- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
سورج کا پلٹنا اور اس سلسلے میں کچھ اہم سوالات
اخبار , حضرت امـــــام علــی(ع) , آپ کے معجزے اور کرامــات- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/05/02
- 0 رائ
“سورج کا پلٹنا” یہ واقعہ تاریخ میں “ردالشمس” کے نام سے جانا جاتا ہے اس واقعہ “ردالشمس” کو جناب اسماء، جناب ام سلمہ، جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری اور دوسرے اصحاب نے نقل کیا ہے اس سلسلے میں”سورج کا پلٹنا” جتنے بھی اشکالات اور اعتراضات وارد ہوئے ہیں وہ زیادہ تر اشکالات و اعتراضات اصل روایت”ردالشمس” اور اس کے جزئیات میں غور و فکر نہ کرنے کی صورت میں پیدا ہوئے ہیں جیسے کہ اس روایت “ردالشمس” کے سلسلے میں عمومی اعتراضات جو کیے جاتے ہیں وہ یہ کہ امام علی (ع) کے زانو مبارک پر رسول اللہ (ص) کے سونے کا کیا مطلب ہے؟
یا کسی واجب کام کے لئے امام علی (ع) نے پیغمبر اسلام کو بیدار کیوں نہیں کیا؟ جبکہ کسی واجب کام کے لئے کسی کو سونے دینا یہ برا اور قبیح عمل ہے؟ امام علی (ع) نے اپنی نماز کو اول وقت کیوں نہیں پڑھا تھا؟ امام علی (ع) نے بیٹھ کر اسی حالت میں نماز کیوں نہیں پڑھا؟ اس کے علاوہ بہت سے ایسے اعتراضات ہیں جو اس روایت “رد الشمس” میں عدم غور و فکر کے سلسلے میں انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ہم اس مقالے میں اسی روایت “رد الشمس” کے سلسلے میں اعتراضات کے مختصرا اور مفید جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
سورج کا پلٹنا تاریخ کی روشنی میں
ایک دن حضرت علی (ع) پیغمبر(ص) کے گھر میں تشریف فرما تھے کہ اچانک سے جبرائیل امین وحی لے کر آپؐ پر نازل ہوئے معمولا جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے اوپر ایک سنگینی کا احساس کرتے تھے لہذا آپ نے اپنے سر مبارک کو علی(ع) کے زانو پر رکھ لیا اور وحی کا سلسلہ شروع ہو گیا جو سورج کے غروب ہونے تک جاری رہا ۔
اور حضرت علی (ع) کی نماز عصر قضا ہو گئی اور آپ نماز کے قضا ہونے سے نہایت مضطرب اور پریشان تھے دوسری طرف آپ نے وحی کے سلسلے کو منقطع کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا لہذا آپ نماز کو بطور معمول انجام نہیں دے سکے مگر یہ کہ آپؑ نماز بیٹھ کر پڑھتے اور رکوع اور سجدوں کو اشاروں سے انجام دیتے جب وحی کا سلسلہ ختم ہوا اور آپ نے آنکھیں کھولی تو آپؐ نے مولائے کائنات سے پوچھا کہ تمہاری نماز عصر قضا ہو گئی؟ علی(ع) نے فرمایا: “میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اس لئے کہ وہ وحی کا سلسلہ جو آپ اور آپ کے خدا کے درمیان تھا میں اس رابطے کو توڑنا نہیں چاہتا تھا لہذا میں نماز بھی وقت پر ادا نہیں کر سکا”۔
رسول اللہ(ص) نے فرمایا: کہ پروردگار عالم سے دعا کرو کہ وہ سورج کو دوبارہ پلٹا دے تاکہ نماز کو اپنے وقت میں ادا کر سکو خداوند عالم تمہاری دعا کو قبول کرے گا اور نتیجے میں یہ امر “رد الشمس” یعنی “سورج کا پلٹنا” ممکن ہوگا اس لئے کہ تم نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہے۔ حضرت علی (ع) نے دعا کی اور آپ کی دعا قبول ہوئی اور یہ امر غیر عادی”سورج کا پلٹنا” ممکن ہوا اور آپ ؑ نے نماز عصر ادا کی اور سورج اس کے بعد غروب ہو گیا۔[1]
یہ واقعہ اکثر اہل تشیع کی روائی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔[2]
اس واقعے “سورج کا پلٹنا” کو اہلسنت حضرات کے بزرگ عالموں نے بھی ذرا سا فرق کے ساتھ اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے ہم یہاں مختصرا کچھ کتابوں کو بیان کر رہیں ہیں۔
1۔مشکل الآثار (طحاوی)
2۔مستدرک (امام حاکم)
3۔معجم کبیر (طبرانی)
4۔عمدۃ القاری (علامہ عینی)
5۔کشف اللبس (سیوطی)
6۔ازالۃ الخفاء (شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی)
7۔مدارج النبوۃ (عبدالحق محدث دہلوی)
اس کے علاوہ علامہ “امینی” نے اپنی کتاب “الغدیر” میں بہت سے اہلسنت علماء جنہوں نے “رد الشمس” کے بارے میں مستقل کتابیں لکھیں ہیں ان کا ذکر کیا ہے۔جیسے ابوبکر ورّاق، ابوالحسن شاذان فضلی، ابوالفتح محمد بن حسین موصلی، أبوالقاسم حاکم ابن حذّاء حسکانی نیشابوری، ابوعبدالله حسین بن علی البصریی، أبوالمؤید موفّق بن أحمد۔[3]
اگر اصل روایت “رد الشمس” میں غور و فکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ (ص) کا اپنے سر مبارک کو امام علی (ع) کے زانو مبارک پر رکھنا یہ کسی خواب یا سونے وغیرہ کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ ایک وحی کی حالت تھی جس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے امام علی (ع) نے اس کو قطع نہ کرنا اور اس رابطے کو نہ توڑنا اور بیچ میں دخالت نہ کرنے کو مناسب سمجھا اور آپ نے اس کام سے پرہیز کیا تاکہ وہ سلسلہ جو وحی کی شکل میں جاری ہے وہ اسی طریقے سے جاری رہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ عصر کی نماز کو ظہر کی اذان کے شروع سے مؤخر کرنا ان دونوں کو اکٹھے پڑھنے سے بہتر ہے اور سردیوں میں جب دن چھوٹے ہوتے ہیں تو عصر کی فضیلت اور غروب آفتاب کے درمیان بہت لمبا فاصلہ نہیں ہوتا۔ اور اس مختصر وقت میں نماز کا قضا ہونا طبیعی ہے۔
سورج کے پلٹنے کے سلسلے میں اشکالات
1۔بنیادی طور پر “رد الشمس”یا “سورج کا پلٹنا” ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ کیونکہ یہ بات صدیوں سے ثابت ہے کہ سورج اپنی جگہ سے نہیں ہلتا ہے اور یہ زمین ہی ہے جو سورج کے ارد گرد گھومتی ہے۔ لہٰذا “سورج کا پلٹنا” یعنی نظام شمسی میں دخالت کرنا ہے جو کہ بے معنی ہے۔
2۔اگر زمین کے مدار یا سورج کے محل وقوع میں ایسی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو یہ ضروری ہے کہ تمام انسانی فلکیاتی حسابات (نجومی سسٹم) جو کئی صدیوں سے درست تعین کئے گئے ہیں جیسے چاند گرہن، سورج گرہن اور دوسرے نا گہانی حوادث وغیرہ۔ جبکہ یہ (نجومی سسٹم) ایسے دقیق اور درست بنائے گئے ہیں جس میں موجودہ دور کے علاوہ مستقبل میں بھی ہونے والے واقعات کا تعین بالکل درست کیا گیا ہے اور یہ ہر سال اسی بنائے ہوئے وقت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں، تو جب یہ فلکیاتی حسابات صحیح ہیں تو اس واقعہ(سورج کا پلٹنا) کو ہی غلط سمجھا جائے۔
3۔ یہ واقعہ “سورج کا پلٹنا” دن کی روشنی میں اگر واقع ہوا بھی ہے تو کسی نے کیوں نہیں دیکھا؟ اور اس واقعہ(سورج کا پلٹنا) کو دوسری قوموں نے اپنے منابع تاریخی میں درج کیوں نہیں کیا؟
سورج کے پلٹنے کے سلسلے میں اشکالات کے جوابات
پہلی بات تو یہ کہ “سورج کا پلٹنا” یہ ایک عرف عام کی اصطلاح ہے کہ جو زمین پر رہنے والے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں اس اصطلاح “سورج کا پلٹنا” کو خود اپنی زبان سے استعمال کرتے ہیں اور ہم روزانہ کہتے ہیں کہ سورج مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔
اور یہ بات روشن ہے کہ یہ تعبیر اور یہ اصطلاح حقیقت میں سورج کے جا بجا ہونے کے بارے میں نہیں ہے لہذا اسی طریقے سے “سورج کا پلٹنا” یہ تعبیر بھی حقیقت میں”رد الشمس” کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کو لوگوں نے دوبارہ افق پہ دیکھا۔[4]
دوسری بات یہ کہ خداوند عالم نے ان جیسے کاموں کو بعنوان معجزہ انبیاء کرام کو عطا کیا ہے اور اس صورت میں ذرہ برابر بھی یہ امر”سورج کا پلٹنا” محال نہیں ہے کہ خود سورج کو دوبارہ اپنی جگہ پر پلٹا دیا جائے یا زمین کے مدار کو حرکت دے دی جائے اس لئے کہ پروردگار عالم ذرہ برابر بھی اس کام سے عاجز نہیں ہے
اور وہ اس “ردالشمس” یا ان جیسے تمام امور پر قدرت رکھتا ہے اور خدا کے عدم قدرت اور اس امر”سورج کا پلٹنا” کے محال ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں پائی جاتی۔
اس کے علاوہ”رد الشمس” کے بارے میں سائنس دانوں کے حساب سے بھی سورج کی روشنی تقریباً 7 منٹ کی دیری سے ہم تک پہنچتی ہے، یعنی ہم ہمیشہ آسمان پر سورج کی تصویر 7 منٹ پہلے دیکھتے ہیں اور حقیقت میں جو سورج ہم دیکھتے ہیں وہ 7 منٹ پہلے کا سورج ہوتا ہے۔
اس بنا پر اگر سورج کی روشنی کی سرعت اور رفتار میں تھوڑا سا تبدیلی واقع ہو جائے اور روشنی تھوڑی تاخیر سے ہم تک پہنچے یا اس کے چمکنے کے زاویے میں تھوڑا سا فرق ہو جائے اور وہ روشنی جو ہم تک مستقیم آتی ہے اگر وہ تھوڑا خمیدگی کی حالت میں دیکھی جائے تو سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی، چند منٹوں تک اس کی روشنی کو دیکھا جانا ممکن ہے۔
اس بنا پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کرامت “سورج کا پلٹنا” اور معجزے میں سورج حرکت میں نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے آسمانی اجسام کی نقل و حرکت اور ان اجسام کے رابطے میں کوئی مسئلہ یا مشکل درپیش آئے۔ بلکہ اس خاص لمحے میں (دعا کے وقت) روشنی کی حرکت یا اس کے ریڈی ایشن اینگل کی رفتار اور سست روی میں تھوڑا سا فرق پیدا ہو گیا اور سورج کی وہ تصویر جو چند منٹ پہلے دیکھی گئی تھی دوبارہ نظر آنے لگی۔ اس کے نتیجے میں افق میں سورج دوبارہ نظر آیا اور آپؑ نے اپنی نماز وقت پر ادا کی۔
لیکن اس”رد الشمس” پر اعتراض کرنا کہ اس واقعے”سورج کا پلٹنا” کو دوسرے لوگوں نے کیسے توجہ نہیں دیا ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ کے متعدد روایات اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں اور بہت زیادہ لوگ مدینہ میں اس واقعے سے باخبر بھی ہوئے تھے جیسے کہ جناب ام سلمہ، جناب اسماء، جابر بن عبد اللہ انصاری، ابو سعید خدری، وغیرہ۔
لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ نماز عصر کا قضا ہونا یہ سورج کے ڈوبنے پر نہیں ہے بلکہ سورج کے چھپ جانے پر ہے اور تقریبا سورج کے غروب سے 15 منٹ پہلے نماز عصر قضا ہوتی ہے سورج کے غروب ہونے سے 15 منٹ پہلے کہ جو روشنی آسمان پر ہوتی ہے اور غروب کے وقت کی جو روشنی آسمان پر ہوتی ہے دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے جو لوگوں کی توجہ کا سبب بنے وہ بھی خاص کر کھلے ہوئے اور صحرائی علاقوں میں۔
دوسری بات یہ کہ چار رکعت نماز کا پڑھنا وہ بھی اضطراری صورت میں، اس میں بہت وقت نہیں لگتا ہے فقہی نقطہ نظر سے بھی اگر ایک رکعت نماز وقت کے اندر پڑھی جائے تو تمام نماز کو بھی وقت کے اندر پڑھنا شمار کیا جاتا ہے لہذا اتنی مقدار کے لئے”سورج کا پلٹنا” کہ جس میں ایک رکعت نماز وقت کے اندر ادا کی جائے یہ بہت کم اور جزئی چیز ہے کہ جس کے لئے لوگوں کا اس بات”سورج کا پلٹنا” کی طرف متوجہ ہونا یہ غیر عادی مسئلہ ہے چہ جائیکہ تمام مذاہب کے لوگ اس واقعے “سورج کا پلٹنا” کو اپنے منابع میں درج کرتے۔[5] واللہ اعلم.
نتیجه
“سورج کا پلٹنا” اس واقعے کو جناب اسماء، جناب ام سلمہ، جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری اور دوسرے اصحاب نے نقل کیا ہے اس واقعے “سورج کا پلٹنا” کو شیعہ اور اہلسنت حضرات کے بزرگ عالموں نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں “ردالشمس” کے ذیل میں لکھا ہے (جس کو علامہ امینی نے مختلف اور متواتر طرق سے اپنی گرانقدر کتاب’الغدیر” کی تیسری جلد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے) اس کے علاوہ سائنسدانوں نے بھی اس واقعے “سورج کا پلٹنا” کے وقوع کے احتمال سے انکار نہیں کیا ہے اور اس امر “سورج کا پلٹنا” کے اثبات کے لئے عقلی دلائل کو بھی بیان کیا ہے معترضین نے اس واقعے “سورج کا پلٹنا” کے سلسلے میں بہت سے اشکال بھی کئے ہیں جس کے اطمینان بخش جوابات بھی دئے جا چکے ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں آج بھی موجود ہیں۔
حوالہ جات
[1] ۔ شیخ مفید، الارشاد، ج۱، ص۳۴۵۔۳۴۷
[2] ۔کلینی، الکافی، ج4، ص562۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ، ج1، ص203
[3] ۔امینی، الغدیر، ج3، ص188۔183
[4] ۔روحانی، تمام شبہات رد الشمس، ص28
[5] ۔روحانی، تمام شبہات رد الشمس، ص28
منابع
1. امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیه، ۱۴۱۶ق.
2. روحانی، محمد یحیی، تمام شبہات رد الشمس، مجلہ دیدار آشنا، سال 1389، نمبر 122
3. مفید، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، قم، المؤتمر العالمي لألفية الشيخ المفيد، 1413ق۔
4. صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق.
5. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ق.
مضمون کا مآخذ
روحانی، محمد یحیی، تمام شبہات رد الشمس، مجلہ دیدار آشنا، سال 1389، نمبر 122