبت اور دين سے فرار کے مختلف اسباب و علل ھيں جن ميں سے بعض ذيل ميں بيان کئے جا رھے ھيں:
(۱) ديني تعليمات کي توضيح و تشريح ميں کليسا کي کمزوري
مغربي دنيا ميں رھبران دين اور ان ميں بھي بالخصوص کليسا کي جانب سے کي گئ ديني تعليمات کي تشريح نھايت غير معقول اور غير قابل قبول تھي۔ بديھي اور واضح ھے کہ عقل انساني، انسان کو قطعاً اتنا آزاد نھيں چھوڑ تي کہ وہ کسي بھي نظريے کو آنکھ بند کر کے بے چوں چراقبول اور اختيار کر لے ۔ لھٰذا کسي بھي دين يا مکتب کے کامياب اور غلبہ حاصل کرنے کي پھلي شرط يہ ھے کہ وہ عقل سليم کے مطابق ھو۔
مثال کے طور پر ، کليسا ميں خدا کو انسان نمابنا کر پيش کيا جاتا تھا اور خدا کو انساني شکل و صورت ميں عوام کے حوالہ کيا جاتاتھا کہ خدا بدن رکھتا ھے ، اس کي آنکھيں بھي ھيں اور ھاتھ پير بھي ھيں بالکل دوسرے انسانوں کي طرح ليکن بھت بڑھا چڑھا کر اور بزرگ و قدرتمند بنا کر۔
اگر کسي کے سامنے اس کے بچپنے ميں اس طرح خدا کي تصوير و خاکہ پيش کيا جائے اور وہ شخص عقلي شعور و رشد يا مراتب علم تک رسائي کرکے اس بات کا يقين و علم حاصل کرلے کہ خدا اس طرح موجود نھيں ھوسکتا جيسا کہ اس کے بچپن ميں اس کے سامنے پيش کيا گيا تھاتو ممکن ھے کہ وہ خدا کے بارے ميں اپنے نظريات کي تصحيح کے بجائے خدا کے اصل وجود کا ھي انکار کر بيٹھے۔
فليمارين اپني کتاب GOD IN NATURE ميں لکھتا ھے :
کليسا ميں خدا کي شناخت اس طرح کرائي جاتي تھي کہ اس کي داھني اور بائيں آنکھ کے درميان چھ ھزار فرسخ کا فاصلہ ھے۔
(۲) کليسا کي سختياں اور اذيت رسانياں
کليسا تعليمات ديني سے متعلق اپني مخصوص تشريح و تفسير کو رواج دينے اور لوگوں کو ان پر تھوپنے ميں ذرّہ برابرپيچھے نھيں رھتاتھا اور اس سلسلہ ميں ھر طرح کي زيادتي اور ظلم و تشدد روا تھا۔ يھاں تک کہ ايسے علمي موضوعات کي مخالفت پر بھي سزا ئيں دي جاتي تھيں جو براہ راست دين سے مربوط نھيں ھوتے تھے ليکن کليسا انھيں قبول نھيں کرتا تھا مثلاً يہ کہ زمين گھوم رھي ھے۔ کليسا کا نظريہ يہ تھا کہ زمين اپنے مدار پر بغيرحرکت کے موجود ھے اور سورج اس کے گرد حرکت کررھا ھے ۔
قرون وسطيٰ ميں کليسا نے انکوئيزيشن (INQUISITION) يا محاکمہٴ تفتيش عقائد نام کے محکمے قائم کررکھے تھے جن کي ذمہ داري يہ تھي کہ ايسے لوگوں کو تلاش کريں جو کليسا کے افکار کے مخالف ھيں اور شناخت کرکے انھيں ان کے ”جرم “ کے مطابق سزا ديں۔
WILL DURANT ان محکموں کے ذريعہ دي جانے والي سزاؤں اور سختيوں کے بارے ميں رقم طراز ھے :
سزا دينے کے طريقے علاقوں اور جگھوں کے اعتبار سے مختلف تھے۔ کبھي ايسا ھوتا تھا کہ ملزم کے دونوں ھاتھوں کو پشت سے باندھ کر اسے سولي پر چڑھا دياجاتا تھا اور کبھي ايساھوتا تھا کہ اس کو اس قدر سختي سے باندھ ديا جاتا تھا کہ وہ اصلاً حرکت بھي نہ کرسکے اور پھر اس کے دھن ميں اتنا پاني انڈيلا جاتا تھا کہ وہ شخص دم گھٹنے کي وجہ سے مرجاتا تھا يا پھر يہ کہ اس کے بازوؤں اور پنڈليوں کو رسيوں سے اتنا کس کر باندھا جاتا تھا کہ رسي گوشت کو چھيل کر ھڈي ميں پيوست ھو جاتي تھي(۱)
ايک دوسري جگہ DURANT لکھتا ھے :
۱۴۸۰ ءء سے ۱۴۸۸ ءء تک يعني ۸/سال کي مدت ميں ۸۸۰۰/افراد کو جلايا اور ۹۶۴۹۴/افراد کو سخت ترين سزائيںدي گئي تھيں۔ ۱۴۰۸ ءء سے ۱۸۰۸ ءء تک ۳۱۹۱۲ سے زيادہ افراد نذر آتش کئے گئے اور ۲۹۱۴۵۰ سے زيادہ افراد کو سخت ترين سزائيں دي گئيں تھيں۔(۲)
(۳) فلسفي مفاہيم کي نارسائي
يہ ايک ايسا سبب ھے کہ جس کي وضاحت کے لئے ضروري ھے کہ کچھ عميق فلسفي مطالب و مباحث کا تذکرہ کيا جائے جو يھاں مناسب نھيں ھے کيونکہ ھمارے مباحث طوالت اختيار کرجائيں گے۔ يھاں صرف اتنا اشارہ کافي ھے کہ مغربي دنيا ميں فلسفہٴ الھٰيات اور علم کلام، بھت سي ايسي طويل و عريض مشکلات کا شکار تھے کہ وجود خدا اور دوسرے تمام ديني عقائد کي عقلي ، منطقي اور صحيح و حقيقي وضاحت نھيں کرپاتے تھے۔
مغرب ميں فلسفي نظريات بالخصوص مسائل الھٰيات کس قدرکمزور اور بے بنياد تھے ، اس کي مزيد وضاحت کے لئے BERTRAND RUSSELL کي مندرجہ ذيل عبارت کافي حد تک مناسب ھے ۔ RUSSELL خدا کے وجود ميں شک رکھتا ھے اور عملي طور پر بے دين ھے۔ وہ اپني کتاب “WHY I AM NOT A CHRISTIAN” ميں لکھتا ھے :
”اس برھان ( برھان علت اوليہ) کي بنياد اس پر منحصر ھے کہ اس کائنات ميں ھم جو کچھ ديکھتے ھيں ، اس کي ايک علت ھے اور اگر علتوں کي اس زنجير کے آخري سرے تک جايا جائے تو بالآخر علت اوليہ تک رسائي ھوجائے گي اور اس علت اوليہ کو علت العلل يا خدا کا نام دياجاتا ھے ۔ “
RUSSELL آگے چل کر اس مذکورہ استدلال پر تبصرہ کرتا ھے:
”ميں اپني جواني کے دور ميں ان مسائل سے متعلق زيادہ غور و خوض نھيں کيا کرتا تھا۔ ايک مدت تک ميں نے برھان علت العلل کو قبول بھي کيا تھا۔ يھاں تک کہ ميں نے اپني عمر کے اٹھارھويں سال ميں قدم رکھا اور اسي زمانے ميں JOHN STUART کي سوانح حيات کے مطالعے کے دوران يہ جملہ ميري نظر سے گزرا: ”ميرے باپ نے مجھ سے کہا کہ يہ سوال کہ کس نے مجھے خلق کيا ھے؟ ايک ايسا سوال ھے کہ جس کا کوئي جواب نھيں ھے کيونکہ فوراً ھي يہ سوال بھي پيدا ھوتا ھے کہ پھر ”خدا کو کس نے خلق کيا ھے؟“۔
اس جملے نے بڑي آساني سے برھان علت العلل کو ميري نظر ميں باطل کر ديا اور ميري نگاہ ميں يہ برھا ن ابھي تک بے بنياد ھے۔ اگر ھر شےٴ علت کي محتاج ھے تو لامحالہ خدا کو بھي ايک علت کا محتاج ھونا چاھئے اور يھيں سے يہ برھان باطل ھوجاتا ھے۔
اگر کوئي شخص فلسفہٴ اسلامي سے ذرہ برابر بھي آشنائي رکھتا ھو تو اس کو پھلے ھي مرحلے ميں RUSSELL کے مذکورہ دعوے کي خامياں نظر آجائيں گي۔ RUSSELL کے اعتبار سے قانون عليت يہ ھے کہ ”ھر موجود ،محتاج علت ھے“۔ جب کہ حقيقي قانون عليت يہ ھےکہ ”ھر ممکن، محتاج علت ھے۔“ لھٰذا اس کائنات کي علت اوليہ ،ازل سے خودبخود اس قاعدے سے باھر ھے۔ مثلاً، جس طرح قاعدہٴ ”ھر فاسق، جھوٹا ھوتا ھے“ روز اول سے انسان عادل کے دائرے سے باھر ھے۔
پيش نظر مباحث، بعض دوسرے مباحث فلسفي کے محتاج ھيں جن کي يھاں گنجائش نھيں ھے۔
(۴)اجتماعي مفاہيم کي نارسائي
مغرب ميں يہ نظريہ رواج پا چکا ھے کہ معاشرے پر ديني حکومت کا نتيجہ پوري طرح آزادي کا خاتمہ، ڈکٹيٹر شپ اور ايسے لوگوں کي جبر آميز حکومت ھے جو خدا کي طرف سے خود کو لوگوں پر حاکم گردانتے ھيں۔ عوام يہ سوچتے تھے کہ اگر خدا کو قبول کرليا تولازمي طور پر قدرت ھائے مطلقہ کي ڈکٹيٹر شپ کو بھي لامحالہ قبول کرنا پڑے گا اس طرح کہ کوئي بھي شخص آزاد نھيں ھوگا۔ لھٰذا خدا کو قبول کرنا اجتماعي قيد و بند کے مترادف ھے۔ پس اگر اجتماعي آزادي کي خواھش ھے تو خدا کا انکار کرنا ھوگا۔ بھرحال اجتماعي آزادي کو ترجيح دي گئي اور خدا کا انکار کرديا گيا۔
اسلام جو کہ زمانہ حاضر ميں واحد ايسا دين ھے جو کسي بھي طرح کي تبديلي و تغير اور تحريف سے محفوظ ھے، نے رھبران دين کيلئے اس نکتہ پر نھایت تاکيد کي ھے کہ اگر وہ عوام پر حق رکھتے ھيں تو عوام بھي ان پر حق رکھتے ھيں۔ مثال کے طورپر حضرت علي ﷼کے خطبے کا مندرجہ اقتباس قابل غور ھے:
—”پروردگار نے ولي امر ھونے کي بناپرتم پر ميرا ايک حق قرار ديا ھے اور تمھارا بھي ميرے اوپر ايک طرح کا ايک حق ھے ۔۔۔۔ حق ھميشہ دو طرفہ ھوتا ھے ۔ يہ کسي کا اس وقت تک ساتھ نھيں ديتا ھے جب تک اس کے ذمے کوئي حق ثابت نہ کردے اور کسي کے خلاف فيصلہ نھيں کرتا ھے جب تک اسے کوئي حق نہ دلوادے ۔ اگر کوئي ھستي ايسي ممکن ھے جس کا دوسروں پر حق ھو اور اس پر کسي کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کي ھستي ھے کہ وہ ھر شئے پر قادر ھے اور اس کے تمام فيصلے عد ل وانصاف پر مبني ھوتے ھيں ۔ “(۳)
(۵) مسائل الٰہيات سے متعلق سرسري اظہار نظر
اسقدر خدا شناسي بالکل سادہ اور فطري ھے جتني کہ عوام الناس کا وظيفہ اور ذمہ داري ھے کہ سمجھيں اور اس پر ايمان لائيں ليکن مسائل فلسفي کے ادق اور عميق مباحث نھايت پيچيدہ اور گنجلک ھيں اور اس قدر پيچيدہ اور گنجلک ھيں کہ ھر شخص اس وادي ميں داخل بھي نھيں ھوسکتا۔ مباحث صفات و اسمائے الٰھي ، قضاو قدر الٰھي، جبرو اختيار وغيرہ اسي طرح کے دشوارترين مسائل ھيں اور بقول حضرت علي عليہ السلام ”دريائے عميق“ ھيں ليکن نھايت افسوس ناک بات ھے کہ مغرب ميں بھي اور مشرق ميں بھي ھر کس و ناکس اپنے اندر اتني جراٴت پيدا کرليتا ھے کہ ان دشوارترين مباحث پر اپنے نظريات پيش کردے جس کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ يہ مذکورہ مسائل و مباحث غلط اور غير صحيح طور پر عوام تک منتقل ھوجاتے ھيں اور عوام حقانيت دين سے متعلق تردد و شک کا شکار ھوجاتے ھيں۔
شھيد مرتضيٰ مطھري اس سلسلے ميں ايک داستان نقل فرماتے ھيں:
خدا نے اونٹ کو پرکيوں نھيں دئے جب کہ کبوتر کو دئيے ھيں؟ اس سوال کے جواب ميں ايک شخص نے کہا: اگر کبوتر کي طرح اونٹ کے بھي پرھوتے تو ھماري زندگي تلخ ھو گئي ھوتي۔ اونٹ پر واز کرتا اور ھمارے لکڑي اور مٹي سے بنے مکانوں کو تباہ کرديتا۔ ايک دوسرے شخص سے سوال کيا گيا کہ خدا کے وجود پر کيا دليل ھے؟ اس نے کہا: تل ھي سے تاڑ بنتا ھے۔ (۴)
دليل کا کمزور ھونا ھرگز دعوے کے باطل ھونے کا سبب نھيں بن سکتا ليکن نفسياتي طور پر جب بھي کسي دعوے کے لئے کوئي کمزور دليل پيش کي جاتي ھے توسننے والا دعوے کے صحيح ھونے کے بارے ميں ھي ترديد کا شکار ھو جاتا ھے بلکہ کبھي کبھي تو ايک قدم آگے بڑھ کر اس کو اس دعوے کے باطل ھونے کا يقين بھي ھوجاتا ھے۔
نادان افراد کي جانب سے عقائد اور ديني تعليمات کي غلط اور غير صحيح تفسير و تشريح بھي بسا اوقات بے ديني کي طرف تمائل کا سبب بن جاتي ھے۔
(۶) دين کو دنيا کي راہ ميں رکاوٹ کے طور پر پيش کرنا
انسان کچھ ايسے جذبات اور غريزوںکامالک ھے جنھيں حکمت الٰھي نے اسکے اندر وديعت کيا ھے تاکہ وہ اپني زندگي کو سروسامان عطا کرسکے اور اس ھدف تک پھونچ سکے جس کے پيش نظر اس کو خلق کيا گيا ھے۔ تمايل جنسي، فرزند طلبي، علم و معرفت سے محبت اور خوبصورتي کي چاھت مذکورہ جذبات و غرائز کي کچھ مثاليں ھيں۔
اگرچہ انسان کو ان جذبات و غرائز کا تابع محض نھيں ھونا چاھئے ليکن اس کے ساتھ ساتھ يہ بھي ناممکن ھے کہ وہ انھيں چھوڑ دے يا مکمل طور پر ان کي مخالفت کربيٹھے۔ لھٰذا بھتر يہ ھے کہ جذبات و غرائز ميں اعتدال سے کام لينا چاھئے۔
اب اگر دين اور خدا کے نام پر ان غرائز کي مکمل طور پر نفي اور مخالفت کردي جائے اور مثلاً تجرد و رھبانيت کو مقدس اور شادي کو پست سمجھ ليا جائے نيز دولت و قدرت کوتباھي ، بربادي و بدبختي کي علت اور فقر و کمزوري کو خوش بختي کي علامت تسليم کرليا جائے تو فطري طور پر يھي ھوگا کہ انسان دين سے کنارہ کش اور خدا کا منکر ھوجائے گا کيونکہ يہ تمام خواھشات و غرائز انساني طبيعت ميں دخيل ھيں اور انسان ان سے حد درجہ متاثر ھوتا ھے۔ افسوسناک بات يہ ھے کہ جو مرض کبھي مغربي دنيا ميں پھيل گيا تھا اور آج تک اس کا اثر باقي ھے اس کو بعض نيم حکيم قسم کے افراد بسا اوقات مسلمانوں کے درميان بھي رائج کرنا چاھتے ھيں۔
BERTRAND RUSSELL کھتا ھے:
”کليسا کے تعليمات، بشر کو دو طرح کي بدبختيوں اور محروميوں ميں قرار ديتے ھيں: يا دنيا کي نعمتوں سے محرومي ياآخرت کي نعمتوں اور لذائز سے کنارہ کشي۔ کليسا کے مطابق انسان کے لئے ضروري ھے کہ ان دونوں محروميوں ميں سے کسي ايک کا انتخاب کرے ۔ يا دنيا ميں ذليل و خوار ھو اور اس کے بدلے ميں آخرت کي نعمتوں سے لطلف اندوز ھو يا اس کے برعکس اگر دنيا ميں عيش و عشرت چاھتا ھے تو آخرت ميں پريشانياں اور سختياں برداشت کرے۔“ (۵)
ليکن کليسا کا يہ نظريہ بالکل بے بنياد اور باطل ھے۔ حقيقي دين دنيا و آخرت دونوں کي سعادت کي ذمہ داري کو قبول کرتا ھے اور اگر کوئي شخص دين سے فرار اختيار کرتا ھے توآخرت کے ساتھ ساتھ دنيا ميں بھي ذليل وخوار ھوگا۔
کسي بھي عاقل انسان کے ذھن ميں يہ سوال پيدا ھوسکتا ھے کہ کيوں خدا نے بشر کو اس بات پر مجبور کيا ھے کہ وہ دنيا و آخرت ميں سے کسي ايک کو قبول کرے؟ کيا خدا بخيل ھے؟!
حقيقت يہ ھے کہ ديني تکاليف و وظائف کي انجام دھي آخرت کے ساتھ ساتھ دنياوي زندگي کو بھي باعزت اور باسعادت بناتي ھے۔
اس سلسلے ميں ھم ايک بار پھر علامہ شھيد مرتضيٰ مطھري کي طرف رجوع کرتے ھيں:
”بعض مبلغين کي خلاف حقيقت ،تعليم اور تبليغ اس بات کي موجب ھوتي ھے کہ بشر دين سے متنفر ھوجائے اور يہ فرض کرلے کہ خداشناسي محروميت، ذلت و خواري اور اس دنيا ميں مشکلات و پريشانيوں کا لازمہ ھے۔“ (۶)
(۷) عملي اور اخلاقي فساد
دين کي قبوليت انساني زندگي ميں بعض شرائط و قيود کي موجب ھوتي ھے۔اس وجہ سے ايسے لوگ جو شھوت پرستي اور ھوا و ھوس ميں غرق ھوتے ھيں، دين کو اپني آزادي ميں مخل گردانتے ھيں لھٰذا دين کا انکار کرکے خود کو آزاد سمجھ ليتے ھيں۔
قرآن کريم فرماتا ھے:
جو لوگ قيامت کے واقع ھونے ميں ترديد کے شکار ھيں درحقيقت ان کا يہ شک کوئي علمي شک نھيںھے بلکہ اپني شھوت پرستي اور بے راہ روي کي بنياد پر قيامت کا انکار کرتے ھيں۔ (بلْ يُرِيْدُ الْاٴِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَہ) اور قيامت کے حساب و کتاب سے بے پرواہ ھوکر ساري عمر گناہ کرتے ھيں۔ (۷)
دوسري طرف يہ بھي حقيقت ھے کہ فساد اخلاقي و عملي، حق و حقيقت کو قبول کرنے ميں مانع ھوتا ھے۔ توحيد ايک ايسا تخم ھے جو صرف پاک و پاکيزہ زمين ھي ميں رشد پاسکتاھے۔ بنجر اور ريتيلي زمين اس بيج کو تباہ و برباد کرديتي ھے۔ اگر انسان اپنے عمل ميں شھوت پر ست و مادہ پرست ھوجائے توآھستہ آھستہ اس کے افکار و خيالات بھي قاعدہٴ ”اصل انطباق با جامعہ“کے تحت اس روحي اوراخلاقي فضا کے مطابق ھوجاتے ھيں۔
اسي وجہ سے خدا نے قرآن مجيد کي ھدايت کو فقط متقين کےلئے قرار ديا ھے
(ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْہِ ھديً لِلْمُتَّقِيْن) يہ وہ کتاب ھے جس ميں کسي طرح کے شک و شبہ کي گنجائش نھيں ھے يہ صاحبان تقويٰ اورپرھيزگار لوگوں کيلئے مجسم ھدايت ھے (۸)
اور اس کے انذار و عذاب کو ان لوگوں سے مخصوص کرديا ھے جو شھوت پرستي وفساد اخلاقي ا ورجنسي ميں غرق ھوتے ھيں۔ (اِنْ ھوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرَآنٌ مُّبِيْن لينذر من کان حياً ويحق القول علي الکافرين)يہ تو ايک نصيحت اور کھلا ھوا روشن قرآن ھے تاکہ اس کے ذريعہ زندہ افراد کوعذاب الٰھي سے ڈرائيں اورکفار پرحجت تمام ھوجائے (۹)
گزشتھ دوتين صديوں ميں مغربي دنيا ميں مفاسد اخلاقي و اجتماعي کي شدت و زيادتي نے لوگوں کو اخلاقيات و معنويات کي فضا سے دور کرديا ھے ۔جس کي وجہ سے اعتقادي نقطہٴ نظر سے بھي لوگ معارف و تعليمات ديني سے برگشتہ ھوگئے ھيں۔
ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيْنَ اَٴساوٴُا السُّوٓاٴيٰ اٴَنْ کَذَّبُوا بِآيَاتِ اللهِ اور اس کے بعد برائي کرنے والوں کا انجام برا ھوا کہ انھوں نے خدا کي نشانيوں کو جھٹلا ديا۔ (۱۰)
يھي وہ حربہ تھا جس کي وجہ سے مغربي دنيا کے عيسائيوں نے اسپين کي ناقابل تسخير حکومت کو مسلمانوں کے ھاتھوں سے چھين ليا تھا۔ انھوں نے وھاں مسلمانوں کو عيش و عشرت ، شھوت پرستي، جام و شراب ميں غرق کر ديا اور پھر بڑي آساني سے مسلمانوں کو اس سرزمين سے باھر نکال ديا۔
حواله جات
۱۔ويل ڈورانٹ، تاريخ تمدن ، ج ۱۸، ص ۳۵۰
۲۔ ويل ڈورانٹ، تاريخ تمدن ، ج ۱۸، ص ۳۶۰
۳۔ نھج البلاغہ ۔ خطبہ ۲۱۶
۴۔شھيد مرتضيٰ مطھري، علل گرايش بہ مادي گري ، ص ۱۰۸
۵۔منقول از شھيد مرتضيٰ مطھري، علل گرايش بہ مادي گري ، ص ۱۲
۶۔ وہي مدرک صفحہ/ ۱۱۳
۷۔ قيامت/۵
۸۔بقرہ :۲
۹۔يٰس:۷۰۔۶۹
۱۰۔روم:۱۰