- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
سب سے پھلے ھميں يہ ديکھنا چاھئے کہ کون سا عامل يا عوامل اديان کے صحيح ھونے کے بارے ميں تحقيق و جستجو کو ضروري قرار ديتے ھيں اور کيوں دين حق کو پھچاننا اور اس پر عمل پيرا ھونا چاھئے۔
ايک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کي عقل اس سلسلے ميں تحقيق و جستجو کو لازم اور ضروري شمار کرتي ھے اور اس کي مخالفت کو کسي بھي صورت ميں قبول نھيں کرتي۔
ايک انسان کے لئے ضروري ھے کہ وہ عقلي حکم کي بنا پر تحقيق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعويٰ کرنے والے واقعي خدا کے بھيجے ھوئے پيغمبر تھے يا نھيں اور اس تحقيق و جستجو کے سفر ميں وھاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمينان حاصل ھو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے يا پھر اگر برحق تھے تو ان کي تعليمات کو سمجھے اور ان پر عمل پيرا ھو جائے کيونکہ:
(۱) انسان ذاتاً اپني سعادت اور کمال کا طالب ھے اور يہ طلب کمال و سعادت اس کي حبّ ذات سے سرچشمہ حاصل کرتي ھے۔ يھي حب ذات انساني کارگزاريوں اور فعاليتوں کي اصلي محرک ھوتي ھے۔
(۲) پيغمبري کا دعويٰ کرنے والا يھي دعويٰ کرتا ھے: ”اگر کوئي ميري تعليمات کو قبول کر لے اور ان پر عمل پيرا ھو جائے تو ابدي سعادت حاصل کر لے گا اور اگر قبول نہ کرے تو ھميشہ کے لئے عذاب و سزا کا حقدار ھو جائے گا۔“
(۳) اس دعوے کي صحت کا احتمال ھے کيونکہ انسان نبوت کے مدعي کے دعوے کے باطل ھونے کا يقين نھيں رکھتا۔
(۴) کيونکہ مُحتَمَل (انسان کي ابدي سعادت و شقاوت) ايک قوي عامل ھے اور کوئي بھي مسئلہ اس قدر اھم نھيں ھو سکتا، اګرچه کسي کي نظر ميں اس دعوے کي صحت کا احتمال کم ھو ليکن عقل يھي کھتي ھے کہ اس دعوے کے صحيح يا غير صحيح ھونے کے بارے ميں تحقيق و جستجو کي جائے بالخصوص اس وقت جب يہ احتمال بھت زيادھ قوي اور مستحکم ھو۔
مثال کے طور پر اگر کوئي نابينا شخص کھيں جاتے ھوئے کسي ايسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے يہ کھے کہ اگر تم دس قدم بھي آگے بڑھے تو ايسے کنويں ميں جا گرو گے کہ پھر کبھي اس سے باھر نہ نکل سکو گے اور اگر داھنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ايسے باغ ميں داخل ھو جاو گے کہ ھميشہ اس باغ ميں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے رھو گے۔ نابينا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحيح ھونے کا احتمال دے تو اس کي عقل اس سے کھے گي کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے ميں تحقيق و جستجو کرے يا کم از کم احتياطاً اپنا راستہ موڑ دے۔
لھٰذا، اگر انساان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طويل تاريخ ميں ايسے والا صفات افراد آئے ھيں جنھوں نے يہ دعوا کيا ھے کہ وہ خداوند عالم کي طرف سے اس لئے بھيجے گئے ھيں تاکہ انسانوں کو ابدي سعادت سے ھمکنار کرسکيں اور دوسري طرف اس بات کا بھي مشاھدہ کرے کہ ان عظيم افراد نے اپنے پيغام کو پھنچانے ميں کوئي کوتاھي نھيں برتي ھے نيز ھدايت انسان ميں کوئي بھي دقيقہ فرو گذاشت نہيں کيا ہے ساتھ ہي ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کيا ھے حتي اپني جان تک دے دي ھے تو عقل کا تقاضا يھي ھے کہ ان عظيم افراد کے دعوے کے صحيح يا غير صحيح ھونے کے بارے ميں تحقيق و جستجو کي جائے۔
دوسرے الفاظ ميں يوں بھي کہا جاسکتا ھے کہ دفع ضرر يا نقصان، عقل کے مسلم احکامات ميں سے ھے اور يہ حکم، احتمال اور محتمل کے شديد يا ضعيف ھونے کي بنا پر، شديد يا ضعيف ھوجاتا ھے جتنا انسان کے لئے اس نقصان کے پھونچنے کا احتمال زيادہ ھوگا اور جتنا محتمل شديد ھوگا اتنا ھي اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھي شديد اور سخت ھو جائے گا۔
دين سے متعلق و ہ محتمل ضرر کہ جودين کے قبول نہ کئے جانے کي صورت ميں انسان کي طرف پلٹ جاتا ھے ، ابدي شقاوت اور بدبختي کاباعث بنتا ھے اور کيونکہ يہ نقصان (محتمل) بھت عظيم اور خطرناک ھے، ھر چند دين کے برحق ھونے کا احتمال جتنا بھي کم ھو، لھذا احتمالي ضررکے دفع کرنے سے متعلق عقل کا حکم اپني جگہ پر مسلم اور باقي ھے۔
حب ذات کے علاوہ ايک دوسرا سبب بھي موجود ھے جوانسان کو ھميشہ اس بات کے لئے اکساتا رھتا ھے کہ وہ دين سے متعلق تحقيق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرے ۔ انسان فطرتاً حقيقت جو ھے اور جستجو گري کي حس ھميشہ اس کي جان سے چمٹي رھتي ھے۔ يھي وہ حس ھے جو آدمي کو اس بات پر اکساتي رھتي ھے کہ وہ مسائل ديني کے صحيح يا غير صحيح ھونے کے بارے ميں تحقيق و جستجو کرے۔
کيا اس کائنات کا کوئي خالق ھے؟اگر ھے تو وہ خالق کون ھے؟ اس کے صفات کيا ھيں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ھے؟ کيا انسان مادي بدن کے علاوہ غير مادي روح بھي رکھتا ھے؟ کيا اس دنيوي زندگي کے علاوہ بھي دوسري کوئي زندگي ھے اور اس زندگي سے اس زندگي کا کيا رابطہ ھے؟
يہ سوالات اور اس طرح کے سينکڑوں سوالات ايک حقيقت جو، انسان کا دامن کبھي نھيں چھوڑتے اور اس وقت تک چمٹے رھتے ھيں جب تک اسے ايسے جوابات نہ مل جائيں جو اس کو مطمئن کرسکيں۔
ھر دين کا عقائد پر مبني حصہ درحقيقت اس طرح کے سوالوں سے متعلق اس دين کے جوابات ھي ھيں۔