- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
دین کي لغوي تعريف
عربي ميں دين کے معني، اطاعت اور جزا کے ھيں۔ صاحب مقاييس اللغة کے مطابق اس لفظ کي اصل انقياد و ذلّ ھے اور دين اطاعت کے معني ميں ھے۔ مفردات ميں راغب کھتے ھيں:
”دين ، اطاعت اور جزا کے معني ميں ھے۔ شريعت کو اسلئے دين کہا جاتا ھے کيونکہ اس کي اطاعت کي جاني چاہئے ۔“
”دين“ قرآن کريم ميں
قرآن کريم ميں دين، مختلف معاني ميں استعمال ھوا ھے ۔ کبھي جزا اور حساب(۱) کے معني ميں تو کبھي قانون و شريعت(۲) اور کبھي اطاعت اور بندگي(۳) کے معني ميں۔
دين کے اصطلاحي تعریف
مغربي دانشمند اس سلسلے ميں مختلف نظريات کے حامل ھيں اور انھوں نے دين کي مختلف تعريفيں کي ھيں جن ميں کچھ مندرجہ ذيل ھيں:
(۱) دين الوھيت کے مقابلے ميں پيدا ھونے والے ان احساسات، اعمال اور معنوي حالات کو کھا جاتا ھے جو تنھائي اور خلوت ميں کسي فرد کے دل ميں پيدا ھوتے ھيں۔ (وليم جيمز)
(۲) دين، عقائد، اعمال، رسوم اور ديني مراکز پر مشتمل اس مجموعے کا نام ھے جس کو مختلف افراد، مختلف معاشروں ميں تشکيل ديتے ھيں۔ (پرسنز)
(۳) دين اس حقيقت کے اعتراف کا نام ھے کہ تمام موجودات اس موجود کا مظھر اور عکس ھيں جو ھمارے علم و ادراک سے بالاتر ھے۔ (ھربرٹ اسپانسر)
ھر چند بعض دانشمند حضرات کا نظريہ يہ ھے کہ دين کي تعريف نھايت دشوار بلکہ ناممکن ھے ليکن پھر بھي يہ نظريہ ھميں اس بات سے نھيں روکتا کہ ھم مباحث علمي کے سائے ميں لفظ دين سے متعلق اپنا مقصد اور ھدف معین کريں۔ بھر حال دين سے ھماري مراد مندرجہ ذيل ھے:
عقائد اور احکامات عملي کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے لانے والے اور ان عقائد اور احکام عملي کے پيروکاروں کے دعوے کے مطابق خالق کائنات کي طرف سے بھيجا گيا ھے۔
دين حق، صرف وھي دين ھو سکتا ھے جو خالق کائنات کي طرف سے بھيجا گيا ھو۔ اس صورت ميں ايسا الھي دين حقيقت سے مطابقت رکھتے ھوئے يقيني طور پر انساني سعادت کا ضامن ھو سکتا ھے۔ مسلمان دانشمندوں کے ايک گروہ نے دين کي مندرجہ ذيل تعريف کي ھے:
وہ مجموعہ جسے خداوند عالم نے بشر کي ھدايت اور سعادت کي خاطر بذريعہ وحي پيغمبروں اور رسولوں کے ذريعہ انسانوں کے حوالے کيا ھے۔
يہ ايک ايسي تعريف ھے جو صرف دين حق پر ھي منطبق ھوسکتي ھے اور جس کا دائرہ گذشتہ تعريف سے محدود تر ھے۔
بھرحال، قابل غور يہ ھے کہ خالق کائنات پر اعتقاد اور يقين، بھت سے افراد کے نزديک دين کے بنيادي اراکين ميں سے ھے۔ لھٰذا ھر وہ مکتب جو مارکسزم کي مانند مذکورہ نظريہ کا مخالف ھے ، دين نھيں کھلايا جا سکتا ھے۔
دين کي تعليمات
مسلم دانشمندوں نے دين اسلام کي مجموعي تعليمات کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے:
(۱) عقائد :
يہ حصہ، دين کي ان تعليمات پر مشتمل ھے جو ھميں جھان ھستي ،خالق ھستي اور مبداٴ و منتھا ئے ھستي کي صحيح اور حقيقي شناخت سے روشناس کراتا ھے اس سے قطع نظر کہ ايسي ذات پر اعتقاد اور يقين مسلمان ھونے کي شرط ھے يا نھيں۔
لھٰذا ھر وہ ديني تفسير جو مخلوقات کے اوصاف کو بيان کرتي ھو اس حصے ميں آجاتي ھے يھيں سے يہ بات بھي سمجھي جاسکتي ھے کہ عقائد دين، اصول دين سے عام اور وسيع ھيں۔ اصول دين ميں عقائد دين کا فقط وھي حصہ شامل ھوتا ھے جس کا جاننا اور اس پر اعتقاد و يقين رکھنا مسلمان ھونے کي شرط ھوتي ھے مثلا توحيد، نبوت اور قيامت۔
وہ علم جو ديني عقائد کو بطورعام بيان کرتا ھے وہ علم کلام ھے اور اسي وجہ سے اس کو علم عقائد بھي کھا جاتا ھے۔
(۲) اخلاق:
علم اخلاق تعليمات اسلامي کا وہ حصہ ھے جو اچھي اور بري بشري عادتوں ، انساني نيک صفات اور ان کے حصول نيز ان سے مزين و آراستہ ھونے کو بيان کرتا ھے مثلا تقويٰ، عدالت، صداقت اور امانت وغيرہ۔
شھيد استاد مرتضی مطھري کے الفاظ ميں:
اخلاق يعني روحاني صفات اور معنوي خصلت و عادات کي رو سے وہ مسائل ، احکام و قوانين جن کے ذريعے ايک اچھا انسان بنا جا سکتا ھے۔
علم اخلاق اسلامي تعليمات کے اس حصے کي تشريح و تفسير کرتا ھے۔
(۳) احکام:
يہ حصہ فعل و عمل سے متعلق ھے يعني وہ تعليمات جنھيں انسان کو سيکھنا چاھئے اور کون سے امور انجام دينا ضروري ھيں( واجبات) ، کن اعمال کو انجام دينا بھتر ھے (مستحبات) اور کون سے امور قطعاً انجام نھيں دنيا چاھئے (حرام) ، کون سے امور ايسے ھيں جن کا انجام نہ دينا بھتر ھے(مکروہ) اور ايسے امور اور اعمال کونسے ھيں جن کا انجام دينا يا نہ دينا مساوي ھے (مباحات)۔ ديني تعليمات کے اس حصہ کي وضاحت، علم فقہ ميں کي جاتي ھے۔
جو کچھ بيان کيا گيا ھے وہ دين کي مختلف جھات کے بارے ميں مشھور اسلامي علماء کے نظريات پر مبني ھے۔ مغربي دانشمند ، مذکورہ تينوں قسموں کو قبول کرتے ھوئے کچھ دوسري قسموں کے بھي قائل ھيں۔
ان قسموں ميں سے ايک قسم ديني داستانيں ھيں۔ اديان الٰھي کي مقدس کتابوں ميں ايسي کھانياں اور قصے بيان ھوئے ھيں جن کے مضامين مقدس اور محرک ھيں۔ ساتھ ھي ساتھ اخلاقي اور معنوي تاثير کے بھي حامل ھيں مثلاً پيغمبروں کے قصے۔ اس طرح کي مختلف مثاليں خود قرآن کريم ميں بھي وافر مقدار ميں موجود ھيں۔
ان داستانوں اور قصوں کو بيان کرنے کا ھدف يہ نھيں ھے کہ علم ميں اضافے کي خاطر تاريخي واقعات کو بيان کر ديا جائے بلکہ ھدف يہ ھے کہ بشريت کي اصلاح، اس کي تربيت کي جائے اور گذشتہ افراد کے واقعات و حادثات سے عبرت اور پند و نصيحت حاصل کي جائے۔
مغربي دين شناس دانشمندوں کے نظريات کا محور عيسائي اور يھودي مذھب ھے اور چونکہ ان اديان کي مقدس کتابوں ميں جعلي اور خلاف عقل داستانيں موجود ھيں لھذا وہ يہ کھنے پر مجبور ھو گئے ھيں کہ مختلف اديان ميں وارد شدہ داستانيں ، جعلي اور ساختہ شدہ ھو سکتي ھيں کيونکہ ان داستانوں کو بيان کرنے کا اصل ھدف تعليم و تربيت ھے۔ يہ بات قرآن کريم ميں بيان شدھ داستانوں سے متعلق قطعاً قابل قبول نھيں ھے کيونکہ قرآن مجيد، حق محض ھے اور باطل اس ميں داخل بھي نھيں ھوسکتا:
”لَا يَاٴ تِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِيْلٌ مِنْ حَکِيْمٍ حَمِيْدٍ“(۴)
(جس کے قريب سامنے يا پيچھے کسي طرف سے باطل آ بھي نھيں سکتا کہ يہ خدائے حکيم و حميد کي نازل کي ھوئي کتاب ھے۔)
البتہ ھم بھي اس بات کے قائل ھيں کہ قرآن کي بعض آيتيں تمثيل و مثال کا پھلو لئے ھوئے ھيں (۵) يعني حقيقت معقول کو لباس محسوس پھنا کر پيش کيا گيا ھے ليکن داستان کے تمثيل اور جعلي ھونے ميں بھت بڑا فرق ھے۔
حوالہ جات:
۱۔فاتحہ/۴: مالک يوم الدين ، نيز صافات/۵۳، واقعہ / ۸۷، حجر/۳۵،ذاريات
۲۔ توبہ /۳۳:ھو الذي ارسل رسولہ بالھديٰ و دين الحق
۳۔ يونس / ۲۲:دعوا اللہ مخلصين لہ الدين
۴۔فصلت/۴۲:
۵۔مثلاً حشر/۳۱، فصلت/ ۱۱، ليکن توجہ رکھني چاھٔے کہ کسي بھي آيت کو تمثيل پر حمل کرنا فقط اسي صورت ميں جايز ھے جب قرائن و شواھد تمثيل پر دلالت کرتے ہوں ۔