- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 15 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/08/28
- 0 رائ
مقدمہ
زمانہ قدیم سے شیعہ کے مھم عقائد پر شیعہ کے دشمنوں اور مخالفین کی طرف سے حملے ہوتے رہے ہیں۔ یہ حملے زمانے کے حالات کے مطابق شدید اور ضعیف ہوتے رہے ہیں البتہ ان حملوں میں زیادہ تر جھوٹ، تھمت اور بھتان کا رنگ واضح رہا ہے۔ ان مسلّم و واضح عقائد سے جس عقیدے پر زیادہ حملے ہوئے ہیں، وہ امام حسین(ع) کے لیے ماہ محرم میں عزاداری کرنا ہے۔ لیکن ایام محرم میں خاص طور پر یہ حملے زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں تا کہ اس بارے میں جھوٹ، تھمت اور مطالب کو حقیقت کے خلاف بتا اور دکھا کر جوان نسل اور عام لوگوں کو شک و تردید سے دوچار کر کے نتیجے میں ان سب کو اہل بیت(ع) اور امام حسین(ع) کی عزاداری سے دور رکھ سکیں۔
ان شبھات میں سے وہ شبہ جو محرم کے ایام میں مخالفین کی طرف سے زیادہ بیان ہوتا ہے، وہ خود آئمہ معصومین(ع) کی طرف سے امام حسین(ع) کے لیے عزاداری نہ کرنا ہے۔ یعنی آسان الفاظ میں کہ مخالفین آئمہ اور شیعیان کہتے ہیں کہ اگر واقعا امام حسین(ع) کے لیے عزاداری کرنا شرعی اور جائز تھا تو آئمہ اور اہل بیت(ع) نے عزاداری کیوں نہیں کی اور اس بارے میں آئمہ(ع) سے کوئی روایت صحیح سند کے ساتھ کیوں نقل نہیں ہوئی؟
اس طرح کے سوالات اور شبھات مخالفین کی طرف سے جھل، تعصب اور دشمنی کی وجہ سے بیان ہوتے ہیں کیونکہ رسم عزاداری آئمہ معصومین(ع) کے درمیان یہ روایات اور کتب حدیثی شیعہ میں اس قدر نقل ہوئی ہے کہ یہبات تواتر معنوی بلکہ تواتر کی حد سے بھی بالا تر ہے۔ اس کے با وجود بھی اس بارے میں شبھات بیان کرنا اور کہنا کہ اس بارے میں ایک بھی روایت صحیح سند کے ساتھ نہیں ہے، یہ فقط اور فقط ان کے اہل بیت کے ساتھ نفاق، بغض، کینے اور دشمنی کی علامت ہے۔ اس لیے کہ علم حدیث میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جو بات و مسئلہ تواتر سے ثابت ہوا ہو اس کی سند کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسی پر علماء اور محدثین کا اتفاق بھی ہے۔
اس کے علاوہ امام حسین(ع) پر گریہ اور عزاداری یہ نہ فقط امام کی شھادت کے بعد بلکہ انکی شھادت سے پہلے یہ آئمہ کی روایات میں بہت زیادہ نقل ہوا ہے۔ یہ روایات و سیرت عملی آئمہ اس بات کی علامت ہے کہ امام حسین(ع) کے لیے عزاداری ہر امام کے دور میں ہوئی ہے اور ہر امام نے زمانے کے حالات کے مطابق مسئلہ عزاداری کو اہمیت دی ہے۔
اس مقدمے کی بناء پر ہم اب ترتیب سے آئمہ معصومین(ع) کی روایات کو عزاداری کے بارے میں بیان کرتے ہیں اگرچہ معصومین کی روایات ایک طرح کی نہیں ہیں کیونکہ ہر امام نے زمانے کے حالات کے مطابق ان روایات کو نقل و بیان کیا ہے۔ جس امام کو زیادہ فرصت ملی ہے اس امام سے زیادہ روایات اس بارے میں نقل ہوئی ہیں اور جس امام کو فرصت کم ملی ہے اس امام سے بہت کم یا بالکل روایات نقل نہیں ہوئی۔ بہر حال ان تمام روایات کی روشنی میں امام حسین(ع) کے لیے عزاداری و گریہ کرنا تواتر سے ثابت ہو جاتا ہے۔
رسول خدا(ص) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا
رسول خدا(ص) کا امام حسین(ع) کی شھادت سے پہلے ان پر گریہ کرنے کے بارے میں بہت سی روایات کتب شیعہ میں نقل ہوئی ہیں البتہ ساری روایات ایک طرح کی نہیں ہیں۔ بعض روایات میں رسول خدا نے لوگوں کے سامنے یا بعض اوقات اہل بیت کے سامنے امام حسین(ع) کے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بلند آواز سے گریہ بھی کیا ہے کہ اسی مصائب پڑھنے اور گریہ کرنے کو عزاداری کہتے ہیں۔
پیغمبر اکرم (ص) کا مصائب پڑھنا اور لوگوں کا گریہ کرنا:
قال رواة الحديث. فلما أتت على الحسين عليه السلام من مولده سنة كاملة هبط على رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم إثنى عشر ملكا أحد هم على صورة الأسد، و الثانى على صورة الثور، و الثالث على صورة التنين، و الرابع على صورة ولد آدم، و الثمانية الباقون على صور شتى محمرة وجوههم باكية عيونهم قد نشروا أجنحتهم و هم يقولون، يا محمد صلى الله عليه و آله و سلم سينزل بولدك الحسين عليه السلام ابن فاطمة ما نزل بهابيل من قابيل و سيعطي مثل أجر هابيل و يحمل على قاتله مثل وزر قابيل و لم يبق في السموات ملك مقرب إلا و نزل إلى النبي صلى الله عليه و آله و سلم كل يقرئه السلام و يعزيه في الحسين عليه السلام و يخبره بثواب ما يعطى و يعرض عليه تربته و النبى صلى الله عليه و آله و سلم يقول: اللهم اخذل من خدله و اقتل من قتله و لا تمتعه بما طلبه. قال فلما أتى على الحسين عليه السلام من مولده سنتان خرج النبي صلى الله عليه و آله و سلم في سفر له فوقف في بعض الطريق و إسترجع و دمعت عيناه فسئل عن ذلك. فقال: هذا جبرائيل عليه السلام يخبرني عن أرض بشط الفرات يقال لها كربلاء يقتل عليها ولدي الحسين ابن فاطمة عليه السلام فقيل له: من يقتله يا رسول الله ؟ فقال: رجل إسمهه يزيد لعنه الله و كأني أنظر إلى مصرعه و مدفنه، ثم رجع من سفره ذلك مغموما فصعد المنبر فخطب و وعظ و الحسن و الحسين عليهما السلام بين يديه فلما فرغ من خطبته وضع يده اليمنى على رأس الحسن و يده اليسرى على رأس الحسين، ثم رفع رأسه إلى السماء و قال: (اللهم إن محمدا عبدك ونبيك وهذان أطائب عترتي وخيار ذريتي. و أرومتى و من أخلفهما في امتى و قد اخبرني جبرائيل عليه السلام أن ولدي هذا مقتول مخذور. اللهم فبارك له في قتله و اجعله من سادات الشهداء اللهم و لا تبارك في قاتله و خاذله.) قال: فضج الناس في المسجد بالبكاء و النحيب، فقال النبي صلى الله عليه و آله و سلم أ تبكونه و لا تنصرونه ثم رجع صلى الله عليه و آله و سلم و هو متغير اللون محمر الوجه فخطب خطبة اخرى موجزة و عينا تنهملان دموعا۔
محدثین نے روایت کی ہے کہ جب امام حسین(ع) ایک سال کے ہوئے تو بارہ فرشتے رسول خدا پر نازل ہوئے۔ ان میں سے ایک شیر کی شکل دوسرا گائے کی شکل تیسرا اژدھا کی شکل چوتھا انسان کی شکل جبکہ باقی آٹھ فرشتے مختلف شکلوں میں تھے ان کے چہرے سرخ اور آنکھیں اشک آلود تھیں۔ انھوں نے اپنے بالوں اور پروں کو کھولا ہوا تھا اور کہہ رہے تھے: اے محمد ! وہی ظلم و ستم کہ جو قابیل نے ھابیل پر کیا وہی آپ کے بیٹے حسین پر بھی ہو گا اور وہی جزا جو ھابیل کو دی گئی وہ حسین کو بھی دی جائے گی اور جو عذاب ھابیل کے قاتل کو ہوا وہی حسین کے قاتل کو بھی ہو گا۔ اس موقع پر تمام آسمانوں میں تمام فرشتے رسول خدا کے پاس آئے، ان کو سلام کیا اور حسین(ع) کے قتل ہونے پر ان کو تعزیت پیش کی اور جو کچھ خداوند نے شھادت کے بدلے میں حسین(ع) کے لیے مقرر فرمایا تھا اسکی بھی خبر ان کو دی پھر امام حسین(ع) کی قبر کی مٹی کو رسول خدا کو دیکھایا۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا: اے خدا جو بھی میرے بیٹے حسین کو خوار کرے، تو اس کو ذلیل و خوار فرما اور جو میرے بیٹے حسین کو قتل کرے تو اس کو قتل فرما اور اس کے قاتل کو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ فرما۔
جب امام حسین(ع) دو سال کے ہوئے تو رسول خدا کسی جگہ سفر پر جا رہے تھے کہ اچانک راستے میں رک گئے اور:«انا لله وانا إليه راجعون» کہہ کر رونا شروع کر دیا۔ پوچھا گیا کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا ابھی جبرائیل نے مجھے نہر فرات کے کنارے کربلاء کی سر زمین کے بارے میں بتایا ہے کہ میرا بیٹا حسین(ع) وہاں پر شھید ہو گا۔ پھر اصحاب نے پوچھا کہ آپ کے بیٹے کا قاتل کون ہے ؟ رسول خدا نے فرمایا یزید کہ خداوند کی اس پر لعنت ہو اور جبرائیل نے مجھے ابھی اس کی شھادت اور دفن ہونے کی جگہ بھی دکھائی ہے۔
رسول خدا(ص) اسی غم و حزن کی حالت میں سفر سے واپس آئے اور ایک دن منبر پر خطبہ پڑھا اس حالت میں کہ امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) بھی رسول خدا کے سامنے بیٹھے تھے۔ جب خطبہ ختم ہوا تو آپ(ص) نے اپنا دایاں ہاتھ امام حسن(ع) کے سر پر اور اپنا بایاں ہاتھ امام حسین(ع) کے سر پر رکھا اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: اے خدایا میں تیرا بندہ محمد(ص) اور تیرا رسول ہوں اور یہ دونوں پاک ترین اور بہترین میری عترت، میری نسل اور میری اولاد ہیں۔ میری امت میں سے سب سے بہترین ہیں کہ جن کو میں اپنے بعد اپنی امت میں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے بیٹے حسین(ع) کی توہین کریں گے اور اسکو شھید کریں گے۔ خداوندا اس کی شھادت کو اس کے لیے مبارک قرار دے اور اس کو سید الشھداء قرار دے۔ خداوندا جو میرے بیٹے حسین کی اہانت کرے اور اس کو قتل کرے اس کو اس کے لیے مبارک قرار نہ دے۔
راوی کہتا ہے کہ لوگ مسجد میں شدت غم سے گریہ اور شیون کر رہے تھے۔ اس پر رسول خدا نے کہا کہ کیا تم اس کے لیے گریہ کر رہے ہو کیا تم اس کی مدد نہیں کرو گے ؟ یہ کہہ کر آپ مسجد سے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد مسجد میں دوبارہ واپس آئے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا اور پریشانی کی حالت میں تھے اسی حالت میں ایک دوسرا خطبہ گریہ کرتے ہوئے پڑھا۔
السيد ابن طاووس الوفاة: 664، اللهوف فی قتلى الطفوف ج1ص13، الناشر: أنوار الهدى، قم، ايران
رسول اکرم (ص) کا مسلم ابن عقیل (ع) کے لیے شدید گریہ کرنا
حدثنا الحسين بن أحمد بن إدريس (رحمه الله) قال: حدثنا أبي، عن جعفر بن محمد بن مالك، قال حدثني محمد بن الحسين بن زيد، قال: حدثنا أبو أحمد محمد بن زياد، قال: حدثنا زياد بن المنذر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال علي (عليه السلام) لرسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم): يا رسول الله، إنك لتحب عقيلا ؟قال إي و الله إني لأحبه حبين: حبا له، و حبا لحب أبي طالب له، و إن ولده لمقتول في محبة ولدك، فتدمع عليه عيون المؤمنين، و تصلي عليه الملائكة المقربون. ثم بكى رسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم) حتى جرت دموعه على صدره، ثم قال: إلى الله أشكو ما تلقى عترتي من بعدی۔
علی(ع) نے رسول خدا (ص) سے کہا کہ آپ عقیل سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں اس سے دو محبتیں کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ وہ خود اچھا انسان ہے اور دوسری یہ کہ حضرت ابو طالب اس سے محبت کرتے تھے اور اس کا بیٹا تیرے بیٹے سے محبت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور مؤمنین کی آنکھیں اس پر گریہ کریں گی اور خدا کے مقرب فرشتے اس پر سلام کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول خدا نے اتنا گریہ کیا کہ اشک ان کے سینے پر گرنے لگے۔ پھر فرمایا کہ جو کچھ میرے خاندان کے ساتھ ہو گا میں اس کی خدا سے شکایت کروں گا۔
الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی ج1 ص191، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة،قم، 1417 ه. ق
رسول اکرم (ص) کا جبرائیل سے امام حسین(ع) کی شھادت کی خبر سن کر گریہ کرنا
حدثني أبي رحمه الله، عن سعد بن عبد الله، عن محمد بن عيسى، عن محمد بن سنان، عن أبي سعيد القماط، عن ابن أبي يعفور، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: بينما رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) في منزل فاطمة و الحسين في حجره، إذ بكى و خرّ ساجدا، ثم قال: يا فاطمة يا بنت محمد ان العلي الاعلى تراءى لي في بيتك هذا في ساعتي هذه في أحسن صورة و أهيا هيئة، فقال لي: يا محمد أتحب الحسين (عليه السلام)، قلت: نعم يا رب قرة عيني و ريحانتي و ثمرة فؤادي و جلدة ما بين عيني. فقال لي: يا محمد – و وضع يده على رأس الحسين (عليه السلام) – بورك من مولود عليه بركاتي و صلواتي و رحمتي و رضواني، و نقمتي و لعنتي و سخطي و عذابي و خزيي و نكالي على من قتله و ناصبه و ناواه و نازعه، اما انه سيد الشهداء من الأولين و الآخرين في الدنيا و الآخرة، و سيد شباب أهل الجنة من الخلق أجمعين، و أبوه أفضل منه و خير، فاقرأه السلام و بشره بأنه راية الهدى و منار أوليائي، و حفيظي و شهيدي على خلقي، و خازن علمي، و حجتي على أهل السماوات و أهل الأرضين و الثقلين الجن و الإنس.
میرے والد نے سعد بن عبد اللَّه سے اور اس نے محمّد بن عيسى سے اور اس نے محمّد بن سنان سے اور اس نے ابى سعيد قمّاط سے اور اس نے ابن ابى يعفور سے اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ: ایک دن رسول خدا حضرت زھرا(س) کے گھر تھے اور امام حسین(ع) رسول خدا کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے گریہ کیا اور سجدے میں جا کر کہا: اے فاطمہ(س) اے محمد(ص) کی بیٹی، اس وقت اسی جگہ پر خداوند نے مجھے اپنی بہترین اور خوبصورت ترین شکل دکھائی ہے اور کہا ہے کہ: اے محمد(ص) کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں، وہ میری آنکھوں کا نور، میرا خوشبو دار پھول، میرے جگر کا ٹکڑا اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان کا پردہ ہے۔ اس حالت میں اس نے حسین(ع) کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا مجھے فرمایا کہ: اے محمد(ص)، اس بچے سے برکت ہی حاصل ہوتی ہے جس پر میری برکت، رحمت اور رضا ہوتی ہے اور میری لعنت، میرا غضب اور میرا عذاب اس پر ہو گا جو اس کو قتل کرے گا اور اس سے دشمنی کرے گا اور اس سے جنگ کرے گا۔ وہ یقینی طور پر اولین و آخرین میں سے دنیا اور آخرت میں سید الشھداء اور جوانان جنت کا سید و سردار ہے۔ تمام مخلوقات میں سے اس کا باپ اس سے افضل و بر تر ہے۔ پس میرا سلام اس کو دو اور اسکو بشارت دو کہ وہ علم و علامت حق، ھدایت کا منار میرے دوستوں کے لیے، میرا نگہبان و شاھد میری مخلوق میں، میرے علم کا خزانے دار اور اہل آسمان و زمین و جن و انس پر میری حجّت ہے۔
ابو القاسم جعفر بن محمد بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1ص69، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق،
رسول اکرم (ص) کا امام حسین(ع) کی شھادت کی کیفیت بیان کرتے وقت گریہ کرنا
حدثني الحسن بن عبد الله بن محمد بن عيسى، عن أبيه، عن الحسن بن محبوب، عن علي بن شجرة، عن سلام الجعفي، عن عبد الله بن محمد الصنعاني، عن أبي جعفر (عليه السلام)، قال كان رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) إذا دخل الحسين (عليه السلام) جذبه إليه ثم يقول لأمير المؤمنين (عليه السلام): أمسكه، ثم يقع عليه فيقبله و يبكي يقول: يا أبه لم تبكي، فيقول: يا بني اقبل موضع السيوف منك و ابكي قال: يا أبه و اقتل، قال: اي و الله و أبوك و أخوك و أنت، قال: يا أبه فمصارعنا شتى، قال: نعم يا بني، قال: فمن يزورنا من أمتك، قال لا يزورني و يزور أباك و أخاك و أنت الا الصديقون من أمتی۔
جب بھی امام حسین(ع) رسول خدا کے پاس آتے تو وہ ان کو اپنے سینے سے لگاتے اور پھر علی(ع) سے فرماتے کہ حسین کو پکڑ کر رکھو پھر اس کو بوسے دیتے اور گریہ کرتے۔ امام حسین(ع) رسول خدا(ص) سے پوچھتے کہ آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں؟ تو آپ فرماتے کہ: بیٹا میں تلواروں کی جگہ کو چوم کر رو رہا ہوں۔ امام حسین(ع) کہتے کہ اے بابا کیا میں قتل کیا جاؤں گا؟ تو آپ فرماتے ہاں خدا کی قسم تم، تمہارا بھائی اور تمہارا باپ سب شھید کیے جاؤ گے۔ پھر امام حسین(ع) نے کہا کیا ہماری قبریں آپس میں دور دور ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے بیٹا۔ پھر پوچھا کہ آپ کی امت میں سے کون لوگ ہماری زیارت کے لیے آئیں گے؟ رسول خدا نے فرمایا: میری امت کے سچّے انسان میری، تمہارے والد، تمہارے بھائی اور تمہاری زیارت کے لیے آیا کریں گے۔
ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1ص68، تحقيق: بهراد الجعفري، الناشر: مکتبة الصدوق،
رسول اکرم(ص) اور حضرت زہراء(س) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا
حدثني أبي ومحمد بن الحسن جميعا، عن محمد بن الحسن الصفار،عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن ابن فضال، عن عبد الله ابن بكير، عن بعض أصحابنا،عن أبي عبد الله (عليه السلام)،قال: دخلت فاطمة (عليها السلام) على رسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم) و عيناه تدمع، فسألته مالك، فقال: ان جبرئيل عليه السلام أخبرني ان أمتي تقتل حسينا، فجزعت و شق عليها، فأخبرها بمن يملك من ولدها، فطابت نفسها وسكنت۔
حضرت فاطمہ(س) رسول خدا(ص) کے پاس گئیں دیکھا کہ رسول خدا(ص) کی آنکھیں اشک بہا رہی ہیں۔ حضرت فاطمہ(س) نے پوچھا کہ بابا آپ کو کیا ہوا ہے ؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے بتایا ہے کہ بہت جلد میری امت حسین کو قتل کر دے گی۔ یہ سن کر حضرت زھرا(س) نے رونا شروع کر دیا اور اپنے لباس کو چاک کر لیا۔ جب رسول خدا نے یہ حالت دیکھی تو بی بی سے کہا کہ اسی حسین کا ایک فرزند ان کے قاتلین سے انتقام لے گا۔ یہ سن کر حضرت زہرا چپ ہو گئیں۔
ابو القاسم جعفر بن محمد بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1 ص56، تحقيق: بهراد الجعفری،الناشر: مکتبة الصدوق.
رسول اکرم(ص) کا پنجتن پاک کی شھادت کی خبر دیتے ہوئے گریہ کرنا
حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد (رضي الله عنه)، قال: حدثنا أحمد بن إدريس و محمد بن يحيى العطار جميعا، عن محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران الأشعري، قال: حدثنا أبو عبد الله الرازي، عن الحسن بن علي بن أبي حمزة، عن سيف بن عميرة، عن محمد بن عتبة، عن محمد بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب (عليه السلام)، قال: بينا أنا و فاطمة و الحسن و الحسين عند رسول الله (صلى الله عليه و آله و سلم)، إذا التفت إلينا فبكى، فقلت: ما يبكيك يا رسول الله ؟ فقال: أبكي مما يصنع بكم بعدي. فقلت: و ما ذاك يا رسول الله؟ قال: أبكي من ضربتك على القرن، و لطم فاطمة خدها، و طعنة الحسن في الفخذ، و السم الذي يسقى، و قتل الحسين قال: فبكى أهل البيت جميعا، فقلت: يا رسول الله، ما خلقنا ربنا إلا للبلاء ! قال: ابشريا علي، فإن الله عز وجل قد عهد إلي أنه لا يحبك إلا مؤمن، و لا يبغضك إلا منافق.
حضرت امیر(ع): جب میں، فاطمہ، حسن اور حسین(علیہم السلام) رسول خدا(ص) کے پاس تھے تو انھوں نے ہمیں دیکھا اور گریہ کرنا شروع کیا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ اے رسول خدا(ص) کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ فرمایا کہ جو کچھ آپ سب کے ساتھ میرے مرنے کے بعد ہو گا، میں اس پر گریہ کر رہا ہوں۔ میں نے کہا کیا ہو گا یا رسول اللہ ؟ فرمایا کہ میں اس ضربت پر کہ جو تمہاری پیشانی پر لگے گی، وہ طمانچہ جو فاطمہ کے چہرے پر مارا جائے گا اس نیزے پر کہ جو حسن کی ران پر لگے گا اور اس زہر پر کہ جو اس کو کھلایا جائے گا اور حسین کے قتل ہونے پر گریہ کر رہا ہوں۔ یہ سن کر سب اھل بیت(ع) نے رونا شروع کر دیا اور کہا کہ اے رسول خدا، خداوند نے ہمیں بلاء و امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ رسول خدا نے فرمایا میں تم کو بشارت دیتا ہوں کہ اے علی خداوند نے مجھ سے عھد کیا ہے کہ تم سے محبت فقط مؤمن کرے گا اور تم سے دشمنی فقط منافق کرے گا۔
)الشيخ الصدوق، الوفاة:381، الامالی ج1 ص197،، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة،قم، 1417 ه. ق.(
امام صادق(ع) کا رسول اکرم(ص) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنے کو نقل کرنا
حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الْحُسَيْنِ التَّغْلِبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ لَهَا لَا يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ فَجَاءَ الْحُسَيْنُ عليه السلام وَ هُوَ طِفْلٌ فَمَا مَلَكَتْ مَعَهُ شَيْئاً حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم فَدَخَلَتْ أُمُّ سَلَمَةَ عَلَى أَثَرِهِ فَإِذَا الْحُسَيْنُ عَلَى صَدْرِهِ وَ إِذَا النَّبِيُّ صلي الله عليه و آله و سلم يَبْكِي وَ إِذَا فِي يَدِهِ شَيْءٌ يُقَبِّلُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه و آله و سلم يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّ هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ هَذَا مَقْتُولٌ وَ هَذِهِ التُّرْبَةُ الَّتِي يُقْتَلُ عَلَيْهَا فَضَعِيهِ عِنْدَكِ فَإِذَا صَارَتْ دَماً فَقَدْ قُتِلَ حَبِيبِي فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَلِ اللَّهَ أَنْ يَدْفَعَ ذَلِكَ عَنْهُ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيَّ أَنَّ لَهُ دَرَجَةً لَا يَنَالُهَا أَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ وَ أَنَّ لَهُ شِيعَةً يَشْفَعُونَ فَيُشَفَّعُونَ وَ أَنَّ الْمَهْدِيَّ مِنْ وُلْدِهِ فَطُوبَى لِمَنْ كَانَ مِنْ أَوْلِيَاءِ الْحُسَيْنِ وَ شِيعَتِهِ هُمْ وَ اللَّهِ الْفَائِزُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
امام صادق(ع) نے فرمایا: رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے۔ آپ نے ام سلمہ سے کہا کہ کوئی بندہ میرے کمرے میں نہ آئے۔ تھوڑی دیر بعد امام حسین(ع) کہ کمسنی کی حالت میں تھے، آئے ام سلمہ کے منع کرنے کے با وجود بھی رسول خدا(ص) کے پاس چلے گئے۔ ام سلمہ ان کے پیچھے کمرے میں گئی دیکھا کہ حسین نانا کے سینے پر بیٹھے ہیں اور رسول خدا گریہ کر رہے ہیں۔ آپ نے ام سلمہ سے کہا کہ یہ جبرائیل ہے اس نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین قتل کر دیا جائے گا اور یہ اس کی قتلگاہ کی خاک ہے اس اپنے پاس رکھو اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا کہ حسین کو قتل کر دیا گیا ہے۔
ام سلمہ نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ خدا سے چاہیں کہ یہ مصیبت حسین سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا میں نے خداوند سے کہا ہے لیکن خدا نے کہا ہے کہ حسین کے لیے جنت میں ایک ایسا درجہ و مقام ہے کہ جو کسی دوسرے انسان کے لیے نہیں ہے اور امام حسین(ع) کے شیعہ ہیں کہ جب وہ شفاعت کریں گے تو انکی شفاعت قبول ہو گی اور حضرت مھدی(عج) اولاد امام حسین میں سے ہیں۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو امام حسین(ع) کے دوستوں میں سے ہو اور امام حسین(ع) کے شیعہ قیامت والے دن کامیاب ہوں گے۔
)الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1 ص329، تحقيق: الشيخ احمد الماحوزی، الناشر:موسسة الصادق للطباعة والنشر(
ام سلمہ کا رسول اکرم(ص) کا گریہ کرنا نقل کرنا
و روى سماك، عن ابن مخارق، عن أم سلمة – رضي الله عنها قالت: بينا رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم ذات يوم جالس و الحسين عليه السلام جالس في حجره، إذ هملت عيناه بالدموع، فقلت له: يا رسول الله، ما لي أراك تبكي، جعلت فداك ؟ ! فقال: جاءني جبرئيل عليه السلام فعزاني بابني الحسين، و أخبرني أن طائفة من أمتي تقتله،لا أنالهم الله شفاعتی۔
سماک نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ: ایک دن رسول خدا(ص) بیٹھے ہوئے تھے اور حسین(ع) بھی انکی گود میں تھے۔ اچانک رسول خدا نے گریہ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے عرض کیا اے رسول خدا میں آپ پر قربان ہوں آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ: جبرائیل میرے پاس آیا ہے اور مجھے تعزیت پیش کی ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ حسین کو قتل کرے گا اور خداوند میری شفاعت ان کے نصیب نہیں کرے گا۔
)مفيد، محمد بن محمد،الوفاة: 413 ق، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج2 ص130، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، چاپ اول، الناشر: سیمینار شيخ مفيد 1413 ق(
صفیہ بنت عبدالمطلب کا رسول اکرم(ص) کا امام حسین(ع) کے لیے گریہ نقل کرنا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَعْرُوفُ بِأَبِي عَلِيِّ بْنِ عَبْدَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ السُّكَّرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْجَوْهَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ عليه السلام عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَت: لَمَّا سَقَطَ الْحُسَيْنُ عليه السلام مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ فَدَفَعْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم فَوَضَعَ النَّبِيُّ لِسَانَهُ فِي فِيهِ [فَمِهِ] وَ أَقْبَلَ الْحُسَيْنُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ يَمُصُّهُ قَالَتْ وَ مَا كُنْتُ أَحْسَبُ رَسُولَ اللَّهِ يَغْذُوهُ إِلَّا لَبَناً أَوْ عَسَلًا قَالَتْ فَبَالَ الْحُسَيْنُ عَلَيْهِ فَقَبَّلَ النَّبِيُّ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيَّ وَ هُوَ يَبْكِي وَ يَقُولُ لَعَنَ اللَّهُ قَوْماً هُمْ قَاتِلُوكَ يَا بُنَيَّ يَقُولُهَا ثَلَاثاً قَالَتْ فَقُلْتُ فِدَاكَ أَبِي وَ أُمِّي وَ مَنْ يَقْتُلُهُ قَالَ بَقِيَّةُ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ.
صفیہ کہتی ہے کہ: جب حسین(ع) پیدا ہوئے تو میں نے ان کو رسول خدا(ص) کو دیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنی زبان حسین(ع) کے منہ میں ڈالی تو انھوں نے زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں یہ سمجھی کہ رسول خدا اس کو دودھ اور شھد کھلا رہے ہیں۔ صفیہ کہتی ہے کہ حسین نے رسول خدا کے کپڑوں کو گیلا کر دیا تو انھوں نے حسین کی پیشانی کا بوسہ لیا اور حسین کو مجھے دے دیا۔ پھر رسول خدا(ص) نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور تین مرتبہ کہا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جو تم کو قتل کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ کون اس او قتل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا بنی امیہ کا ایک باغی گروہ کہ خدا کی ان پر لعنت ہو۔
)الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1 ص320، تحقيق: الشيخ احمد الماحوزی، الناشر:موسسة الصادق للطباعة والنشر(